لکھنؤ کی ادبی صحافت کا نمائندہ: سہ ماہی ادبی نشیمن لکھنؤ

لکھنؤ کی ادبی صحافت کا نمائندہ: سہ ماہی ادبی نشیمن لکھنؤ

(تازہ شمارے پر قارئین کے تاثرات کے آئینے میں)

ترتیب و تہذیب: موسی رضا
(ریسرچ اسکالر مانو لکھنؤ کیمپس)

لکھنؤ نے ادبی صحافت کے حوالے سے ہر دور میں منفرد و ممتاز شناخت قائم کی ہے۔ ماضی قریب میں ماہ نامہ نگار، ماہ نامہ فروغ اردو، ماہ نامہ کتاب، ماہ نامہ معلم اردو وغیرہ نے نمائندگی کا خاطر خواہ حق اداکرتے ہوئے لکھنؤ کی علمی و ادبی سرگرمیوں کو ہر دم تازہ رکھا۔ حکومتِ اترپردیش کی جانب سے 1955 میں جاری رسالہ ”نیا دور“ نے ادبی صحافت کو ترقی کی نئی راہوں پر گام زن کیا اور کئی کام یاب نمبر نکالے جن میں تعمیری ادب نمبر، جواہر لال نہرو نمبر، اثر لکھنوی نمبر، مہاتما گاندھی نمبر، میر انیس نمبر، غالب نمبر، امیر خسرو نمبر، نول کشور نمبر، فراق کے دو خصوصی نمبر، نصف صدی نمبر اور کیفی اعظمی نمبر وغیرہ کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ یہ خصوصی شمارے اپنی بیش بہا معلومات اور دل کش انداز ترتیب کے حوالے سے ابھی تک لوگوں کو گرویدہ بنائےہوئے ہیں۔ لیکن افسوس اس وقیع رسالے کی اشاعت گزشتہ کئی سالوں سے معرضِ التوا میں پڑی ہوئی ہے اور سرکاری افسران کو اس رسالے کی اشاعت سے کوئی خاص دل چسپی نہیں رہی۔ اردو دنیا کی سرکردہ شخصیات کی توجہ دہانی کے باوجود بار بار اشاعت کی صرف اطلاع ہی آئی، اس کے سوا کوئی خاص پیش رفت نظر نہیں آئی۔ سابق ایڈیٹر عاصم رضا نے جو گورکھ پور نمبر ترتیب دیا تھا جس میں کافی اہم مضامین شامل تھے وہ بھی منصہ شہود پر نہ آسکا۔ اللہ کرے رسالہ پھر سے پابندیِ وقت کے ساتھ اشاعت پذیر ہونے لگے۔
اترپردیش اردو اکادمی کے رسالے سہ ماہی ”اکادمی“، اور ماہ نامہ ”خبرنامہ “ کے ساتھ ساتھ ماہ نامہ ”لاریب“، دو ماہی ”گلبن“ اور سہ ماہی ”امکان جدید“ نے بھی لکھنؤ میں ادبی صحافت کا چراغ روشن کیا ہے اور اپنے حصے کی روشنی پھیلا رہا ہے۔ اسی کے ساتھ ڈاکٹر سلیم احمد نے ڈاکٹر محمود الہٰی صاحب کی علمی و ادبی وراثت کو اپنے کاندھوں پر اٹھا کر پانچ سال قبل یعنی دسمبر 2017 میں ”ادبی نشیمن“ کے نام سے ایک نیا چراغ روشن کیا تھا۔ اس رسالہ کا اجرا پروفیسر شارب ردولوی کے بنا کردہ شعاع فاطمہ گرلس انٹر کالج میں ہوا تھا اور اس پروگرام میں رسالہ کے اغراض و مقاصد بیان کیے گئے تھے۔ میں بھی شریک پروگرام تھا اور مجھے خوشی ہے کہ جس جوش و جذبہ کے ساتھ رسالے نے خدمت ادب کاخواب سنجویا تھا وہ شرمندۂ تعبیر ہوتا نظر آرہا ہے. اس قلیل مدت میں جس طرح سے اس رسالے نے سورج بننے کے سفر کو طے کیا ہے اور اپنا ایک خاص معیار بنایا ہے، وہ قابلِ تعریف ہے۔ مختلف النوع مشمولات کے سبب بزرگ اور نو آموز قلم کاروں کی توجہ اس رسالے کو یکساں طور پر مل رہی ہے۔ پانچ سالوں کے بیس شماروں میں اس رسالے نے بیش تر ایسے موضوعات کو روشن کیا جس کی طرف عام مدیران کی توجہ کم جاتی ہے۔ بے شک یہ ڈاکٹر سلیم احمد اور ان کی ٹیم کی کاوشوں کا ثمرہ ہے جو نہ صرف رسالے کی باریکیوں پر نظر رکھتی ہے بلکہ ہر مضمون کو لفظاً لفظاً پڑھ کر وقت ضرورت اصلاح بھی کرتی ہے۔ اس طرح یہ جریدہ اردو کے چند معیاری رسالوں میں اپنی منفرد حیثیت بنانے میں کام یاب رہا۔
ڈاکٹر سلیم احمد کی ٹیم ادبی مشیر کے طور پر حکومت اترپردیش کے سبک دوش انفارمیشن افسر رفعت عزمی، ڈاکٹر غلام حسین (اجین)، ڈاکٹر رضی الرحمن (صدر شعبہ اردو، گورکھ پور یونی ورسٹی)، ڈاکٹر شکیل احمد (مئو)، ڈاکٹر اکبر علی بلگرامی (ایڈیٹر روزنامہ آگ، لکھنؤ)، وصی اللہ حسینی (سب ایڈیٹر، روزنامہ راشٹریہ سہارا، لکھنؤ) جیسے سینئر اور تجربہ رکھنے والے افراد پر مشتمل ہے جس سے ادبی نشیمن کی ریویو پالیسی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس میں ڈاکٹر مجاہد الاسلام (اسسٹنٹ پروفیسر مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی، لکھنؤ کیمپس ) کا نام بھی جڑ گیا ہے جس سے رسالہ کی مزید ترقی کی امید مستحکم ہو گئی ہے۔ اسی کے ساتھ میرے عزیز اور باذوق معروف نوجوان قلم کار شاہد حبیب کو بھی ڈاکٹر سلیم احمد نے بہ طورِ معاون ایڈیٹر اپنی ٹیم میں شامل کیا ہے۔ شاہد حبیب مانو، لکھنؤ کیمپس میں ریسرچ کے آخری مراحل میں ہیں اور اپنی اصول پسندی کی وجہ سے اپنے حلقۂ احباب میں خاصے معروف ہیں۔ وہ گزشتہ سال سے ادبی نشیمن سے جڑے ہیں اور اپنے اختیارات کے مطابق، رسالے کی پیش کش کو مزید بہتر بنا رہے ہیں۔ امید ہے وہ رسالے کو”تجمل شاہانہ“ پالیسی سے دور رکھتے ہوئے ایک خالص ادبی ماہ نامہ کے راستہ پر گام زن رکھیں گے اورغیر جانب داری کے ساتھ معیاری تحریروں کو جگہ دیں گے۔ خوشی کی بات ہے کہ رسالے کو قارئین کی طرف سے مقبولیت بھی حاصل ہو رہی ہے اور جس نوع کے تاثرات ادبی نشیمن کو موصول ہو رہے ہیں، اس سے رسالے کے روشن مستقبل کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ حیدرآباد سے ڈاکٹر محمد جابر حمزہ نے تازہ شمارے پر تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
محترمی و مکرمی ایڈیٹر صاحب/ سہ ماہی ادبی نشیمن لکھنؤ
آداب و تسلیمات
ادبی نشیمن کا دسمبر تا فروری 2022 کا شمارہ ملا، دیکھ کر خوشی ہوئی کہ آپ نے ناچیز کے مضمون ”رضیہ سجاد ظہیر کے افسانوں کا فکری مطالعہ: بادشاہ اور معجزہ کے حوالے سے“ کو شائع فرمایا ہے۔ آپ نے ایڈیٹوریل اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے مضمون کے عنوان کو قدرے تبدیل کیا ہے۔ یہ اولِ وہلہ میں ذرا گراں گزرا لیکن بعد میں یہ تبدیلی مناسب ہی معلوم ہوئی۔
آپ نے اپنے اداریے میں اترپردیش اردو اکادمی کی فعالیت کو لے کر جو کچھ کہا ہے اور جن نئے کاموں کی طرف توجہ دلائی ہے، وہ قابلِ تعریف ہے اور ضروری بھی۔ ایک زمانہ تھا جب اترپردیش اردو اکادمی ملک بھر کی اکادمیوں میں سب سے فعال اور تحقیقی رفتار کے حوالے سے مثالی سمجھی جاتی تھی۔ لیکن آج اکادمی نے اپنی اندرونی سیاست کا شکار ہوکر بہت کچھ کھو دیا ہے۔ جو قابل افسوس ہے۔ جس طرح سے آج دہلی اردو اکادمی کو ملک بھر میں ایک منفرد شناخت حاصل ہے، اسی طرح سے پروفیسر محمود الٰہی کے زمانے میں اترپردیش اردو اکادمی کو امتیازی شناخت حاصل تھا۔ آپ نے اپنے اداریے میں جن باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے اور جو لائحہ عمل پیش کیا ہے اگر تیزی کے ساتھ اکادمی کے ارباب اختیار ان کو روبہ عمل لانے لگیں تو بعید نہیں کہ جلد ہی اترپردیش اردو اکادمی بھی اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کرنے میں کام یاب ہو جائے۔ ہم اور آپ تو خواہش اور دعا ہی کر سکتے ہیں۔
زیر نظر شمارے کے مضامین کا سیکشن کافی معلوتی ہے۔ مضمون نگاروں نے تو معیاری مضامین لکھے ہی ہیں لیکن آپ کے ایڈیٹوریل ٹچ نے ان مضامین کو مزید معیاری اور خوب صورت بنا دیا ہے۔ آپ کی کوششوں کے شواہد رسالے کے صفحات پر جگہ جگہ نظر آ رہے ہیں۔ برادر عزیز شاہد حبیب کا مضمون ”قرۃالعین حیدر کے افسانے اور حقوقِ انسانی کے مسائل“ ایک نئے زاویے سے قرۃالعین کے افسانوں کی قرات کی طرف دعوت دینے میں کام یاب نظر آتا ہے۔ ادبی نشیمن کا یہ امتیاز بھاتا ہے کہ نئے پرانے اسکالرز کے توازن کو برقرار رکھنے میں یہ رسالہ اپنی مثال پیش کر رہا ہے۔ رسالے میں شامل مجتبیٰ حسن صدیقی کی غزل نے ان کی شاعری کے جداگانہ نہج کی طرف کام یاب اشارہ کیا۔ بہ طور خاص یہ شعر کہ:
ایک بھی موقع نہیں دیتی کسی کو زندگی
اور ہم جیسوں کو یہ موقع دوبارہ چاہیے
کیا خوب صورت شعر ہے۔ مجتبیٰ حسن صدیقی کو ناچیز کی طرف سے ہزارہا داد اور ان کی فکری و فنی ریاضتوں کو سلام۔
شکریہ
مخلص
ڈاکٹر محمد جابر حمزہ
گیسٹ فیکلٹی، شعبہء اردو، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد
ڈاکٹر جابر حمزہ کے اس خط سے ادارتی ٹیم کی محنتوں اور ان کی بالغ نظری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح خواجہ معین الدین چشتی لسان یونی ورسٹی، لکھنؤ کی ریسرچ اسکالر عافیہ حمید نے رسالے کے مشتملات کا تفصیلی ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
محترمی و مکرمی ایڈیٹر صاحب/ ادبی نشیمن، لکھنؤ
تسلیمات
شکر ہے آج لکھنؤ سے بہت سے ادبی رسائل شائع ہو رہے ہیں۔ ہر رسالے کی اپنی انفرادی خصوصیات ہیں اور وہ اپنی انفرادیت کی بنا پر ادبی دنیا میں متعارف بھی ہیں اور مخصوص شناخت کا حامل بھی۔ ادبی نشیمن بھی لکھنؤ سے ہی شائع ہونے والا ایک علمی و ادبی رسالہ ہے۔ جو نہ صرف ایک رسالہ ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ایک انجمن کی بھی شان رکھتا ہے۔ یہ رسالہ ڈاکٹر سلیم احمد صاحب کی ادارت میں ہر تین ماہ پر پابندی کے ساتھ منظر عام پر آتا ہے اور علمی تشنگی کو بجھانے کا سبب بنتا ہے۔
اس وقت دسمبر تا فروری 2022 کا شمارہ میرے پیش نظر ہے۔ اس کے ہر صفحے کو ادبی گل بوٹے سے آراستہ کیا گیا ہے مگر جو بات دل کو خوش کرتی ہے وہ یہ ہے کہ رسالے کا اپنا ایک متعین معیار ہے۔ اس میں شائع تمام تحریریں پختہ اور معیاری ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اس میں نئے لکھنے والوں کو بھی فراخ دلی کے ساتھ جگہ دی جاتی ہے اور خاطر خواہ اصلاح بھی کی جاتی ہے تاکہ مضمون معیاری بن سکے۔ خوشی اس بات کو دیکھ کر بھی ہوتی ہے کہ اس رسالے میں تمام اصناف سخن کا خیرمقدم کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ادبی نشیمن نے اپنی خصوصیات کے دم پر بہت جلد ادبی دنیا میں مقبولیت حاصل کر لی ہے۔ بلاشبہ اس طرح کے کام میں بےحد محنت، وقت اور توجہ درکار ہوتی ہے اور ساتھ ہی بہت ہی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اس کے باوجود رسالہ پابندی سے نکل رہا ہے، یہ فال نیک ہے اور اس کا سارا کریڈٹ مدیر محترم اور ان کے معاونین کو جاتا ہے۔ جن کی کوششوں کی بدولت رسالہ ادبی افق پر روشنی بکھیرنے میں کام یاب نظر آ رہا ہے۔
زیر نظر شمارے میں کل دس مضامین، چھ غزلیں، دو تبصرے اور ایک ایک حمد و نعت شامل ہیں۔ تمام ہی مضامین انتہائی بیش قیمتی ہیں اور نامعلوم جہتوں سے آشنا کرانے والے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ مضمون نگاروں کا قلم پختہ، فکر وسیع اور مطالعہ گہرا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ مضمون نگاروں نے حوالوں اور ماخذ و مصادر کا بہ طورِ خاص اہتمام کیا ہے۔ جو کہ تحریر کو پختگی عطا کرتی ہے۔ قوی امید ہے کہ یہ مضامین اردو کے پروانوں کے لیے بےحد مفید ثابت ہوں گے۔
بدلتے موسم کا قہر، ڈاکٹر عارف انصاری صاحب کا افسانہ ہے جو ادبی نشیمن کے زیر نظر شمارے کی زینت بننے میں کام یاب ہوا ہے۔ اچھا افسانہ ہے۔ موضوع اور تکنیک توجہ کھینچنے میں کامیاب رہی ہے۔ خواہش کروں گی کہ افسانے کے اکلوتے پن کو ختم کرکے اگلی اشاعتوں میں مزید کچھ افسانوں کو جگہ دی جائے۔
ادبی نشیمن جہاں نثری صلاحیتوں کو نکھارنے کا ایک بہترین پلیٹ فارم ہے۔ وہیں اس نے ذوقِ شاعری کو جلا بخشنے میں بھی کوئی کسر چھوڑ نہیں رکھی ہے۔ خوشی ہے کہ اس شمارے میں چھ خوب صورت غزلوں کو بھی جگہ ملی ہے۔ ان غزلوں کے شعرا دور حاضر کے چنیدہ شعرا کی صف میں شمار کیے جانے کے لائق ہیں۔ کیونکہ ان میں سے کچھ شعرا کے تو کئی کئی شعری مجموعے بھی منظر عام پر آ چکے ہیں۔ جیسے ذکی طارق، افتخار راغب اور عبرت مچھلی شہری صاحب۔ باقی شعرا نے کم لکھا، مگر جتنا لکھا اور جو لکھا، وہ معیاری اور عمدہ ہیں۔
اس کے ساتھ ہی دو عمدہ کتابوں پر بہترین تبصرے شامل ہیں۔ بے شک یہ نہایت مدلل اور مبسوط تبصرے ہیں اور اردو کے طلبہ کے لیے ان کتابوں کو سمجھنے میں رہ نما ثابت ہوں گے۔
رسالہ ڈاکٹر سلیم احمد صاحب کے اداریے سے شروع ہو کر دستاویز کے معلوماتی صفحہ پر ختم ہوتا ہے۔ ساتھ ہی ڈاکٹر شمیم نکہت ایوارڈ فنکشن کے پروقار منظر کے عکس کو بھی محفوظ کیا گیا ہے۔ اپنے عہد کی تاریخ کو سمیٹنے کی یہ کوشش متاثر کن ہے اور قابلِ داد بھی۔ ادبی نشیمن کے مدیر اور تمام معاونین کو اس خوب صورت رسالے کی اشاعت پر دل سے مبارک باد اور دعائیں۔
ناز کرتا ہے زمانہ، ناز کو بھی ناز ہے
تو بلندی پر رہے، یہی دل کی آواز ہے
شکریہ ، والسلام
عافیہ حمید
ریسرچ اسکالر، خواجہ معین الدین چشتی لسان یونی ورسٹی، لکھنؤ۔
محترمہ عافیہ حمید کے اس خط سے ادبی نشیمن کی مشمولات کے تنوعات اور ان کی خوبیوں کو سمجھا جا سکتا ہے۔ لکھنؤ یونی ورسٹی کے اسکالر سفیان احمد انصاری قاسمی نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے ادبی نشیمن کی طرف سے نوآموز قلم کاروں کی حوصلہ افزائی کا اعتراف کیا ہے اور لکھا ہے کہ:
بہ خدمت گرامی قدر محترم ڈاکٹر سلیم احمد صاحب / زیدت فیوضکم،
مدیر سہ ماہی ادبی نشیمن
سلام مسنون
برادرم شاہد حبیب فلاحی کے توسط سے ادبی نشیمن کا تازہ شمارہ باصرہ نواز ہوا، سر ورق نہایت خوب صورت، دل کش اور جاذب نظر ہے، ڈاکٹر صاحب موصوف کی مساعی جمیلہ نے نت نئے ڈھنگ سے بہرصورت سنوار کر رسالے کو پیش کیا ہے جو اُن کے تصورِ جمال کا مظہر ہے۔ اس کے لیے موصوف صرف لائقِ تحسین وتبریک ہی نہیں بلکہ قابلِ مبارک باد اور فخر و مباہات ہیں۔ علاوہ ازیں رسالہ مشمولات کے اعتبار سے بھی خوب سے خوب تر اور منفرد و ممتاز ہے اور ایک معیاری رسالہ ہونے کا ثبوت پیش کر رہا ہے، جس میں مدیرِ محترم کی شب وروز کی جگر کاوی کا بڑا دخل ہے۔ دورِ حاضر میں اردو کا اخبار جاری کرنا یا کوئی اردو مجلہ و جریدہ نکالنا جوئے شیر لانے اور پہاڑوں سے نہر کھودنے کے مترادف ہے، ایسے حالات میں ادبی نشیمن کا پابندی سے وقت پر شائع ہونا راقم کے نزدیک خوش آئند ہے اور اُردو کے روشن مستقبل کا ایک خوب صورت اعلامیہ ہے۔
یہ کہنے میں کوئی ہچک نہیں کہ اُردو کے دیگر جرائد کے مقابلے ادبی نشیمن اُردو ادب کی ترویج و ترقی میں نمایاں کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا ممتاز مقام بنانے میں بھی کام یاب و کامران نظر آتا ہے۔ یہ میری کوئی رسمی مدح سرائی نہیں بلکہ حقیقت بیانی ہے۔
سالِ گزشتہ ناچیز کا بھی ایک مضمون ادبی نشیمن میں جگہ بنانے میں کام یاب ہوا تھا، اس عنایت کے لیے شکر گزار ہوں اور شکریے کی ادائیگی میں تاخیر کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ ساتھ ہی ناچیز مدیر محترم کا مشکور و ممنون بھی ہے اور مستقبل کے لیے منتظرِ کرم بھی۔
فقط والسلام
سفیان احمد انصاری
ریسرچ اسکالر، شعبہ اردو لکھنؤ یونی ورسٹی، لکھنؤ۔ المتوطن : ناظرپورہ، بہرائچ (یو پی)۔
موبائل :9839574196
جنابِ سفیان قاسمی کے اس خط سے ادبی نشیمن کی بے لوث خدمت پر روشنی پڑتی ہے اور ڈاکٹر سلیم احمد صاحب کی وسیع الظرفی کا بھی اعتراف ہوتاہے۔ فتح پور (یو پی) سے سدرہ علی احمد نے ادبی نشیمن کی جملہ نگارشات کا جائزہ لیا ہے اور اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
محترم المقام مدیرِ ادبی نشیمن / حفظہ اللہ
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
سہ ماہی ادبی نشیمن کا تازہ شمارہ نظر نواز ہوا۔ ورق گردانی سے اندازہ ہوا کہ یہ ایک ایسا رسالہ ہے جو ہر تین ماہ بعد عالم ادب میں منظرِ عام پر آ کر اپنی مقبولیت کے پرچم کو بلند کرتا ہے۔ ٦٤ صفحات پر مشتمل رسالے کی فہرست پر ایک طائرانہ نظر ڈالی تو دلی خواہش ہوئی کہ صرف فہرست ہی کیوں، اصل مواد کا بھی رخ کروں اور پر کیف نشیمن سے بھرپور لطف اندوز ہوں۔
پھر کیا تھا دھیرے دھیرے صفحات کھولتی گئی اور مختلف النوع مضامین، نعت، حمد، تبصرے، افسانے اور غزل سے محظوظ ہوتی رہی۔ نشیمن کے آغاز میں حمد ربانی اور نعت نبی نے دل میں عظمت الٰہی اور عشق رسول کی چنگاری کو فروزاں کر دیا اور ساتھ ہی ساتھ یہ احساس بھی دلایا کہ نشیمن توحید و رسالت کی سرشاری سے خالی نہیں ہے۔ اس کے بعد ایڈیٹر صاحب کے نظریے کو پڑھ کر یہ اندازہ ہوا کہ شعرا و ادبا کے لیے وظیفے کی رقم میں بڑھوتری کس قدر ضروری ہے۔ نظریے کے مطالعے کے بعد نظریں جب اگلے صفحات پر مرکوز ہوئیں تو دس سے زائد اصحابِ قلم کے علمی مضامین سے جا ٹکرائیں۔ جن میں ڈاکٹر نارائن پاٹیدار کا ”نظیر اکبرآبادی کی شاعری میں حقیقت نگاری“، ڈاکٹر شریف الدین خاں کا ”تحقیق و تنقید کے باہمی رشتے اور عصری تقاضے“، ڈاکٹر فائزہ خان کا ”سر سید : جہان تازہ کی افکار سے تازہ ہے نمود“، ڈاکٹر محمد رضی الرحمن کا ”فراق گورکھ پوری کی شعری انفرادیت“، ڈاکٹر محمد جابر حمزہ کا ”رضیہ سجاد ظہیر کے افسانوں کا فکری مطالعہ“ اور شاہد حبیب کا ”قرۃ العین حیدر کے افسانے اور حقوق انسانی کے مسائل“ جیسے مضامین نے زیادہ توجہ کھینچی۔ باقی مضامین میں بھی قارئین کے لیے دل چسپی کے سامان موجود ہیں۔ شمارے میں مختلف موضوعات پر علمی ذخیرے اکٹھا کیے گئے ہیں۔ مجموعی طور سے مضمون نگاروں کی محنت و لگن اور قلم کاروں کی زبردست علمی سوچ کی عکاسی بھی نظر آتی ہے۔ نشیمن میں ڈاکٹر عارف انصاری کا ایک خوب صورت افسانہ بھی شامل ہے جس کا نام ”بدلتے موسم کا قہر“ ہے۔ افسانے کی مسحور کن فضا سے نکلنے کے بعد اہم شعرا (ذکی طارق، افتخار راغب، مجتبی حسن صدیقی، محبوب خان اصغر، سید محمد نور الحسن نور نوابی عزیزی) کی غزلیں پیش کی گئی ہیں۔ ان غزلوں سے شعرا کے جذبات کا بھرپور اظہار ہو رہا ہے اور ان کے انداز بیان نکھر کر سامنے آ رہے ہیں۔
نشیمن میں دو کتابوں پر تبصرے بھی شامل ہیں جن میں ”رشید حسن خاں کی غالب شناسی“ اور ”ادبی ہستیاں و بستیاں“ جیسی دل چسپ کتابوں کا مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ ان میں مبصرین نے کتابوں کی خوبیوں اور خصوصیات کو اچھوتے انداز میں بیان کیا ہے۔
الغرض پورا کا پورا نشیمن اپنے اک اک صفحے سے ایک نئی اور ضروری معلومات قارئین کے لیے فراہم کرنے کا سبب بن رہا ہے۔
دعا گو ہوں کہ نشیمن اور اہل نشیمن یوں ہی مقبولیت کے منازل طے کرتا رہے اور اعلا ادب کو منظر عام پر لاتا رہے۔ آمین!
شکریہ والسلام
دعا گو
سدرہ علی احمد
فتح پور (یو پی)
محترمہ سدرہ علی احمد نے اپنے اس خط میں جن جذبات و احساسات کا اظہار کیا ہے، وہ احساسات ہر اس قاری کے ہوں گے، جس نے بھی بہ نظر غائر ادبی نشیمن کا مطالعہ کیا ہوگا۔ ادبی نشیمن کو موصول ہو رہے تاثرات کی فہرست لمبی ہے۔ اس مضمون کی تنگ دامنی سبھی تاثرات کو سمیٹنے کی اجازت نہیں دیتی.
ان خطوط سے قارئین اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ادبی نشیمن کی مقبولیت میں لگاتار اضافہ ہو رہا ہے اور اس کا معیار بھی بہ تدریج بلند ہورہا ہے۔ دنیا بھر میں ادب کے قلم کار رسالہ کو اپنی تحریریں از خود بھیج رہے ہیں اور شمولیت پرخوشی کا اظہار فرما رہے ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا حق بہ جانب ہوگا کہ ادبی نشیمن اردو دنیا میں لکھنؤ کی نمائندگی بھرپور طریقے سے کر رہا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ یہ رسالہ یوں ہی مستقل نکلتا رہے اور اس کا فیض اردو دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچے۔ اپنے مضامین کی اشاعت کے لیے، ادبی نشیمن کی ممبرشپ لینے کے لیے اور ادبی نشیمن میں اشتہارات دے کر اپنی کتاب یا تجارت کو فروغ دینے کے لیے ڈاکٹر سلیم احمد صاحب سے ان کے واٹس اپ نمبر 9415693119 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ قارئین کو اس نمبر پر رابطہ کرکے نمونے کی کاپی ضرور طلب کرنی چاہیے کہ یہ بھی اعلا ادب کو فروغ دینے کا ایک آزمودہ طریقہ ہے۔ شکریہ۔ رہے نام اللہ کا۔
***

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے