انھیں مجھ سے شکایت ہے

انھیں مجھ سے شکایت ہے

عذرا نقوی
گریٹر نوٸیڈا ، بھارت

انتخابِ کلام : ظفر معین بلے جعفری
(بڑھتی عمر کے ساتھ ہماری یادوں کے نگار خانے کے اثاثے میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے. خاص طور سے جب کہ ذہن تیز اور دل حساس ہو. پھر بار بار ہم ان یادوں کو بیان کرنے لگتے ہیں، کسی کو سنانا چاہتے ہیں، دل کے پھپھولے دکھانا چاہتے ہیں، اپنی یادوں کے نگار خانے کی سیر کرانا چاہتے ہیں، ذوقِ شاعری ہو تو مصرعوں میں اتارنا چاہتے ہیں، یہ عمل خوش گوار ہوتا ہے. کبھی کبھی کوئی اس عمل پہ سوال بھی اٹھاتا ہے. عذرا نقوی کی زیر نظر نظم اسی سوال سے شروع ہوتی ہے. اور پھر شاعرہ قاری کو یادوں کے عمل میں شریک کر لیتی ہے. اس طرح کہ قاری مسحور ہوجائے. اور آخری مصرعے میں جب وہ کہتی ہے کہ کل کس نے دیکھا ہے تو سایل لاجواب ہوجاتا ہے. ایک دل گداز نظم…. کے لیے اشتراک ڈاٹ کام ان کی خدمت میں نیک خواہشات پیش کرتا ہے.) 

انھیں مجھ سے شکایت ہے کہ میں ماضی میں جیتی ہوں
مرے اشعار میں آسیب ہیں گزرے زمانوں کے
وہ کہتے ہیں کہ یادیں سائے کے مانند میرے ساتھ رہتی ہیں
یہ سچ ہے اس سے کب انکار ہے مجھ کو
میں اکثر جاگتے دن میں بھی آنکھیں موند لیتی ہوں
کوئی صورت، کوئی خوش بو، کوئی آواز، کوئی ذائقہ یا لمس جب جادو جگاتا ہے
ٹو ” منیا تور” تصویریں اچانک بولنے لگتی ہیں ناٹک منچ سجتا ہے

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے
کسی ٹوٹے ہوئے صندوق میں رکھے ہوئے بوسیدہ مخطوطے سے کوئی داستاں تمثیل بن جاتی ہے
جی اٹھتے ہیں سب کردار ماضی کے
سپاہی، بادشاہ، خلعت، نوادر، رقص و موسیقی
کسی کے پاوں میں پائل، دھنک آنچل
کسی شمشیر کی بجلی، گھنی برسات کی بدلی
ْکسی بارہ دری میں راگ دیپک کا
کسی صحن گلستاں میں
کدم کے پیڑ پر بیٹھی ہوئی چڑیاں
اچانک جاگ جاتی ہیں
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے 
کسی گمنام قصبے میں کوئی ٹوٹی ہوئی محراب، خستہ حال ڈیوڑھی کی جھلک
معدوم کردیتی ہے
ہوٹل، چائے خانے، بس کے اڈے، ڈھیر کوڑے کے
کئی صدیاں گذر جاتی ہیں سر سے
کوئی گم گشتہ شہر رفتگاں بیدار ہوتا ہے
اسی منظر کا حصہ بن کے میں تصویر ہو جاتی ہوں کھو جاتی ہوں ماضی میں

میں اکثر آبنائے وقت پر کاغذ کہ ناو ڈال دیتی ہوں
تو پانی اپنا رستہ موڑ دیتا ہے
میں جب چاہوں سلونی، سانولی نٹ کھٹ مدھر یادیں اْٹھا لاوں لڑکپن کے گھروندوں سے
میں جب چاہوں
تو کالی کوٹھری میں قید رنجیدہ، پشیماں، زخم خوردہ ساعتوں بیتے دنوں کو پیار سے چھو کر
دلاسہ دوں تھپک کر لوریاں دوں، 
خوب روؤں، خوب روؤں، شانت ہو جاؤں

یہ ماضی میرا ماضی ہے فقط میرے تصرف میں ہے میری ملکیت ہے، میرا ورثہ ہے
نہ میرا حال پر بس ہے
اور آنے والا کل بھی کس نے دیکھا ہے
***
عذرا نقوی کی یہ نگارش بھی ملاحظہ فرمائیں :گنگا کنارے_ یادوں کا سفر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے