خوش رنگیِ دل

خوش رنگیِ دل

غضنفر 

ایک دن ایک لفافے نے چونکا دیا۔ ڈاکیے کی رسید بک پر دستخط کرکے رجسٹرڈ ڈاک ہاتھ میں لیتے ہی نگاہیں سفید کاغذ والے لفافے پر مرکوز ہوگئیں۔ حیرت کا سبب خط کا کسی سرکاری یا نیم سرکاری یا کسی پرائیویٹ ادارے یا تنظیم کا نہ ہو کر کسی فردِ واحد کا ہونا تھا۔برسوں بعد اس طرح کا خط کسی فرد نے بھیجا تھا، ورنہ سارے مراسلاتی کام فون یا فیس بک پر ہو رہے تھے۔ اور وہ بھی کوڈیائی اور غلط املائی لفظوں سے بنے محض چند جملوں میں۔
لفافہ کھولنے کے بعد حیرت میں اور اضافہ ہو گیا۔ پہلے ہی جملے میں لکھا تھا:
” بہت شرمندہ ہوں کہ آپ کی خود نوشت کی وصولیابی کی رسید ابھی تک نہیں بھیج سکا جب کہ میرے اصول میں یہ شامل ہے کہ میں کتاب کی وصولیابی پر فوراً خط لکھتا ہوں۔"
اس جملے سے ذہن کو کئی جھٹکے لگے۔ ایک جھٹکا تو یہ کہ میری خود نوشت "دیکھ لی دنیا ہم نے" کی اب تک لگ بھگ ساڑھے تین سو کاپیاں بٹ چکی تھیں۔ جن کے پاس کاپیاں بھیجی گئی تھیں ان میں طلبہ سے لے کر اساتذہ، قاری سے لے کر نقاد اور رسائل‌ و جراید کے بڑے مدیران سے چھوٹے مدیر تک شامل تھے۔ ذہن پر زور دے کر حساب لگایا تو محض ایک آدھ درجن لوگوں کی رسید آئی تھی. وہ بھی تحریری نہیں زبانی، اور زبانی بھی کیسی، ٹیلی فونی یا فیس بکی۔
میں جب موجودہ ادب سے جڑے لوگوں کا احتساب کر رہا تھا اور ان کے اس رویے پر اپنے ذہن و دل کے ردً عمل کو محسوس کرکے تلملا رہا تھا کہ اچانک ایک اور زور کا جھٹکا لگا۔ یہ جھٹکا باہر سے نہیں بلکہ میرے اپنے اندر سے لگا تھا۔ میرے اندرون کے کسی گوشے سے مجھے ضرب لگی تھی اور اس لیے لگی تھی کہ لفافہ بھیجنے والے کی ایک کتاب کے ساتھ میرا بھی ایسا ہی سلوک ہوا تھا۔ آج کے لفافے والے صاحب نے اتفاق سے اپنی خود نوشت ہی اپنے بھانجے کی معرفت بھیجوائی‌ تھی۔ میں نے بھی دوجملے کا ایک ٹیلی فونک پیام بھیج دیا کہ کتاب مل گئی‌ شکریہ، ان شاء اللہ پڑھ کر اپنی رائے بھیجوں گا اور کتاب کو الماری کے نئی کتابوں والے شیلف میں سجا دیا تھا۔
خط آگے پڑھنا شروع کیا تو پتا چلا کہ 336 صفحے کی میری پوری کتاب پڑھی جا چکی ہے اور اس خط میں اس شخص کی راۓ بھی موجود ہے۔ راۓ کے جملے یہ تھے :
” میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے اپنی سوانح کو پڑھنے کا موقع عنایت کیا۔ ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے آپ کی اپنی ایک شناخت ہے۔ ظاہر ہے کہ آپ افسانہ لکھیں یا مثنوی یا خود نوشت اس میں آپ کی قلم کاری کے جوہر ہر جگہ نمایاں ہوں گے۔
میں علی گڑھ سے بہت واقف کبھی نہیں رہا جس زمانے میں بورڈ آف اسٹڈیز کی میٹنگ میں جایا کرتا تھا اس زمانے میں بھی میرا علم چند حضرات کی محبتوں اور گیسٹ ہاؤس تک محدود تھا لیکن آپ کی خود نوشت پڑھ کر مجھے صحیح طور سے علی گڑھ کو دیکھنے اور علی گڑھ والوں کو سمجھنے کا موقع ملا۔ آپ نے جس طرح تصویر کشی کی ہے اور کرداروں کو نمایاں کیا کہ اگر انھیں کوئی نہ بھی جانتا ہو تو ملنے اور جاننے کی خواہش پیدا ہوگی۔ یہ آپ کے قلم کا کمال ہے۔ کتاب میں علی گڑھ، دہلی، سولن، لکھنؤ اور مختلف شہروں کے بہت سے لوگوں کا ذکر ہے کہ میں ان میں سے بیش تر لوگوں سے ناواقف ہوں پھر بھی ان کے بارے میں پڑھ کر ایسا لگا کہ جیسے میں انھیں مدتوں سے جانتا ہوں۔ اس کامیاب واقعہ نگاری اور کردار نگاری کے لیے میں آپ کو مبارک باد دیتا ہوں۔"
اس خط کے ساتھ ہی مجھے اس شخص کی ایک دوسری تحریر بھی یاد آگئی‌ جو اس نے میری ایک دوسری کتاب ‘مثنوی کرب جاں` پر لکھی تھی۔ اس کا پہلا ہی پراگرف دھماکا خیز تھا :
‘ کربِ جاں` ہمارے عہد کی مہا بھارت ہے‌ جس کا راوی آج کا ‘سنجے` (غضنفر) ہے اوراس تاریخی کرب کو سننے والے راجا ‘دھرت راشٹر` کے بجاے پوری قوم ہے جس کی آنکھوں پر لال، نیلی پٹیاں بندھی ہیں اور انسانیت ‘بھشم پتاما` کی طرح مجبور تیروں پر پڑی سسک رہی ہے۔"
ان دونوں تحریروں نے میرے سامنے اس شخص کی تصویر ابھار دی:
تقریباً اسّی سال کی عمر میں بھی جوانی والا اس کا لمبا قد اسی طرح تنا ہوا کھڑا ہے۔ چہرے کی چمک اسی طرح برقرار ہے۔ لباس کی آراستگی اسی طرح تن پر موجود ہے۔ ذہن بھی اسی طرح سرعت، سوجھ بوجھ اور برد باری سے کام کر رہا ہے۔ پاؤں اسی طرح متحرک ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ مختلف ادبی محفلوں میں اسی دھڑلے سے آج بھی حاضری دے رہا ہے اور اسی ترقی پسندانہ جوش و خروش کے ساتھ اپنا کلامِ مستند فرما رہا ہے اور یہ سب اس لیے ممکن ہو سکا ہے کہ اس کا دل دنیاوی آلائشوں سے پاک ہے۔ مکروہاتِ زمانہ میں ملوث نہیں ہو سکا ہے۔ اسی لیے اس کے خون کی رفتار میں رکاوٹ نہیں۔ کہیں پر باندھ نہیں۔ کوئی بند نہیں‌۔ اسی باعث اس کا سرخ خون اس کی رگوں میں دوڑ رہا ہے۔ ریشوں میں جوش مار رہا ہے۔ آج بھی رخ پر سرخی جمی ہوئی ہے اور آنکھوں سے سرخ روئی جھانک رہی ہے۔ اس عمر میں دل کیوں جوان ہے؟ جسم میں کساو کا سبب کیا ہے؟ اس شگفتگی اور تازگی کا کیا راز ہے؟ ان سوالوں پر میں نے غور کیا تو اس کی شخصیت کے کچھ ایسے پہلو ابھرنے لگے کہ میں چونکتا چلا گیا:
میں نے لکھنؤ میں اپنی ملازمت کے دوران کانپور میں اردو افسانے کی تفہیم و تعینِ قدر پر اپنا ایک سرکاری پروگرام رکھا تھا۔ لکھنؤ کے ہم راہ ملک کے دیگر علاقوں کے ادیب و فن کار بھی بلاۓ گئے تھے۔ پروگرام تو بڑا شان دار، پُروقار اور مزے دار رہا مگر سرکاری ضابطوں کی نُکیلی نکیلوں کی چبھن کے باعث کچھ بد مزگی بھی پیدا ہو گئی۔ ناک بھوں سکیڑنے اور تیوری چڑھانے والے چہروں میں نفاست اور صلح پسند شہر لکھنؤ کے بھی کچھ چہرے شامل ہو گئے تھے مگر اس شخص کے چہرے پر کوئی لکیر نہیں تھی اور نہ ہی پیشانی پر کوئی شکن‌۔ اس کا چہرہ لکیروں اور جبیں شکنوں سے اس لیے خالی تھی کہ اس کا دل کشادہ تھا، اس کے دل کے کسی وال میں کہیں کوئی تنگی نہیں تھی۔ یہ اس کے اچھے اور بڑے انسان ہونے کا ثبوت تھا۔
اچھائی اور بڑائی والے انسان کا ایک اور ثبوت بھی کھٹ سے کسی نے پیش کر دیا۔
پیش کرنے والے میرے دوست بہار کے پروفیسر توقیر عالم تھے جو اپنی ملازمت کے دوران جامعاتِ اردو اساتذہ کے کئی سالوں تک جنرل سیکریٹری بھی رہے۔ ایک دن میرے گھر پر اپنی تقرری کا قصہ سناتے ہوۓ بولے:
میں اس آدمی کے احسان اور اچھائی کو کبھی فراموش نہیں کرسکتا جو صرف میری خاطر انٹرویو بورڈ کے پینل میں شریک ہونے کے لیے پاکستان کے اپنے ادبی اور تہذیبی دوروں کو رد کر کے ہندستان آیا اور وہ کر گیا جو آج شاید کسی رستم سے بھی نہ ہو۔ یہ اسی کا کرم ہے کہ میں آج یونی ورسٹی پروفیسر کے عہدے پر بیٹھا عیش کر رہا ہوں۔ ادب کے مزے لوٹ رہا ہوں۔ اردو زبان کی ملائی کھا رہا ہوں۔
میرے لیے مقام حیرت تھا کہ کوئی محض دوسرے کی بگڑی بنانے کے لیے اپنے غیر ملکی پروگراموں کو بھی بگاڑ سکتا ہے۔ اپنے نام و نمود اور غیرملکی ٹھاٹ باٹ کو کسی اور کے لیے تج سکتا ہے۔ اپنی اس اچھائی کا ثبوت اس شخص نے اپنے ایک شاگرد ڈاکٹر شہزاد انجم کے تقرر میں بھی دیا تھا۔ میں اس کے اس وصفِ خوش رنگ کو خوش رنگیِ دل سے تعبیر کرتا ہوں۔
اس کی اس خوش رنگیِ دل کا رنگ اس کی ایک کرایہ دار کے قلب و ذہن پر ایسا چڑھا کہ اس کرایہ دار لڑکی کو اس شخص میں اپنے ابا کی شبیہ نظر آنے لگی اور وہ باقاعدہ اسے بابا کہہ کر پکارنے لگی۔ یہ اس کی اسی خوش رنگیِ دل کا کمال ہے کہ کوئی غیر اس کا اپنا بن گیا ہے۔
اور اس کے اس کمال کا اثر کسی ایک تک محدود نہیں بلکہ اس کے اثرات لکھنؤ سے دلی اور الہ آباد سے حیدر آباد تک دکھائی دیتے ہیں۔ یہ اس کے اسی رنگِ خاص کا اثر ہے کہ تنہائی کا دیو ہئیکل اسے ڈرا نہیں پاتا۔ کیفیاتِ کرب میں بھی وہ ہشّاش بشّاش  دکھائی دیتاہے۔
اس کی شخصیت کے چونکانے والے پہلوؤں میں نمایاں پہلو ایک یہ بھی ہے کہ اس نے ایک آیڈئیل باپ کا کردار نبھایا، لوگ تو اپنی محبوباؤں کی یاد میں یادگار قائم کرتے ہیں، اس نے اپنی بیٹی اور بیوی کی محبت کی یاد میں دو ایسی یادگار عمارتیں تعمیر کردیں کہ جن کے در و دیوار سے رات دن علم و فن کی شعاعیں پھوٹتی رہتی ہیں۔
اس کی شخصیت کے ان پہلوؤں نے مجھے جھکجھورا کہ میں کیسا ہوں کہ اس شخص نے میری دنیا دیکھ لی اور اس پر لکھ بھی دیا اور ایک میں ہوں کہ ابھی تک اس کی کتاب کو پڑھ بھی نہ سکا۔
اس چرکے کے ساتھ ہی میں بستر سے اٹھ کر الماری کے پاس جا پہنچا۔ نئی کتابوں والے شیلف سے اس کی کتاب نکالی اور ‘نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم` کی ورق گردانی میں محو ہو گیا۔
صاحبِ کتاب کو تو اپنی ابتدا اور انتہا کی خبر نہیں جیسا کہ اس کے عنوان سے پتا چلتا ہے مگر کتاب کے اندر داخل ہوتے ہی محسوس ہونے لگتا ہے کہ
آیا ہے اس جہان کا کیا کیا نگاہ میں
کیا کیا کُھلا ہے رازِ نہاں خانقاہ میں
اس خود نوشت میں آنکھ سے دیکھا گیا منظر تو ملا ہی، دماغ کے کیمرے سے کھینچا گیا مرقع اور دل کے برش سے دل کے کینوس پر اُتارا گیا پیکر بھی نظر نواز ہوا۔ سادہ زبان میں پُر کاریاں بھی دکھائی پڑیں. روز مرّہ کے لفظوں سے چھوٹتی ہوئی رنگوں کی پچکاریاں بھی نظر آئیں۔ وہ سیاہیاں بھی سامنے آییں جنھیں مصنوعی سفیدیاں ڈھانپے رکھتی ہیں اور وہ سفیدیاں بھی ابھر آییں جن پر زمانے کی سیاہیاں اپنا غلاف چڑھا دیتی ہیں۔ اس کی شخصیت کے وہ رنگ بھی جا بجا بکھرے نظر آۓ جن کی جھلکیاں اس تحریر کے آغاز میں دکھانے کی کوشش کی گئی۔
دنیاۓ کثیف میں جوہرِ لطیف رکھنے، خانقاہی انداز کی زندگی بسر کرنے اور لکھنوی وضع داریوں کو نبھانے، نیز پیری میں بھی پرُکشش شبیہ، جثّۂ دل نشیں اور صورتِ دل پذیر رکھنے والا صبیح و وجیہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ وہی انسان ہے جس کے انسانی کارناموں سے محبت کی شعاع، ادبی کارگزاریوں سے تنقیدِ جدید کی لمع اور تہذیبی سرگرمیوں سے فنونِ لطیفہ کی ضیا پھوٹتی ہے اور ان تینوں کے انعکاس سے جو عکس جھلکتا ہے اسے دیکھ کر بے ساختہ لبوں پر پروفیسر شارب رودولوی کا نام ابھر آتا ہے۔
***
غضنفر کی یہ تخلیق بھی ملاحظہ ہو : غضنفر کی تین نظمیں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے