تازہ ہوا کی تابشیں

تازہ ہوا کی تابشیں

(ساہتیہ اکادمی ایوارڈ یافتہ شاعر چندر بھان خیال کی شاعری پر ایک نوٹ)

حقانی القاسمی
رابطہ: haqqanialqasmi@gmail.com
989172644

احساس کا نیا آسمان، اظہار کی نئی زمین تلاش کرنا بہت دشوار ہوتا ہے اور اس سے بھی زیادہ مشکل احساس و اظہار میں ربط و اتصال قائم رکھنا۔ لیکن بڑے تخلیقی ذہن کے کینوس پر متضاد تصورات اور تصویروں میں بھی ربط کی ایک کیفیت ہوتی ہے۔ چندر بھان خیال کا بھی معاملہ کچھ یوں ہے کہ ان کا ذہنی کینوس بہت وسیع ہے اور وہ بنیادی طور پر امتزاجی اور ترکیبی ذہن کے حامل ہیں۔ ان کا مربوط اور منظم ذہن کسی ایک مرکز یا محور پر مرتکز نہیں ہے۔ وہ حیات و کائنات کی تمام جہتوں سے روشنی کشید کرتے ہیں۔ نئی سمتیں، نئے زاویے اور نئے جزیرے کی جستجو ان کی سرشت میں شامل ہے۔ ایسا ہی ذہن سمندر کے سکوت اور دریا کے شور سے رشتہ قائم رکھتا ہے اور نیا شعور، نئی شعریات وضع کر سکتا ہے۔ انفس و آفاق سے تعلق رکھنے کی وجہ سے اس پر کائنات کے اسرار بہ انداز دیگر منکشف ہوتے ہیں۔
چندر بھان خیال نے اپنی سطح پر شاعری میں ایک نئے شعور کو جنم دیا ہے اور اسی شعور کی روشنی میں ان کی تخلیقی مسافت جاری و ساری ہے۔ اس مسافت نے انھیں بہت سی راہوں اور منزلوں سے آشنا کیا ہے۔ ایسی راہیں بھی جو تاریک تھیں اور وہ راستے بھی جو روشن تھے۔ انہی راہوں سے انھوں نے اس جہان دیگر تک کا سفر کیا جہاں بہت سارے اَن چھوئے موضوعات اور مسائل ان کے منتظر تھے اور ان موضوعات کو ان کے خیال کی حرارت اور حدت کی ضرورت بھی تھی۔
چندر بھان خیال نے جن موضوعات اور مسائل کو اپنی تخلیقی فکر اور فرہنگ کا حصہ بنایا وہ آج کی دنیا کے موضوعات اور آج کے عوام کے مسائل ہیں، اور انھیں نئی جہتوں اور نئے زاویوں سے روشناس بھی کرایا۔ اپنی بیانیہ قوت کے ذریعہ ان موضوعات میں نئی شدت بھی پیدا کی۔ ان میں سے کچھ موضوعات ایسے بھی ہیں جن پر بہت سے شاعروں نے لکھا ہوگا لیکن چندر بھان کے تخیل کے لمس سے اس میں ایک نئی کیفیت اور اظہار سے ایک نئی قوت پیدا ہوگئی۔
چندر بھان خیال عصری حسیت کے حامل ہیں لیکن ان کے ذہن میں بہت سارے اور بھی زمانوں کی حسیات ہیں. اس لیے وہ تمام حسیات کو مربوط کرکے ایک نیا تناظر اور تفاعل تشکیل دیتے ہیں اور یہی ان کا نقطۂ انفراد بھی ہے۔
چندر بھان خیال کی غزلیہ اور نظمیہ شاعری کے مطالعے سے ان کا ذہنی نقشہ کچھ یوں تشکیل پاتا ہے:
ان کا ذہن احتجاجی اور مزاحمتی ہے۔
ان کا ذہنی اور تخلیقی منشور انصاف، آزادی اور حقوق انسانی کا حصول ہے۔
شاعری میں شب و روز کے تجربات کا بیان ہے۔
یوٹوپیائی خواب نہیں، زندگی کے تلخ حقائق کا اظہار ہے۔
صرف مشاہدہ نہیں کمٹمنٹ کی شاعری ہے۔
انفرادی وجود کا اظہار یا پروجکشن نہیں بلکہ اجتماعی شعور کا بیان ہے۔
کسی مخصوص یا محدود نظریے کی وکالت نہیں ہے۔
اپنا وژن ہے۔ کسی خاص تناظر کی تقلید اور تابع داری نہیں ہے۔
اثبات و اقرار بھی ہے، نفی اور انکار بھی۔
یہ سماجی انصاف (Social Justice) اور انسانی حقوق کی شاعری ہے۔
چندر بھان خیال کی شاعری کا موضوعاتی کینوس بہت وسیع ہے۔ ان کے یہاں سماجی، طبقاتی، معاشی جبر و استحصال کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار ملتا ہے۔ انھوں نے ان تصورات کو مسترد کیا ہے جن سے انسانیت اور آدمیت کی نفی ہوتی ہے۔ ان کی تخلیق کے مرکز میں وہ استحصال زدہ اور محروم طبقہ بھی ہے جس کے آسمان میں کبھی سورج نہیں اُگا، جس کے نصیب میں کبھی شجر سایہ دار نہیں رہا۔ جس کے حصہ میں صرف شب کی سیاہی آئی، دن کا اجالا نہیں آیا. انھوں نے اپنی شاعری میں اس طبقے کے حقوق اور انصاف کی آواز بلند کی ہے اور اپنے خیال کی روشنی سے ان اندھیروں کو دور کرنے کی سعی کی ہے جو پس ماندہ وجود سے لپٹے ہوئے ہیں۔ یہ وہ طبقہ ہے جو صدیوں سے بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم ہے۔ چندر بھان خیال نے اس طبقے کے درد، کرب اور محرومی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اس لیے ان کی شاعری میں وہ درد پوری شدت کے ساتھ سامنے آتا ہے.
چندر بھان خیال کی شاعری میں آج کے سماج اور سیاست سے ایک حساس مکالمہ بھی ہے۔ سیاست کی کثافت سے انھیں بہت وحشت ہوتی ہے کیوں کہ سیاست فرقہ واریت، دہشت، جنگ و ہجرت کو جنم دیتی ہے۔ اس لیے وہ سیاست زدہ سماج کے چہرے کو یوں بے نقاب کرتے ہیں:
مجھے اخبار ٹی وی دن رات بے چین رکھتے ہیں
یہاں سرکار نے لوٹا ہے جنتا کو
وہاں لوٹا ہے سرکاروں کو جنتا نے
کہیں پر جنگ و ہجرت ہے
کہیں خونخوار دہشت ہے
کہیں مٹنے مٹا دینے کی سازش ہے
کہیں پر مار دینے اور مر جانے کی خواہش ہے
یہاں تو ہی نہیں تو پھر بھلا میرا گزر کیوں ہو
یہ سب مندر، مساجد اور گرجا گھر
یہ سب فرقوں کی شان و شوکت و ثروت کے مظہر ہیں
یہاں تیری پرستش کون کرتا ہے؟
یہاں فرقہ پرستی ہے، یہاں موقع پرستی ہے
یہاں دولت پرستی ہے، یہاں شہوت پرستی ہے
یہاں تو جھوٹ اور چھل کی پرستش لوگ کرتے ہیں
یہاں تیرے سوا سب ہے
یہاں مذہب ہے جس کے نام پر دنگے بھڑکتے ہیں
یہاں ایماں ہے جس سے دور رہ کر دل دھڑکتے ہیں
یہاں ڈھیروں صحیفے ہیں
کہ جن پر ہاتھ رکھ کر جھوٹی قسمیں کھائی جاتی ہیں
چندر بھان خیال کا بنیادی سروکار اس سماج سے ہے جو اب بازار میں تبدیل ہو چکا ہے۔ صارفیت نے جس کا چہرہ مسخ کر دیا ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں اسی بازار میں بدلتے سماج کی عکاسی کی ہے جس سے ان کی روح اور ذہن دونوں مضطرب اور بے چین ہیں۔ انھوں نے اپنے باطنی اضطراب، تڑپ، چبھن کا اظہار کئی نظموں میں کیا ہے۔ ان کی اس نوع کی کئی نظمیں ہیں جس میں انھوں نے سماج کی اس منفی تبدیلی کو نہ صرف محسوس کیا ہے بلکہ اسے انسانی تہذیب کے لیے بہت بڑا خطرہ بھی بتایا ہے۔ ان کی نظم ’عالمی بازار` اسی منفی تبدیلی اور تغیر کی طرف اشارہ ہے جس میں انھوں نے زبردست طنز کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اب ہم تہذیبی اور ثقافتی قدروں کے امین نہیں، سنسکرتی اور سبھیتا کے علم بردار نہیں بلکہ بازار کے امین بن چکے ہیں:
کچھ تو بدل رہا ہے
کچھ نہیں، بہت کچھ بدل رہا ہے
ہاں! بہت سارا بدل رہا ہے
میں بدل رہا ہوں
میرا اطراف بدل رہا ہے
میرا ملک بدل رہا ہے
نئے سانچے میں ڈھل رہا ہے
پورا معاشرہ نئے راستے پر چل رہا ہے
وراثت گل رہی ہے، تمام اثاثہ پگھل رہا ہے
آگ لگی ہے، تمام جنگل جل رہا ہے
یہ بہت پُراثر نظم ہے جس میں جنگل ایک مرکزی استعارہ ہے۔ جس کے ذریعہ انھوں نے وجودی بحران کے المیے کو بیان کیا ہے کہ جنگل نہ ہونے کی وجہ سے لکڑی نہیں ہوگی، جڑی بوٹیاں نہیں ہوں گی، قدیم قبائلی بستیاں نہیں ہوں گی تواس کے کتنے منفی اثرات انسانی زندگی پر رونما ہوں گے۔ انھوں نے جنگل کے استعارے کی تضادی اور تقلیبی صورت کے ذریعہ بھی صورت حال کو مزید واضح کیا ہے کہ ایک طرف حقیقی جنگل اجڑ گئے ہیں تو دوسری طرف شہر کنکریٹ جنگل میں تبدیل ہو رہے ہیں۔تضاد سے ایسی تصویر بنانے کا ہنر بہت کم فن کاروں کو آتا ہے مگر چندربھان خیال نے جنگل کی معدومی اور موجودگی دونوں سے معاشرے کی ایک تصویر کھینچی ہے۔ حقیقی جنگل اجاڑ دیے گئے ہیں مگر یہی جنگل اب شہروں میں اُگ آئے ہیں جس نے انسانی زندگی سے سادگی، خلوص، محبت ہر شے کو چھین لیا ہے۔ یہ بہت ہی گہرا طنز ہے آج کی شہری زندگی اور اس نظام پر جس نے سارے رشتے ناطے توڑ دیے ہیں۔ اربنائیزیشن کے منفی اثرات کو انھوں نے ایک دوسری نظم ’شہر اور میں‘ یوں پیش کیا ہے۔
ریزہ ریزہ ہوگئے میری طرح کتنے وجود
اب نہیں ممکن کسی صحرا میں مجنوں کا ورود
ناتواں شخصیتیں برقی توانائی لیے
رات کے کالے بدن کو چاٹ کر ہیں مطمئن
میں نے ہر انداز سے سمجھا ہے سارے شہر کو
شہر جو خوابوں کے جنگل کے سوا کچھ بھی نہیں
شہر کی اسی صارفیت اور سفاکیت کو انھوں نے اپنی غزل میں بھی پیش کیا ہے:
دوریوں سے بھر گئے ہیں دور تک
سب درودیوار تیرے شہر میں
روشنی پانی ہوا کچھ بھی نہیں
لوگ ہیں لاچار تیرے شہر میں
آج ہیں سب پیٹھ پرلادے ہوئے
درد کا سنسار تیرے شہر میں
یہ صرف فرد اور کائنات پر اربنائیزیشن کے منفی اثرات کا بیان نہیں ہے بلکہ انسانی چہرے کی گم شدگی کا نوحہ بھی ہے کہ صنعتی شہری تہذیب کی وجہ سے انسان بے چہرگی کا شکار ہو چکا ہے۔ اس کی کوئی شناخت نہیں رہ گئی ہے۔ شہر کے شور میں انسان کا سکون گم ہو گیا ہے۔ ہر طرف مصنوعی فضا ہے، رشتوں کی معنویت تبدیل ہوگئی ہے۔ جب کہ گائوں میں خلوص، محبت، پیار، رومانیت، اور روحانیت زندہ ہے اور وہاں فطرت سے انسان کا رشتہ قائم ہے مگر شہر کی سفاکیت نے انسانوں سے سارے رابطے اور رشتے چھین لیے ہیں۔ ’جنگل تو مجھ میں اُگ رہا ہے‘ اسی نوع کی نظم ہے۔ جہاں جنگل اور شہر کی تقلیبی کیفیت کا بہت ہی خوب صورت منظر کھینچا گیا ہے:
حیرت ہے
یہاں تو دھرم ہے، مذہب ہے، ایمان ہے
آدمی پریشان ہے
جنگل جیسا کچھ بھی نہیں
لیکن ہر لمحہ خونخوار ہے
سانپ بین بجا رہا ہے
سپیرا ناچ رہا ہے
اُف! یہ سب کیا ہے
ارے بھائی جنگل !
تم کہاں ہو؟
یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں
نیم برہنہ بے چہرہ عورتیں
شہوت زدہ مردوں کی بھاگ دوڑ
جرائم سے بھری جاگی راتیں
خوفزدہ تار تار، سوئے سوئے دن
اور پھر اچانک میں دیکھتا ہوں
جنگل تو مجھ میں اُگ رہا ہے
جنگلوں کا ختم ہو جانا اور انسان کے وجود میں جنگلوں کا اُگ جانا یہ دونوں بہت خطرناک علامتیں ہیں۔ اسی کی وجہ سے سارا وجودی بحران ہے اور یہی وجودی بحران چندر بھان خیال کی شاعری کا نقطۂ ارتکاز ہے۔ یہی وجودیاتی مسائل ان کی شاعری کے محور اور مرکز میں ہیں کہ دراصل انسان اپنی بنیادی شناخت کھوتا جا رہا ہے۔ اسی تناظر اور تسلسل میں چندر بھان خیال نے کچھ بے چہرہ نظمیں بھی لکھی ہیں۔ یہ اس عہد کی عکاسی ہے جب شہر نہیں تھے۔ تہذیب کا کوئی تصور نہیں تھا لیکن انسان کے پاس ایک چہرہ تھا۔ ان بے چہرہ نظموں میں انسان کا حقیقی چہرہ نظر آتا ہے۔ یہاں بھی انھوں نے پیراڈوکس سے کام لیا ہے کہ بے چہرگی میں ایک چہرہ تلاش کیا ہے۔
ابتدا میں صرف میں تھا اور قدرت کا نظام
ہر نظارے میں دکھائی دے رہا تھا ایشور
ہر قدم، ہر مرحلے میں شورِ وحشت تھا نہ شر
ہر شجر کی شاخ پر تھا امن و عبرت کا قیام
صبح کے پاکیزہ پل میں جاگتا تھا آدمی
شب کی تیرہ ساعتوں سے بھاگتا تھا آدمی
چندر بھان کی ان بے چہرہ نظموں میں زبردست طنز ہے اس صنعتی شہری تہذیب پرجس نے انسانوں کو مختلف خیموں اور ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا۔ مذہب اور آستھا کے نام پر انسانوں کے درمیان جنگ اور جنون کی کیفیت پیدا کر دی جب کہ پہلے ایسا نہ تھا:
آستھاؤں کی دکانیں تھیں نہ مذہب کا جنوں
بے خرد بے آرزو لیکن بھرا تھا عزم سے
دور تھا سازش، ستائش اور سیاسی بزم سے
بے سبب غارت گری تھی اور نہ بے جا قتل و خوں
یہ ساری نظمیں انسانی چہرے کی گمشدگی کا نوحہ ہیں۔
چندر بھان خیال نے صارفی معاشرت کی بڑی فن کارانہ عکاسی کی ہے اور معاشرے کے مسخ ہوتے چہرے اور بڑھتے خوف، دہشت، بدعنوانی کو اپنی نظمیہ شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ ان کی شاعری، معاشرتی، سیاسی، سماجی دہشت، خوف، بدعنوانی اور کرپشن کے خلاف پرزور احتجاج ہے۔ ایک باشعور اور حساس فن کار ہونے کے ناطے انھیں پتہ ہے کہ زندگی کا نظام بدل رہا ہے۔ قدریں تبدیل ہو رہی ہیں، ظلم اور جبر کی فضا ہے، خوف اور دہشت ہے، جرائم اور جارحیت کا تسلط ہے اسی لیے احتجاج کرنا ان کا فرض منصبی ٹھہرا۔ ’یہ بدعنوانیاں یہ عالم بدکاری‘ کے عنوان سے لکھی نظم کے چند ٹکڑے دیکھیں جس سے آج کے معاشرے کا خوفناک چہرہ سامنے آئے گا:
ہمارے ذہن و دل ہیں قید اک غارِ ہلاکت میں
ہم انسانوں کی دنیا پر تو وحشت کی حکومت ہے
ہمارے گھر، ہمارے بام و در اور ساری دیواریں
ہیں دشمن آبروؤں، عصمتوں اور باکراؤں کی
یہاں نوزائیدہ بچی بھی دیکھو بے حفاظت ہے
کوئی گوشہ ہو
ہر گوشہ درندوں کی ریاست ہے
اس نظم کا آخری ٹکڑا بھی ملاحظہ فرمائیں جس سے ان کے اضطراب اور اشتعال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے:
بھلے قانون کی آنکھوں پہ پٹی باندھ دی ہم نے
مگر یہ بھول جانا اس قدر آساں نہیں ہوگا
کہ ہم کاماکھیا دیوی کے صدیوں سے پجاری ہیں
کہ ہم ’شولنگ‘ کی پوجا ہمیشہ کرتے آئے ہیں
کہ ماں کی یونی اور شو کی علامت کے تقدس کی
حفاظت ہم نہ کر پائے تو مٹ جائیں گے دنیا سے
یہاں پر جوالا ماں پھر جاگ کر سب کو جلادے گی
یہاں پھر شو کا تانڈو ناچ ہم سب کو مٹا دے گا
اسی طرح ’کیدار ناتھ کی پناہ میں‘ آج کی زندگی کی تلخ حقیقت کو انھوں نے یوں پیش کیا ہے:
ہے ایشور!
بڑی بے چینی ہے
مسائل زدہ ہوں، مصیبت زدہ ہوں
ہر طرف دکھوں کے پہاڑ ہیں
ہر جانب، ہر راہ میں
جھوٹ، فریب اور بے ایمانی کے جھاڑ ہیں
بدسلوکی اور بدعنوانی کے جھنکھاڑ ہیں
ہے ایشور!
جنگ کے اندیشوں نے ہر طرف سے گھیرا ہے
میری تمام رگوں میں
خوف، مایوسی اور تاریکیوں کا ڈیرا ہے
اور تیری دی ہوئی یہ زندگی
معصوم میمنے سی ممیا رہی ہے
خود غرضی کے آدم خور اجگر کے آگے
ایک ووٹ کے جھنجھنا سے کب تک بہلائے گا مجھے
سیاست کے عفریت سے نفرت ہوگئی ہے
اب تو بس تجھ سے
ہاں! صرف تجھ سے محبت ہوگئی ہے
میں امن کی تلاش میں بھٹک رہا ہوں
مجھے سکون چاہیے، بس سکون
بتا میں کہاں جاتا؟
چندر بھان خیال کا جڑاؤ مزاحمت اور احتجاج سے ہے۔ اسی لیے وہ دنیا بھر میں ہونے والے جبر و استحصال اور مظالم کے خلاف آواز اٹھانا انسانی فریضہ سمجھتے ہیں۔ جہاں بھی حقوق انسانی کی خلاف ورزی ہو یا سیاسی، سماجی جبر ہو اس کی مزاحمت ضرور کرتے ہیں کیوں کہ وہ اسے صرف خاص طبقے یا ملک کے باشندوں پہ ظلم نہیں بلکہ پوری انسانیت پر ظلم تصور کرتے ہیں۔ ارض فلسطین 2014 اسی نوع کی نظم ہے۔ جس میں انھوں نے اسرائیلی ظلم و بربریت کے خلاف پُرزور احتجاج کیا ہے:
آج ہر فلسطینی
لڑ رہا ہے ظالم سے، بے ایماں سیاست سے
خوف اور دہشت سے
اور اپنی دھرتی سے
سر اٹھائے بیٹھا ہے
اپنے چھوٹے بچوں کو دوش پر لیے دیکھو
وہ بموں کی بارش میں مسکرائے بیٹھا ہے
اور تمام دنیا میں امن کے پجاری سب
اپنے پنے معبد میں
سر جھکائے بیٹھے ہیں
اس لیے میں کہتا ہوں
امن اور محبت کے سارے پیشواؤں سے
اتحاد و یک جہتی کے سبھی خداؤں سے
منصفی و آزادی کی کھلی ہواؤں سے
حق پسند لوگوں سے
سچ کے ناخداؤں سے
اور تمام دنیا کے سارے رہ نماؤں سے
ظلم کے تسلسل کو
توڑنا ہی بہتر ہے
راستہ تشدد کا چھوڑنا ہی بہتر ہے!!
چندر بھان خیال مثبت قدر وں پر یقین رکھتے ہیں اور انھیں پتہ ہے کہ تشدد ایک منفی قدر ہے اور اسی کی وجہ سے تہذیبی، ثقافتی اور مذہبی سطح پر تصادم اور کش مکش ہے جب کہ امن ہی کائنات کا حقیقی جوہر ہے، انسان کا اساسی معروض ہے۔ اس کے بغیر کائنات ایک خرابے میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ امن کے ذریعہ کائنات ارضی کو مستقبل کے خطرات سے بچایا جا سکتا ہے۔ حساس ذہن تشدد اور جنگ کے خلاف ہوتے ہیں. وہ اسی لیے ہر طرح کی دہشت اور تشدد کے خلاف اپنے قلم کو تلوار بناتے ہیں اور انسانیت کا تحفظ چاہتے ہیں۔’ایک دہشت گرد کی موت اور میں‘ میں اسی احساس کی عکاسی ملتی ہے۔
اگر شر کی سیاست یوں ہی منڈلاتی رہی سر پر
زمیں کا لمحہ لمحہ خوف و دہشت ہی میں گزرے گا
اسی طرح کے خوف و دہشت کے خلاف انھوں نے اس نظم میں بھی احتجاج کیا ہے جس کا عنوان ہے ’آہ!پشاور، اوہ! پاکستان‘ جس کا ایک ٹکڑا یوں ہے:
یہ کون ہیں جو خودکشی کرکے
بنا رہے ہیں قوم کی تقدیر
شکست دے کر اپنی قوت کو
لگا رہے ہیں نعرۂ تکبیر
چندربھان خیال نے سماج اور سیاست کا نوحہ لکھا ہے اور ایسے لفظ لکھے ہیں جو جبر کے سفاک اندھیروں سے لڑنے میں معاون ہوں۔ وہ حرف و خیال کے ذریعے تشدد، دہشت، خوف سے جنگ کر رہے ہیں اور شاید اسی طرح کی جنگ آج کی ضرورت ہے تاکہ ایک خوب صورت متبادل دنیا تشکیل کی جا سکے جہاں کسی قسم کا نہ تعصب ہو نہ تفریق۔ ہر فرد کو آزادی، مساوات کا حق حاصل ہو۔
چندر بھان خیال نے اپنے مشاہدات و تجربات اور داخلی ذات کے کچھ وقوعے بھی اپنی شاعری میں پیش کیے ہیں۔ گاؤں میں ایک شویاترا کے دوران چھوٹی بہن کے اچانک انتقال پر بہت پراثر نظمیں ہیں، جن میں شاعر کے سماجی اور ذاتی کرب کا بہت بلیغ اظہر ملتا ہے۔ چندر بھان خیال کی پوری شاعری انقلابی نظریات اور جمالیاتی تجربات کا سنگم ہے۔ کیوں کہ شاعری کا کام صرف جمالیاتی بصیرت عطا کرنا نہیں بلکہ انقلابی تصورات کے ذریعہ سماج کے شعور کو بیدار کرنا بھی ہے۔ قاری کو تازہ تناظر عطا کرنا بھی ہے اور اس نقطۂ نظر کی تبلیغ بھی ضروری ہے جس سے صحت مند معاشرہ کی تشکیل ہو سکے۔ چندر بھان کی شاعری میں جہاں معاصر سماجی حقیقتوں کا بیان ہے وہیں وہ انسانی جذبات بھی ہیں جن سے ہماری حیات و کائنات کا بہت گہرا رشتہ ہے۔
چندر بھان خیال نے سماج، ثقافت اور زندگی کے تمام رنگوں کو اپنی شاعری میں شامل کیا ہے. ان کے ہاں کچھ شخصی نظمیں بھی ہیں جن سے حیات و کائنات کا ایک نیا زاویہ بھی سامنے آتا ہے۔ جگجیت سنگھ، امیتابھ بچن اور نارنگ ساقی کے تعلق سے جو نظمیں ہیں ان سے کرب و انبساط، غم اور مسرت کی مربوط کیفیت کا ادراک ہوتا ہے۔ ان کی بہت سی نظمیں ایسی ہیں جو فکری اعتبار سے دوسروں سے مماثل ہو سکتی ہیں مگر انھوں نے اپنی قوت اظہار اور ترسیلی مہارت کے ذریعہ ان نظموں میں ایک تازگی اور جدت پیدا کردی ہے۔ اسلوبی سطح پر بھی ان کی نظموں کا تجزیہ کیا جائے تو ان کے یہاں بہت سے نئے تجربے ملیں گے۔ تجنیس صوتی اور ساختی متوازیت کے کچھ نمونے بھی ان کی شاعری میں ملتے ہیں۔ ان کا صوتی نظام اور آہنگ بھی الگ ہے۔ موضوعی اور ہیئتی اعتبار سے چندر بھان خیال کی شاعری ان کے ہم عصر شعرا سے مختلف ہے۔
چندر بھان خیال اپنے تخلیقی سفر میں بھیڑ کا حصہ نہیں بنے بلکہ انھوں نے اپنے لیے الگ راستہ اور الگ منزل کا انتخاب کیا اور ہمیشہ انہی راستوں پر چلتے رہے جو انھوں نے خود تلاش کیے اور اسی منزل کی طرف رواں دواں رہے جس کی جستجو انھوں نے خود کی۔ ان کی نظمیہ شاعری میں ’کھجوراہو‘ اور ’مجھے نہ بھولو… میں شیر علی ہوں‘ جیسی نظمیں بھی ہیں۔ یہ دونوں نظمیں الگ الگ نوعیت کی ہیں۔ مگر یہ دونوں ہی ان کی بیانیہ قوت کا مظہر ہیں۔ ’کھجوراہو‘ کا تصور آتے ہی ذہن میں شہوت انگیز اور عریاں مجسمے ابھرتے ہیں۔ جسے بہت سے لوگ ہندستان کے اخلاقی اقدار کے منافی تصور کرتے ہیں۔ مگر اس میں ایک الوہی تقدس بھی ہے جسے عام طور پر لوگ محسوس نہیں کر پاتے۔ ان مجسموں میں ایک الوہی وجد ہے۔ دراصل ’کھجوراہو‘ کا سارا معاملہ تحقیر اور تقدس سے جڑا ہوا ہے۔ چندر بھان خیال نے اس کے تقدیسی پہلو کو پیش کیا ہے اور اس کا آغاز الحمدللہ اور سبحان اللہ سے کیا ہے کہ البیرونی جب کھجوراہو پہنچا تھا تو مجسموں کو دیکھ کر بے ساختہ اس کے منہ سے سبحان اللہ نکلا۔ چندر بھان خیال نے بھی اس میں ایک الوہی نغمے کو تلاش کیا ہے کہ کھجوراہو بدن کی حرمت کا ایک نغمہ ہے جس میں ساز وحدت بھی ہے۔ اس نظم کو پڑھ کر اوکتاویوپاز کی ایک نظم یاد آگئی جس میں وہ Mystic eroticism میں غرق نظر آتے ہیں۔ کھجوراہو دراصل چندیلا راجاؤں کے خوابوں کی کہکشاں ہے۔ اس کے شرار سنگ میں ایک گیت ہے جس میں آتما اور پرماتما کا ملن ہے۔ جس میں روحوں کی تشنگی بھی ہے اور دل کا سکون بھی۔ یہ شو اور پاروتی کے مقدس ملن کی داستان ہے۔ اس نظم سے جہاں چندر بھان خیال کے ثقافتی شعور کا پتہ چلتا ہے۔ ’مجھے نہ بھولو …میں شیر علی ہوں‘ جیسی نظم سے ان کے تاریخی شعور کا اندازہ ہو تا ہے جس میں انھوں نے تاریخ کے ایک فراموش کردہ کردار کو نئی زندگی دی ہے اور استعماریت کے خلاف مزاحمت کی علامت کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ شیر علی آفریدی برطانوی استعماریت کے خلاف مزاحمت کا ایک جلی عنوان تھا جس نے لارڈمیو، صاحب بہادر کے بی جی ایم ایس آئی، وائسرائے، گورنر جرنل کشور ہند کا قتل کیا تھا۔ شیر علی قیدی نمبر 15557 تھا جس نے انگریزوں کے ظلم اور جبر کا بدلہ لیا اور یہ کہتے ہوئے پھانسی پر چڑھ گیا کہ میں نے تمھارے دشمن کو قتل کر دیا ہے۔ شیر علی اسی مزاحمت کی ایک علامت تھا جس مزاحمت کی تخلیقی علامت چندر بھان خیال ہیں۔ اس لیے انھوں نے شیر علی کو اپنا خراج عقیدت یوں پیش کیا ہے۔
میں شیر علی ہوں
نظر اٹھا کر ادھر تو دیکھو
میں شیر علی ہوں
گناہ میرا یہ تھا کہ میں نے
گناہ گاروں کے آگے آئینہ رکھ دیا تھا
فریب کاروں کی بستیوں میں
صدائے حق کی سلگتی شمشیر پھینک دی تھی
اور اسی احتجاج اور مزاحمت کی پہلی علامت حضرت امام حسین تھے اسی لیے چندر بھان خیال نے انہیں بھی اپنی نظم میں یوں خراج عقیدت پیش کیا ہے:
نہ اقتدار کی خواہش، نہ آرزوے قرار
نہ مال و زر کی تمنا، نہ عشرتوں کی طلب
بس اک فکر کہ ایمان و حق بلند رہے
بس اک چاہ کہ دنیا میں امن قائم ہو
اسی لیے وہ بشر ہر زماں پہ بھاری ہے
حسین آج بھی زندہ ہے جنگ جاری ہے
اور حقیقت یہی ہے کہ امام حسین نے ناانصافی، ظلم اور جبر کے خلاف جس جنگ کا آغاز کیا تھا وہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ جب تک محروموں اور استحصال زدہ طبقے کو انصاف نہیں مل جاتا ان کے حقوق نہیں مل جاتے تب تک یہ جنگ جاری رہے گی۔ چندر بھان خیال کی شاعری کا بنیادی محور یہی احتجاج اور مزاحمت ہے جس کا سلسلہ کربلا سے ہوتے ہوئے عہد جدید تک پہنچا ہے۔
’کھلی ہوا کی حرارت‘ معاصر سیاسی اور منظرنامہ کی بہترین نظمیہ تعبیر اور فن کارانہ اظہار ہے۔ یہ ہمارے عہد کے خوف، اضطراب، دہشت، بدعنوانی کا موثر بیانیہ ہے۔ چندر بھان خیال کا اپنا ایک مخصوص آہنگ، لسانیاتی اور صوتیاتی نظام ہے۔ ان کے موضوع اور اسلوب میں تازگی اور نادرہ کاری ہے۔ ان کی شاعری میں خلوص اور صداقت ہے، تفکر اور تجسس ہے۔ زندگی کے مشاہدات اور تجربات کو انھوں نے شعری پیکر میں ڈھالا ہے اور اپنی ذہنی کش مکش اور باطنی اضطراب کو بہت ہی موثر انداز میں پیش کیا ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں روح عصر کو پیش کیا ہے اور اپنے طنزیہ لہجے اور اسلوب کے ذریعہ آج کے ذہنوں کو جھنجھوڑنے کی کوشش بھی کی ہے۔ ان کی شاعری میں تہہ داری بھی ہے اور گہرائی بھی۔ ان کی شاعری میں زمین و زمان دونوں کی دھڑکنیں ہیں اور یہی دھڑکنیں ان کی شاعری کا رشتہ عوامی ذہن و اجتماعی شعور سے جوڑتی ہیں۔
حقانی القاسمی کی یہ نگارش بھی پڑھیں:فریاد آزرؔ : تخلیقی اڑان کے نئے زاویے

آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں : دل سے مبارک آپ کو

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے