صنف انشائیہ کا عاشق "معشوق”

صنف انشائیہ کا عاشق "معشوق”

ڈاکٹر منظفر نازنین کولکاتا

وطن عزیز ہندستان کے شمال میں جموں و کشمیر ہے۔جموں و کشمیر پر ہم ہندستانیوں کو بے حد ناز ہے کیونکہ یہ خوب صورت وادی اپنے قدرتی حسن (natural beauty) کی بنا پر پوری دنیا میں مشہور ہے۔کشمیر کے پھل، پھول، زعفران کے لہلہاتے کھیت، بادام، خوبانی، اخروٹ اور میوہ جات پوری دنیا میں مشہور ہیں۔ ہر سال دنیا بھر کے سیاح کشمیر کی خوب صورت وادی کا نظارہ کرنے آتے ہیں۔ اس وادی کے لوگ بھی بہت حسین، بے حد خوب صورت اور تیکھے نقش و نگار کے ساتھ کافی لحیم  شحیم ہوتے ہیں۔ ان پر قدرت کی نوازش اور خالق کائنات کا کرم ہے کہ جس نے انھیں اتنی خوب صورت وادی سے نوازا ہے۔
ایک طرف وادی کشمیر اپنی خوب صورتی اور حسن کی بدولت پوری دنیا میں مشہور ہے وہیں اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اس وادی میں اردو زبان و ادب کو کافی فروغ حاصل ہورہا ہے۔ اس شیریں زبان کی ترقی و ترویج میں اس حسین وادی کا اہم رول رہا ہے۔یہاں ایسے ایسے باصلاحیت نوجوان قلم کاروں نے جنم لیا ہے جنھوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے اور ان کی تخلیقات کشمیر کی ادبی فضا کو معطر کررہی ہیں۔ ان ہی جیسے نوجوان تخلیق کاروں میں ایس معشوق احمد کا شمار ہوتا ہے۔ ایس معشوق احمد کا تعلق کشمیر کے ضلع کولگام سے ہے۔ کولگام کے ایک گاؤں کیلم میں 21 فروری 1992ء میں پیدا ہوئے۔موصوف نے ایم- اے اردو کشمیر یونی ورسٹی سے کیا ہے۔ کم عمری سے ہی ادب سے لگاؤ رہا ہے۔ اب تک ان کی دو کتابیں "میں نے دیکھا" اور "دبستان کشمیر کے درخشاں ستارے" منظر عام پر آچکی ہیں۔ میں نے دیکھا انشائیوں اور خاکوں کا مجموعہ ہے جب کہ دبستان کشمیر کے درخشاں ستارے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس کتاب میں وادی کشمیر کے ادبا و شعرا کے حالات زندگی، فن اور کارناموں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ان دو کتابوں کے علاوہ ایس معشوق احمد نے چالیس کے قریب مختلف شاعروں اور نثر نگاروں کی کتابوں پر تبصرے کیے ہیں اور پچاس کے قریب سماجی نوعیت کے کالم لکھے ہیں۔ یہ تبصرے اور کالم کشمیر سے شائع ہونے والے موقر اخبارات کشمیر عظمی، تعمیل ارشاد، ندائے کشمیر، شہربین اور دیگر اخبارات میں شائع ہوئے ہیں۔ موصوف کی تیسری کتاب "کوتاہیاں" کے عنوان سے زیر طبع ہے۔
” کوتاہیاں" میں جو انشائیے شامل ہیں ان میں رواں اور آسان زبان کا استعمال کیا گیا ہے۔ ان انشائیوں میں طنز کی کڑواہٹ بھی ہے اور مزاح کی مٹھاس بھی۔ شادی شدہ اور کنوارے، عمر پوچھنا، خوشامد، ادھار اور گالی، دوست دشمن اور بیوی جیسے انشائیے پڑھ کر ہونٹوں پر مسکراہٹ بھی بکھر جاتی  ہے اور ایس معشوق کے اسلوب سے لطف اندوز ہوکر بے تحاشہ داد دینے کو بھی جی چاہتا ہے۔ ان انشائیوں کے عنوانات دیکھ کر یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ مصنف نے روز مرہ زندگی کا مشاہدہ گہری نگاہ سے کیا ہے اور اپنے آس پڑوس سے اخذ کیے گئے ان مشاہدات اور تجربات کو تخیل کی مدد سے طنزیہ مزاحیہ انداز میں حوالہ قرطاس کیا ہے۔معمولی نظر آنے والے عنوانات پر لکھنا اور ادب پارے تخلیق کرنا کمال ہے، لیکن ایس معشوق احمد کا اصل کمال یہ ہے کہ ان انشائیوں کو پڑھ کر قاری متاثر ہوتا ہے۔ بات بہترین انداز میں تب ہی سمجھ میں آتی ہے جب مثال کے ذریعے سے سمجھائی جائے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ چند مثالیں قارئین کی نذر کی جائیں تاکہ وہ جان سکیں کہ ایس معشوق احمد کا انذاز بیان کیسا ہے. 
"بیوی شوہر کے کارناموں کی کھوج میں لگ جائے تو روز نئی نئی ایجادات سامنے لاتی ہیں۔ سائنس کی تحقیق میں کمیاں اور خامیاں ہوسکتی ہیں، بیوی کی تحقیق میں نہیں۔ جہاں سائنس کی نظر نہیں جاتی وہاں بیوی اور ساس کی نظر جاتی ہے۔ اس تحقیق سے صرف ایک ہی شخص محفوظ رہ سکتا ہے وہ ہے کنوارا۔ مزرا کہتے ہیں بیوی کی مار اور زبان کے وار سے صرف ایک مخلوق بچی رہتی ہے وہ ہیں کنوارے. شادی شدہ پر بیوی ایسی نظر رکھتی ہے جیسے سرحد پر فوج دشمن کی ہر حرکت اور عمل پر نظر رکھتی ہے۔"
(انشائیہ "شادی شدہ اور کنوارے") 
"محنت اور خوشامد سے کیا حاصل نہیں کیا جا سکتا۔جہاں محنت کے پاؤں آبلہ پا ہوتے ہیں اور انسان تھک ہار کر بیٹھ جاتا ہے وہاں سے خوشامد کی ابتدا ہوتی ہے اور انسان خوشامد سے اس منزل کو حاصل کر سکتا ہے جو اس سے کوسوں درو ہو ۔"
(انشائیہ ” خوشامد") 
"اس سوال سے عورتوں کو ہی کوفت نہیں ہوتی بلکہ بعض مرد بھی اپنی صحیح عمر بتانے سے نہ صرف کتراتے ہیں بلکہ گھبراتے ہیں۔ بعض خوش اخلاق ایسے بھی ہیں جو اس سوال کو ہنسی میں ٹال دیتے ہیں اور بعض اس سوال پر تند مزاجی اور چڑچڑاہٹ کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ حقیقت مجھ پر کبھی واضح نہ ہوئی کہ لوگ اس سوال سے برہم کیوں ہو جاتے ہیں حالانکہ چند بدتمیز دوست، کچھ بے خبر رفیق اور ایسے بدنیت انسان بھی موجود ہیں جنھوں نے یہ سوال مجھ سے بھی بارہا کیا۔ مجھے مستورات کی طرح اپنی صحیح عمر بتانے میں اعتراض نہیں اور نہ ہی مجھے اس سوال سے کشش قلبی ہوتی ہے لیکن جب بھی مجھ سے کوئی عمر پوچھتا ہے تو میں سالوں کے بجائے دنوں میں بتاتا ہوں جیسے کہ میری عمر "نو ہزار آٹھ سو ساٹھ دن" ہیں۔ عمر پوچھنے والے کے چہرہ پر پریشانی اور پشیمانی کے آثار دیکھ کر میں سمجھ جاتا ہوں کہ میری طرح یہ بھی حساب میں کورا ہے۔ بے چارا حیران اور حرماں واپس لوٹ جاتا ہے۔ اگلی ملاقات میں اس کی خوشی دیکھنے لائق ہوتی ہے جب وہ حساب کرکے ہونٹوں پر فاتحانہ مسکراہٹ لیے سلام علیک کے بعد وہاں سے ہی بتاتا ہے کہ اچھا تو آپ کی عمر ستائیس سال ہے۔"
(انشائیہ "عمر پوچھنا") 
ڈاکٹر شبنم افشا ان کے بارے میں لکھتی ہیں کہ:
"ان کی تحریروں میں نفاست اور شائستگی ہے۔ نہ غیر مانوس الفاظ کا استعمال کرتے ہیں اور نہ ہی پیچیدہ اور گنجلک الفاظ. ان کے جملے سادہ اور شگفتہ ہوتے ہیں۔اپنی تحریر کے ذریعے نہ صرف اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں بلکہ مختلف پہلوؤں پر روشنی بھی ڈالتے ہیں". 
اخیرمیں، میں ایس معشوق احمد کے حوالے سے اتنا کہوں گی کہ موصوف وادی کشمیر کے ادبی افق پر ابھرتے ہوئے ستارے ہیں اور اسم بامسمی ہیں، جیسا نام ویسے صفات۔ میں بارگاہ ایزدی میں سر بہ سجود ہوکر دعا کرتی ہوں کہ پاک رب سرزمین کشمیر کے اس ابھرتے ہوئے ستارے کو سارے عالم میں روشن اور تابندہ کرے اور مستقبل میں ان کی عالمی سطح پر شناخت ہو۔ ان شاء اللہ ایسا ہی ہوگا۔ خدا کرے زور قلم، زور فہم، زور سخن اور زیادہ۔ میں شاعر کا یہ مصرع ان کی نذر کرتی ہوں۔
تجھ کو جانا ہے بہت اونچا حد پرواز سے
***
مظفر نازنین کی گذشتہ تحریر :” دو گھنٹے کی محبت" اور عظیم انصاری بہ حیثیت مترجم

شیئر کیجیے

One thought on “صنف انشائیہ کا عاشق "معشوق”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے