روہیل کھنڈ اردو لغت: ایک جائزہ

روہیل کھنڈ اردو لغت: ایک جائزہ

(مرتب:رئیس رام پوری)

ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں
غوث منزل،تالاب ملا ارم
رام پور 244901 یو پی
موبائل:9719316703
رئیس رام پوری کی شخصیت جس طرح گوناگوں صفات کی حامل تھی اور جس طرح مختلف قسم کے ان کے مشاغل تھے اسی طرح قلم کاری کے میدان میں بھی انھوں نے کئی جہتوں سے کام کیا۔ شاعری کے ساتھ ساتھ انھوں نے مختلف مواقع پر نثر میں بھی لکھا۔ کئی مضامین ان کی نثری صلاحیتوں کی یادگار ہیں۔ رئیس رام پوری کی شاعری سے متعلق سبھی کتابیں مقبول ہوئیں لیکن ان کی مرتب کردہ ’روہیل کھنڈ اردو لغت‘ نے ان کی شہرت اور صلاحیت میں چار چاند لگا دیے۔ اس کتاب نے علاقائی ادب کے حوالے سے اردو دنیا میں بڑی شہرت اور عوامی مقبولیت حاصل کی۔ روہیل کھنڈ اردو لغت میں رام پور کی بے تکلف عوامی بول چال کے الفاظ اور کئی دیگر چیزوں کو یکجا کیا گیا ہے۔
اس کتاب کا انتساب رئیس رام پوری نے ’رام پور والوں اور محبان اردو کے نام‘کیا ہے۔ انتساب کے بعد کے صفحہ پر رئیس رام پوری نے ان لوگوں کے لیے تشکر کا اظہار کیا ہے جنھوں نے اس کتاب کی اشاعت میں ان کی معاونت فرمائی۔ ان حضرات کے نام اس طرح ہیں. مولوی سردار شاہ خاں ،پہلوان شجاعت حسین خاں عرف برزو خاں، الحاج اصغر حسین، عبدالعلی خاں عرف محمد میاں، محمد عاصم راجہ، اسد میاں اسد رام پوری، مولانا حسین خاں، نبی احمد خاں اور زلیخا بیگم۔ ان ناموں کے بعد اگلے صفحہ پر رئیس رام پوری اور الحاج اصغر حسین شمسی کی ایک تصویر شائع کی گئی ہے۔روہیل کھنڈ اردو لغت کا مقدمہ رئیس رامپوی کا ہی تحریر کردہ ہے جس میں اس کتاب کے معرض وجود میں آنے کے اسباب اور اس کی ترتیب کی بابت وہ تحریر کرتے ہیں:
”سیکڑوں برس گزرے افغانستان اور صوبہ سرحد سے پٹھانوں کے بہت سے قبیلے ہندستان کے مختلف علاقوں میں آکر سکونت پذیر ہوئے اور رفتہ رفتہ اپنی غیر معمولی بہادری کی وجہ سے اس ملک کے بہت سے حصوں پر قابض ہو کر حکومت کرنے لگے۔ اس طرح یہ لوگ روہیل کھنڈ میں بھی خاصی تعداد میں آباد ہو گئے اور اپنی ریاستیں قائم کر لیں۔ تاریخ نے پہلو بدلا اور انگریز ہندستان پر قابض ہو گئے مگر پھر بھی بہت سی نوابیاں اور رجواڑے باقی رہ گئے جن میں سے ایک نوابی ریاست رام پور بھی تھی۔ جب متذکرہ قبیلے یہاں آئے تھے تو ان کی بولی پشتو تھی مگر رفتہ رفتہ مقامی اثرات کے باعث یہ تبدیلی ہوتی گئی کہ پشتو زبان ہندی اور اردو کے ساتھ خلط ملط ہو گئی اور یہاں ایک مشترکہ زبان بولی جانے لگی۔ آج بھی کچھ ایسے غیر مانوس الفاظ آپ کے سننے میں آئیں گے جو پشتو زبان سے متعلق ہیں اور وہ کچھ تو اسی شکل میں ہیں مگر بیش تر ذرا سی لفظی یا لہجے کی تبدیلی کے ساتھ آج بھی یہاں بولے اور سمجھے جاتے ہیں۔ یہ بھی عرض کر دوں کہ مجھے پشتو ہی کے الفاظ و محاورات سے بحث نہیں ہے۔ میں نے حتی الوسع ایسے تمام الفاظ و محاورات جمع کرنے اور ان کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے، جو روہیل کھنڈ اور بالخصوص ریاست رام پور میں بولے اور سمجھے جاتے ہیں اور جن کے بولنے کے انداز اور محل استعمال سے رام پور والا رام پور سے باہر بھی پہچان لیا جاتا ہے کہ یہ رام پوری ہے۔ اس لغت کی تیاری میں معروف اردو لغات کے علاوہ رام پور کی کچھ بزرگ ہستیوں سے بھی معلومات فراہم کی گئی ہیں اور مولانا امتیاز علی خاں صاحب عرشی کی کتاب ”اردو میں پشتو کا حصہ“ سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔“(روہیل کھنڈ اردو لغت، صفحہ نمبر ۶-۷)
مقدمہ کے بعد اگلے چار صفحات پر ایک چھوٹا سا مضمون شائع کیا گیا ہے۔ اس کا عنوان ہے- ’ریاست رام پور اور اس کی علمی و ادبی حیثیت: ایک مختصر تعارف‘۔ اس میں ریاست رام پور کے دو تین نوابین کا تذکرہ کیا گیا ہے اور مختصر طور پر رام پور کے علمی اور دینی ماحول پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس مضمون کا بیش تر حصہ شبیر علی خاں شکیب کی مرتب کردہ کتاب ’رام پو ر کا دبستان شاعری‘ سے اخذ کیا گیا ہے لیکن یہ مضمون ’روہیل کھنڈ اردو لغت‘ یا لغت نویسی کے فن اور موضوع سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا۔ اس لیے اس لغت میں بہ ظاہر اس مضمون کی شمولیت یا اشاعت کی کوئی خاص وجہ سوائے نمائش کے، سمجھ میں نہیں آتی۔ البتہ اس کے آخر میں رئیس رام پوری نے یہ پیرا گراف ضرور درج کیا ہے:
”میں چونکہ یہ ایک چھوٹی سی علاقائی لغت منظر عام پر لا رہا ہوں۔ اس لیے آخر میں مختصر تعارف کے طور پر یہ عرض کر دوں کہ رام پور کی لسانی خدمات میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ منشی امیر احمد مینائی کی ’امیر اللغات‘ اور علامہ نجم الغنی خاں کی ’تسہیل اللغات‘ نیز عبدالمجید خاں ادیب کی ’فرہنگ حامدیہ‘ اردو لغت نویسی کی تاریخ میں اہم مقام رکھتی ہیں۔ نیز نایاب مستند فارسی لغت ’غیاث اللغات‘ بھی رام پور ہی کے مولانا غیاث الدین عزت صاحب کی دین ہے اور عربی لغت پر رام پور کے مفتی سعداللہ صاحب کا کام اہل علم میں مشہور و معروف ہے۔“ (روہیل کھنڈ اردو لغت، صفحہ نمبر ۱۱)
روہیل کھنڈ اردو لغت میں، مرتب رئیس رام پوری نے ٥٢٧ الفاظ اور ان کے معانی و مفاہیم کو یکجا کیا تھا لیکن چونکہ زبان کی تشکیل کا عمل ہمیشہ جاری رہتا ہے اور کسی بھی لغت کو کبھی بھی مکمل نہیں کہا جا سکتا۔لہٰذا جب انھیں کچھ اور ایسے الفاظ مل گئے جو رام پور میں بولے اور سمجھے جاتے ہیں تو انھوں نے پہلے اور دوسرے ضمیمے کے طور پر بالترتیب ١٠٥ اور ٤٦ الفاظ کا لغت میں اضافہ کر دیا۔ اس کے علاوہ رئیس رام پوری نے ٤٣ اور ایسے الفاظ اس لغت میں شامل کر لیے جو ان کو کتاب کی اشاعت کے بالکل آخری مرحلہ پر دستیاب ہوئے تھے۔ ان مذکورہ ٤٣ الفاظ کو انھوں نے کتاب کے آخری صفحات میں ’چھپتے چھپتے‘ عنوان کے تحت درج کیا۔اس طرح اس کتاب میں الفاظ کی مکمل تعداد ٧٢١ ہو گئی۔ اس لغت کے سارے الفاظ، درحقیقت عوامی بول چال کے وہ الفاظ ہیں جو روہیل کھنڈ اور خاص طور سے رام پور میں بولے اور سمجھے جاتے ہیں اور جن کی وجہ سے بہ قول رئیس رام پوری:
”رام پور والا دنیا کے کسی بھی خطے میں آسانی سے پہچان لیا جاتا ہے کہ یہ رام پوری ہے۔“
روہیل کھنڈ اردو لغت میں الفاظ کی ترتیب تو بے شک حروف تہجی کے اعتبار سے ہی کی گئی ہے لیکن لغت نویسی کے کچھ اصولوں کو اس میں نظر انداز کر دیا گیا ہے جیسے چند الفاظ کو چھوڑ کرصنفی طور پر کسی بھی لفظ کی مذکر، مؤنث، اسم، صفت، فعل، ضمیر وغیرہ کی حیثیت سے پہچان نہیں کرائی گئی ہے اور نہ یہ لکھا ہے کہ یہ لفظ کون سی زبان کا ہے۔ بہت سے مشہور الفاظ کے ساتھ ان کے معنی یا مفہوم کو تو درج کیا گیا ہے لیکن ان الفاظ کے ساتھ رام پور کی کون سی یادگاریں اور واقعات منسوب یا وابستہ ہیں، ان کو درج نہیں کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر اس لغت میں صفحہ نمبر ٦١ پر ایک لفظ ’کھٹہ‘ ہے۔ اس لفظ کے معنی اور مفہوم کی بابت رئیس رام پوری لکھتے ہیں:
”بہت موٹے اور بہت بڑے بڑے پایوں والا بہت بڑا مضبوط پلنگ (چارپائی)۔ جس پر گھروں سے باہر محلے ٹولے کے لوگ بیٹھ کر آپس میں تبادلۂ خیالات کرتے تھے۔ایک دوسرے کی خیریت لیتے تھے۔ ہر بات کی خبر گیری کرتے تھے۔ یہ نشست عام طور پر شب میں بعد نماز عشا ہوا کرتی تھی۔ یہ بات بھی صوبۂ سرحد سے پٹھان اپنے ساتھ ادھر لائے۔“
کھٹہ سے جڑا ہوا، رام پور میں یہ واقعہ مشہور ہے کہ محلہ نالا پار پر ایک صاحب بدھن خاں نام کے تھے۔ ان کے پاس ایک بہت بڑا کھٹہ تھا جس پر ایک ساتھ پندرہ بیس لوگ بیٹھ سکتے تھے۔ یہ کھٹہ ان کی حویلی کے باہر پڑا رہتا تھا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ بدھن خاں کا یہ کھٹہ تقریباً ستر پچھتر سال سے آج بھی اسی مقام پر پڑا ہوا ہے اور ’کھٹہ بدھن خاں‘ نام سے ایک محلہ بھی مشہور ہو گیا ہے۔
اس لغت میں رئیس رام پوری نے جہاں کسی لفظ کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ لفظ لغت میں نہیں ملا، تو اس ضمن میں متعلقہ لغت کا نام نہیں دیا گیا ہے، نہ کتاب کے آخر میں ببلیو گرافی یا کتابیات کا اشاریہ دیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا کہ انھوں نے کس کس لغت سے استفادہ کیا اور کس لفظ کے معنی کون سی لغت میں دستیاب ہوئے۔ البتہ شروع میں انھوں نے امتیاز علی خاں عرشی کی ایک کتاب کا تذکرہ ضرور کیا ہے لیکن اس سے بھی بات پوری طرح واضح نہیں ہوتی۔ محض چند الفاظ کی ہی نشان دہی کی گئی ہے کہ یہ لفظ فلاں زبان کا ہے۔ مذکورہ لغت میں، رام پور میں بولے جانے والے بہت سے الفاظ میں سے ٩٨ وہ الفاظ بھی شامل کیے گئے ہیں جو یہاں غلط طریقے سے بولے جاتے ہیں۔ اس فہرست میں پہلے صحیح لفظ لکھا گیا ہے اور اس کے سامنے وہ لفظ تحریر کیا گیا ہے جو رام پور کی عام بول چال میں رائج ہے۔ یہاں پر  چند الفاظ تحریر کیے جاتے ہیں: ’اصول-وصول، افطاری-اختیاری، افیون-افیم، آگے-آگو، بھیگ-بھیج، بھاگ-بھاج، باہر-بھارے، پرہیز- فریز، پرنالہ-پنالہ، جہاں -جاں، جھانواں -جھاما، خدمت-خزمت، دہی-دئی، دیوار-دیوال، زچہ-جچا، عقیقہ-حقیقہ، غبارہ-پھکنا، فقیرنی-فقنی، قرقی-کڑکی، کھینچ-اینچ، کہاں -کاں، گدا-گبا، گائے-گیا، گڑھا-گڈھا، لعنت-نالت، لائٹ-لیٹ، لائن-لین، لگام-لغام، مزاج-مجاز، مقبرہ-مقربا، مرحم -ملم، مزدور-مزور، ملعون -ملاعون، ملالو-ملولو، نقصان- نخسان، پالیز-فالیز، راکھ-راخ، وقت-وخت، وہاں -ہواں، یہاں -ہیاں، نعمت-نیامت وغیرہ۔‘
اس لغت میں کچھ الفاظ کا تلفظ اچھی طرح ذہن نشین کرانے کی غرض سے ان کا ہندی تلفظ بھی تحریر کر دیا گیا ہے۔ لغت کے آخری حصہ میں نودریافت الفاظ کو ’ضمیمہ اول‘ اور ’ضمیمہ دوم‘ کے تحت شامل کیا گیا ہے۔ اس کے بعد خدا بخش لائبریری پٹنہ کے اس اجازت نامہ کا عکس شائع کیا گیا ہے جس میں مرتب کو یہ لغت خود شائع کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔
روہیل کھنڈ اردو لغت میں رام پور کے کچھ عام مشہور لوگوں کے نام اور ان کے خطابات بھی دیے گئے ہیں۔ یہ وہ خطابات ہیں جو رام پور میں ہی لوگوں نے ایک دوسرے کو دے دیے ہیں اور اس سے اس شخص کی رام پور میں ایک الگ اور منفرد پہچان بن گئی ہے۔ اس لغت میں ایسے ١٦٧ لوگوں کے اصلی نام اور ان کو تفویض کیے گئے خطابات درج کیے گئے ہیں۔ ساتھ ہی اس کتاب کے مرتب نے نوٹ کی شکل میں، شروع میں ہی یہ وضاحت بھی کردی ہے کہ اس فہرست میں رام پور کے تمام اہل خطاب نہیں لیے گئے ہیں بلکہ صرف کچھ مشہور اور دل چسپ خطاب یافتہ حضرات کے نام ہی اس میں قلم بند کیے گئے ہیں۔ اس میں یہ وضاحت بھی ہے کہ کچھ خطاب یافتہ لوگوں کو مصلحتاً بھی چھوڑ دیا گیا ہے۔ درج ذیل سطروں میں نمونہ بہ طور، ان حضرات کے نام نہ لکھ کر صرف کچھ خطابات درج کیے جاتے ہیں:
’یاراں، دریائی، چوہے، لال دیو، پونے آٹھ، توپ، خلتے، پھکڑ، بلاٹیے، بگڑ، کچھوے، بھدے، سرخے، ہنڈار، ٹرے، سنڈ، کیری، بونٹ، لالہ، ڈیوٹ، پگلے، تباخ، پسلی ٹوٹے، گولٹے، پدی، الو، لٹیا، ٹیڑھے، ٹھلوے، نمکین، بارہ گزے، ڈھول، چنک، ڈھور، بونے، چپٹے، ہبڑدبڑ، ڈکارو، نکیلے، ہاتھ چھوٹ، ہولو، پسو، بیل، ہل ڈل، غپی، بارہ سنگھے، کرے، بلے وغیرہ۔‘
رام پور میں مردوں اور عورتوں کے سیکڑوں ایسے نام رکھے اور بولے جاتے ہیں جن کے کچھ معنی اور مفہوم نہیں ہوتے۔ اس لیے اس کتاب میں ایسے ٨٤ ناموں کی فہرست بھی دی گئی ہے، جن میں سے چند نام ذیل میں درج کیے جاتے ہیں:
’اتن، ببن، کلن، بھلن، پتن، چھٹن، بندو، بنے، بالے، ننھے، حسرتی، رئیسا، پریا، چھٹیا، منی، سکن، بھوندا، کالے، شوا، منگلے، نرالے، شبو، شدو۔‘
واضح رہے مندرجہ بالا نام رکھنے کا رواج موجودہ دور کے تعلیمی رجحان کے باعث اب بہت کم ہو گیا ہے اور رئیس رام پوری نے صرف ٨٤ ناموں کی ہی نشان دہی کی ہے جب کہ ان بے معنی ناموں کی تعداد سیکڑوں پر مشتمل ہے۔ دوسرے ان ناموں کو تحریر کرنے میں انھوں نے حروف تہجی کی ترتیب کا لحاظ نہیں رکھا۔ اس کے علاوہ اہل رام پور کے خطاب والے ١٦٧ ناموں کی فہرست میں بھی انھوں نے حروف تہجی کے اعتبار سے ناموں کو درج نہیں کیا یعنی جو نام ان کو یاد آتے گئے انھوں نے تحریر کر لیے۔
بہرحال ان ناموں کے بعد اگلے صفحہ پر مردوں اور عورتوں کی دس دس گالیاں بھی تحریر کی گئی ہیں۔ ان گالیوں کا رواج رام پور میں برسوں پہلے کبھی رہا ہوگا لیکن اب یہاں اس طرح کے نازیبا کلمات بنام گالیاں رائج نہیں۔ ان نازیبا کلمات میں سے چند درج ذیل ہیں:
’مرغی کے، بتاؤں سالے، رانڈ کا سانڈ، تجھے کھائے بھوکی بلا، بڑی حرافہ ہے وغیرہ۔‘
اس لغت کے مرتب کی یہ کوشش رہی کہ رام پور سے متعلق ہر بات اور ہر چیز کا تذکرہ اس کتاب میں شامل کر لیا جائے۔ لہٰذا اسی خیال کے پیش نظر روہیل کھنڈ اردو لغت میں تیس ایسے کھیلوں کے نام بھی در ج کیے گئے ہیں، جو رام پور میں کھیلے جاتے تھے۔ اسی کے ساتھ دو تین کھیلوں کے طریقے بھی بتائے گئے ہیں کہ یہ کھیل کس کس طرح کھیلے جاتے تھے لیکن یہاں یہ کہنا شاید غلط نہ ہوگا کہ رام پور کی وہ تہذیب اب ماضی کا حصہ بن چکی ہے، جب کچے آنگنوں میں نیم تلے اور کھپریل پڑے گھروں میں یہ کھیل گھر کے اندر لڑکیاں اور الھڑ دوشیزائیں کھیلتی تھیں اور گھر کے باہر گلی کوچوں میں لڑکے بالے کھیلا کرتے تھے۔ ان میں سے دو چار کھیل ہی اب یہاں رائج ہیں۔ رام پور میں کھیلے جانے والے کچھ کھیلوں کے نام ذیل میں دیے جاتے ہیں:
’اٹکن بٹکن، اندھا بھینسا، انٹے، اونچا نیچا، پاؤں ٹکنی، چڑیا کانٹا، چیل جھپٹا، دھائی مچونا، کوڑی چھپیا، کوڑا جمائی شائی، گچی پارا، گلی ڈنڈا، مچھلی مچھلی کتا پانی، میر جی کی گھوڑی، ہاتھی اڑ چیل اڑ وغیرہ۔‘
کتاب کے اسی صفحہ پر کھیلوں میں چور بنانے کی کئی طرح کی گنتیاں بھی درج کی گئی ہیں جو یہاں کھیلوں میں رائج تھیں۔ یہ گنتیاں اگرچہ کافی دل چسپ ہیں لیکن نئی نسل کے بچے یا نوجوان نہ تو ان کو بولتے ہیں اور نہ اب ان کو سمجھ ہی سکتے ہیں۔ یہاں نمونے کے طور پر ایک گنتی تحریر کی جاتی ہے:
’ایک دو دس، تیتر کی توڑوں نس، بنگلے کا توڑوں تالہ، تو گن لے پورے بارہ، بارہ میں لگی کسی، تو گن لے پورے اسی، اسی میں لگا جو، تو گن لے پورے سو۔‘
گزشتہ وقتوں میں رام پور میں درمیانی طبقہ کے گھروں میں کچھ پہیلیاں بھی رائج تھیں ۔ان پہیلیوں کو لڑکیاں آپس میں مل بیٹھ کر ایک دوسرے سے بوجھا کرتی تھیں۔ اس طرح کی ٣٢ پہیلیاں اس لغت میں شامل کی گئی ہیں۔ ان میں سے کچھ بہ طور نمونہ یہاں درج کی جاتی ہیں:
’اتنی سی ہلدی سارے گھر میں مل دی، تھالی بھرے بتاشے گنے نہ جائیں، کنویں میں لگائے ڈبکی دل کا حال بتائے چپکی، کٹورے میں کٹورا بیٹا باپ سے بھی گورا، مخمل کے بٹوے میں اوئی اوئی کے بیج۔‘
اسلامی مہینوں کے ناموں کو بھی رام پور کی گھریلو خواتین اور بڑی بوڑھیاں مخصوص ناموں کے ساتھ بولتی تھیں۔ اس لغت کے آخری صفحات میں سے ایک صفحہ پر اسلامی مہینوں کے نام بہ عنوان ”رام پور کے مہینے“ شامل کیے گئے ہیں۔ یہ نام دل چسپ بھی ہیں اور ایک معدوم ہوتی ہوئی تہذیب کی نشانی بھی۔ وہ نام ذیل میں درج کیے جاتے ہیں لیکن ملحوظ رہے کہ یہاں پہلے اسلامی مہینے کا نام لکھا گیا ہے اور اس کے آگے مذکورہ مہینے کا وہ نام جو رام پور میں گھریلو اور بغیر پڑھی لکھی خواتین بولا کرتی ہیں:
’محرم-محرم، صفر-تیزی، ربیع الاول-بارہ وفات، ربیع الثانی-میرا جی، جمادی الاول-مدار، جمادی الثانی-خواجہ صاحب، رجب-خدا کا چاند، شعبان-شب برات، رمضان-رمضان، شوال-عید یا چھوٹی عید، ذیقعدہ -خیالی یا خالی کا چاند، ذی الحجہ-بقرہ عید یا بڑی عید۔‘
کتاب میں ایک نظم بہ عنوان ’رام پور‘ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ رئیس رام پوری کی اس نظم کو امتیاز علی خاں عرشی نے بھی کافی پسند کیا تھا اور ١٧/دسمبر ١٩٧٢ء کو اپنی رائے ایک خط کے ذریعہ ان الفاظ میں دی تھی: ’نظم ’رام پور‘ میں آپ نے میرے دل کی باتیں کہی ہیں۔میں بھی اگر کہتا تو یہی کہتا۔‘
لغت کے بالکل آخری دو صفحات پر رئیس رام پوری نے اپنی ایک چہار بیت بھی ’یہ میرا رام پور‘ عنوان کے تحت شامل کتاب کی ہے۔
روہیل کھنڈ اردو لغت کا پہلا ایڈیشن خدا بخش لائبریری، پٹنہ نے ایک محدود تعداد میں ١٩٩٥ء میں شائع کیا تھا۔ اس کے صفحات کی تعداد محض ٦٨ اور قیمت صرف بیس روپے رکھی گئی تھی۔ اس لغت کی محدود اشاعت کے سلسلے میں خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد رضا بیدار نے ’حرف چند‘ عنوان کے تحت درج ذیل سطریں تحریر کی ہیں: ”یہ مقالہ خدا بخش لائبریری اردو سمینار میں پیش کیا گیا تھا۔ اس میں رام پور یا شاید پورے روہیل کھنڈ کی عام بول چال میں جو الفاظ اور طرق استعمال رائج ہیں، جناب رئیس رام پوری صاحب نے انھیں زیادہ سے زیادہ اکٹھا کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم اب بھی پچاس فی صد سے زیادہ لفظ نہیں آپائے ہوں گے۔ اس موضوع سے دل چسپی رکھنے والوں سے ہم امید کرتے ہیں کہ اس کی تکمیل میں مدد دیں گے۔ اس لیے اہل نظر میں سرکولیشن کے لیے یہ محدود ایڈیشن نکالا جا رہا ہے تاکہ یہ لغت روہیل کھنڈ کی اجتماعی کوشش کا نتیجہ بن سکے۔ جن صاحبوں سے، جو الفاظ و استعمالات، اضافہ کے طور سے ملیں گے وہ ان کے شکریہ کے ساتھ ضمیمہ میں دیے جائیں گے۔“
اس لغت کو دوبارہ چھاپنے یا اس کا دوسرا ایڈیشن شایع کرنے کی اجازت رئیس رام پوری کو خدا بخش لائبریری نے ۲۲/اپریل ١٩٩٦ء کے ایک خط میں دی۔ لہٰذا مرتب نے یہ لغت مارچ ١٩٩٧ء میں ایک ہزار کی تعداد میں شائع کی۔ واضح رہے پیش نظر مقالہ اسی ایڈیشن سے متعلق ہے۔ اگرچہ یہ مرتب کا شائع کردہ پہلا ایڈیشن ہے لیکن خدا بخش کے ایڈیشن کو ملا کر یہ اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن ہے۔ اس کی کتابت لئیق احمد خاں رام پوری نے کی ہے۔ قیمت پچاس روپے اور صفحات کی تعداد ١٠٠ ہے۔ کتاب کا سائز ۸/۲۲×١٨ ہے اور ناشر کی حیثیت سے چاند پبلی کیشنز سوسائٹی، بے تک روڈ رام پور درج ہے۔
روہیل کھنڈ اردو لغت کا تیسرا ایڈیشن مارچ ١٩٩٩ میں ایک ہزار کی تعداد میں ملک بک ڈپو لاہور نے، ندیم یونس پریس لاہور سے شائع کیا۔ کتاب کی قیمت تیس روپے رکھی گئی۔ پاکستان سے یہ ایڈیشن اسی شکل میں شائع کیا گیا جو رام پور سے دوسرے ایڈیشن کی شکل میں شائع ہوا تھا۔ البتہ سرورق اور اس کی کلر اسکیم میں ضرور تبدیلی کی گئی۔ مذکورہ پاکستانی ایڈیشن میں سب سے آخر میں ١٢ صفحات پر مشتمل نظر علی خاں کا ایک مضمون ”مشرقی علوم میں رام پور کا حصہ“ بھی شائع کیا گیا ہے۔ یہ مضمون رضا لائبریری رام پور کے جرنل نمبر ۲ سے اخذ کیا گیا ہے۔ رام پور میں ابتدائی نوابی دور سے آزادی کے بعد تک جو بھی علمی و ادبی کام ہوئے ہیں ان کا جائزہ اس مضمون میں پیش کیا گیا ہے۔
اس کتاب کا چوتھا ایڈیشن ہندی میں شائع کیا گیا۔ اس کا ترجمہ توصیف الرحمٰن نے کیا اور انھوں نے ہی اسے کمپیوٹر پر کمپوز بھی کیا۔ اس ایڈیشن کے ناشر خود رئیس رام پوری ہیں اور یہ ایڈیشن لیٹسٹ آفسیٹ پریس رام پور سے مئی ٢٠٠٤ء میں شائع ہوا۔ قیمت ٥٠ روپے اور صفحات کی تعداد ١٥٠ ہے۔ مجلد کور کے ساتھ کتاب خوب صورت طریقے سے شایع کی گئی ہے۔ کتاب کے آخر میں دو صفحات ”پہچان“ اور دو صفحات ”کیا آپ جانتے ہیں؟“ کے عنوان سے شایع کیے گئے ہیں۔ ان میں رام پوری لوگوں کے کچھ واقعات اور رام پور کے چند محلوں کی بابت تحریرکیا گیا ہے اور ان کے ناموں کی وجہ تسمیہ بھی بتائی گئی ہے۔
اب روہیل کھنڈ اردو لغت کا پانچواں ایڈیشن زیر اشاعت ہے۔ یہ ہندی اور اردو دونوں زبانوں کا مشترکہ ایڈیشن ہے۔ ناشرین کو چاہیے کہ زیرمطالعہ، مقالہ میں لغت سے متعلق جن خامیوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، ان خامیوں کو دور کریں۔”چھپتے چھپتے“ و ضمیمہ نمبر ایک اور ضمیمہ نمبر دو میں مرتب رئیس رام پوری نے جن نئے الفاظ کا اضافہ کیا تھا ان کو، ان ہی عنوانات کے بجائے ان الفاظ کے باقاعدہ کارڈ بنا کر لغت میں شامل کر لینا چاہیے۔ خدا بخش لائبریری ایڈیشن کے بعد تین نئے ایڈیشن شائع کیے گئے لیکن اس عیب کو کیوں برقرار رکھا گیا اور اس طرف کیوں توجہ نہیں دی گئی، اس کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ دوسری بات یہ کہ جو چیزیں بغیر حروف تہجی کی ترتیب کے، اس کتاب میں شامل ہیں ان کو بھی کارڈ بنا کر دوبارہ ترتیب دیا جانا چاہیے تاکہ یہ لغت ظاہری اور صوری عیوب سے پاک رہے۔مزید یہ کہ ان الفاظ کو لغت کی طرز پر ہی لکھنا چاہیے نہ کہ پیراگراف کی شکل میں۔
روہیل کھنڈ اردو لغت کی شکل میں رئیس رام پوری کی اس اہم کوشش کے باوجود اس کام میں مزید اضافوں کی بہت گنجائش ہے کیونکہ اب بھی بے شمار ایسے الفاظ ہیں جن تک رئیس رام پوری کی رسائی نہ ہو سکی۔ لہٰذا روہیل کھنڈ اردو لغت کے پانچویں ایڈیشن میں رام پور میں مروجہ سیکڑوں ایسے باقی ماندہ الفاظ کو شامل کیا جا سکتا ہے تاکہ عوامی بول چال کی وہ دولت محفوظ ہو جائے جسے بولنے اور سمجھنے والے بہ تدریج کم ہوتے جا رہے ہیں۔ بہرحال اب آخر میں قارئین کی دل چسپی کے لیے ذیل میں روہیل کھنڈ اردو لغت سے چند مزید الفاظ بہ طور نمونہ پیش کیے جاتے ہیں:
’الم غلم، انٹا غفیل، اندھا سٹ، اینڈنا، بتھون، بلاٹ، بوغما، بھٹخ، بھگل، بھونپو، بے مانٹی، بھنو، بھل بھل، پکی پیسی، پٹھن ولی، پھٹیچر، پلتھا، ٹپ ٹوئیاں، ٹٹروں ٹوں، جھنجی، ٹیٹ، چھپکا، حق چق، خلتا، دھپل، دوغاڑے، ڈھڈو، ڈگ، ڈانٹے کھانا، ڈلا، ڈھکوسنا، رونڈ بونڈ، سچل جھٹل، شوربا، غائب غلہ، غپ شپ، غدر بوم، فٹ فاٹ، قتلا، فنانا، کنکیا، کھاٹ کھڑی کرنا، کھپٹا، گنٹھی، لبدر، لدھڑ، ٹرخیا، لونڈا، مولا، مرکی، ہیکڑی، کٹنی، گبا وغیرہ۔‘
(۲۵/مئی٢٠١۵)
صاحب مقالہ کی یہ نگارش بھی ملاحظہ فرمائیں : سید محمد جمال الدین رحمۃ اللہ علیہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے