حسین الحق کا افسانہ ”زخمی زخمہ“ کا تجزیہ

حسین الحق کا افسانہ ”زخمی زخمہ“ کا تجزیہ

اظہار خضر 

یہ معروف اور معتبر افسانہ نگار جناب حسین الحق کا تازہ ترین افسانہ ہے۔ (مطبوعہ ”ذہن جدید“ شمارہ ٦٨، مارچ تا اگست، ٢٠١٤ء)۔ افسانے کا عنوان ”زخمی زخمہ“ افسانہ نگار کی تخلیقی اشاراتی گفتگو کا اشاریہ ہے۔ زبان کی جدلیاتی تخلیقی فنکاری کے پیش نظر مطلوبہ ابہام پسندی کو عنوان میں جگہ دی گئی ہے۔ پورا افسانہ بالواسطہ بیانیہ (Indirect Narration) کا تخلیقی مظہرہ (Phenomenon) ہے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ افسانہ نگار، زبان کی تخلیقی فنکاری کے اسرار و رموز سے واقف ہے۔ خیال رہے کہ آرٹ میں براہ راست طریقۂ اظہار سمّ قاتل کا درجہ رکھتا ہے۔ زبان کے جدلیاتی عناصر۔۔۔ اشارے، کنائے، علامات، تشبیہ و استعارات ادبی فن پاروں میں تخلیقی حُسن کے ضامن تصور کیے جاتے ہیں۔
”زخمی زخمہ“ اپنی تمام تر ترسیلی پے چید گیوں کے باوجود افسانے کے سنجیدہ اور ترقی یافتہ قاری کو فکر و فہم اور غور و فکر کی دعوت دیتا نظر آتا ہے۔
زیر گفتگو افسانہ کا بپھرتا ہوا کلیدی کردار شہ زیب خاں یوسف زئی کی فکر و سوچ، تفہیم و تعبیر کی سطح پر عنوان کے لیے شاہِ کلید (Master- Key) کی حیثیت رکھتی ہے۔ کیونکہ ایک زخم خوردہ وجود کا رباب دل بھی زخم خوردہ ہی ہوتا ہے۔ فی الحال اس سوال کو پس پُشت ڈالیے کہ زخم خوردگی کی وجہ وجود کی معقولیت پسندی ہے یا غیر معقولیت پسندی! دونوں ہی صورتوں میں رباب دل (زخمہ) گھائل ہے۔ اس نہج سے افسانے کا تخلیقی المیاتی حُسن ہی اس کی جمالیات ہے۔ افسانہ نگار کی جمالیاتی حِس بڑا ہی تحّیر آسا اور برق آسا ہے۔!
تاریخ، تہذیب، ثقافت اور سیاست بالخصوص عصری عالمی فکر کے پیش نظر افسانہ نگار کی فکری اور تخلیقی بصیرت میں ایک کھلبلی سی مچتی محسوس ہوتی ہے۔ یہی وہ فکری کھلبلی ہے جو فنّ المیہ نگاری کے راستے، ٹوٹتی، بکھرتی، پامال ہوتی ہوئی عصری عالمی فکر و قدر کے پس منظر میں افسانے کے تخلیقی کینوس پر اپنا دستخط ثبت کرتی نظرآتی ہے۔ ان امور پر تفصیلی گفتگو آگے کی سطور میں کی جائے گی!
عالمی دہشت گردی کے تناظر میں لکھا گیا یہ افسانہ ان نام نہاد سیاست دانوں اور دانشوروں کے ذہنی اور فکری دیوالیہ پن کا المیہ نامہ ہے جو اپنے آپ کو بہترین قدروں کا امین تصور کرتے ہیں اور جن کی پشت پناہی میں یہ دہشت گردانہ سرگرمیاں پھل پھول رہی ہیں۔ اس پر طرّہ یہ کہ وہ اپنی اس نام نہاد فکر و قدر کو منوانے کی کوششوں میں مسلسل جٹے ہوئے ہیں۔ زیر تجزیہ افسانے میں افسانہ نگار۔۔۔۔۔ حسین الحق ان سیاست دانوں اور دانشوروں کے اس کردار و عمل پر ایک سوالیہ نشان لگاتا نظر آتا ہے۔ چنانچہ افسانے کا بنیادی موضوع سیاسی اور تہذیبی بکھراو ہے۔ (Political land cultural turmoil) بالخصوص افغان بحران کو تخلیقی فکر و سوچ کے لیے Focus Point بنایا گیا ہے۔ حالانکہ اس پر ایک اچٹتی سی نگاہ ڈالی گئی ہے۔ لیکن بہر صورت افسانے کے فکری آمیزہ کی عقبی زمین اسی عصری عالمی سانحہ و واقعہ کو قرار دیا جانا چاہیے۔ مزید یہ کہ اس کے ڈانڈے فکر و سوچ کی جہالت و تاریکی سے ملائے گے ہیں۔ موجودہ عالمی سیاسی اور تہذیبی معاشرہ ایک ظلمت کدہ بن کر رہ گیا ہے۔ فکر و قدر کی پامالی علوم و فنون کی روشنی کو کھدیڑتی نظر آرہی ہے۔ حالانکہ موجودہ عہد علم کی روشنی سے شرابور ہے۔ اس کی چمک دمک سے نگاہیں خیرہ ہو رہی ہیں! لیکن المیہ یہ ہے کہ علم کی مادّی توجیہہ پسندی سے اس کی چمک دمک ماند پڑتی جا رہی ہے۔ آخر یہ وحشت خیزیاں کیوں؟
۱۱/ ستمبر، ۶ دسمبر اور نہ جانے ایسی کتنی تاریخیں ہیں جن سے انسانی ہلاکت خیزیوں کی داستانیں بھری پڑی ہیں۔ میرے نزدیک یہی اس افسانے کا Thematic approach ہے! عرض یہ کرنا ہے کہ فکر و فہم اور مثبت شعور و آگہی کی حامل، علم کی ایک ہلکی سی کرن بھی نظر آجاتی تو قرار آجاتا! فی الحال افسانے کی اس تخلیقی تناظراتی اور پس منظراتی گفتگو کو یہیں پر ختم کرتا ہوں۔ اور فکر و قدر کے حوالے سے افسانے کی بنت کی طرف چلتا ہوں!
افسانہ کا بیان کنندہ۔ راوی و احد متکلّم کی صورت میں خود افسانہ نگار ہے۔ راوی بڑا ہی ذہین اور ایک روشن قلب و نظر کی حامل تخلیقی شخصیت ہے۔ وسیع المطالعہ ہے اور فکر و نظر کی دانشوری اس کے اندر کوُٹ کوُٹ کر بھری ہوئی ہے!
اب یہ دیکھیے کہ افسانے کی ابتدا نوبل انعام یافتہ ہندوستانی نژاد انگریزی ناول نگار وی۔ ایس۔ نائپال سے ہوتی ہے۔ اور اس کی انتہا بھی نوبل انعام یافتہ نو عمر حوصلہ مند افغان لڑکی ملالہ یوسف زئیؔ پر ہوتی ہے۔ دونوں علم کی روشنی کی علامت!
ملالہ یوسف زئیؔ تو دہشت گردوں کے نشانے پر اس لیے رہی کہ یہ نو عمر اور نوخیز لڑکی تاریکی کی تہہ سے اجالے کی نمود کے لیے مسلسل جدّوجہد کرتی رہی۔ کہ شاید تشّدد کا جنون کم ہو اور فکر و سوچ کی معقولیت پسندی کا فرو غ ہو۔
افسانہ نگار کی اس فکری اور تخلیقی جست پر غور کیجیے کہ وہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بانکی مونؔ سے درخواست کر رہا ہے کہ ملالہؔ کو کشت وخون سے بھرے اس خطۂ ارض پر واپس بھیج دو کہ اب تو سرسید کا خواب بھی بکھر چکا ہے!
سر سید کے تعلیمی مشن کا خواب بر صغیر کی سرحدوں تک ہی محدود نہیں تھا۔ بلکہ وہ سرحدوں کی حدبندیوں کو توڑنا اور پھلانگنا چاہتا تھا۔ لیکن سر سید کا یہ خواب چکنا چور ہو گیا۔
بیان کنندہ راوی کا تعلق برّ صغیر کے اس خطّہ ارض سے ہے جہاں سر سید کے تعلیمی مشن کی گونج اس کے کانوں میں ہمہ وقت سنائی پڑتی رہتی ہے۔ اور اس کا فکر و شعور مہمیز ہوتا رہتا ہے۔ تہذیبی اور سیاسی بکھراو کی افسانوی کرافٹنگ کے لیے سرسید اور اس کے تعلیمی مشن کو افسانہ نگار نے ایک Story telling tool کے طور پر برتا ہے۔ بیانیہ کی اس تکنیک سے ہی افسانہ نگار نے افسانہ میں دانشورانہ فکر و نظر کی تخلیقی فضا بندی کی ہے۔ جس میں اس کی Selective Ideology اور Glaring Fact کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ یوں سمجھیے کہ حقیقتیں مجاز کے پردے میں رقص کر رہی ہیں۔ اسی کو اعلا درجے کی تخلیقی فن کاری کہتے ہیں! افسانے کی ماجرا سازی میں چونکہ دہشت گردی ایک کلیدی کردار نبھاتی نظر آتی ہے۔ لہٰذا ۱۱/ ستمبر کے واقعہ کو پیش نظر رکھیے اور یہ دیکھیے کہ افرا تفری کے اس ماحول میں افسانے کا روای اس وقت علی گڑھ میں ”باب سیّد“ سے ہوتے ہوئے مولانا آزاد لائبریری کی جانب جا رہا تھا۔
افسانہ نگار کے پیش نظر، علی گڑھ کو بیانیہ کا حصّہ بنانے کا صر ف ایک ہی مقصد نظر آتا ہے، یعنی علی گڑھ کے توّسط سے سر سید اور ان کے تعلیمی مشن کو پروجیکٹ کرنا! چنانچہ راوی ”سر سید ہاؤس“ کے پاس رک جاتا ہے اور دروازے پر دستک دی تو سر سید کے بدلے مولانا الطاف حسین حالیؔ نمودار ہوئے۔ سید تو ویزا ضبطی کی وجہ سے افغانستان میں پھنسے تھے۔ خیر اس سے قطع نظر عرض یہ کرنا ہے کہ راوی ”زوالِ آدم خاکی“ کی نوحہ خوانی کی غرض سے سید کے حضور میں حاضر ہوا تھا۔
سیّد کی باریابی سے مایوس راوی کو حالیؔ کے توسّط سے سر سید کا ایک نوشتہ ہاتھ لگا۔ اس کے بعد افسانے کے بیانیہ میں حالیؔ، خواجہ حسن نظامی اور راہی معصومؔ رضا کے حوالے سے تفصیلات کا ایک سلسلہ دیکھنے کو ملتا ہے جو میرے خیال میں بیانیہ کو مزید دراز کرنے کی غرض سے کیا گیا ہے۔ البتہ بیانیہ کے اِس حصّے میں ایک Turning Point یہ ضرور ملتا ہے کہ اس افرا تفری اور بے اماں صورت حال کی گھڑی میں سوائے راوی کے کسی نے ”سرسید ہاؤس“ کی جانب رُخ نہیں کیا۔ بلکہ سبھوں کا رُخ یونی ورسٹی کے تھیولوجی ڈپارٹمنٹ کی جانب تھا۔ کہ شاید علم و عرفان کی بکھرتی روشنی میں سکون و قرار نصیب ہو جائے۔ لیکن اس نکتہ پر غور فرمائیے کہ اس بے اماں گھڑی میں آخر لوگوں نے سیّد کو کیونکر Ignore کیا۔ شاید افسانہ نگار کہنا چاہتا ہے کہ سید کی فکر کا پس پشت پڑ جانا Prospective Ideology سے لوگوں کی بیزاری و انحراف کا اعلانیہ ہے۔
فکر و سوچ کے اس رجحان کا climax تو حددرجہ حیران کن نظر آتا ہے جب راوی کے ہاتھ آیا سید کا نوشتہ ان پڑھا ہی رہ گیا!
”سید کا ناخواندہ نوشتہ میرے ہاتھ میں مرغی کے نوزائیدہ بچّے کی طرح دھک دھک کرتا گرم لوتھڑا بن گیا۔“
یہ افسانے کے پہلے مرحلے کا اختتامی مکالمہ ہے۔ اختتامی مکالمہ کا دوسرا Step ملالہ یوسف زئی کی واپسی کے حوالے سے ہے کہ شاید یہ نوخیز اور نوعمر ملالہ، سید کی جگہ لے لے۔!
عرض یہ کرنا ہے کہ سید کے اس ناخواندہ نوشتہ کو محض افسانے کے راوی کے ساتھ Tag کر کے دیکھنا اور سمجھنا صحیح نہیں ہوگا بلکہ اس کا اطلاق تو مجموعی طور پر پوری ملّت اور قوم پر ہوتا نظر آتا ہے۔ جبھی تو شہ زیب خاں یوسف زئی کے حوالے سے افسانہ نگار کا یہ مکالمہ ایک لمحۂ فکر یہ فراہم کرتا نظر آتا ہے۔
”کتاب میں کہیں نہیں لکھا ہے کہ اسکول، ہسپتال بند کرا کے ہتھیار خریدے جائیں۔“
کہنا یہ ہے کہ زیر گفتگو افسانہ تہذیب ثقافت اور سیاست کے حوالے سے ایک تخلیقی دستاویز تو ہے ہی ساتھ ہی اس میں فکر و قدر کا عصری عالمی منظر نامہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ یاد رکھیے کہ ادب اور فنون لطیفہ کا تخلیقی فن کار زمانے کا نبض شناس ہوتا ہے وہ زمانے کی دکھتی رگوں پر ہاتھ رکھ کر مسائل کو اجاگر کرتا ہے۔ مسائل کا مداوا کرنا اس کا کام نہیں۔
البتہ تاریکی کی تہہ سے اجالے کی نمود کا خواہاں ضرور رہتا ہے۔ اس کا تخلیقی اور فکری سفر تاریکی سے اجالے کی جانب رواں دواں رہتا ہے۔ چنانچہ زیر گفتگو افسانے کا راوی بھی فکری اور ذہنی سطح پر جہاں گرد نظر آتا ہے۔ اس کی جہاں گردی کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیے!
’’میں عبداللہ بن عامر حاکم بصرہ کے پاس تھا۔ یہ زمانہ ٣١ ہجری کے آس پاس کا تھا۔“
حالانکہ راوی جسمانی طور پر بزم موسیقی کی اس محفل میں موجود تھا جہاں خان نغمہ سرا تھا۔
خیزد ازوئے شعلہ ہائے سینہ سوز
با مزاج تو نمی سازد ہنوز
لیکن روای کو خان کی نغمہ سرائی سے کیا لینا دینا۔ وہ تو فکر و نظر کی دانشوری کی سطح پر درپیش مسائل و معاملات سے ہمہ وقت جو جھتا رہتا ہے۔ راوی واقعتا علم کا جو یا اور متلاشی ہے۔ چنانچہ وہ ٣١ ہجری کے گہوارہ علم و فن بغداد و بصرہ میں فکر و نظر کی دانشورانہ سر گرمیوں کو مزید فعال و متحرک کرتا نظر آتا ہے۔ عرض یہ کرنا ہے کہ افسانے کی کرافٹنگ میں افسانہ نگار نے حصول علم کے بامعنی منطق و جواز کو ایک Dominating Factor کی صورت میں جگہ دینے کی کوشش کی ہے۔ گفتگو کی ابتدائی سطور میں اس جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ عالمی معاشرہ تشدد کے جس بحران سے گزر رہا ہے اس کے ڈانڈے کہیں نہ کہیں فکر و سوچ کی جہالت و تاریکی سے ملتے نظر آتے ہیں. تجزیہ کے پہلے زینہ کی قدم پیمائی یہیں پر ختم ہوتی ہے!
اب افسانہ کے دوسرے پہلو پر چند باتیں سن لیجیے جو موضوع اور تھیم کو Carry کرنے کے لیے Tool کی حیثیت رکھتا ہے!
افسانے کا آغاز اس کے راوی پر نازل ہونے والی اس مضطرب و بے چین الہامی کیفیت سے ہوتا ہے۔ ”جب غیب سے ایک شخص نمودار ہوا اور مجھ تک یہ پیغام پہنچایا کہ ”ہوا لڑکھڑانے لگی ہے۔“ اس اشاراتی و استعاراتی تخلیقی گفتگو کی گونج افسانے کے بین السطور میں جا بہ جا سنائی پڑتی ہے۔ خیال رہے کہ افسانہ نگار نے پورے افسانے میں چار مرتبہ وقفہ وقفہ پر یہ Symbolic Fictional Signalling کی ہے۔ اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ”ہوا کا رخ بتاتا ہے کہ آندھی اٹھنے والی ہے“۔ جب جب ہوا میں لڑکھڑاہٹ پیدا ہوئی، آندھی اٹھتی چلی گئی۔ شہ زیب خاں یوسفؔ زئی اس افسانے کا ایک Agressive کردار ہے۔ جس کو ہوا کی لڑکھڑاہٹ اور اٹھتی آندھی کی کوئی پروا ہی نہیں۔ یہ افعان اپنے آپ میں مست ہر وقت بزم موسیقی کی محفل میں نغمہ سرا نظر آتا ہے۔ لیکن جب جاگتا ہے تو اس کی آواز سے پہاڑوں کے درّے لرز نے لگتے ہیں۔ اس جانب آگے کی سطور میں گفتگو کی جائے گی!
ہاں تو اس لڑکھڑاتی ہوا میں ہندستانی وقت کے مطابق رات کے نو بجے ایک جھما کا سا ہوا۔
”نو بجے کا وقت“ بھی افسانے میں وقفہ وقفہ پر چار مرتبہ استعمال ہوا ہے! چونکہ W.T.O پر تھوڑے تھوڑے وقفے سے دہشت گردوں کے حملے ہو رہے تھے۔ اور ہر حملے میں تباہی و بربادی الگ الگ نوعیتوں کے ساتھ نمودار ہوتی رہی۔ حالانکہ افسانے میں اس کی کوئی تفصیل نہیں ملتی بلکہ مجموعی طور پر ہلاکت خیزیوں اور تباہیوں کا ایک تاثر پیدا ہوتا نظر آتا ہے۔ فکر و فن کے پیش نظر بیانیات کی اس تکنیک کو اپنانا ضروری تھا! اگر ایسا نہ ہوتا تو افسانہ بے جا اور لا طائل بیانوں کا ایک ملغوبہ بن کر رہ جاتا ہے۔
ہاں تو عرض یہ کرنا ہے کہ شہ زیب خاں یوسف زئی واقعتا افسانے کا ایک بڑا ہی جرّی اور چنگھاڑتا ہوا کردار ہے۔ لیکن تھا بڑا ہی معاملہ فہم اور بردبار۔ اس کی نغمہ سرائی، دراصل اس کی بردباری اور معاملہ فہمی کا اشاریہ ہے! لیکن جب وہ اپنی اصل صورت میں واپس آتا تو لوگ دہل جاتے۔ یوں سمجھیے کہ کسی گہرے کنویں کی سطح آب سے اس کی چنگھاڑتی آواز Echo بن کر اطراف کی فضا کو لرزہ برا ندام کر رہی ہے۔
اب ذرا خان کے اس مکالمہ کو ملاحظہ فرمائیے!
”یہ علاقہ ان کا قبرستان بنے گا۔“
”شہ زیب خاں یوسف زئی جامے سے باہر ہوا جا رہا تھا۔“
اتنا ہی نہیں ”خوشہ کا فر کا بچّہ“ تو خان اپنی زبان پر ورد کی طرح گردا نتا رہتا۔ خان کی جرّی شخصیت کے اس Agressive پہلو کو پیش نظر رکھیے اور یہ دیکھیے کہ W.T.O پر دہشت گردوں کاحملہ اور پھر اس کے بعد کی ایک بڑی تباہ کن جوابی کاروائی، وقفے وقفے پر خان کی نغمہ سرائی کو Interrupt کرتی رہتی۔ اور جب خان جاگتا تو ”خوشہ کافر کا بچّہ“ کے ورد سے فضا کو دہلا دیتا۔ اس مزاحمتی ذہنیت کا اطلاق پورے افغانیوں پر ہوتا محسوس ہوتا ہے!
سر سید کا ناخواندہ نوشتہ ادھورا ہی رہ گیا۔ خواب ادھورے رہ گئے۔ شہ زیب خاں یوسف زئی تو اسکول، کالج، اسپتال بند کرا کے ہتھیار خریدنے میں مگن تھا۔
عرض یہ کرنا ہے کہ W.T.O پر حملہ افغان بحران کا کلائمکس ہے۔ اس کے بعد تباہی و بربادی کی ایک نہ ختم ہونے والی داستان کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔
”کینیا اور تنزانیہ سے نیو یارک تک…….کابل اور دہلی سے حیدرآباد تک……..خیزد ازوئے شعلہ ہائے سینہ سوز“
تشدد سے بھرا یہ عصری عالمی منظر نامہ افسانہ نگار کی تخلیقی اور فکریاتی سر گرمیوں کا مظہر ہے۔ شاید افسانہ نگار اپنے اس خواب کو حقیقت میں بدلتے دیکھنا چاہتا ہے کہ ادب کے توسّط سے تشدد اور جنگ کو روکا جاسکتا ہے۔ لیکن خواب تو خواب ہی ہوتے ہیں۔ حقیقت میں بدل بھی سکتے ہیں اور نہیں بھی!
البتہ ہر زمانے میں علم و دانش کی سطح پر یہ کوشش کی گئی ہے کہ قوموں کے مزاج اور اس کی فکر و سوچ کو ایک صحیح سمت عطا کیا جائے۔ ہر زمانے میں زمانہ ساز شخصیتیں پیدا ہوتی رہی ہیں جن کی فکری سرگرمیاں اسی سمت اور نہج پر کام کرتی رہی ہیں۔ لیکن آج کے اس پر آشوب اور پرفتن دور میں محسوس ہوتاہے کہ یہ شخصیتیں بھی عنقا ہوتی جارہی ہیں!
جبھی تو افغانستان کے مقابلے میں امریکیوں کے پاس علم کی بے پناہ روشنی اور چمک دمک ہوتے ہوئے بھی وہ تاریک راہوں کے مسافر بن کر رہ گئے ہیں۔ افسانے کی زیریں لہروں میں علم و دانش کی سطح پر افسانہ نگار کی یہ فکر و نظر حددرجہ متحرک وفعال محسوس ہوتی ہے۔ میں اس بحث میں پڑنا نہیں چاہتا کہ افسانہ نگار امریکیوں کو کوس رہا ہے یا افغانیوں کو۔
البتہ افسانہ نگار جنون و جہالت کی اس پھیلتی وبائی صورت حال سے فکر مند ضرور نظر آتاہے۔ تبھی تو اس کی یہ فکر مندی سرسید اور ملالہؔ یوسف زئیؔ کی صورت میں دیکھنے کو ملتی ہے۔
سرسید اورملاؔلہ دو ایسے Fictional Notations ہیں جن کی Coding اور Decoding کا تخلیقی عمل افسانے میں بڑی ہی چابک دستی کے ساتھ وقوع پذیر ہوا ہے۔ مزید یہ کہ مختلف تخلیقی وقوعوں کے توسط سے افسانہ نگار نے بیانیہ کو تحیر آسا بنانے کی کوشش کی ہے۔ بالخصوص ”ہوا کی لڑکھڑاہٹ“ کی Coding اور Decoding اس انداز سے کی گئی ہے کہ ماجرا سازی میں واقعات کا Sequence بگڑنے نہ پائے۔
مختصر یہ کہ شہ زیب خاں یوسف زئی بہ ظاہر تو ہمہ وقت نغمہ سرا ہی رہتا لیکن بہ باطن وہ مملکت افغان کے جذبۂ قومیت سے سرشار تھا۔ لیکن یہ بھی واقعہ ہے کہ اس کے جذبۂ قومیت میں جس قسم کی تندی و تیزی تھی، اسی کے سبب وہ ذہنی اور فکری سطح پر حددرجہ متشدد نظر آتا ہے۔ تہذیبی، سیاسی اور سماجی بکھراؤ اپنے عروج پر آچکا تھا۔ ایسے میں خانؔ ٹرانس (Trans) کی کیفیت سے گزرنے لگا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ یہ کیسی قلب ماہیت تھی۔ کیا خان نغمہ سراہی رہنا چاہتا تھا۔ یا پھر موجودہ افغان بحران اس کے اندر کھلبلی مچائے ہوئے تھا۔ ذرا غور فرمائیے کہ خان ٹرانس میں آرہا تھا کہ اچانک گرجدار آواز کے ساتھ نغمہ سرا ہوا۔
”بسے گذشت کہ در انتظار زخمہ و ریست —- چہ نغمہ ہا کہ زخوں شد بہ ساز افغانی۔“ افسانے کا بیانیاتی سلسلہ”زخمہ“ کے اشاراتی اور استعاراتی Turning Point پر آکر ختم ہوتاہے:
”اور پھر یہ عجیب بات ہوئی کہ دور دور تک کوہ درکوہ، غار درغار، وادی در وادی، ایک آواز بگولے کی طرح چکّر کا ٹتی رہی، صدائے گنبد کی طرح گونجتی رہی، سر پٹختی رہی، چہار دانگ عالم میں اس آواز کی بازگشت دوردور تک سنائی دی۔ بہ ساز افغانی….بہ ساز افغانی۔
غور فرمائیے کہ ”بہ ساز افغانی“ کی صدائے بازگشت، سرحدوں کو پھلانگتی ہوئی چہاردانگ عالم میں پھیلتی چلی گئی۔ یہ دوسری بات ہے کہ افغانیوں کا یہ جذبہ قومیت امریکیوں کے نزدیک صدا بہ صحرا ٹھہرا۔ فی الوقت اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ اس بحران و بکھراؤ کا ذمہ دار کون ہے؟ البتہ افسانہ نگار کے اس تخلیقی موقف پر یہ تجزیاتی گفتگو ختم کیا چاہتاہوں!
”سید کا ناخواندہ نوشتہ میرے ہاتھ میں مرغی کے نوزائیدہ بچے کی طرح دھک دھک کرتا گرم لوتھڑا بن گیاہے۔“
اختتامیہ:
تخلیقی فنکاری میں بالواسطہ طریقۂ اظہار بیانیات (Narrotology) کی بنیادی تکنیک ہے۔ افسانہ نگارنے اس تکنیک کو اپناتے ہوئے مطلوبہ ابہام پسندی کو اعتدال و توازن کے ساتھ برتاہے۔ ورنہ افسانہ ترسیل فکر و فلسفہ کی سطح پر ژولیدہ بیانی کا ایک ملغوبہ بن کر رہ جاتا۔ پھر بھی افسانے کے بیانیہ میں زمان و مکان کا تیزی سے بدلنا (Quick Shifting) اس کی وحدت تاثر کو متاثر کرتا ہے۔
افغان نژاد انگریزی ناول نگار خالد حسینیؔ نے کابل بحران پر (٢٠٠٣ء) The kite Runner کے نام سے ایک ناول لکھا ہے۔ ممکن ہے کہ افسانہ نگار جناب حسین الحق کی نظر سے یہ ناول گزرا ہوگا! (۸/مارچ ٢٠١٥ء)
٭٭٭
Izhar Khizer, Near- Uma Petrol Pump, City Court, Patna-800007
Mob: 9771954313

اظہار خضر کا یہ تجزیہ بھی پڑھیں :احمد ندیم قاسمی کا افسانہ ”کپاس کا پھول“ کا تجزیہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے