تین نورانی راتیں اور خوش فہمی

تین نورانی راتیں اور خوش فہمی

حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی، جمشیدپور
رابطہ: 09279996221

"خوش فہمی میں نہ رہیں، خوش دلی سے فرائض اور واجبات ادا کریں"
مولاے رحیم نے انسا نوں اور جنوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا فر مایا، ارشاد باری تعا لیٰ ہے. ترجمہ: اور میں نے جن اور آد می اس لیے بنائے کہ میر ی بندگی کریں، میں ان سے کچھ رزق نہیں ما نگتا اورنہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھا نا دیں، بے شک اللہ ہی بڑا رزق دینے والا قوت والا قد رت والا ہے۔ وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُوُنِِ مَآ اُرِیْدُ مِنْھُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّمَآ اُرِیْدُ اَنْ یُّطْعِِمُوْنَ اِنَّ اللّٰہَ ھُوَ الرََّزَّاقُ ذُوالْقُوَّۃِ الْمَتِیْن (القر آن، سورہ الذاریات 51، آیت58۔56)
ترجمہ: انسانوں اور جنوں کو عبادت کے لیے ہی پیدا کیا گیا، اللہ رب العزت کا فر مان ہے کہ میں نے انسانوں اور جنوں کو اپنی کسی ضرو رت کے لیے نہیں پیدا کیا، بلکہ صرف اس لیے کہ میں ان کے فائدے کے لیے اپنی عبادت کا حکم دوں وہ خوشی خوشی میرے معبود برحق ہونے کا اقرار کریں۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں مجھ سے رسول ﷺ نے فرمایا اللہ نے اپنے بندوں کو بندگی (عبادت) کے لیے پیدا کیا ہے اب اس کی عبادت یکسوئی کے ساتھ جو بجا لائے گا، کسی کو اس کا شریک نہ کرے گا، اسے پوری جزا عنایت فر مائے گا۔ اور جو اس کی نا فرمانی یعنی عبادت میں کو تاہی کرے گا وہ بدترین سزا ئیں بھگتے گا. (ابو دائود، تر مذی) مسند احمد میں حدیث قدسی ہے کہ اے ابن آدم! میری عبادت کے لیے فارغ ہو جا، میں ترا سینہ تونگری اور بے نیازی سے پر کر دوں گا اگر تو نے ایسا نہ کیا تو میں تیرے سینے کو اشغال (کام) سے بھر دوں گا اور تیری فقیری (تنگ دستی) کو ہرگز بند نہ کروں گا۔ ( مسنداحمد، تر مذی،ابن ما جہ) آقا ﷺ نے فر مایا:رحمٰن کی عبا دت کرو اور سلام کو عام کرو. راوی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں معقول بن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فر ما یا: فتنوں( کے ) ایام میں عبادت کرنا ایسا ہی ہے جیسے میری طرف ہجرت کرنا (ابن ما جہ، حدیث 3694، ترمذی ،1855،3985،) یہ فتنوں کادور ہے ایسے میں ہر مو من کو عبادت الٰہی پر خاص توجہ دینا چا ہیے۔
تین نورا نی را تیں اور ان میں عبادت:
عبادت کے لیے کچھ خاص اوقات بھی ہیں جن میں عبادت کرنے کا ثواب بڑھ جا تا ہے، جیسے رمضان المبارک جس کی فضیلتیں قر آن کریم و احادیث پاک میں آئی ہیں. نفل کا ثواب فرض کے برا بر، ایک نیکی کا ثواب ستر گنا یا اس سے بھی زیادہ ہو جاتا ہے. اللہ نے ہی تمام دن و رات اور مہینہ بنائے ہیں ان میں کچھ دنوں، مہینوں کو بعض پر فضیلت بخشی. "حرمت‘‘ (عزت، بڑائی، عظمت) والے چار مہینے ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں اس طرح سے مو جود ہے۔
ترجمہ: بے شک مہینوں کی گنتی اللہ کے نز دیک بارہ مہینے ہے اللہ کی کتاب میں، جب سے اس نے آسمان اور زمین بنائے، ان میں چار  حر مت والے ہیں یہ سید ھا دین ہے۔) القرآن، سورہ توبہ9،آیت35) کنزا لایمان۔(1)ذوالقعدہ (2)ذوالحجہ ( 3)محرم(4) رجب۔ اسی طرح دنوں میں ’’جمعہ‘‘ اور ایام نحر کے دن رات میں رات کا آخری حصہ وغیرہ وغیرہ. ’’نماز‘‘ ام العبا دت ہے ہر حال میں فرض ہے کسی حال میں معاف نہیں (جب تک شر عی اجازت نہ ہو) آج کل مسلما نوں کا عبادت کے معاملے میں انتہائی براحال ہے. مسجدوں میں نمازیوں کی تعداد دیکھیے تو نماز جیسی عبادت سے مسلمانوں کی بے توجہی معلوم ہو تی ہے۔ ماہ رمضان المبارک میں دیکھیں تو دل باغ باغ ہو جا تا ہے. 
یہ خا ص رحمت الٰہی ہی ہے کہ مسجدیں نمازیوں سے اسی طرح کچھ مخصوص نو رانی راتوں میں جیسے شب معراج، شب برات، لیلۃالقدر میں بھی مسجدوں میں کثیر تعداد میں نمازی آتے ہیں، یہ اللہ کا کرم ہے۔ ان نورانی راتوں میں عبادت کا ثواب اور راتوں سے زیادہ ہو جا تا ہے، یہ اللہ کی رحمت اپنے بندوں کو جس طرح چاہے نوازے۔ ان کی فضیلتوں سے انکار نہیں، پر یہ بات قابل غور ہے کہ کیا ان راتوں کی عبادت و نفل نمازیں زندگی کے باقی اور دنوں میں قضا فرض نمازوں کا نعم البدل ہو جا ئیں گی۔
آج کل نیا رواج پڑ گیاہے، ان مخصوص دنوں و راتوں کے لیے لوگ "ہینڈ بل" (HANDBILL )شا ئع کراتے ہیں. عجیب عجیب طریقے سے نفل نماز پڑھنے کی تر کیب اور فضائل لکھے رہتے ہیں۔ جیسے آج کی رات چار رکعت نماز نفل ایک سلام کے ساتھ پڑھیں پہلی رکعت الحمدکے بعد قل یاایھا الکافرون، دوسری رکعت میں قل ھو اللہ احد، تیسری رکعت میں قل اعوذ برب الفلق، چوتھی رکعت میں قل اعوز برب الناس، پڑھیں پچاس سال عبادت کرنے کا ثواب ملے گا۔ پچاس سال کے گناہ معاف ہوجائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کے اشتہاری پرچوں میں حدیث کا حوالہ کہیں نہیں ہوتا۔ عبادت میں ثواب تو بہر حال ہوتا ہے، اس طرح کے اشتہار جو بھی شائع کرا تے ہیں ضرور کسی عالم دین کی مدد لیتے ہوں گے اور ثواب کی نیت سے بانٹتے ہیں، ذمہ دار لوگ غور کریں اس طر ح عوام الناس میں عبادت کی اہمیت گھٹ رہی ہے اور وہ یہ سوچتے ہیں کہ کم خرچ بالا نشین چلو ایک رات عبادت کر لیے پچاس سال کی عبا دت کا ثواب مل گیا اور پچاس سال کے گناہ معاف ہو گئے۔ فرض نماز سے غفلت ایسے ہی افسوس ناک ہے اور اس پر اس طرح غیر ذمہ دار اشتہار ات و بیان بہت تشویشناک ہیں۔ آج مسلم معاشرے میں ان گنت برائیاں جڑ پکڑ چکی ہیں. ایک دو ہوں تو گنایا جائے، دوچار ہوں تو رونا رویا جائے. علما حضرات توجہ فر مائیں، عوام میں پھیلی برائیوں کی نشان دہی فرمائیں، ور نہ ایسا نہ ہو ان سب کے ساتھ ہم سب کی پکڑ  ہو جائے ۔
استغفراللہ، اللہ رحم فر مائے۔ نماز فرض ہے. ام العبادات ہے. کسی حال میں معاف نہیں. ہم ڈھٹائی کے ساتھ نماز سے غفلت برتیں اور فرائض و واجبات کی طرف توجہ نہ دیں اور مخصوص دنوں کی عبادت پر توجہ مر کوز (FOCUS) کر دیں یہ نا دانی ہے. خوش فہمی میں مبتلا نہ ہوں. نماز ہمیشہ فرض ہے جو نما زیں قضا ہوئی ہیں ان کا حساب لگا کر ادا کرنے کی کوشش کریں تاکہ اللہ رب العزت کے عتاب سے بچ پائیں، ورنہ خوش فہمی میں پڑ کر اپنا خسارہ کریں گے، قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ: تم فرماوٗ کیا ہم تمھیں بتادیں کہ سب سے بڑھ کر ناقص عمل کن کے ہیں، ان کے جن کی ساری کوشش دنیا کی زند گی میں گم ہو گئی اور وہ اس خیال میں ہیں کہ اچھا کام کر رہے ہیں۔(القرآن، سورۃ الکھف18، آیت103-104)۔ جو بھی اللہ کی عبادت اس طریقے سے بجا لائے جو طریقہ اللہ کو پسند نہیں وہ تو اپنے اعمال سے خوش ہو رہا ہے اور سمجھ رہا ہے کہ میں نے آخرت کا توشہ بہت کچھ جمع کر لیا ہے، میرے نیک اعمال اللہ کو پسند ہیں اور مجھے ان پر اجر و ثواب ملے گا. لیکن اس کا یہ گمان غلط ہے. فرض نماز کسی حال میں معاف نہیں، حضور سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی کتاب غنیۃ الطالبین میں ایک حدیث حضرت علی کرم اللہ وجہ کی روایت سے نقل فر ماتے ہیں کہ: جو شخص فرائض، واجبات کو چھوڑ کر سنن و نوافل میں لگا تا ہے اس کی مثال ایسی ہےجیسے ایک حمل والی عورت جو عن قریب بچے کو جننے والی ہے کہ اس کا حمل خراب ہو گیا اور بچہ مر گیاہے. اگر بچہ زندہ رہتا تو اس کا پھل(بچہ) اسے ملتا، اس عورت کو کچھ بھی حاصل نہ ہوا. حمل کے دوران عورت کو جو تکلیفیں ہوتی ہیں وہ سب اس نے جھیلیں اور اسے حاصل کچھ نہ ہوا. یہی مثال اس شخص کی ہے جس نے سنن و نوافل میں وقت لگا یا اور واجبات و فرائض سے غفلت برتا تو اس کو کوئی فا ئدہ حاصل نہ ہو گا۔
خود حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی بادشاہ نے اپنی خدمت کے لیے ایک شخص کو بلایا، وہ شخص بادشاہ کی خدمت میں جانے اور اس کی خدمت کرنے کے بجائے بادشاہ کے نوکر کی خد مت کرتا رہا تو یہ خد مت بادشاہ کی نہ ہوئی اور بادشاہ کے حکم کی خلاف ورضی ہوئی اور اس کی خد مت نہ اس کو فائدہ پہنچا سکی نہ ہی بادشاہ کو، محنت کی  پھر بھی محنت بر باد ہو گئی۔ ذمہ دار علما  کو چاہیے کہ عوام کی صحیح رہ نمائی کریں. جولوگ عوام کو سراب (دھوکا، فریب) میں مبتلا کر رہے ہیں وہ ذمہ داری سے بچ نہیں پائیں گے۔
تین نورانی راتوں کی فضیلت اور ان کی حقیقت:
ان مخصوص راتوں کی فضیلت سے انکار نہیں، جہاں ان کی فضیلت بیان کی جائیں وہیں فرائض اور واجبات کی اہمیت کو ضرور بتائیں. خاص کر پانچ وقت کی نمازوں کی فضیلت اور نہ پڑھنے پر شدید عذاب کی جو وعیدیں قر آن کریم و احادیث طیبہ میں موجود ہیں ان کو ضرور بتائیں. اللہ رب العزت کے عذاب سے بھی ڈرائیں۔ جو لوگ نماز سے غفلت برتتے ہیں قرآن کریم میں ان کے لیے سخت عذاب کی وعید آئی ہے۔ فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلَا تِھِمْ سَا ھُوْن (القرآن،سور ۃا لما عون107،آیت5 ۔4) ترجمہ: ان نمازیوں کی خرا بی ہے، (اور ویل نامی جہنم کی جگہ) ہے، جو اپنی نماز سے بھو لے بیٹھے ہیں۔
خوش فہمی سے بچیں فرائض، واجبات، سنت کی ادائیگی پر توجہ مر کوز(FOCUS) کریں اور ساتھ میں سنن و نوا فل کا بھی اہتمام کریں تاکہ اللہ کی بارگاہ میں کام یاب ہوں، نیک اعمال کے لیے ایمان شرط ہے. وہیں ایمان لا کر بندہ اعمال سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ فرائض ہرحال میں ادا کرے، ترک نماز میں ہم ڈھیٹ ہو چکے ہیں، یہ تشویش ناک بات ہے. ایمان کے ساتھ عمل کی سخت ضرورت ہے. ارشا دبا ری تعالیٰ ہے: وَعْدَاللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ مِنْھُمْ مَغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا
(القراٰن سورہ فتح:48، آیت:29)
ترجمہ: اللہ نے وعدہ کیا ہے ان سے جو ان میں ایمان والے ہیں اور اچھے کاموں والے ہیں، بخشش وبڑے ثواب کا۔ قرآن کریم میں بہت سی آیات کریمہ اس کا اعلان کر رہی ہیں کہ ایمان کے ساتھ عمل ضروری ہے. 
سورہ کہف 1، آیت106، سورہ حشر59، آیت17,18,19 سورہ عنکبوت29، آیت7 وغیرہ وغیرہ۔ علم دین سے نا واقف اور مادہ پرست و آرام پسند ماحول میں پلے بڑھے کچھ مسلمان جو تعیش میں زند گی گزار رہے ہیں ان کے دل میں ایمان آہستہ آہستہ ختم ہوتا جا رہا ہے، عبادات کو بوجھ سمجھتے ہیں اور اس میں کچھ بے عمل مولوی حضرات ایسے لو گوں کو سراب (خوش فہمی) میں مبتلا کررہے ہیں. یہ بات ذہن نشین رہے کہ نماز ام العبادات ہے جس کا مقصد صرف اور صرف اللہ کی بندگی اوراس کی رضا حاصل کرنا ہے. 
اللہ کے رسول کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق ہی عبادت کرنا ہے. غور فرمائیں ہزاروں نفل نمازیں ادا کرنا اور چند مخصوص نورانی راتوں میں عبادت کرنا کیا ایک فرض نماز چھوڑنے کا کفارہ بن سکتی ہے؟ کیا بیواؤں کی دیکھ بھال پر خرچ کرنے والی رقم جس پر حج فرض ہے اور وہ حج نہ ادا کرے کیا یہ نیک عمل حج نہ کرنے کا کفارہ بن جائے گا؟
کیا ہزاروں مریضوں کے علاج پر خرچ کر نے والی رقم، زکاۃ نہ ادا کر نے والے شخص کے زکاۃ نہ دینے کا کفارہ بن جائے گی؟ ہرگز ہرگز نہیں. حالانکہ یہ سب کام بڑے اجر و ثواب کے ہیں اور اسلام میں ان کی بڑی اہمیت ہے۔ اسی طرح اور نیکیاں کرنے و چند راتوں کی عبادت فرض نماز ترک کرنے کا کفارہ نہیں بن سکتی ہے۔ ان عبادتوں کی فضیلت و اہمیت سے انکا ر نہیں۔ لیکن فرض نماز کے ترک کرنے والے کا عذاب بھی جان لیں۔
تر جمہ: ان کے بعد کچھ نا خلف پیدا ہوئے جنھوں نے نمازیں ضا ئع کردیں اور نفسانی خواہشوں کا اتباع کیا، عن قریب انھیں سخت عذاب طویل و شدید سے ملنا ہو گا، عن قریب وہ دو زخ میں غی کا جنگل پائیں گے. (القرآن، سورہ مر یم19 ، آیت 59) غی جہنم میں ایک وادی ہے، جس کی گرمی اور گہرائی سب سے زیادہ ہے، اس میں ایک کنواں(WELL)ہے، جس کا نام ’’ہبہب‘‘ ہے، جہنم کی آگ بجھنے پر آتی ہے، اللہ عزوجل اس کوئیں کو کھول دیتاہے، جس سے وہ بدستور بھڑکنے لگتی ہے، قرآن میں ہے۔
کُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰھُمْ سَعِیْرًا(القرآن، سورہ بنی اسرائیل 17، آیت 97)۔
تر جمہ: جب بجھنے پر آئے گی ہم اسے اور بھڑکا دیں گے۔یہ کنواں بے نما زیوں، اور زا نیوں، اور شرابیوں، اور سود خوروں، اور ماں باپ کو تکلیف دینے والوں کے لیے ہے۔ نماز کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ اللہ نے سب احکام اپنے نبی ﷺ کو زمین پر بھیجے، جب نماز فرض کرنی ہوئی حضور ﷺ کو اپنے پاس عرش اعظم پر بلا کر اسے فرض کیا اور شب اسریٰ (یعنی معراج کی رات) میں یہ تحفہ دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک صاحب نے عرض کیا، یا رسو ل اللہ ﷺ اسلام میں سب سے زیادہ اللہ کے نزدیک محبوب کیا چیز ہے؟ فرمایا ’’وقت میں نماز پڑ ھنا اور جس نے نماز چھوڑی اس کا دین نہیں‘‘۔ نماز دین کا ستون (PILLAR) ہے.
(مسند،حدیث2612،ج،6 ص133 حدیث490) مسلمانوں کو چا ہیے اللہ کا بندہ بن کر رہیں. یعنی اطاعت و بندگی کرتے رہیں اور اطاعت پر گامزن رہیں. فرائض، واجبات خاص کر نماز جو کسی حال میں معاف نہیں وقت پر ادا کرتے رہیں اور سنتوں ونوافل کا بھی اہتمام کریں خواہ نورانی راتیں ہوں یا کبھی بھی، خوش فہمی میں نہ رہیں، فرائض کی ادائیگی  میں کوتاہی نہ کریں. اہل علم کی ذمہ داری ہے وہ لوگوں کو سمجھاتے رہیں. اللہ کا حکم ہے۔
وَ ذَکِّرْ فَاِنَّ الذِّکْرٰی تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْن ( القرآن،سورہ الذا ریات 51، آیت55، )
تر جمہ: اور سمجھاؤ کہ سمجھانا مسلمانوں کو فائدہ دیتا ہے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے ہم سب کو دین کے احکام جاننے اور اس پر عمل کر نے کی توفیق عطا فر مائے آمین ثم آمین:
*حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی خطیب و امام مسجد ہا جرہ رضویہ اسلام نگر کپالی وایا مانگو جمشیدپور جھارکھنڈ
hhmhashim786@gmail.com
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:رجب بیج بونے کا، شعبان آب پاشی کا، رمضان فصل کاٹنے کا مہینہ ہے!

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے