موجودہ اردو صحافت پر ایک نظر

موجودہ اردو صحافت پر ایک نظر

محمد اویس سنبھلی

۱۸۲۲ء میں اردو صحافت کے آغاز سے لے کر اب تک کی صحافت پر نظر ڈالی جائے تو بہت سی تبدیلیاں نظر آتی ہیں۔ ابتدا میں صحافت کچھ اور تھی، بعد میں کچھ اور ہو گئی اور اب کچھ اور ہو گئی ہے۔ تغیرات سے کوئی بھی چیز اچھوتی نہیں لہٰذا اردو صحافت کی شکل بھی وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی رہی ہے۔ ممکن ہے کہ دس بیس سال یا سو پچاس سال کے بعد اس کی وہ شکل نہ رہ جائے جو اس وقت ہے۔
صحافت بھی سماج کا آئینہ ہوتی ہے۔ سماج کروٹ لیتا ہے تو صحافت بھی کروٹ بدلتی ہے۔ اور کبھی کبھی یہی صحافت سماج کو آئینہ بھی دکھاتی ہے۔ جب سماج میں اتھل پتھل مچی ہو اور معاشرتی قدریں شکست و ریخت سے دوچار ہوں تو صحافت کے سامنے نئے نئے چیلنجوں کے دروازے کھل جاتے ہیں، نئی آزمائشیں راستہ روک کر کھڑی ہو جاتی ہیں اور نئے فتنے سر اٹھانے لگتے ہیں۔ لیکن حقیقی صحافی وقت کے دھارے کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ درحقیقت صحافت اور صحافیوں کا اصل امتحان اسی وقت ہوتا ہے۔
اگر ہم ماضی کے اوراق پلٹیں تو پائیں گے کہ آزادی سے قبل اردو صحافت جس محاذ پر ڈٹی رہی ہے وہ ملک کو انگریزوں کے تسلط اور ان کے ظلم و استبداد سے نجات دلانے والا محاذ تھا۔ اس محاذ پر اردو صحافی پوری قوت کے ساتھ جمے رہے۔ ناقابل بیان اور ناقابل برداشت اذیتیں جھیلیں اور یہاں تک کہ اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا۔ لیکن مجال کیا کہ وہ اس محاذ سے انحراف کر جائیں۔ اور بالآخر وہ اپنے مقصد میں کام یاب ہوئے۔
ماضی کی صحافت کی ایک جھلک ملک کے مایہ ناز صحافی اور اخبار الجمعیۃ کے ایڈیٹر مولانا محمد عثمان فارقلیط کے اُس خطبہ صدارت میں نظر آتی ہے جو انھوں نے نومبر 1973میں لکھنؤ میں منعقد ہونے والی آل انڈیا اردو ایڈیٹرس کانفرنس میں پیش کیا تھا۔ بہ قول مولانا فارقلیط ’’میرے سینے میں اُس دور کی صحافت کی زندہ یادیں اب تک محفوظ ہیں اور جو بھی میرے ہم عصر موجود ہوں وہ گواہی دیں گے کہ اُس زمانہ کی اردو صحافت نے کیسے کیسے جواہر پارے پیدا کیے۔ یہ مولانا محمد علی، علی الاعلان اعلانِ حق کررہے ہیں، وہ مولانا آزاد ایک نئی روح بیدارکررہے ہیں، یہ مولانا حسرت موہانی، وہ مولانا ظفر علی خاں، مہر، سالک، مظہر علی خاں اظہر، قاضی عبدالغفار، مولانا مودودی، مولانا ثناء اللہ امرتسری، غرض موتیوں کی ایک لڑی ہے جس میں ہر ایک کی خوب صورتی وزن اور قیمت کا کوئی جواب مشکل ہی سے کسی اور زبان کی صحافت میں پیدا ہوسکا ہے۔ اللہ اللہ وہ کیا دور تھا۔ محمد علی کے گھر میں دو دو وقت چولھا نہیں جل سکا، ابوالکلام قرض خواہوں میں گھرے بیٹھے ہیں، ظفر علی خاں کی ضمانتوں پر ضمانتیں ضبط ہورہی ہیں، حسرت موہانی اپنے ہاتھ سے کتابت کرکے اور اپنے ہاتھ سے پریس چلا کر اخبار چھاپ رہے ہیں۔ ادھر پورا ملک ان کی تحریروں کو پڑھنے اور ان کے پیغام پر عمل کرنے کے لیے مضطرب ہے۔ ان کا لکھا پتھر کی لکیر اور ان کے اشارے اہل ملک کی تقدیر کی حیثیت رکھتے تھے…‘‘۔
لیکن اب حالات بدل گئے ہیں، خیالات بدل گئے ہیں، تصورات بدل گئے ہیں، قدریں بدل گئیں ہیں اور صحافتی اصولوں کا کسی حد تک جنازہ نکل چکا ہے۔ لہٰذا اردو صحافت بھی بدل گئی ہے۔
اکیسویں صدی آئی ٹی انقلاب سے عبارت ہے۔ جہاں دوسری زبانوں کی صحافت نے اس انقلاب سے استفادہ کیا ہے وہیں اردو صحافت بھی اس کے فیوض و برکات سے مالامال ہے۔ یہ بات بڑی حوصلہ بخش ہے کہ صحافیوں کی نئی پود انفارمیشن ٹیکنالوجی سے پوری طرح لیس ہے۔ اُس کے پاس اِس کی صلاحیت بھی ہے اور وسائل بھی کہ وہ اسپاٹ رپورٹنگ کر سکے اور جلسہ گاہوں، کانفرنس ہالوں اور جائے حادثات سے اپنے اخبار کو رپورٹیں ارسال کر سکے۔ اِس سے اِس بات کی نشان دہی ہوتی ہے کہ اردو صحافت ٹیکنالوجی کے میدان میں دوسری زبانوں کی صحافت سے شکست کھانے والی نہیں ہے۔ انٹرنیٹ نے اس کے دامن کو بھی امکانات سے مالامال کر دیا ہے۔
آج اگرچہ اردو زبان کا دائرہ محدود ہوتا جا رہا ہے اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ اہل اردو ہی اس سے دور ہوتے جا رہے ہیں، تاہم اردو صحافت مائل بہ فروغ ہے۔ ان شہروں میں جو اردو کے مراکز رہے ہیں اردو اخبارات بڑی تعداد میں شائع ہو رہے ہیں۔ اگر ہم آر این آئی کے اعداد و شمار پر یقین کریں تو اردو صحافت ہندستان میں تیسرے نمبر پر ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ آر این آئی میں جو اعداد و شمار پیش کیے جاتے ہیں وہ مبالغہ آمیز ہوتے ہیں، تقریباً تمام بڑے اور متوسط شہروں سے اردو اخبارات اور رسائل و جرائد نکل رہے ہیں۔ قومی اخبارات میں انگریزی اور ہندی کے اخباروں کا شمار ہوتا ہے لیکن اگر ہم اردو کے بعض اخباروں کا حقیقت پسندی اور غیر جانب داری کے ساتھ جائزہ لیں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ وہ بھی قومی اخبار کہلوانے کے مستحق ہیں۔ ایسے کئی اخبار نکل رہے ہیں جو دوسری زبانوں کے بڑے اخباروں کے ہم پلہ ہیں اور جن کو انگریزی اور ہندی کے قومی اخباروں کے بالمقابل رکھا جا سکتا ہے۔ ان کی دیدہ زیبی اور پرکشش انداز پیش کش کسی بھی دوسری زبان کے اخبار سے کم تر نہیں۔ ان میں بھی تازہ ترین خبریں ہوتی ہیں اور بعض اوقات تفتیشی صحافت کی جھلک بھی نظر آجاتی ہے۔
اس کے علاوہ یہ بھی بڑی خوش کن حقیقت ہے کہ اردو صحافت بھی آن لائن ہو گئی ہے۔ ایسے بہت کم اخبارات ہوں گے جن کی ویب سائٹ نہ ہو۔ انٹرنیٹ نے اردو اخبارات کی رسائی میں زبردست توسیع کر دی ہے۔ اب تو یہ صورت حال ہے کہ ایک چھوٹے سے شہر سے چھپنے والا اخبار بھی انٹرنیٹ کی بدولت سات سمندر پار پڑھا جاتا ہے۔ بہت سے باخبر لوگ کہتے ہیں کہ مستقبل میں وہی زندہ رہے گا جو خود کو آن لائن کرنے کا ہنر جانتا ہو۔ اردو اخباروں کو یہ ہنر آگیا ہے۔ بات صرف یہیں تک محدود نہیں ہے بلکہ اس سے بھی آگے نکل چکی ہے۔ یعنی اب بہت سے آن لائن اردو اخبار بھی نکل رہے ہیں جو لمحہ بہ لمحہ اپ ڈیٹ بھی ہوتے رہتے ہیں۔ اردو کی متعدد نیوز سائٹیں بھی قائم ہیں جو تازہ ترین خبریں فراہم کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں۔ اب آپ کہیں بھی ہوں ان اخباروں اور نیوز سائٹوں کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔
ایک پہلو روزی روٹی کا بھی ہے۔ حالانکہ یہ بات اکثر کہی جاتی ہے کہ اردو کو روزی روٹی سے جوڑے بغیر اس کی ترقی کا راستہ ہموار نہیں ہو سکتا۔ لیکن یہ بات کہ اردو صحافت کا روزی روٹی سے تعلق نہیں ہے، درست نہیں۔ صحافت میں کارپوریٹ اداروں کے داخلے اور غیر اردو داں کاروباریوں کے ذریعے اردو اخباروں کی اشاعت اور اردو ویب سائٹوں کے قیام سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اردو کے دامن میں روزگار کے بے پناہ امکانات موجود ہیں۔ ضرورت ان امکانات کو تلاش کرنے کی ہے۔ اگر ہم ایک متوسط اخبار میں بھی کام کرنے والوں کی تعداد کا حساب لگائیں تو مایوسی نہیں ہوگی۔ اگر چہ بہت سے اخبار محض فائل بندی اور سرکاری اشتہاروں کے حصول کے لیے نکلتے ہیں، تاہم یہی کیا کم ہے کہ ان کے توسط سے بھی متعدد افراد کی روزی روٹی کا مسئلہ حل ہو رہا ہے۔
یہ ہم عصر اردو صحافت کا ایک پہلو ہے جو بہت ہی روشن ہے، خوش رنگ ہے اور امید افزا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کے دوسرے پہلو پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے۔ کوئی بھی انقلاب جہاں اپنے دامن میں بہت سی خوبیاں سمیٹے ہوتا ہے وہیں وہ کچھ خامیاں اور برائیاں بھی اپنے ساتھ لاتا ہے۔ انٹرنیٹ کے توسط سے مشینی ترجمے کی انقلاب انگیز سہولت نے آج کے اردو صحافیوں کو قدرے تن آسان بنا دیا ہے۔ ان میں ترجمہ کرنے کی صلاحیتیں کسی حد تک مفقود ہوتی جا رہی ہیں۔ کچھ صحافی گوگل ترجمے کے محتاج ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے بعض اوقات بڑی مضحکہ خیز چیزیں نظر آجاتی ہیں۔ پرائیویٹ نیوز ایجنسیوں سے فراہم شدہ خبروں اور مضامین سے اپنا پیٹ بھرنے والے اخبار کبھی کبھار چوں چوں کا مربہ بن جاتے ہیں۔ لیکن اس کے ذمہ دار کمپیوٹر و انٹرنیٹ اور نیوز ایجنسیاں نہیں بلکہ اردو صحافی خود ہیں۔ انھیں یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ جو خبر یا مضمون شامل اشاعت کر رہے ہیں اس کا معیار کیسا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کمپیوٹر کی وجہ سے کام میں بہت تیزی آئی ہے اور اخباروں کی شکل و صورت میں دل کشی پیدا ہوئی ہے۔ حروف میں یکسانیت آگئی ہے اور سرخیاں بھی دیدہ زیب ہو گئی ہیں۔ کمپیوٹر اردو صحافت کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں۔ لیکن اس کا منفی پہلو یہ ہے کہ سیکھنے سکھانے کا عمل متاثر ہوا ہے۔ نہ تو سینئر حضرات نوآموز صحافیوں کو کچھ سکھاتے ہیں اور نہ ہی نو آموز صحافی اس میں دل چسپی لیتے ہیں۔
پہلے اردو اخباروں کی نیوز ڈیسک نوآموز صحافیوں کے لیے ایک بہترین تجربہ گاہ ہوا کرتی تھی۔ اس وقت صرف انگریزی کی مشین ہوتی تھی جس سے خبروں کی ترسیل ہوتی۔ لوگ ان کا ترجمہ کر کے شفٹ انچارج کے حوالے کرتے اور شفٹ انچارج ان کو کاتبوں میں تقسیم کر دیتا۔ اس دوران وہ خبروں پر سرسری نظر بھی ڈال لیتا اور اگر کوئی غلطی ہے تو اس کی اصلاح بھی کر دیتا۔ ترجمے کے ساتھ ساتھ زبان و بیان اور سرخیوں کی غلطیاں بھی درست کی جاتیں۔ نئی نئی اصطلاحیں بنائی جاتیں اور نئے نئے لفظ گڑھے جاتے۔ بامحاورہ ترجمہ کیسے کیا جاتا ہے یہ بھی سکھایا جاتا۔ اس طرح نئے صحافی چند مہینے کے اندر نہ صرف ایک اچھے مترجم اور خبر ساز بن جاتے بلکہ ان کی زبان کی خامیاں بھی دور ہو جاتیں اور ان کی تحریر میں پختگی بھی آجاتی۔
اب شاید بہت سے دفتروں میں لغت سے بھی استفادہ نہیں کیا جاتا۔ اگر ایسا ہوتا تو بیش تر اخباروں میں انگریزی کے الفاظ جوں کے توں نہیں رکھ دیے جاتے۔ حال ہی میں ایک بڑے اخبار کے صفحہ اول پر ’’مڈ لیول افسر‘‘ اور ’’انٹلی جنس انپٹس‘‘ جیسے الفاظ بہ تکرار دکھائی دیے۔ مظفر نگر فساد کے دوران ہندی کے ایک روزنامہ کی پہلی سرخی تھی ’’دیکھتے ہی گولی مار دینے کا حکم‘‘ اور ایک بڑے اردو اخبار کی سرخی تھی ’’شوٹ ایٹ سائٹ کا آرڈر‘‘۔ لیکن پھر بھی تمام اخباروں کا وطیرہ یہ نہیں ہے۔ اب بھی تقریباً ہر اخبار میں ایسے صحافی ہیں جو زبان و بیان کی درستگی پر توجہ دیتے ہیں لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
پہلے اخباروں کے دفاتر میں اصطلاحیں ڈھالی جاتی تھیں۔ جس کی وجہ سے اردو زبان کے دامن میں نئے نئے الفاظ کا ذخیرہ جمع ہوتا رہتا تھا۔ اس کے علاوہ دوسری زبانوں کے الفاظ کو مناسب مواقع پر اس طرح استعمال کیا جاتا کہ تحریر میں حسن پیدا ہو جاتا۔ آج اصطلاحیں ڈھالنے کا سلسلہ تقریباً رک سا گیا ہے ۔ دوسری زبانوں کے الفاظ کا استعمال تو ہو رہا ہے لیکن اپنی زبان کا دامن وسیع کرنے کی خاطر نہیں بلکہ مشکل الفاظ کا اردو متبادل تلاش کرنے کی محنت اور زحمت سے بچنے کے لیے ایسا کیا جاتا ہے۔ آج تذکیر وتانیث اور املے کی غلطیاں بھی عام ہیں۔ بعض الفاظ کے املے میں یکسانیت بھی نہیں رہ گئی۔ اس کی ایک بڑی وجہ نئے صحافیوں کی عدم تربیت ہے۔ آج اخباروں میں کام کرنے کے لیے بس ایک صلاحیت پر توجہ دی جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ کمپیوٹر جانتے ہیں یا نہیں۔ کمپیوٹر جہاں ایک ناگزیر شے بن گیا ہے اور اس سے جہاں عصر حاضر کی ایک بہت بڑی ضرورت کی تکمیل ہوتی ہے وہیں اس کی وجہ سے ایک بہت اہم پہلو متاثر ہو رہا ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ نوآموز صحافیوں کو ٹریننگ دی جائے اور انھیں ضروری باتوں سے واقف کرایا جائے۔ اگر ایسا کیا جاتا ہے تو اس سے صحافت کو بہت فائدہ پہنچے گا۔ اس کی ذمہ داری نوآموز صحافیوں سے زیادہ سینئر صحافیوں پر عاید ہوتی ہے۔
گویا موجودہ اردو صحافت بھی دوسری چیزوں کی مانند دو پہلو رکھتی ہے، ایک کھرا دوسرا کھوٹا۔ ایک خوش رنگ دوسرا بد رنگ۔ اگر ہم اخبارات کی بڑھتی تعداد اور اخباروں میں نئے صحافیوں کی تیزی سے آمد کو ذہن میں رکھیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ دور اردو صحافت کا دورِ زریں ہیں۔ لیکن اگر ہم صحافت کے معیار کا جائزہ لیں تو افسوس ناک صورت حال کا سامنا ہوتا ہے۔
بہر حال ہمارا مقصد یہاں ہم عصر صحافت کی خامیوں کی نشان دہی کرنا نہیں ہے۔ بلکہ ضروری امور پر روشنی ڈالنی ہے۔ زبان و بیان اور معیار کے لحاظ سے زوال پذیری کے دور سے گزرنے کے باوجود آج بھی اردو صحافت کی اہمیت اور حیثیت اپنی جگہ پر مسلم ہے۔ اس شعبے میں کارپوریٹ اداروں کی آمد اور بعض روزناموں کی ملک گیر رسائی اور اسی کے ساتھ انٹرنیٹ کی سہولتوں نے اردو صحافت میں نئے نئے پہلو جوڑے ہیں۔ اگر ہم اردو اخباروں کی افسوس ناک سرکولیشن کو نظر انداز کر دیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو اخباروں کی تعداد حالیہ برسوں میں سیلاب کے پانی کی مانند بڑھی ہے۔ لیکن جس طرح سیلاب اپنے ساتھ وبائی امراض کا تحفہ بھی لے کر آتا ہے اسی طرح کثرتِ اخبار بھی بہت سی صحافتی خرابیاں وبائی شکل میں اپنے ساتھ لے کر آئی ہے۔ اب تو یہ بحث ہی فضول ہے کہ اردو صحافت جو پہلے مشن تھی اب کمیشن یا کاروبار کیوں بن گئی ہے۔ وقت اور حالات نے اسے کاروبار بننے پر مجبور کر دیا، ورنہ اس کی بقا کے لالے پڑ جاتے۔ لیکن کاروبار کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں، کچھ آداب ہوتے ہیں۔ اگر ہم ان اصولوں اور آداب کو بالائے طاق رکھ دیں تو خواہ ہم کتنے بڑے اور کامیاب کاروباری کیوں نہ بن جائیں، اخلاقی محاذ پر ناکام ہی رہیں گے۔
لیکن بہر حال اس اردو کش ماحول میں وہ لوگ لایق مبارکباد ہیں جو تمام تر پریشانیوں اور آزمائشوں کے باوجود اخبارات نکال رہے ہیں۔ میں ان کو سلام کرتا ہوں۔ وہ یقیناً اردو کے مجاہد کہلانے کے حق دار ہیں۔ جن خرابیوں کا ذکر کیا گیا خدا کرے کہ وہ عارضی ثابت ہوں اور اردو صحافت ایک بار پھر اپنے درخشاں ماضی کا احیاء کرے اور ایک بار پھر مولانا آزاد، مولانا ظفر علی خاں، مولانا محمد علی جوہر، مولانا حسرت موہانی، مولانا مودودی، مولانا فارقلیط، مولانا عبد الماجد دریابادی، حیات اللہ انصاری، عشرت علی صدیقی اور ان جیسے دوسرے صحافی پیدا ہوں جو صحافت کو اس کی معراج پر لے جائیں۔ اردو صحافت کے مستقبل سے مایوس ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ جب تک اردو لکھنے پڑھنے والا ایک بھی شخص زندہ ہے اردو صحافت بھی زندہ رہے گی۔ خواہ اس کی شکل کیسی بھی ہو۔ اردو صحافت کو کوئی مٹا نہیں سکتا.
٭٭٭
رابطہ :9794593055
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :اردو کا محسن : وقار رضوی از اویس سنبھلی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے