جنگ تو جنگ ہے

جنگ تو جنگ ہے

(یوکرین روس تنازع و جنگ کے پس منظر میں)

مسعود بیگ تشنہ

جنگ تو جنگ ہے بربادیِ اسبابِ حیات
ظلم تو ظلم ہے، انسان کہاں پائے نجات
حریت ہو یا بغاوت نہیں شائستہ مزاج
کیا یہ قبضہ نہیں توسیع پسندی کا خراج
ہیں تجارت میں مددگار مگر اپنے ہات
قدرتی سارے وسائل یہ بڑی تنصیبات
حکم دنیا پہ کسی ایک کا چل سکتا نہیں
دل کسی اور کی دولت پہ مچل سکتا نہیں
ہوں اگر متحدہ قومیں جہاں میں ساری
پھر تو پڑ سکتی ہے غاصب کو بھی کوشش بھاری
ظلم، افلاس، تباہی کے سوا کچھ بھی نہیں
جنگ ظالم کی بھلائی کے سوا کچھ بھی نہیں
ظلم کو روکنا بھی جنگ ہے، گر ہو جائے
سرحدیں توڑنا بھی جنگ ہے، گر ہو جائے
راستہ صلح صفائی کا دکھانا بہتر
امن کی فاختہ مل جل کے اڑانا بہتر
(25 فروری 2022، اِندور، انڈیا)
مسعود بیگ تشنہ کی یہ تخلیق بھی ملاحظہ ہو :دل سے مبارک آپ کو

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے