حقانی القاسمی

حقانی القاسمی

فاروق ارگلی

حقانی القاسمی: پیدائش:25دسمبر 1970ء
ارریہ، بہار، انڈیا
رہائش:نئی دہلی , صوبۂ دہلی
پیشہ: ادب سے وابستگی،
وجہِ شہرت: شاعری، نثر نگاری
مذہب: اسلام

نئی نسل کے نامور قلم کار، منفرد نقاد، صحافی و مبصر حقانی القاسمی کو بیس بائیس برسوں سے جانتا ہوں، مگر سچے دل سے اعتراف کرتا ہوں کہ انھیں آج تک پہچان نہیں سکا۔ راقم تو خیر اُردو کا ایک ادنا سا تذکرہ نگار ہے، خبرنویس کہہ لیجیے لیکن عہد حاضر کے اس عبقری کو پوری طرح پہچان سکنے کا دعوا تو اسناد و مناصب کی زرکار خلعتوں میں ملبوس دانشوری کے لیے بھی آسان نہیں۔ اس دورِ صارفیت میں علم و فضل کی سیلز مین شب، برانڈنگ اور مارکیٹنگ کی فضاؤں میں حقانی شاید اُردو دُنیا کی واحد شخصیت ہیں جو ڈاکٹری اور پروفیسری کے طرہ ہائے امتیاز کے بغیر علم و آگہی کی عصری خانقاہ کے ایسے بوریہ نشین درویش ہیں جن کے علمی، فنی اور فکری تصرفات و تخلیقی کمالات کے سامنے اقلیم ادب کی دُنیا ساز سلطانی و تاجداری سرِنیاز خم کرنے پر مجبور ہے۔
ممکن ہے کچھ جبینوں پر اس بات سے شکنیں نمودار ہوجائیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ اُردو تنقید کی تاریخ میں حالیؔ سے لے کر عہد فاروقی و نارنگی تک ایسی مثالیں بہت کم دیکھنے میں آتی ہیں جب کوئی نوعمر طالب علم گروہی و جماعتی نظریات اور مروّجہ روایات کی تقلید سے الگ جداگانہ شان کے ساتھ اپنی خداداد ذہانت، غیرمعمولی بصیرت اور تخلیقی وجدان کے بل بوتے پر ایوانِ ادب میں متمکن کاملینِ نقد و نظر کے درمیان وہ خاص مقام حاصل کرلیا ہو جہاں پہنچنے میں عمریں صرف ہوجاتی ہیں۔ عصری اب میں حقانی کا اختصاص یہ بھی ہے کہ انھوں نے ہندستان جیسے ملک میں اُردو زبان اور تہذیب کی زبوں حالی کے اس پرآشوب زمانے میں اس پر شکوہ زبان کو اس کے فطری حسن و جمال اور اس کی شان دار فصاحتوں، بلاغتوں اور سلاستوں کو اپنی تخلیقی مشاطگی اور رنگارنگ لعل و گہر سے سجا کر اس طرح دُنیا کے سامنے پیش کرکے اُردو کے مٹ جانے کے وہم کا شکار ذہنوں کو بشارت دی ہے کہ سیاستِ زمانہ کی ستم ظریفیاں سطحیت، سوقیت اور جہالت کی خاک اُڑا کر مشترکہ تہذیب کے اس آفتاب عالم تاب کو کبھی دُھندلا نہیں کرسکتیں جسے اُردو کہتے ہیں۔
تخلیقی ادب کی صحت و زندگی میں تنقید معالج اور جراح کا کردار ادا کرتی ہے، تنقید تخلیق کو کڑوی دوا پلاتی ہے اور بے رحمانہ چیرپھاڑ بھی کرتی ہے، یہ اس کے فرائضِ منصبی کا حصہ ہیں۔ ادب کے ہر نقاد کا اپنا اپنا زاویۂ نظر ہوتا ہے، اس کے پاس ملکی، غیرملکی آلاتِ جراحی، مختلف رویے، رجحانات، میلانات اور میزانات ہوتے ہیں جن کے مطابق وہ شعری، نثری تخلیقات کی جانچ پرکھ کرکے اپنے اخذ کردہ نتائج کا اظہار کرتا ہے۔ تنقیدی رویے، روشیں، میزان و پیمانے، مختلف تاریخی، سیاسی، تمدنی محرکات سے تیار ہوتے ہیں۔ ناقدینِ عصر اپنی پسند اور رجحانات کے مطابق ان روشوں اور پیمانوں کو اپنے تنقیدی عمل کا وسیلہ بناتے ہیں، اس عمل میں غیرمعمولی مطالعہ، قوتِ مشاہدہ اور ادبی بصیرت و بصارت درکار ہوتی ہے۔ تخلیقی ذہن، منصفانہ فکرونظر، تنقید نگار کو اعتبار و قبولیت عطا کرتی ہے، لیکن تنقید کو بھی تنقید کا شکار ہوکر ردّوقبول کے مراحل سے گزرنا ہوتا ہے۔ اُردو تنقید کے ہر دَور میں ایسے مناظر ادب کا حصہ بنتے آئے ہیں۔ کوئی نہ کوئی تنقید کسی نہ کسی تنقید سے ہمیشہ مصروفِ پیکار رہتی ہے لیکن یہ عمل ہی ادب کی بالیدگی، ارتفاع اور ارتقا میں کلیدی رول بھی ادا کرتا ہے۔ اس صنفِ شریف کی اہمیت اور ضرورت ہر دَور میں لازم و ملزوم ہے لیکن موجودہ مشینی اور کاروباری زمانہ میں جس طرح ہر شعبۂ حیات میں اخلاقی قدروں کا زوال ہوا ہے، خودغرضی، مفاد پرستی، احباب و اقربا پروری اور حرص و ہوس کی گرم بازاری ہے اس کے اثرات علم و فن اور تخلیقی و تنقیدی دُنیا میں در آئے ہیں، اپنے عہد کی تنقید کی اس صورتِ حال پر خود حقانی القاسمی کا یہ تجزیہ بے حد معنی آفریں ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے تنقیدی رجحانات کی تفہیم کا موقع بھی فراہم کرتا ہے:
’’دراصل تخلیق کی تشخیص دشوار عمل ہے۔ ایک تنقید نگار کی ناقص تشخیص سے اچھی طرح صحت مند تخلیق بھی بیمار بن جاتی ہے اور بیمار تخلیق بھی صحت مند قرار پاتی ہے۔ یہ سب ذہنی تعصبات کا کھیل تماشہ ہے جو تنقید کے نام پر رائج ہے۔ تنقید کوئی بازیچۂ اطفال نہیں ہے، اس کے لیے بہت ریاضت کرنا پڑتی ہے، کسی بھی تخلیق کی Grace اور Glory کی شناخت کے لیے ذہن کی بہت سی ریاضتوں سے گزرنا پڑتا ہے اور شعور کی کئی سطحوں پر تخلیق سے مواصلت اور مخاطبہ کے بعد بھی صورتِ حال واضح ہوتی ہے۔ زیادہ تر تنقیدنگار اس Gene کو دریافت کرنے میں ناکام رہتے ہیں جس سے تخلیق کے مزاج کا ادراک ہوسکے۔ معنیاتی اکتشاف یا مفاہیم کی نقاب کشائی کے لیے بھی اسی دردِ زہ کی کیفیت سے گزرنا پڑتا ہے جس سے ایک تخلیق کار گزرتا ہے کیونکہ معنی کا معشوق ہمیشہ اپنا نقاب نہیں اُٹھاتا۔ پھر سوال شعور کا بھی ہے، تنقید نگار شعور کی کس سطح پر ہے، اگر اس کے شعور کا Negative Pole زیادہ متحرک ہے تو اس کی تنقید منفیت زدہ ہوگی اور اگر Positive Pole فعال ہے تو تنقید میں اثبات کا عنصر ہوگا۔ ممکن ہے کہ تنقیدی نگارشوں کی اس سطح پر جہاں اس کے لیے غلط اور صحیح کا امتیاز مشکل ہو، خاص طور پر جب ذہن پر تمس کی کیفیت طاری ہو تو اس وقت غلط اور صحیح کا امتیاز مٹ جاتا ہے، جہالت اور ظلمت کی دبیز تہہ میں دبا ہوا ذہن خرد کو جنوں اور جنوں کو خرد میں تبدیل کرنے کا تماشہ دِکھاتا رہتا ہے۔ پھر معاملہ یہ بھی ہے کہ معنیاتی اکتشاف کے لیے جس ذہن رسا اور دیدۂ بینا کی ضرورت ہے وہ ناپید ہے۔ آج کی تنقید کنفیوژن، التباس، وہم اور مفروضہ سے عبارت ہے۔ ابہام اور عدم وضاحت اس تنقید کے وصفِ خاص ہیں۔ عصری ادب کے ارسطوؤں اور افلاطونوں میں ابلاغ و ترسیل کی قوت نہیں ہے، ان کی تحریروں میں ’کوئی اور‘ زیادہ نظر آتا ہے۔ اپنی آنکھیں اور اپنا ذہن کم۔‘‘ (تنقید نہ کہ تصغیر، کولاز، ص12)
آٹھویں دہائی سے حقانی القاسمی کے تنقیدی مقالات اور تبصرے ملک و بیرونِ ملک کے مؤقر ادبی جرائد میں مسلسل شائع ہورہے ہیں۔ ہندوپاک کے بڑے جرائد کے علاوہ ’مخزن‘ (برطانیہ)، ’سفیرِ اُردو‘ (لیوٹن)، ’زاویہ‘ (سویڈن)، ’پرواز‘ (لندن)، ’شہرزا‘ (لندن) وغیرہ میں ان کی تحریریں اہتمام کے ساتھ شائع ہوتی رہی ہیں۔ پورے ادبی منظرنامے کو انھوں نے اپنی تنقید کے حصار میں لیا ہے۔ تمام عہدساز شعرا اور فکشن نگاروں کے ساتھ ساتھ نقادوں، محققوں اور اہل دانش پر پورے ادبی خلوص کے ساتھ اظہارِ رائے کیا ہے۔ ان کے تنقیدی مقالات کے مجموعے ’فلسطین کے چار شعراء‘ (1995)، ’طوافِ دشتِ جنوں‘ (2003)، ’لاتخف‘ (2004)، ’خوشبو روشنی رنگ‘ (2009)، ’شکیل الرحمن کا جمالیاتی وجدان‘ (2010)، ’بدن کی جمالیات (2010)، ’تنقیدی سمبولاز (2012) اور ’ادب کولاز‘ (2014) میں ان کا تنقیدی جلال اور جمال اس طرح مطلعِ ادب پر ہویدا ہوا ہے کہ بہت سے روشن ستارے دُھندلے نظر آنے لگے ہیں۔ بہت سی حقیقتیں واہمہ ہوئی ہیں اور بہت سے مفروضے باطل قرار پائے ہیں۔ وہ اپنی تنقید کو تخلیقی تنقید کا نام دیتے ہیں جو پوری طرح حق بہ جانب ہے۔ وہ فن پارے کے ظاہری حسن و قبح پر طائرانہ نظر ڈال کر ہی فیصلہ صادر کرنے والے نقاد نہیں ہیں، وہ متن کی تہہ میں پوری گہرائی تک اُترکر معنی و مفاہیم کے گرانقدر لعل و گہر کے ساتھ ہی بے قیمت خزف ریزوں سے بھی شناسائی کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ تخلیق کے پورے تہذیبی، مذہبی، اخلاقی، تاریخی اور جغرافیائی پس منظر کا جائزہ اس طرح لیتے ہیں کہ تنقید تخلیق کی سرحدوں میں داخل ہوجاتی ہے۔ وہ اقوامِ عالم کی تہذیب، تمدن، مذاہب، ادب، فنون اور معاشرت کے جان کار ہیں۔ انگریزی، عربی، فارسی، ہندی اور سنسکرت کے ادب پر ان کی گہری نظر ہے۔ وہ قاسمی ہیں یعنی فاضلِ دیوبند ہیں۔ اسلامیات اور عربی زبان و ادب ان کی شخصیت کا جزوِ خاص ہیں۔ قدیم و جدید عربی ادب کی وسیع و عریض کائنات ان کی جولانگاہ ہے، ان کی تحریروں میں عربی و فارسی کے جدید اور اسطوری زبان و ادب کے فلیور نے ان کی تخلیقی و تنقیدی نثر کو اس قدر پرشکوہ، باوقار اور بلیغ بنادیا ہے کہ اُردو دُنیا میں ایسا نثار تلاش کرنا مشکل ہے۔ ان کی تنقیدی کتاب ’طوافِ دشتِ جنوں‘ پر عالمی شہرت یافتہ دانشور ڈاکٹر انور سدید کی رائے حقانی کے اسلوبِ نقد کا بہتر تعارف ہے:
’’حقانی القاسمی نے اپنی تنقید کو تخلیقی قرار دیا ہے جو اس حقیقت کا اظہار ہے کہ وہ فن پارے کا صرف تفریحی مطالعہ نہیں کرتے بلکہ مصنف کے باطن میں اُترکر اس کرب کو بھی محسوس کرتے ہیں جو تخلیق کے لمحے میں اس نے محسوس کیا تھا اور پھر حقانی القاسمی تخلیق مکرر کے عمل سے گزرتے ہیں اور مصنف کے تخلیقی عمل کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اس کتاب کے ادبی اسلوب پر بنارس اور دیوبند کی چھتری تنی ہوتی ہے لیکن علی گڑھ بھی ہر ورق پر روشنی بکھیرتا نظر آتا ہے۔ حقانی القاسمی کی نکتہ آفرینی خلیل الرحمن اعظمی جیسا، نوکِ خار سے لکھنے کا انداز، فضیل جعفری جیسا اور دوٹوک بات کرنے کا طریقہ، وارث علوی جیسا ہے لیکن مجموعی فضا گوپی چند نارنگ کی طرح استوار ہوتی نظر آتی ہے۔ وہ اپنے گمبھیر مطالعہ کی اساس پر اپنی انفرادیت منواتے اور اپنی ٹکسال کا سکہ خود ہی جاری کردیتے ہیں، اس کتاب کے بیشتر مضامین پہلے متاثر اور پھر مرعوب کرتے ہیں لیکن آخر میں قاری مغلوب ہوجاتا ہے۔‘‘ (ڈاکٹر انور سدید، تخلیق، لاہور، اپریل 2006)
حقانی القاسمی کا تنقیدی اُفق بہت وسیع، اُفقی اور عمودی ہے۔ ان کی تازہ ترین کتاب ’ادب کولاز‘ مقالات کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک آئینہ ادب نما ہے، انھوں نے اس کتاب میں عظیم ادیبوں، شاعروں، نقادوں، شاعری اور فکشن ہی نہیں بلکہ نامور مصوروں راجہ روی ورما اور صادقین کے لافانی آرٹ اور ان کے تخلیقی عوامل پر محققانہ بحث کی ہے، یہ ایسا موضوع ہے جس پر قلم اُٹھانا کسی بھی علمی ادبی قلم کار کے لیے کارِدارد ہے۔ فن مصوری سے پوری طرح آگاہ قلم کار ہی اس سے انصاف کرسکتا ہے۔ اس کتاب میں تانیثیت اور اُردو شاعری، شاعرات اور خواتین افسانہ نگاروں کے فن پر ناقدانہ تجزیات کے ساتھ ہی انھوں نے انسانی وژن اور تخلیقی نفسی حرکیات اور نسائی حسیت کے ابعاد پر جو کچھ سپردِ قلم کیا ہے وہ انھیں نسائی ادب ہی نہیں، نسوانیات کے ماہران کی صف میں کھڑا کرنے کے لیے کافی ہے۔ دراصل نسائیت اور تانیثیت ان کا نہایت پسندیدہ موضوع ہے، یہاں وہ ایک ناقد سے زیادہ ماہر نفسیات اور نسائی فطرت و جلبت کے نباض کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں۔
ان کی کتاب ’طوافِ دشتِ جنوں‘ میں شامل ان کے ایک مقالے ’خوابوں کے کن رہزنوں سے سراغ پوچھیں‘ میں اداؔ جعفری کی خودنوشت ’جو رہی سو بے خبری رہی‘ پر جس نہج سے ناقدانہ نگاہ حقانی صاحب نے ڈالی ہے اس کا تجزیہ پروفیسر علیم اللہ حالیؔ نے تفصیل سے کیا ہے:
’’حقانی القاسمی نے ’جورہی سو بے خبری رہی‘ کا مطالعہ پیش کرتے ہوئے ایک طرف اپنی عالمانہ شخصیت کو خوب صورتی کے ساتھ اُجاگر کیا ہے تو دوسری طرف اس تحریر میں اس Involvement کا عکس بھی نظر آتا ہے جو خودنوشت پڑھتے ہوئے ایک مرد قاری محسوس کرتا ہے۔ یوں بھی نسائی رنگ کی پہچان کرنے اور کرانے میں حقانی القاسمی کے اظہار و بیان میں ایک پرکشش روانی پیدا ہوجاتی ہے۔ ایسے موقعوں پر ان کی تحریر، گرمیوں میں گھنیری چھاؤں اور سردیوں میں گلابی دھوپ کی طرح ہوجاتی ہے، ان کی تحریر میں ’راگ ملہار‘ جیسی نثر کی شگفتگی اور تازگی پیدا ہوجاتی ہے۔ اُردو شاعری کے نسائی رنگ کا جائزہ لیتے ہوئے حقانی اسی انہماک اور دل چسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں (چلی ہے تھام کے بادل کے ہاتھ کو خوشبو) انھوں نے کشورناہید، فہمیدہ ریاض، سارہ شگفتہ اور پروین شاکر کے شعری اظہارات کا مطالعہ کرتے ہوئے اس ذائقے کا عرفان دینا چاہا ہے جو ایک مرد خواتین کی اس نفسیات کو پڑھنے کی کوشش کرتا ہے جس میں جنسی ہیجان کی پردہ داری اور پردہ دری کے دوآتشہ کی کیفیت ہوتی ہے۔ ایک دوسرے مضمون ’تخلیق کے نفسیاتی رنگ‘ میں بھی حقانی نسائی نفسیات کی پے چیدہ تہوں تک پہنچنے میں ایک مخصوص حظ محسوس کرتے ہیں، انھوں نے بڑی سچائی سے اس کیفیت کا اظہار کیا ہے۔ مجھے عورتوں کی آپ بیتیاں Fascinate کرتی ہیں اور ایسا لگتا ہے عورتوں کے باطنی مدوجزر میں جھانکنا ان کی تنہائیوں، اُداسیوں اور درد کے ساتھ ساعتیں گزارنا۔‘‘ حقانی کی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے وسیع تر مطالعات کو اتنے خوب صورت سیاق و سباق میں پیش کرتے ہیں کہ کہیں پر علم کے بےجا اظہار کا شائبہ نہیں ہوتا۔ نسائی آپ بیتیوں کے رنگ و آہنگ اور ان کی دل کشی کا ماجرا بیان کرتے ہوئے وہ ’رسیدی ٹکٹ‘ (امرتا پریتم)، ’بری عورت کی کتھا‘ (کشورناہید)، ’ڈگر سے ہٹ کر‘ (سعیدہ احمد)، ’جو رہی سو بے خبری رہی‘ (ادا جعفری)، ’خانہ بدوش‘ (اجیت کور)، ’جو کہا نہیں گیا‘ (نفیس بانو شمع) وغیرہ کا ذکر بھی کرتے ہیں، گویا وہ اپنے موضوع کو وسیع تر اسلوب میں پیش کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ اس ضمن میں فارسی شاعرہ فروغ فرح زاد، تسلیمہ نسرین، تہمینہ دُرّانی اور Isadoradunaca کا ذکر بھی آجاتا ہے۔ حقانی کی تحریر کی جامعیت اور اس کا Exhaustiveness ہر باشعور قاری کو متاثر کرتا ہے۔ حقانی القاسمی بدن کی جمالیات کے کامیاب وکیل ہیں، اس میدان میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔‘‘
(حقانی القاسمی کا اندازِ نقد، طوافِ دشت جنوں کی روشنی میں)
یہ ایک ادبی حقیقت ہے کہ حقانی القاسمی آزادیِ نسواں کے شدت کے ساتھ حمایت کرنے والوں میں سے ہیں۔ فارسی کی معروف شاعرہ فروغ فرح زاد کی نظم سرکشی کے تنقیدی جائزے میں ان کے یہ نظریات آزادیِ نسواں کے تئیں ان کے وسیع نظریے اور روشن خیالی کا واضح اظہار ہیں۔
جاگیردارانہ مردانہ مذہبی نظام میں عورت ’متاعِ حقیر‘ ہی رہی۔ وہ مردوں کی ملکیت اور جائدادِ منقولہ ہی رہی اور کبھی کبھی تو اجتماعی ملکیت قرار پاتی تھی۔ اس کی خرید و فروخت ہوتی تھی، دخترکشی کا رواج تو ایک زمانے تک رہا جس کا واضح مطلب ہے کہ بیٹی باپ کی ملکیت ہے۔ وہ جس طرح چاہے اسے فروخت کرسکتا ہے۔ پچاس مثقال چاندی میں لڑکی کو فروخت کردینا تو ایک دستور رہا ہے۔ یدھشٹر کا دریودھن سے جوا کھیلتے ہوئے اپنی بیوی دروپدی کو داؤ پر لگا دینا بھی اس حقیقت کا اشارہ ہے کہ بیوی ملکیت اور جائداد سمجھی جاتی تھی۔ اس کی کوئی آزادانہ حیثیت نہیں تھی، اس کی ساری توانائیاں خانگی امور میں صرف ہوتی رہیں، اس کا تخلیقی تفاعل صرف Maternity تک محدود رہا۔ سماجی ارتباط کی ساری راہیں بند تھیں۔ تعلیم سے محرومی اور جہالت کے زور نے عورت کے وجود کو اور بھی خستہ اور شکستہ کردیا۔ اس شکستگی اور خستگی نے عورتوں کے وجود میں ایک اضطراب پیدا کیا اور یہی اضطراب آگے چل کر آزادیِ نسواں کے سیلِ بلا میں بدل گیا۔ اب منظرنامہ تھوڑا بدلا ہے اور چیخ و پکار نے عورت کو آزادی بھی عطا کردی ہے۔ ہمارے عہد کی عورت گو کہ مکمل طور سے خودمختار نہیں ہے، مگر ایک بڑا حصہ آزادی کی آسائشوں سے لطف اندوز ہورہا ہے۔ گویا نسائی وجود کے مسئلہ کو اب تغیر زماں و مکاں کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ نسائی وجود کے عروج و زوال کو بھی قوموں، مذہبی زبانوں، ملکوں اور انسانی تاریخ سے مربوط کرکے دیکھیں تو صورتِ حال کچھ زیادہ ناگفتہ بہ نظر نہیں آئے گی۔ سارا منظرنامہ نظام کی دین ہے اور نظام بدلتے ہیں تو قدریں بدل جاتی ہیں۔‘‘ (نسائی وژن اور تخلیقی نفسی حرکیات، ادب کولاز، ص217)
حقانی القاسمی کے تنقیدی مقالات بہت طویل نہیں، لیکن ہر مقالہ اس قدر جامع اور مکمل ہے کہ ایک مبسوط کتاب کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ میری نہیں بہت سے زعمائے ادب کی رائے ہے۔
ڈاکٹر شکیل الرحمن نے نہ صرف ہندستان بلکہ دُنیا کی بیش تر اقوام کی جمالیات پر ایسے عظیم الشان تحقیقی کارنامے انجام دیے ہیں جو اُردو ہی نہیں دُنیا کی کسی بھی زبان میں اس کی نظیر موجود نہیں ہے۔ وہ اتفاق رائے سے واحد اور منفرد ماہر جمالیات تسلیم کیے جاتے ہیں۔ شکیل الرحمن کا جمالیاتی وجدان، لکھ کر حقانی نے خود کو عالمی سطح کے جمالیاتی محقق و مبصر کا مقام حاصل کرلیا ہے۔
حقانی القاسمی کا دائرۂ فکروفن نقد و تحقیق تک محدود نہیں ہے، ان کی تخلیقی فتوحات کا دائرہ کتنا وسیع و عریض ہے اس کا زندہ ثبوت ان کی معرکۃ الآرا تصنیف ’رینو کے شہر میں‘ ایک ایسا شاہ کار ہے جو خود مصنف کے جذبات و احساسات کا آئینہ ہے۔ اپنی مٹی اور اپنی جڑوں سے انسانی روح کی وابستگی اور محبت کی آفاقی دستاویز ہے جب کہ یہ خود ان کے وطن ارریہ (پورنیہ، بہار) کا ایک سفرنامہ ہے۔ ریاست بہار کا یہ خطۂ ارض ہندی بھاشا کے عظیم ناول نگار پھنیشور ناتھ رینو کا بھی وطن ہے جو حقانی کے والد کے دوست بھی تھے۔ حقانی نے اپنی تمام تر تخلیقی روحانیت کے ساتھ مردم خیز ضلع ارریہ کی عظمتوں کو اُردو دُنیا سے متعارف کرایا ہے، جہاں آج بھی علم و ادب اور شعرو سخن کے چرچے ہیں۔ یہ کتاب بہ ظاہر ایک رپورتاژ کہی جاسکتی ہے لیکن یہ بیک وقت ایک سفرنامہ، ایک خوب صورت جذباتی ناول، اس قدیم علاقے کی تاریخی و تہذیبی جغرافیائی دستاویز کے ساتھ ساتھ وہاں کے اُردو، ہندی اور مقامی بولی کے ادیبوں اور شاعروں کا تذکرہ بھی ہے، لیکن ان سب سے الگ یہ مادرِ وطن کی دھرتی سے فطری جذباتی لگاؤ اور بے گھر ہوجانے کے کرب کو درشاتی ایسی داستان ہے جس کا پھیلاؤ ارریہ یا بہار تک محدود نہیں رہتا بلکہ یہ دنیا کے ہر اس انسان کی سرگزشت بن جاتا ہے جسے وقت نے اپنی مٹی کے لمس سے محروم کردیا ہو۔ حقانی کے کارناموں کی فہرست خاصی طویل ہے لیکن ان کے بارے میں جاننے سے پہلے ضروری ہے کہ کاروانِ ادب کے اس صبا رفتار مسافر کی نجی زندگی اور اس کے تاریخ ساز علمی سفر کے بارے میں جان لیا جائے۔
حقانی القاسمی (عبدالحق) 15جولائی (اسکول سرٹیفکیٹ میں 6جنوری) 1970 کو موضع بگڈہرا، ضلع ارریہ (سابق پورنیہ، بہار) کے ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے، ان کے والد عبدالصمد صاحب پہلے ٹیچر اور بعد میں محکمہ ڈاک میں اورسیئر رہنے کے بعد اب ریٹائر ہوچکے ہیں۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے اسکول میں حاصل کی، اس کے بعد جامعہ اسلامیہ بنارس میں داخل کرائے گئے۔ 1984ء سے دارالعلوم دیوبند میں دو سال رہ کر دستارِ فضیلت سے سرفراز ہوئے۔ 1986ء میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی آگئے اور دو سال گزارنے کے بعد اس عظیم درس گاہ سے ایم اے اور ایم فل سے آراستہ ہوئے۔ پی ایچ ڈی بھی کرلیتے لیکن بوجوہ یہ کوشش پوری نہ ہوسکی۔ 1996ء میں دہلی آئے۔ ادب و صحافت کے میدان میں کچھ کر دِکھانے کی اُمنگ ہلکورے لے رہی تھی۔ صحافت کے سفر کا پہلا پڑاؤ آج کے سینئر کانگریس لیڈر اور صحافی جناب م۔ افضل کا مقبول عام ہفت روزہ ’اخبارِ نو‘ تھا، اس کے بعد شاہد صدیقی صاحب کے شہرۂ آفاق ہفت روزہ ’نئی دُنیا‘ پہنچ گئے جہاں ڈیڑھ سال تک صحافت کے گرہی نہیں سیکھے بلکہ ان کا قلم بھی اپنے جلوے دِکھانے لگا۔ ’نئی دُنیا‘ میں ’تکلف برطرف‘ کے عنوان سے سیاسی، تہذیبی اور علمی موضوعات پر جو کالم لکھے وہ ان کی ذہنی وسعت اور علمی بصیرت کا پہلا ثبوت بن گئے۔ اُرو کے ممتاز کالم نویس کے طور پر ملک بھر میں مشہور ہوگئے۔ ’نئی دُنیا‘ میں لکھے گئے ان کے کالموں کا مجموعہ ’تکلف برطرف‘ 2005ء میں شائع ہوچکا ہے۔ پروفیسر وہاب اشرفی نے ان کی کالم نویسی کے بارے میں لکھا ہے:
’’حقانی القاسمی کالم نویسی بھی کرتے رہے ہیں، ’تکلف برطرف‘ کے عنوان سے ان کے کالم دل چسپی سے پڑھے جاتے ہیں، موصوف کا وصف ان کا خاص اسٹائل ہے۔ ان کی نثر میں بڑی جان اور تمکنت ہے۔ فارسی اور عربی پر دسترس ان کے اسلوب کو نکھار دیتی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ان کی نثر کا جو امتیاز ہے وہ کسی تقلید پر مبنی نہیں بلکہ اس میں ان کی انفرادیت ہے۔‘‘ (تاریخ ادب اردو)
معروف ادیب اور ناقد ڈاکٹر سیّد احمد قادری کا خیال مبنی بر حقیقت ہے کہ ’’حقانی القاسمی کا جو تنقیدی مزاج اور آہنگ ہے اور صحافت میں جو گہرائی اور گیرائی ہے اس سے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ حقانی القاسمی دراصل کس صنف میں قابلِ قدر ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کا فن خواہ وہ تنقید میں ہو یا صحافت میں منفرد اور اعلا ہے۔ ادب اور صحافت کے امتزاج سے دونوں میں خاص کیفیت پیدا ہوتی ہے، انھوں نے اپنے صحافتی سفر میں ہفتہ وار ’اخبارِنو‘ دہلی اور ہفتہ وار ’نئی دُنیا‘ دہلی جیسے مقبول اخبارات میں بھی تجربات حاصل کیے اور صحافتی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا۔‘‘ (اُردو صحافی بہار کے)
2003ء میں صلاح الدین پرویزنے اپنے تاریخ ساز ادبی جریدہ ’استعارہ‘ کی بنیاد ڈالی تو ادارت کے لیے حقانی القاسمی سب سے بہتر لگے۔ ’استعارہ‘ کے وہ بانی ایڈیٹر تھے لیکن یہ سب جانتے ہیں کہ ہندستان میں تب تک کا سب سے ضخیم اور سب سے منفرد ادبی جریدہ از اوّل تا آخر حقانی القاسمی کے جادونگار قلم کی کرشمہ سازی اور غیرمعمولی صحافتی بصیرت کا مرقع تھا۔ ’استعارہ‘ پوری اُردو دُنیا میں مشہور ہوا، اس کے ساتھ ہی حقانی کے تنقیدی جوہر بھی ادبی منظرنامے پر اُبھرے ہی نہیں عالمی فضائے ادب پر چھا گئے۔ اولوالعزم صلاح الدین پرویز کی تلون مزاجی اور ان کی علالت کی وجہ سے ’استعارہ‘ لمبی عمر نہیں پاسکا، حقانی القاسمی کی ادارت میں نکلنے والے اس کے صرف 24 شمارے اہم ادبی دستاویز کی صورت میں ناقابل فراموش بن گئے۔ لیکن ’استعارہ‘ بھی ان کی صحافتی سفر کا ایک پڑاؤ تھا۔ 2007ء میں وہ سہارا سے وابستہ ہوئے اور اس ادارے کے ماہنامہ ’بزمِ سہارا‘ کی ادارت سنبھالی تو اُردو کی معیاری علمی ادبی اور تہذیبی صحافت کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ یہ اُردو کا پہلا بین الاقوامی جریدہ تھا۔ عزیز برنی جیسے وژنری صحافی کے خوابوں کی تعبیر اور سہارا کمپنی کی اُردو پسندی کے جلو میں حقانی القاسمی کی صحافتی مہارت اور ان کی جدت طراز تخلیقیت نے ’بزمِ سہارا‘ کو اُردو دُنیا کا ممتاز ترین جریدہ بنا دیا۔ حقانی القاسمی نے اس عظیم الشان جریدے میں اُردو زبان اور تہذیب کے فروغ کے لیے نئے نئے اور کامیاب تجربے کیے۔ انھوں نے شہرِ سخن، جہانِ دانش جیسے سلسلوں کے ذریعے ملک کے متعدد شہروں اور قصبات میں اُردو شاعروں، ادیبوں، اسکولوں، کالجوں اور ثقافتی ادبی انجمنوں کی صورتِ حال اور سرگرمیوں کا بھرپور جائزہ پیش کیا۔ پانچ سال کے عرصہ میں ’بزمِ سہارا‘ نے علم و اب کے فروغ کی جو رنگارنگ تاریخ بنائی اس کے بارے میں مزید تفصیل کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ یہ ابھی کل کی سی بات ہے اور ملک و بیرونِ ملک کے باذوق قارئین کے ذہنوں میں ’بزمِ سہارا‘ کی یادیں تازہ ہیں۔ یہ تاریخ ساز جریدہ بڑی لمبی عمر پاتا اگر عزیز برنی سہارا کی ملازمت سے الگ نہ ہوگئے ہوتے۔ ان کے بعد جو شخص ایڈیٹر کے منصب پر مقرر ہوا، اس کی نظر میں ادب اور تہذیب و ثقافت بے معنی تھے، وہ صرف سیاست کو ہی صحافت سمجھتا تھا، اس نے ’بزمِ سہارا‘ کو فضول خرچی قرار دیتے ہوئے اسے بند کرنے پر کمپنی کو راضی کرلیا۔ جریدہ کے کارکنوں کو ایک ایک کرکے نکال باہر کرایا۔ یہی نہیں اس نے ہندستان کے اس سب سے بڑے میڈیا ہاؤس میں کام کرنے والے لائق و فائق صحافیوں کو بے روزگار بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس شخص کی ادب دشمنی کی انتہا یہ ہے کہ اس نے ملک گیر روزنامہ میں اُردو ادب اور شعروسخن سے متعلق مواد چھاپنا بھی بند کرادیا، جس سے مقبولِ عام اخبار کی مقبولیت کو بہت نقصان پہنچا۔ لیکن کچھ دیر سے سہی کمپنی کو اس کا احساس ہوگیا اور اس اُردو مخالف اُردو صحافی کو بھی عرش سے فرش پر گرنے کا ذائقہ چکھنا پڑا۔
’بزمِ سہارا‘ سے الگ ہونے پر حقانی القاسمی کو سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا ہوگا، لیکن اس کا اثر اس لیے بہت معمولی تھا کہ انھوں نے بہت پہلے ہی اپنے لیے دُنیوی اور مادّی کامیابیوں اور حصولیابیوں کا راستہ چھوڑ کر ادب کا خارزار پسند کیا تھا۔ اس راہ پر آگے بڑھتے ہوئے انھیں بار بار ایسی آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا ہے جن کے عادی ہیں۔ علم و ادب کی محبت نے انھیں بے یقینی کے عالم میں محنت و مشقت، توکل و قناعت کی شان کے ساتھ زندگی کرنا اور ہر حال میں خوش و خرم رہ کر پرورشِ لوح و قلم میں مشغول رہنا سکھا دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ حالات کی آندھیاں اُردو کے اس عالی مرتبت درویشِ خدا مست کا کیا بگاڑ سکتی ہیں؟
حقانی القاسمی کی مرنجاں مرنج شخصیت کے بارے میں وہ تمام لوگ جانتے ہیں کہ وہ سادہ لوح، سادہ مزاج، خوش اخلاق، ملنسار اور سیدھے سچے مسلمان ہیں۔ عالم دین ہیں، سو حقوق العباد کے رمز سے آگاہ ہیں، ادب و صحافت کے موجودہ بے راہ رو ماحول میں رہ کر بھی خودنمائی، مکروریا، غیبت، کذب و افترا اور دل آزاری سے اتنی دوری ہے کہ کسی کونے سے آج کی دُنیا کے آدمی نہیں لگتے۔ دل داری، تواضع اور نرم گفتاری مزاج کا حصہ ہیں۔ دلّی کی بزم آرائیوں میں دو دہائیوں سے زیاہ گزار چکے ہیں مگر کسی نے ان کی زبان سے کسی کے لیے حرفِ زشت شاید ہی سنا ہو۔ دوستوں کے لیے سراپا محبت اور اپنے بیوی بچوں پر جان چھڑکنے والے ذمہ دار سرپرست ہیں۔ قدرت نے مختصر سا جسم عطا کیا ہے لیکن ذہنی قدوقامت اتنی بلند کہ سر اُٹھا کر دیکھنے والوں کی ٹوپیاں گرجائیں۔ تو یہ ہیں حقانی القاسمی، جنھیں میں بس اتنا ہی کچھ جان سکا ہوں۔
حقانی القاسمی کی یہ تحریر پڑھیں:فریاد آزرؔ : تخلیقی اڑان کے نئے زاویے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے