١٨٥٧ء کی تحریک آزادی سے پیدا شدہ گاؤں: بونسی

١٨٥٧ء کی تحریک آزادی سے پیدا شدہ گاؤں: بونسی

ڈاکٹر محمد ذاکر حسین
خدا بخش لائبریری، پٹنہ

تازہ خواہی داشتن گر داغ ہائے سینہ را
گاہے گاہے باز بخواں این قصۂ پارینہ را
اگر سینے کے داغوں کو ہرا اور تازہ رکھنا ہے تو کبھی کبھی اپنے اسلاف اور بزرگوں کی یاد بھی تازہ کر لینی چاہیے کیونکہ اس سے دل میں سرور، آنکھوں میں نور، عمل میں جوش، ہاتھوں میں قوت اور پاؤں میں تحرک پیدا ہوتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ دلوں سے نفرت و کدورت، بغض و عناد، حسد و کینہ اور مکر و فریب کے کالے دھبے مٹ جاتے ہیں۔
بزرگوں کی جس بستی کا میں ذکر کرنے جارہا ہوں، اُس کی کہانی ڈرامائی انداز لیے ہوئی ہے۔ لیجیے سُنیے اِس بستی کے بسانے والے کی کہانی جو محبت کی کہانی ہے، انگریزوں سے لوہا لینے کی کہانی ہے، دلوں کو جوڑنے کی کہانی ہے، لوگوں کو بسانے کی کہانی ہے، ایک دوسرے کے جذبات کو سمجھنے کی کہانی ہے، چھوٹے اور بڑے کی تمیز، شفقت اور عزت کی کہانی ہے اور تعلیم کے ذریعہ اپنا مستقبل سنوارنے کی کہانی ہے۔ جس پُر آشوب دور اور نازک حالات میں یہ بستی عالمِ وجود میں آئی، پہلے اُسے ملاحظہ فرمائیں:
بہار کی سر زمین شروع ہی سے غیر ملکی حکمرانوں کی مخالف رہی ہے۔ مغلوں سے لوہا لینے والا شیر شاہ سوری بہار کا ہی بہادر سپوت تھا۔ اس نے دو بار ہمایوں کو جنگ میں ایسا پسپا کیا کہ خود ہمایوں بڑی مشکل سے اپنی جان بچانے میں کام یاب ہوسکا۔ ١٨/ویں صدی کے وسط میں ٹکاری کے راجا سندر سنگھ اور مشہور زمین دار معین خاں نے مغلوں کے خلاف بغاوت کا پرچم بلند کیا۔ اسی طرح مغلوں کے زوال کے بعد جب غیر ملکی حکمراں کی شکل میں انگریزوں نے اس ملک پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہا تو میر قاسم وہ پہلا جاں باز تھا، جس نے انگریزوں کو للکارا۔ اسی وقت سے پٹنہ بغاوت کا مرکز رہا۔ ١٧٨١ء میں جب راجا چیت سنگھ نے انگریزوں کے خلاف بغاوت کا بگل بجایا تو سہسرام کے حکمراں رضا قلی خاں، ٹکاری کے راجا پیتامبر سنگھ، کٹمبا اور سریس کے زمین داروں نے راجا چیت سنگھ کا ساتھ دیا تھا۔ سارن میں فتح سنگھ نے انگریزوں کا جینا حرام کر دیا تھا۔ ١٧٩٨ء میں اودھ کے بر خواست نواب وزیر علی نے انگریزوں کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا تو اس وقت ٹکاری کے راجا مترجیت سنگھ نے ان کا ساتھ دیا۔ ١٨٣١ء میں چھوٹا ناگپور کے آدی واسی قبیلے کول اور ١٨٥٥ء میں سنتھالوں نے بغاوت کر دیا۔ یہ بغاوت ١٨٥٧ء تک جاری رہی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بہار کی سرزمین نے کبھی بھی انگریز سرکار کا وفادار بننا پسند نہیں کیا اور برابر آزادی کی لڑائی لڑتی رہی اور جب ١٨٥٧ء نے اس علاقہ کا رخ کیا تو یہ پہلے سے اس کے لیے تیار بیٹھی تھی۔ ایک اسّی (٨٠) برس کے بہادر سپوت ویر کنور سنگھ نے انگریزوں کو اتنا چھکایا کہ آج بھی وہ اس کی کڑواہٹ محسوس کرتے ہیں۔ پیر علی کا یہ قول بھی ان کو ہمیشہ پریشان کیے رکھا کہ ”زندگی میں ایسے بھی مواقع آتے ہیں جن میں جان بچا لینا ثواب کا کام ہوتا ہے۔ ایسے بھی مواقع آتے ہیں جن میں پیاری جان دے ہی دینا سب سے بڑا ثواب شمار کیا جاتا ہے۔ تم مجھے پھانسی دے سکتے ہو۔ مجھ جیسے اور لوگوں کی بھی جانیں لے سکتے ہو۔ لیکن اس دھرتی سے ہزاروں آدمی تمھارے خلاف اٹھتے رہیں گے اور اطمینان و سکون سے حکومت کرنے کا جو مقصد تمھارے سامنے ہے، وہ کبھی پورا نہ ہوگا۔“ پیر علی کی یہ بات سو فی صد صحیح ثابت ہوئی اور انگریز ١٨٥٧ء کی بغاوت ناکام ہونے کے بعد بھی چین سے اقتدار نہیں سنبھال سکا (١٨٥٧ء اور بہار کی پترکاریتا/ ڈاکٹر محمد ذاکر حسین، ص ۷)۔
بہار کے دیگر علاقوں کی طرح ترہت کے باشندوں نے بھی ١٨٥٧ء کی تحریک آزادی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ترہت راج کے حدود اربعہ مختلف ادوار میں تبدیل ہوتے رہے۔ کبھی اس میں نیپال کی ترائی سے لے کر کوسی ڈویزن تک اور جنوب میں حاجی پور تک شامل تھا جس کا صدر مقام دربھنگہ تھا۔ ۱/ جنوری ١٨٧٥ء کو انگریزوں نے دربھنگہ کو ضلع بنایا اور ترہت کمشنری قائم کی گئی جس میں دربھنگہ، مظفرپور، سارن، اور چمپارن شامل کیے گئے۔ ١٩٧٢ء میں دربھنگہ سے مدھوبنی اور سمستی پور ضلع قائم کر دربھنگہ کو کمشنری بنایا گیا۔
١٠/ مئی ١٨٥٧ء کو میرٹھ سے تحریک آزادی کا جو شعلہ اٹھا، اس نے رفتہ رفتہ پورے ہندستان کو اپنی چپیٹ میں لے لیا۔ بغاوت شروع ہونے کے محض ١٥/ دنوں کے اندر ہی ترہت میں اس کی آگ چاروں طرف لگ چکی تھی۔ ٢٥/ مئی ١٨٥٧ء کو ضلع چمپارن میں تعینات میجر ہومس نے گورنر جنرل کو مطلع کیا کہ میں نے یہاں کے افسروں کو پوری طرح سمجھا دیا ہے کہ باغیوں کا مقصد صرف لوٹ مار ہے۔ آپ لوگوں کے ماتحت جو امیر اور رئیس ہیں، ان کو اس سے پوری طرح محتاط کردیں اور فوجی قانون نافذ کر دینا ضروری ہے۔ اس اطلاع کے بعد اس نے ضلع ترہت، چھپرہ اور چمپارن وغیرہ میں فوجی قانون نافذ کردیا (١٨٥٧ء اور بہار کی پترکاریتا/ ڈاکٹر محمد ذاکر حسین، ص ۲۱۲)۔
میجر ہومس کی ماتحتی میں سگولی کی فوج تھی۔ اس نے پورے خطہ میں مارشل لا نافذ کرالیا تھا اور چمپارن، چھپرہ، مظفرپور اور دربھنگہ (ترہت) میں بھی اسے نافذ کردیا گیا۔ میجر ہومس کو اپنے دیسی سپاہیوں پر پورا اعتماد تھا لیکن انھی سپاہیوں نے اس کا قتل کردیا۔ ایک روز وہ اپنی بیوی کے ہمراہ ٹہلنے کے لیے نکلا، اچانک سواروں کے مسلح دستہ نے اس پر حملہ کردیا۔ اِن سپاہیوں نے کچھ اور انگریزوں کا قتل کردیا۔ مسٹر کارنل اپنے بنگلے میں بیٹھا ہوا تھا، اس کو اور اس کے بیٹے کو بھی مار ڈالا۔ ڈپٹی پوسٹ ماسٹر بھی مارا گیا۔ محض تھوڑے سے سپاہی جو کیپٹن جونس کے ماتحت تھے، وفادار رہے۔ مظفر پور میں بغاوت کا زیادہ اثر دیکھا گیا۔ یہاں کے دیسی سپاہی بھی باغی ہو گئے۔ فوج داری کچہری کو لوٹ لیا اور جیل خانہ پر بھی حملہ کیا لیکن کام یاب نہ ہوسکے اور چھپرہ کی جانب چلے گئے(١٨٥٧ء اور بہار کی پترکاریتا/ ڈاکٹر محمد ذاکر حسین، ص۲۴۱۔۳۴۱)۔
سپاہیوں کو بغاوت پر آمادہ کرنے میں ترہت پولس کے جمعدار وارث علی کا اہم کردار تھا۔ انگریز ان کی سرگرمی پر سخت نظر رکھے ہوئے تھے چنانچہ اسی شبہ میں ٢٠یا ٢١/ جون ١٨٥٧ کو نیل کے سوداگروں اور سر ولیم رابرٹسن کے ذریعہ ان کو گرفتار کر لیا گیا۔ جس وقت ان کی گرفتاری عمل میں آئی اُس وقت وہ ڈمری کے زمین دار مولوی علی کریم کو بغاوت پر مبنی ایک خط لکھ رہے تھے۔ ٢٣/ جون ١٨٥٧ء کو ترہت کے مجسٹریٹ رچرڈسن نے ولیم ٹیلر کو وارث علی کی گرفتاری کی تفصیل بھیجی۔ وارث علی کے پاس بغاوت پر مبنی کچھ خطوط پکڑے گئے تھے۔ چنانچہ ۶/ جولائی ١٨٥٧ء کو انھیں پھانسی دے دی گئی۔ اُن کے ساتھ ترہت کے چھ لوگوں کو بھی پھانسی دے دی گئی (١٨٥٧ء اور بہار کی پترکاریتا/ ڈاکٹر محمد ذاکر حسین، ص٢١٥۔٢١٤)۔
انگریزوں کی اس ظالمانہ کارروائی نے اِس آگ میں تیل کا کام کیا۔ اب سپاہیوں کے ساتھ عام لوگ بھی اس بغاوت میں شامل ہوگئے۔ اس سے باغی سپاہیوں کا حوصلہ اور بڑھ گیا اور انگریزوں کا جینا وہاں دشوار کردیا۔ حالات اتنے ناگفتہ بہ ہو گئے کہ ٢٧/ جولائی ١٨٥٧ء کو انگریزوں نے چھپرہ شہر کو خالی کردیا۔ مظفرپور کے جج مسٹر فوربس نے کمشنر کو لکھا کہ ضلع ترہت بڑی خطرناک حالت میں ہے، کیونکہ جیمس ہومس کے باغی سپاہی ہر جگہ پھیل گئے ہیں۔ اگر مکمل انتظام نہیں کیا جائے گا تو وہ ضلع قبضہ سے نکل جائے گا۔ مظفرپور کے مجسٹریٹ کی پٹنہ روانگی کے بعد ٣١/ جولائی ١٨٥٧ء کو وہاں بھی ۱۱/ویں پیدل فوج کے سواروں نے بغاوت کردی مگر جلد ہی اُسے دبا دیا گیا اور اُس کے بعد بغاوت کے الزام میں بہت سے لوگوں کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ سارن میں محمد حسین کی سربراہی میں بہت سے لوگوں نے بغاوت کردی۔ میجرجیمس ہومس کے قتل کے معاملے میں موتیہاری کے مجسٹریٹ ریکس نے۸/اگست ١٨٥٧ء کو بتیا کے راجا کے دیوان نظام الدین کو گرفتار کرلیا لیکن بعد میں رہا کردیا گیا۔ (١٨٥٧ء اور بہار کی پترکاریتا/ ڈاکٹر محمد ذاکر حسین، ص٢٢٠۔ ٢١٧)۔
مجاہدین آزادی نے اس تحریک آزادی کو ہر ممکن کامیاب بنانے کی کوشش کی، لیکن جدید تکنیک اور جدید ہتھیار سے لیس انگریزوں کا پلڑا بھاری رہا۔ مجاہدین ہر جگہ پسپا ہوتے گئے اور جنوری ١٨٥٨ء آتے آتے بغاوت کی آگ ہر جگہ دھیمی ہونے لگی۔ مجاہدین آزادی کے پسپا ہوتے ہی انگریزوں نے ایسے ایسے ظلم کیے جس کی مثال بہت کم دیکھنے کو ملے گی۔ خاص طور سے مسلمانوں کو اس بغاوت کا محور مان کر اتنا تنگ کیا گیا کہ ان کی کمر ہی ٹوٹ گئی۔ دیگر افراد کی طرح اول میاں اور طاہر میاں دونوں بھائی بھی اس کی زد میں آگئے۔ جس بے سرو سامانی کے یہ دونوں بھائی شکار ہوئے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ترہت کے دیگرباشندگان کی طرح اُن کے پریوار کے لوگوں نے بھی اس تحریک آزادی میں حصہ لیا تھا اور اُن کے پریوار کے افراد شہید بھی ہوئے تھے۔ کسی طرح یہ دونوں بھائی انگریزوں کی گرفت سے بچ گئے اور محفوظ و مامون جگہ کی تلاش میں اپنے مقام اصلی سے نکل پڑے۔
اول میاں اور طاہر میاں کے بارے میں تذکروں اور تاریخ کی کتابوں میں کہیں کچھ نہیں ملتا ہے البتہ گاؤں کے بزرگوں کی زبانی جو باتیں معلوم ہوسکی ہیں، انھیں یہاں درج کیا جارہا ہے۔ جب تحریری طور پر کچھ نہیں ملے تو لوگوں میں مشہور اور سینہ بہ سینہ چلے آرہے حقائق پر ہی اعتبار کیا جاسکتا ہے کیونکہ لوگوں کے حالات جمع کرنے کا یہ بھی ایک معتبر طریقہ مانا جاتا ہے۔ چنانچہ جب ١٨٥٧ء کی تحریک آزادی ناکام ہوگئی اور انگریزوں کے ظلم کا سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا تو یہ دونوں بھائی ترہت کے خطۂ سریسا سے ہجرت کر کسی محفوظ و مامون جگہ کی تلاش میں نکل پڑے۔ بے سر و سامانی کے عالم میں در بدر کی ٹھوکریں کھاتے ہوئے یہ دونوں بھائی موجودہ ضلع مدھوبنی کے کلواہی پہنچے۔ کچھ دنوں یہاں رہے۔ چونکہ کلواہی عام شاہراہ پر واقع ہے، اس لیے انگریز افسروں کا اس راستے سے برابر آنا جانا رہتا تھا۔ ١٨٥٧ء کی تحریک آزادی کی ناکامی کے بعد یہاں پولس گشت بڑھا دی گئی تھی اور اسی دھر پکڑ کے خوف سے اِن دونوں بھائیوں نے اپنے مادر وطن کا تیاگ کیا تھا۔ اُنھیں یہاں بھی جائے پناہ نہ ملی۔ پھر وہ ایسی جگہ کی تلاش میں نکلے جہاں پکڑے جانے کا کوئی خدشہ نہ ہو۔ اتفاق سے کملا اور بلان ندی کے بیچ میں ایک خارزار بَن ملا جہاں بانسوں کی کثرت تھی اور جہاں آسانی سے چھپا جا سکتا تھا۔ شروع میں دونوں بھائی پورا دن یہاں گزارتے اور دیر شام کلواہی کے لیے نکل پڑتے۔ محفوظ و مامون جگہ کے ساتھ ذریعۂ معاش کا مسئلہ بھی در پیش تھا۔ یہاں انھیں دونوں مسائل کا حل نظر آیا۔ چنانچہ دونوں بھائیوں نے اِس بَن کو صاف ستھرا کر کھیتی کے لائق زمین تیار کیا اور کھیتی کرنے لگے۔ پھر یہ روز کا معمول بن گیا کہ صبح تڑکے کلواہی سے یہاں آتے اور دن بھر کھیتی کے کام میں مشغول رہتے اور شام میں کلواہی لوٹ جاتے تھے۔ کچھ دنوں تک دونوں بھائیوں کا یہی معمول رہا۔ لیکن روزانہ کلواہی سے آناجانا ایک دشوار طلب مرحلہ تھا۔ جب اُنھیں اطمینان ہو گیا کہ انگریزوں کی گرفت سے محفوظ ہیں تو اُنھوں نے اِسی جگہ کو اپنا مسکن بنا لیا۔ دو پریوار سے کوئی بستی تو نہیں بنتی۔ اس کے لیے آبادی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسے ہی یہ فکر دامن گیر ہوئی تو دونوں بھائی پریشان لوگوں کی تلاش میں لگ گئے اور پھر اِن کی کوششوں سے رفتہ رفتہ یہاں آبادی بڑھنے لگی اور بانسوں کی کثرت والا یہ خارزار بَن بونسی کے نام سے موسوم ہوا:
یہ رستہ عاشقوں کا ہے یہاں چلنا نہیں آساں
وہی رخت سفر باندھے ہے جسے آتا ہو مرجانا
اول میاں اور طاہر میاں نے انگریزوں کی گرفت سے بچنے کے لیے جس خفیہ مقام کا انتخاب کیا تھا، وہاں چھوٹا موٹاجنگل تھا جس میں جھاڑی اور بانسوں کی کثرت تھی جسے وہ لوگ بَن سی کہتے تھے پھر رفتہ رفتہ یہ بَن سی بونسی ہوگیا۔ ایک توضیح تو یہ سمجھ میں آتی ہے۔ دوسری توضیح یہ ہو سکتی ہے کہ چونکہ وہاں بانس کے درخت بہت زیادہ تھے اور یہ دونوں بھائی اُسی کی آڑ میں چھپے رہتے تھے۔ ہو سکتا ہے یہی بانس بونسی میں تبدیل ہو گیا ہو۔ اِن دونوں توضیحات کی تصدیق اس سے بھی ہوتی ہے کہ یہ مقام اُس وقت دربھنگا میں آتا تھا اور خود دربھنگا کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ”سنسکرت میں لکڑی کو دارو کہتے ہیں اوربھنگ بمعنی قطع (کاٹنے) کے ہے اور الف واسطے تحسین کلام کے زیادہ کیا گیا ہے یعنی جنگل اور لکڑی کاٹ کر بستی آباد ہوئی۔ اس لیے اس کا نام دارو بھنگا قائم ہوا (آیینہ ترہت، ص ۳۱)“۔ پھر رفتہ رفتہ کثرت استعمال سے دربھنگا ہوگیا۔ گویا یہ پورا علاقہ جنگل کو صاف کراکر آباد کیا گیا ہے۔
بونسی ہمالیہ کی ترائی میں بسا ہوا ایک ایسا علاقہ ہے جسے میدانی علاقہ کہا جاتا ہے۔ اس میدانی علاقے میں کھیتوں کے دراز سلسلے نظر آئیں گے۔ اس کے پورب میں بلان ندی اور پچھم میں کملا ندی بہتی ہیں۔ اُتّر میں کوسی ندی سے نکالی گئی شاخ نہر ہے اور اس سے متصل ڈلوکھر بستی ہے۔ دکھن میں ترہوتا موضع ہے۔ دو ندیوں کے درمیان واقع ہونے سے یہ ہمیشہ ہرا بھرا رہتا ہے البتہ برسات کے موسم میں سیلاب کی بھی کرم فرمائیاں رہتی ہیں۔ کبھی کبھی یہ سیلاب جان لیوا ہوجاتا ہے۔
بونسی ریاست بہار کے ضلع مدھوبنی کے بابو بارہی بلاک میں ایک چھوٹا سا گاؤں /بستی ہے۔ یہ ترہوتا پنچایت کے تحت آتا ہے۔ اس کا تعلق دربھنگہ ڈویڑن سے ہے۔ یہ ضلع صدر مقام مدھوبنی سے مشرق کی طرف ٢٧/ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ بابو بارہی سے ۵/ کلومیٹر اور ریاستی دارالحکومت پٹنہ سے ١٧٣/کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہاں سے بابو بارہی (۳/کلومیٹر)، ترہوٹا (۲/ کلومیٹر)، پیرہی (۲/کلومیٹر)، مرہدی (۴/کلومیٹر)، مروکیا (۵/ کلومیٹر) بونسی کے قریبی گاؤں ہیں۔ اس کے شمال میں لدنیا بلاک، جنوب میں راج نگر بلاک، مغرب میں کھجولی بلاک، مشرق میں آندھراٹھاری بلاک ہے۔ ٢٠١١ء کی مردم شماری کے مطابق گاؤں کی کل آبادی ٢٥٨٦/ ہے اور گھروں کی تعداد ٥٤٦/ہے۔ خواتین کی آبادی ٤٩/ فی صد ہے۔ گاؤں کی خواندگی کی شرح ٥٢/ فی صد اور خواتین کی شرح خواندگی ١٨/ فی صدہے۔
حضرت مومن عارف یمنیؒ کے گیارہ لڑکے تھے۔ انھوں نے اپنے سارے لڑکوں کو بہار کے مختلف مقامات پر دین کی تبلیغ کے لیے بھیجا، انھی میں ایک ترہت آئے۔ انھی کی نسل میں اول میاں اور طاہر میاں تھے۔ ترہت سے ہجرت کرتے وقت وسائل کی کمی کے سبب وہ شروع میں کھیتی باڑی کا کام کرتے رہے۔ اِن دونوں بھائیوں کے بعد دو رفیقوں یعنی حاجی فرزند احمد اور منشی لیاقت مومن نوّر اللہ مرقدہم نے اپنی ذکاوت و فطانت اور اپنی سوجھ بوجھ سے اِس گاؤں کو علاقہ میں شناخت دلائی اور اس کو ایک مرکزیت عطا کی۔ اِن کے بعد الحاج حافظ محمد محی الدین نوّر اللہ مرقدہم نے گاؤں کے شیرازہ کوبکھرنے نہیں دیا اور اپنے اسلاف کی سابقہ روایات کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اُس کی عظمت و وقعت اور اُس کی شان میں مزید نکھار پیدا کیا:
نامِ نیکِ رفتگاں ضائع مکن
تا بماند نامِ نیکت برقرار
اپنے بزرگوں کے نام کو صفحۂ ہستی سے مٹنے نہیں دینا چاہیے کیونکہ اِن بزرگوں کے طفیل ہی ہمارے نام دنیا میں برقرار رہیں گے۔ بونسی کے بانی اول میاں اور طاہر میاں دونوں بھائی انگریزوں کے ستائے ہوئے تھے، اس لیے اِن کی زندگی بڑی پریشانی میں گزری لیکن اپنے اخلاف کو ایک سِیکھ دے گئے کہ انگریزوں سے اگر مقابلہ کرنا ہے تو تعلیم کو اپنا نصب العین، اپنا مشن بنانا ہوگا۔ اُن کی اِس ہدایت کو اُن کے اخلاف بالخصوص مسہرو مومن مرحوم، بادل میاں مرحوم، علی جان مرحوم اور حسینی میاں مرحوم وغیرہ نے ہمیشہ پیش نظر رکھا اور ١٩٢١ء میں اِس بستی میں ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی جسے ہم مدرسہ محمدیہ کے نام سے جانتے ہیں۔ اس مدرسہ کا نام حضور پاکﷺ کے مقدس و بابرکت نام پر رکھا گیا ہے۔ جس وقت اِس مدرسہ کی بنیاد ڈالی گئی ملک کے حالات ناگفتہ بہ تھے۔ ہر شخص پریشان اور اپنے مستقبل سے مایوس تھا کیونکہ انگریزوں کے ظلم سارے سابقہ ریکارڈ توڑ رہے تھے۔ ایسے نازک اور سنگین ماحول میں مدرسہ قائم کرنا اور اپنے بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کا خواب دیکھنا، اپنے آپ میں بہت بڑی بات تھی۔ سلام ہے اِس بستی کے بزرگوں پر جنھوں نے اس مدرسہ کو ہمیشہ ہرا بھرا رکھا۔ اس مدرسہ کے پہلے استاد مولانا اسحاق صاحب تھے جو دیودھا کے رہنے والے تھے اور ان کے شاگردوں میں حاجی فرزندعلی اور منشی لیاقت مومن نوّر اللہ مرقدھم وغیرہ تھے۔ پانچ سات برس انھوں نے درس و تدریس کی ذمہ داری سنبھالی۔ ان کے بعد دیودھا ہی کے مولانا رحمت کریم صاحب نے کچھ دنوں تک درس و تدریس کے فرائض انجام دیے۔ ان کے بعد رشید پور کے حافظ واعظ الحق صاحب اور ان کے بعد گیدر گنج کے حافظ عثمان صاحب بہ غرض درس و تدریس یہاں مقیم رہے۔ اس کے بعد مولانا اسحاق صاحب دوبارہ تشریف لائے اور ١٩٥٣ء کی ابتدا تک بچوں کو پڑھاتے رہے۔ اس کے بعد حاجی فرزند علی اور حافظ فرمود علی نوّر اللہ مرقدہم نے درس و تدریس کے معیار کو بلندی عطا کی۔ ٢٠٢١ء میں اِس مدرسہ کی عمر سو برس کی ہوگئی ہے۔
اپنی سو سالہ زندگی میں اِس مدرسہ نے بڑے کارنامے انجام دیے ہیں۔ اڑوس پروس کی بستیوں میں ہماری عمر کے اور اُس سے اوپر کے جتنے بھی پڑھے لکھے لوگ ہیں، وہ سب کے سب اِس مدرسہ سے پڑھے ہوئے ہیں۔ حفظ کا شعبہ شروع سے اِس مدرسہ کا طرۂ امتیاز رہا ہے۔ چنانچہ اِس مدرسہ سے فارغ حفاظ کرام کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ ریاست بہار کے مختلف سرکاری اسکولوں، مکتبوں اور مدرسوں میں اس مدرسہ کے تعلیم  یافتہ حضرات اپنی خدمات انجام دیتے رہے ہیں اور اب بھی دے رہے ہیں۔ ہندستان کے مشہور و معروف اداروں میں بھی اِس مدرسہ سے تعلیم حاصل کرنے والے چند افراد اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر محمد عابد حسین، سابق صدر شعبہ، پٹنہ یونی ورسٹی، ڈاکٹر محمد صادق حسین، موجودہ صدر شعبہ، پٹنہ یونی ورسٹی، ڈاکٹر عبد الودود قاسمی، شعبہ اردو، للت نرائن متھلا یونی ورسٹی اورحافظ عبد الرؤف، شعبہ ادویہ، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اسی مدرسہ کے پروردہ ہیں۔ اِس ناچیز نے بھی اُن بوریہ نشین اساتذہ کرام کے پاؤں کے دھول جھاڑے ہیں، جن کے پڑھائے ہوئے سبق آج بھی کام آرہے ہیں۔ اس مدرسہ ہی کی برکت ہے کہ آج میں عالمی شہرت یافتہ خدا بخش لائبریری جو بیرون ملک پٹنہ کی شناخت بھی ہے، کے پریوار سے جڑا ہوا ہوں اور اِسی کا فیضان ہے کہ اب تک میری ١٢/ کتابیں اردو، ۳/ فارسی میں، ایک عربی میں اور ۴/ ہندی میں شائع ہوچکی ہیں۔ اس اعتراف کے ساتھ کہ
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
***

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے