اردو کا ماضی اور اس کی موجودہ صورتِ حال!

اردو کا ماضی اور اس کی موجودہ صورتِ حال!

اظہار خضر
رابطہ: 9771954313

علی جواد زیدی ”اردو میں قومی شاعری کے سو ١٠٠ سال“ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں:
”اردو زبان کو سلطنت کا سہارا اس لیے نہ مل سکا کہ درباروں کی زبان فارسی تھی۔ مذہب کے وہ مراکز جو سلطنت سے قریب تھے وہ زیادہ تر تنگ نظر اور متعصّب تھے۔ ان کو اردو سے نفرت ہی رہی۔ البتہ خانقاہیں اردو کو پالتی رہیں۔ اردو کو ان خانقاہوں سے کوئی مالی امداد نہیں ملتی تھی۔“
اس اقتباس کوپیش کرنے کا مدّعا و منشا صرف اتنا ہے کہ اردو کو کبھی بھی درباروں کی سرپرستی حاصل نہیں رہی۔ اس کے خمیر میں ہندستان کا مشترکہ کلچر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ اس کے لسانی مزاج کی آزادانہ روی کسی کی بالا دستی اور سرپرستی کو قبول ہی نہیں کرسکتی۔ قلعے میں شاہ ظفرؔ کی لڑکھڑاتی اور ڈگمگاتی سرپرستی میں استاد ذوق اور غالب ؔ کی موجودگی محض ایک قسم کی تمنائے باریابی کے سوا کچھ نہ تھی۔ اردو تو اس سے قبل ہی پھل پھول چکی تھی۔ اس کے پودے میں برگ و بار قلعے سے باہر ایک آزاد فضا میں نمو پا چکے تھے۔ غالبؔ کو دربار کی بے اثری اور مجبوری کا اندازہ ہوچکا تھا۔ دہلی کی شہنشاہی لال قلعہ تک محدود تھی اور قلعہ کے باہر برطانوی اقتدار کا پرچم لہرا رہا تھا۔ آخر کار یہ شمع سحر بھی ١٨٥٧ء کی ہولناکیوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی!
داغِ فراقِ صحبتِ شب کی جلی ہوئی
اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے
یہ شعر دربار کی سرپرستی کا زائیدہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ شعر تو اردو کے آزادانہ لسانی مزاج کی وہ داخلی قوت و صلاحیت ہے جو غالب ؔ جیسے عظیم شاعر کے رگ و ریشے میں زندہ لہو بن کر دوڑ رہی تھی۔
اردو زبان اور اس کے ادب کے فروغ کی اس سے بڑی روشن مثال اور کیا ہوسکتی ہے کہ دنیا کی زبانوں میں شاعری کے سات عجوبے تخلیقی فن کار ہیں ان میں ایک نام غالبؔ کا بھی ہے۔ علمائے علم و فن نے یہ گریڈنگ متفقہ طورپر کی ہے! عرض یہ کرنا ہے کہ اردو صوفیوں، سنتوں، امرا، شرفا اور رؤسا کی زبان تو تھی ہی۔ مزدروں، معماروں، کام گاروں اور محنت کشوں کی زبان بھی تھی۔ لال قلعہ اور جامع مسجد کی تعمیر کا کام جب شروع ہوا تو معماروں، کاریگروں اور مال خرید و فروخت کرنے والے تاجروں کا گروہ اس علاقے میں رہنے لگا جسے آج ہم اردو بازار کہتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی ضرورتوں اور لین دین کے لیے جن بولیوں کا استعمال کرتے تھے، اردو انہی بولیوں کا ایک خوب صورت مرقع ہے۔ اردو کا Cosmopolitan کلچر ہی اس کی مقبولیت اور فروغ کا سبب بنا۔ ممکن ہے کہ آپ میری اس گفتگو کو ماضی گرفتگی پر محمول کریں لیکن نشانِ خاطر رہے کہ ماضی کی عظمتوں کے آئینہ میں، اگر آپ کے اندر حال کو سجانے اور سنوارنے کی چاہت اور للک ہو، ساتھ ہی مستقبل کے لیے ایک لائحہ عمل مرتب کرسکیں تو ممکن ہے کہ آپ کی تہذیبی، سماجی اور سیاسی بصیرت و آگہی میں مزید نکھار پیدا ہو۔
مذکورہ اقتباس میں علی جواد زیدی صاحب نے اردو کے فروغ و ارتقا میں اس عہد کی خانقاہوں کی خدمات کا اعتراف و اقرار کرکے اس کے روادارانہ مزاج کی نشان دہی کی ہے۔ واقعتاً خانقاہیں رواداری اورہم آہنگی کے مراکز تھیں۔ ان خانقاہوں کی چوکھٹوں پر شاہان وقت کی سجدہ ریزیوں کے ساتھ ساتھ بلا امتیاز مذہب و فرقہ عوام و خواص کا عقیدت مدانہ ہجوم رواداری، خیرسگالی اور ہم آہنگی کی روشن علامت ہے!
ان خانقاہوں کے پیران طریقت اور بزرگان سَلْف نے تبلیغ و اشاعت کے لیے جس قسم کی بولیوں کا انتخاب کیا وہ اردو زبان کے فروغ و ارتقا میں سنگ میل ثابت ہوئیں۔ ان کے ملفوظات اور مکتوبات کا مطالعہ کیجیے۔ اندازہ ہوگا کہ بولیاں کس طرح زبان کا درجہ اختیار کرتی ہیں۔ کہنا یہ ہے کہ اردو کے آزادانہ لسانی مزاج نے خود بہ خود ضرورتوں کے پیش نظر اپنی کھپت کے علاقے تلاش کر لیے۔ اور یہ صرف خانقاہوں پر ہی موقوف نہیں ہے۔ ہر ان عوامی اداروں میں اردو پھلتی پھولتی رہی جہاں لوگوں نے اس کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ زبان کا فروغ و ارتقا اسی طرح ہوتا ہے۔ زبان اقتدار کی بھوکی نہیں ہوتی ہے۔ زبان تو دلوں میں جگہ بناتی ہے بالخصوص اردو زبان تو دلوں کو جوڑنے والی زبان ہے ؎
اس کے فروغِ حُسن سے جھمکے ہے سب میں نور
شمعِ حرم ہو یا کہ دیا سومنات کا!
اب یہ دیکھیے کہ صدیوں کو محیط اردو زبان کا یہ تدریجی ارتقائی سفر جب اپنی انتہائی منزل پر پہنچتا ہے تو اس نے پھر ایک بار اپنی کھپت کے لیے ایک زرخیز علاقے کی تلاش کرلی۔
مطلب یہ کہ بولی جب زبان کی صورت اختیار کر لیتی ہے تو اس کے اظہار کے لیے تحریری سرمایے کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ تحریری سرمایہ زبان کا لٹریچر ہوتا ہے۔ کسی بھی زبان کی ثروت مندی کا انحصار اس کے لٹریچر پر ہے۔ لٹریچر کا ذخیرہ جتنا وسیع ہوگا، زبان کی مقبولیت اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ اچھے ہی لٹریچر ہوں، پست معیار کے بھی ہوسکتے ہیں۔ دونوں ہی صورتوں میں لٹریچر کے توسط سے زبان پڑھی جاتی ہے اور اس کی ترویج و اشاعت بھی ہوتی ہے۔ جملۂ معترضہ کے طورپر یہ بھی سن لیجیے کہ احمد صدیقی مجنوں گورکھ پوری نے لٹریچر کے سلسلے میں کتنی پتے کی بات کہی ہے ؎اپنے مضمون ”نیا ادب کیا ہے“ میں مجنوں صاحب لکھتے ہیں:
”ادب کے معنیٰ ہیں سب سے مل جُل کر رہنے کا سلیقہ۔اور ادب یعنی لٹریچر اسی سلیقے کا غیر شعوری نتیجہ ہوتا ہے۔ سنسکرت اور ہندی میں ادب کو ”ساہتیہ“ کہتے ہیں۔ جس کے لفظی معنیٰ ہیں سب کے ساتھ مل کر رہنا۔“
یہ ہے کسی بھی زبان کے لٹریچر کی اہمیت و افادیت! اردو زبان کے لٹریچر نے بھی سب کے ساتھ مل جل کر رہنے کا سلیقہ سمجھایا اور بتایا ہے۔ اور وقت و حالات کے تقاضوں اور مطالبوں کے پیش نظر اپنے لٹریچر کو ثروت مند بھی بنایاہے! مزید یہ کہ لٹریچر سے مراد محض تصوراتی اور تخیلاتی ادب نہیں ہے۔ بلکہ سماجی، سیاسی، تاریخی، مذہبی اور صحافتی موضوعات کے حوالے سے لکھی جانے والی سبھی تحریریں متعلقہ زبان کا لٹریچر کہلاتی ہیں۔ اتنا ہی نہیں دوا، موٹر کار اور سائیکل بنانے والی کمپنیوں کے بھی اپنے اپنے لٹریچر ہوتے ہیں۔ یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ ایک زمانہ تھا جب سائیکل کمپنیاں اپنی سائیکلوں کا لٹریچر اردو زبان میں بھی دستیاب کراتی تھیں۔ ان کمپنیوں کے مالکان جانتے تھے کہ ملک کی ایک بڑی آبادی اردو زبان بولتی اور پڑھتی ہے۔ اس زمانے کے اردو کے رسالوں میں ہندستان لیور لمیٹڈ اور ملک کی دیگر کمپنیوں کے اشتہارات اردو زبان میں بہ غرض اشاعت آیا کرتے تھے۔ ترجمہ کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ اتنا ہی نہیں ان اشتہارات کے رانگے کے بنے بلاک بھی اردو میں آیا کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کے کام اگر ہوں گے تو اردو جاننے والوں کی کھپت تو ہوگی ہی۔ اردو زبان کے فروغ و ارتقا میں ہم اس عہد کے اپنے بزرگ قائدین اردو کی بے لوث خدمات کو سلام کرتے ہیں جنھوں نے بڑی ہی بے سروسامانی اور بے گھری کے عالم میں اردو زبان کے تحفظ و بقا کی لڑائیاں لڑیں۔ اور اس کے چراغ کو بجھنے نہیں دیا!
آزادی کے بعد ہمارے قائدین اردو کے سامنے زبان کا تحفظ و بقا ایک بڑے چیلنج کی صورت میں ابھر کر سامنے آیا۔ ان بزرگوں نے ہواؤں کے تیز جھکڑ کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے بلکہ سینہ سپر ہو کر ان کا مقابلہ کیا۔ آندھیوں اور طوفان کا جب زور تھما تو خنک و لطیف ہواؤں کا کچھ کچھ احساس ہونے لگا، ایک مانوس لسانی ماحول دیکھنے کو ملا۔
آج ملک میں اردو زبان کی جو موجودہ صورت حال ہے اور اس کے فروغ و ارتقا کی سمت جو کچھ بھی کوششیں ہورہی ہیں وہ سب ان قائدین اردو کی رہین منت ہیں۔ منزل تک پہنچنے کے لیے ان بزرگوں نے راستوں کے نشانات طے کر دیے ہیں۔ آپ انہی نشانات پر چلتے رہیں تو منزل بہر صورت مل ہی جائے گی!
ہاں تو گفتگو ہورہی تھی کہ زبان کی ثروت مندی کا انحصار اس کے لٹریچر پر ہے۔ لٹریچر جتنا وقیع ہوگا زبان کا فروغ اسی Quantum میں ہوگا۔ آج اردو زبان میں ایسا کوئی موضوع نہیں ہے جس پر کتابیں نہ ہوں۔ موضوعات کے اس تنوّع اور اس کے تکثیری مزاج کے حوالے سے قیوم خضر نے اپنی کتاب ”اردو اور قومی ایکتا“ میں جو فکر انگیز اور بصیرت افروز گفتگو کی ہے وہ بھی سن لیجیے:
”اگر ہندوستان کی تمام تاریخی کتابیں ختم کردی جائیں نیز تمام تحریکات کے تذکرے گم کر دیے جائیں اور صرف اردو لٹریچر باقی رہ جائے تو آپ ہندستان کی عہد بہ عہد کی مسلسل تاریخی کڑیوں کو جوڑسکتے ہیں۔ اور آپ کو صرف اردو کے ذریعہ ہندستان کی مکمل تاریخ کی آگاہی ہوسکتی ہے۔“
جاں نثار اختر ؔ نے اپنی مرتب کردہ کتاب ”ہندوستان ہمارا“ (اردو زبان کی قومی نظموں کا انتخاب جلد اوّل: مطبوعہ ١٩٧٣ء) اور ملک کے مستند و معتبر صحافی اور کالم نگار خواجہ احمد عباس نے بلِٹز کے ١٩/جولائی ١٩٧٥ء کے کالم میں اس اقتباس کو Quote کرتے ہوئے اردو کے ہمہ گیر لسانی منظر نامہ کا کھُل کر اعتراف و اقرار کیاہے!
ممکن ہے کہ آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہورہا ہوکہ جب زبان کا جاننے والا ہی نہیں رہے گا تو اس کے لٹریچر کو کون پڑھے گا؟ یہ سوال بڑا اہم ہے کیونکہ اس میں زبان کے تحفظ و بقا کا مسئلہ پوشیدہ ہے۔ لیکن اس سلسلے میں خاکسار کا موقف بڑا ہی واضح ہے۔ میں اردو زبان کے تحفظ و بقا کے سلسلے میں بڑا ہی رجائیت پسند (Optimist) واقع ہوا ہوں۔ میرا ماننا ہے کہ زبانیں اتنی آسانی سے اپنی طبعی موت سے ہم کنار نہیں ہوتی ہیں۔ البتہ بعض زبانیں کلاسک کا درجہ اختیار کرلیتی ہیں۔ جیسے ہندستان میں سنسکرت اور فارسی۔ لیکن اس کی حوالہ جاتی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یہ دونوں زبانیں ہندی اور اردو کے Parent Language کی حیثیت سے آج بھی کسی نہ کسی صورت میں زندہ ہیں۔ لیکن حالیہ اخباری رپورٹ کے مطابق گوا کی کوکن زبان آج مردہ ہوگئی۔ لیکن موت و زیست کے اس عمل میں صدیاں گزرگئیں۔ آج گوا کی مادری زبان انگریزی ہے!
لیکن اردو کے ساتھ معاملہ ایسا نہیں ہے۔ یہ زبان اگر آج بھی زندہ ہے تو صرف اس لیے کہ اس کی شناخت مذہبی، تہذیبی اور ثقافتی روایات و اقدار کی بنیاد پر ہے۔ اردو آج بھی اپنی تہذیب اپنی ثقافت سے رشتہ استوار کیے ہوئی ہے۔ ملک کی ایک بڑی آبادی کی نمائندگی یہ زبان کررہی ہے!
پورے ملک میں اردو کے کسی بھی کتب فروش کی دکان پر چلے جائیں آپ دیکھیں گے کہ بنڈل کے بنڈل دینیات کی کتابوں کی پیکنگ ہورہی ہے۔ خوش ہوتا ہوں کہ چلو دینیات کی کتابیں ہی سہی، اردو زبان میں کتابیں فروخت تو ہورہی ہیں اور اس طرح زبان کا فروغ بھی ہو رہا ہے۔ اردو آبادی کا ایک بڑا حلقہ آج بھی مذہبی اور دینی کتابوں میں دل چسپی رکھتا ہے۔ اس کی وجہ خواہ مدارس کا نیٹ ورک ہو یا مذہب پسندی ہو۔ دیگر علوم و فنون سے قطع نظر اردو زبان میں مذہبی اور دینی کتابوں کا ایک بڑا ہی وقیع اور قابل قدر سرمایہ موجود ہے۔ سیرت کی کتابوں سے لے کر آموختہ تک کی کتابیں اردو میں موجود ہیں۔ یہ کام رضاکارانہ طور پر پورے ملک میں ہورہا ہے اور زبان کے توسط سے چھوٹے پیمانے پر ہی سہی ایک منافع بخش کاروبار میں لوگ لگے ہوئے ہیں۔ یہ اردو زبان کے فروغ اور اس کے عملی نفاذ کی ایک روشن مثال ہے! یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ آج بھی یورپ میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب انجیل مقدس ہے۔ یہ دنیا کی سب سے ذہین اور ترقی یافتہ Caucasian نسل کی سماجی اور تہذیبی زندگی کا فکر و رجحان ہے!
اتنا ہی نہیں اگر رامائن، مہابھارت، گیتا اور وید مقدّس جیسی مذہبی کتابیں وجود میں نہ آتیں تو آج ہندی زبان اور اس کے ادب کی کچھ دوسری ہی صورت حال ہوتی۔ ان مقدّس کتابوں نے ہندی زبان اور اس کے ادب کے فروغ کے لیے ایک ٹھوس بنیاد فراہم کیا!
ہمیں Faculty اور موضوعات کی بنیاد پر اردو زبان کے ریڈرس کے حلقہ کی پہچان کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ جہاں زیادہ سے زیادہ زبان کی گھریلو کھپت کے امکانات کو نشان زد کیا جاسکے۔ بغیر کسی ذہنی تحفظات کے!
اب رہی بات اردو اخبارات کی، یہ تو عوام وخواص دونوں ہی میں مقبول ہیں اور ان کی ضرورت بھی ہے۔ صبح کی چائے کے ساتھ اخبارات کا مطالعہ لازمی ہے۔ اخبارات اردو معاشرے کی تشکیل میں اہم رول ادا کر رہے ہیں۔ اس کے توسط سے زبان کا فروغ ہوتاہے اور زبان کی سمجھ بھی پیدا ہوتی ہے۔ لیکن کتابوں کے ساتھ معاملہ دوسرا ہے۔ اس کے قاری کا طبقہ محدود و مخصوص ہوتا ہے۔ دل چسپی اور رجحان کی بنیاد پر الگ الگ موضوعات کے لیے الگ الگ قاری ہوتے ہیں۔ لیکن دونوں ہی صورتوں میں آج بھی اردو زبان کے قاری کی ایک اچھی خاصی تعداد دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہ کام خود بہ خود ہورہاہے اور زبان اس فکر ورجحان کا ساتھ دے رہی ہے!
لیکن اس تلخ حقیقت کو بھی پیش نظر رکھیے کہ آج اردو ایک طبقۂ خاص کے درمیان سمٹ کر رہ گئی ہے یہ صورت حال اردو کے دانشوروں اور قلم کاروں کے لیے تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔ کیونکہ اس سے اس کے سیکولر کردار پر ایک سوالیہ نشان لگتا نظر آرہا ہے۔ اردو نے صرف فارسی سے ہی نہیں دوستی کی بلکہ ہندی، سنسکرت، انگریزی، پالی، پنجابی، ہریانی، ترکی، لاطینی، فرانسیسی، پرتگالی اور چینی زبانوں کے ساتھ بھی اس کی ہم نشینی رہی ہے۔ اس لیے خاکسار کا یہ ماننا ہے کہ اردو کا لسانی مزاج Cosmopolitan رہا ہے۔ خدا کرے کہ آج بھی یہ صورت حال برقرار رہے!
یادش بخیر، وہ بھی کیا زمانہ تھا جب میرؔ کے ساتھ منّو لال صفاؔ بھی نظر آتے تھے۔ جن کا یہ شعر تو آج بھی زبان زد خاص و عام ہے ؎
کہیں یہ سلیقہ تھا فطرت کو گل کاری میں
کوئی معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں
اتنا ہی نہیں غالب ؔ کے ساتھ مرزا ہر گوپال تفتہ، علامہ تاجور نجیب آبادی کی تربیت میں جگن ناتھ آزاد ؔ جیسی شخصیت پیدا ہوئی؟ پروفیسر خواجہ احمد فاروقی کی صحبت میں گوپی چند نارنگ جیسی عبقری ادبی شخصیت وجود میں آئی، پروفیسرگیان چند جین کی شاگردی میں پروفیسر حنیف نقوی جیسے محقق پیدا ہوئے۔ کاش کہ آج بھی مولوی مہیش پرشادؔ جیسا کوئی ماہر غالبیات پیدا ہوتا تو ہم سینہ تان کر ڈنکے کی چوٹ پر اردو کے سیکولر کردار پر مزید فخر کرتے۔ پھر بھی خاکسار اردو زبان کے تئیں مایوسی کا شکار نہیں ہے اور ہم اس بہتان تراشی کی پوری طاقت کے ساتھ مخالفت کرتے ہیں کہ اردو تنگ نظری اور تعصب کی زبان ہے، اردو غیر ملکی زبان ہے، اردو کے لسانی مزاج میں عسکریت رچی بسی ہوئی ہے۔ کیونکہ یہ لشکروں کی زبان تھی!
اردو وقت کی ایک مہر ہے جو تاریخ کے ماتھے پر لگادی گئی ہے۔ اردو متحدہ کلچر اور قومی یک جہتی کی علامت ہے۔ اردو اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہ ملک کی رنگ برنگ تہذیب، رنگ برنگ زبان اور رنگ برنگ علاقائی علامتوں کا ایک حسین گل دستہ ہے! پروفیسر گریرسن نے ”ہندوستان کے لسانیاتی سروے“ میں ١٧٩ بڑی زبانوں کا تذکرہ کیا ہے۔ ان میں اردو بھی شامل ہے۔ آج اردو ملک کی دوسری سب سے بڑی زبان ہے!
اردو زبان کے اس پروقار ارتقا کی کہانی کو یہیں پر ختم کرتا ہوں اور اب چند باتیں مختصراً اردو کے عملی نفاذ اور اس کے فروغ و ارتقا کے حوالے سے سن لیجیے! میرے نزدیک فی الوقت موجودہ صورت حال کے تناظر میں اردو کے عملی نفاذ کی دو صورتیں ہیں۔ ایک حکومت کی سطح سے اور دوسری خود اپنی سطح سے!
آج اردو کوحکومت کی جانب سے جو مراعات اور مالی امداد حاصل ہورہی ہیں وہ اظہر من الشمس ہیں۔ ہم اردو کے قلم کار حکومت کی اس سرپرستی اور خلوص نیتی کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، اردو اکادمیاں اور اردو ڈائرکٹوریٹ یہ سبھی ادارے اپنی اپنی سطح سے فروغ اردو کے لیے کام کررہے ہیں۔ اردو زبان کا ایک جانا پہچانا ماحول بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ حالانکہ یہ سفر کا پہلا پڑاؤ ہے منزل نہیں۔منزل سمجھ کر کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم حصولیابیوں کی خواب آور گولیوں کے شکار ہوجائیں! لہذا یہ بات ذہن نشیں رہے کہ حکومت کی سرپرستی اور نگرانی میں چل رہے یہ ادارے ایک طے شدہ ضابطوں اور قاعدے قانون کے تحت ہی کام کرتے ہیں۔ ان سے باہر وہ جاہی نہیں سکتے۔ اور پھر ان اداروں کے ذمّہ داران کے کچھ اپنے ذہنی تحفظات بھی ہوتے ہیں. ان کی اپنی سوچ بھی ہوتی ہے! نتیجہ یہ ہے ہوتا ہے[کہ] ان اداروں کی لسانی اور کلچرل سرگرمیاں اکثر و بیش تر ضابطہ بندی کی شکار ہو کر کلچر و ثقافت کی آزادانہ روی کو متاثر کرتی ہیں! لیکن یہ ان کی اپنی مجبوری ہے وہ کر بھی کیا سکتے ہیں!
لیکن دوسری صورت آپ کی اپنی محنتوں، کوششوں، چاہتوں اور لگن سے عبارت ہے. موجودہ صورت حال یہ ہے کہ آج اردو Elite Class (طبقۂ اشراف) کے گھروں سے غائب ہوتی جارہی ہے۔ البتہ یہ ان محلّوں اور علاقوں میں ضرور زندہ ہے جہاں آج بھی بجبجاتی نالیوں سے گھرے بوسیدہ اور سیلن زدہ مکانات قطار در قطار ہیں! کبھی کبھی ناچیز کا ان محلّوں سے گزر ہوتا ہے جہاں مکانات کے دروازوں پر میلے کچیلے پھٹے کپڑوں کے پردے لٹکے رہتے ہیں اور اندر سے ان بچیوں کی آوازیں سماعت سے ٹکراتی ہیں جو قرآن کریم کی تلاوت کے ساتھ محلّے کی استانی جی سے اردو کی پہلی، دوسری اور تیسری کتاب بھی پڑھتی نظر آتی ہیں! لونڈے تو گھر کے باہر کی گلی میں کنچے کھیلتے نظر آئے لیکن ان بچیوں کے انہماک کو دیکھ کر بے حد متاثر ہوا۔ الیاس احمدگدّی کے ناول”فائرایریا“ کا وہ مکالمہ بھی یاد آگیا ”الف، بے، پے۔ اماں مرغی لے دے“۔ دوسرے ہفتہ گھر کی بُوا کی معرفت نظیر اکبر آبادی اور مولوی اسمٰعیل میرٹھی کی عام فہم نظموں کی زیروکس کاپی ان بچیوں کے لیے بھیجوادی اور یہ تاکید کی کہ ان نظموں کو وہ ازبر یاد کرلیں۔ اس امید میں کہ شاید ان میں سے کوئی قرۃ العین حیدر کے ”اگلے جنم موہے بیٹا نہ کیجو“ کی مدقوق زدہ بہنیں رشکِ قمر عرف قمرُن اور جمیلن کی طرح یہ شعر گنگنانے لگیں!
سفر ہے دشوار، سفر ہے دشوار، خواب کب تک، بہت بڑی منزل عدم ہے
نسیم جاگو، نسیم جاگو، کمر کو باندھو، اٹھاؤ بستر کہ رات کم ہے
عرض یہ کرنا ہے کہ صوفی سنتوں کے بھکتی گیت اور تعلیمات سے پروان چڑھی اردو زبان پہلے پہل انہی گلی کوچوں میں پھلی پھولی۔ اس کے بعد ہی یہ لال قلعے میں ناچتی گاتی، دھوم دھڑّکے کے ساتھ داخل ہوئی! زبان کا ارتقا پہلے نیچے سے اوپر کی سمت (Vertically) ہوتا ہے اس کے بعد ہی اس کا فروغ Horizontally ہوتا ہے۔ اور شاخ درشاخ پھیلتی چلی جاتی ہے!
ماہرین تعلیم کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ پرائمری اور مڈل سطح تک اگر مادری زبان ذریعہ تعلیم ہو تو بچے دیگر زبانیں مثلاً ہندی اور انگریزی زیادہ آسانی سے سیکھ سکتے ہیں اور ان زبانوں میں مہارت بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ مگر مشکل یہ ہے کہ ابھی بھی اردو آبادی زبان کے حوالے سے ایک غیر یقینی صورت حال کی نفسیات سے دو چار ہے! مزید یہ کہ مادری زبان کو ذریعۂ تعلیم کے طور پر اپنانے کے راستے میں ان کے نام نہاد Symbol Status کی سائیگی بھی حائل ہے!
اخبارات میں اردو کے فروغ اور اس کے عملی نفاذ کے حوالے سے آئے دن مضامین پڑھتا رہتا ہوں۔ زبان کے تئیں ان قلم کاروں کے جذبہ و احساس کو خاکسار قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ یہاں ان تمام بیش قیمت نکات کو دہرا کر آپ کا وقت برباد کرنا نہیں چاہتا۔ گفتگو کے اس اختتامی مرحلے پر صرف اتنی سی گزارش ہے کہ موجودہ صورت حال میں جب کہ ہم اردو کے لسانی ماحول اور لسانی کلچرکی بازیافت کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں، اردو کا رشتہ کلّی طور پر روزی روٹی سے جوڑنا ضیاع وقت کے سوا کچھ نہیں۔ اردو کو اپنی روزمرّہ کی ضرورتوں کا حصّہ بنائیے۔ اپنی تہذیب اور ثقافت کا شناخت نامہ بنائیے۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب دودھ کی رکھوالی کے لیے بلیوں کو ذمہ داری سونپ دی جائے گی۔ بھلا بلّی کہیں دودھ کی رکھوالی کرے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ”کون ہوتا ہے حریف مئے مرد افگنِ عشق“! جو تیشۂ تدبیر لے کر ہماری خوابیدہ فکر وسوچ کی کوہ کنی کرے!***
صاحب مقالہ کی یہ نگارش بھی پڑھیں :حسین الحق کا افسانہ ”زخمی زخمہ“ کا تجزیہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے