نام کتاب : قفس سے آشیاں تک(جدید ایڈیشن)

نام کتاب : قفس سے آشیاں تک(جدید ایڈیشن)

شاعر : ہندیؔ گورکھ پوری
مرتبہ : ثمینہ ادیب ضیاءؔ
سال اشاعت : 2021 ء
ضخامت :148 صفحات
قیمت : 250 روپے
ملنے کا پتا : مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ،دہلی
تبصرہ نگار : داؤد احمد، اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اردو، فخر الدین علی احمد گورنمنٹ پی جی کالج، محمودآباد، سیتاپور (یو۔پی)

زیر تبصرہ کتاب”قفس سے آشیاں تک‘‘ اردو کے کہنہ مشق شاعر، مجاہد آزادی ہندیؔ گورکھ پوری کا شعری مجموعہ ہے۔ اس مجموعے میں کل 46 نظمیں اور 28 قطعات شامل ہیں۔ اس کا پہلا ایڈیشن 1972ء میں شائع ہوا تھا۔ وقت کی ضرورت کے مطابق ان کی نیک دختر ثمینہ ادیب ضیاءؔ نے اسے دوبارہ ترتیب دے کر اس کا دوسرا جدید ایڈیشن 2021ء میں حالی پبلشنگ ہاؤس، دہلی کے زیر اہتمام شائع کرایا ہے۔ علاوہ ازیں مجموعہ کلیات شعر ”شعلۂ گل“ (1984) اورحال ہی میں شعری مجموعہ”کلیات ہندیؔ“ کو ثمینہ ادیب ضیاء نے ڈاکٹر سلیم احمد کے باہمی اشتراک سے مرتب کر شائع کرایا ہے۔ مجموعہ”قفس سے آشیاں تک“ میں آزادی کے قبل اور بعد کی نظمیں حقائق کی عکاسی کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ وطنی خلوص اور قومی اصلاحی جذبہ ان کی شاعری کی خصوصیات ہیں۔ ہندی ؔ صاحب کو ہندستان سے جنون کی حد تک محبت و عقیدت تھی، اسی بنیاد پر انھوں نے اپنا قلمی نام ہندی ؔ گورکھ پوری کر لیا۔ مجنوں گورکھ پوری کی نظر میں:
” ہندیؔ گورکھ پوری نئی نسل کی مخلوق ہیں اور میں تو یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ ہیئت اجتماعی اور موجودہ نظام زندگی سے بڑی شدت احساس کے ساتھ ناآسودہ ہیں۔ ہندیؔ انقلابی اور ترقی پسند شاعر ہیں، رجعتی ہرگز نہیں۔ وہ نئی نسل کے باغی شاعر ہیں۔ اگر کوئی ادیب یا شاعر صرف نا آسودگی اور بغاوت کا پیغام دیتا ہے تو ہمارے بڑے کام کا ہے اور ہندیؔ کی بغاوت اور نا آسودگی میں جیسا مہذب گداز اور جیسی شائستہ درد مندی ہے وہ ہمارے لیے یقینا ایک مؤثر میلان ہے اور اس سے ہم زندگی کے ایک نئے اٹھتے ہوئے خمیر میں بڑی مدد لے سکتے ہیں“۔ (صفحہ۔14)
شاعری کی اصل بنیاد احساس فکر پر ہوتی ہے۔ شاعر کا حس لطیف اور فکر جمیل اسے اپنے گرد و پیش کے واقعات اور اس کے اپنے تجربات کو شعر کے قالب میں ڈھال کر پیش کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ شاعری دراصل تغزل، رنگین بیانی اور قافیہ پیمائی کا نام نہیں ہوتی بلکہ شاعری شاعر کے وجدان، اس کے احساسات و جذبات، اس کے افکار و نظریات اور زمانے کی گردشوں اور اس میں پرورش پا رہی نئی امنگوں اور نئی آرزوؤں کا بیان ہوتی ہے۔ پیش لفظ کے تحت ہندیؔ گورکھ پوری رقم طراز ہیں:
”شاعری بغیر کسی خاص مقصد یا نصب العین کے جس کا واسطہ زندگی کی ریشہ دوانیوں یا حیات کی کش مکش اور تگ و دو سے نہ ہو، صدا بصحرا ہے۔ شاعری اگر احساسات و جذبات کی بیداری کا پیغام نہیں، اگر روشن ضمیری اور بلند خیالی کا نغمہ نہیں ہے اگر ذہن و دماغ کی بالیدگی اور وسعت کا علم بردار نہیں، اگر زندگی کی شب ظلمات میں چراغ راہ نہیں اور اگر قلب و روح کے لیے جلا نہیں ہے تو وہ نسل قوم، ملک اور تمام بنی نوع انسان کے لیے بے سود ہے“۔ (صفحہ۔23)
ہندی ؔ گورکھ پور ی کی شاعری میں فن کی پاس داری، زبان کی صحت اور بیان کی شفافیت نمایاں ہیں۔ لفظیات کا ایک بڑا ذخیرا شاعر کی جھولی میں ہے اور ان کو برمحل برتنے کا ہنر اور سلیقہ ان کی کہنہ مشقی کی دلیل ہے۔ اس مجموعے کو پڑھنے والا یہ اندازہ لگائے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ہندیؔ گورکھ پوری نے زندگی کو قریب سے اور کھلی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ ان کی نظموں میں سلگتے ہوئے موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ شاعر نے بڑے صبر آزما اور تلخ حالات کا سامنا کیا ہے اس لیے لہجے میں بلا کی کاٹ آگئی ہے۔ ان کی شاعری میں فولادی عزم و حوصلہ پایا جاتا ہے۔ وہ ظلم و جبر سے بر سر پیکار ہوکر اسے تہ خاک کردینے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ ان کے یہاں انسانیت کو فروغ دینے کا عمل ملتا ہے۔ وہ انسانی ترقی و برتری کی راہ میں رکاوٹ بننے والے عناصر کے خلاف بڑے شد و مد کے ساتھ وار کرتے ہیں اور اپنا سب کچھ قربان کرکے امر ہونا وہ کامیابی کی معراج تصور کرتے ہیں۔
زیر نظر کتاب میں ہندی ؔ گورکھ پوری نے ہندستان کے ماضی اور حال کے مخصوص نشیب و فراز کی حقیقت کو اپنی نظموں میں شامل کیا ہے۔ ان کی نظموں میں عزم، حوصلہ، انقلاب اور ولولہ پایا جاتا ہے جو انسان کو خواب غفلت سے بیدار کرنے پر آمادہ کرتا ہے، اور ان کے دلوں کو گرما کر ہمت و حوصلہ پیدا کرتا ہے۔ انھوں نے مختلف عنوانات پر نظمیں لکھی ہیں، ان میں ”بغاوت کا نعرہ“، ”غلامی میں لطف جوانی کہاں“، ”مادر وطن“، ”پابند سلاسل“، ”مجاہد وطن“، ”مزدور بچارا“، ”مقام عمل“، ”امن کا ترانہ“، ”بند کرو یہ فتنے“، ”رنگ تباہی آہ نہ پوچھ“، ”جاگا اجیارا“، ”اب سمے ملن کا آیا“، ”آزاد کا پھل“، ”ہم سپاہی وطن کے وفادار ہیں“، ”مسلمان اور ہندوستان“، ”دلی کا فرقہ وارانہ قتل عام“، ”مہاتما کی روشنی“، ”انقلاب آرہا ہے“، ”ظلمت کے سوا کچھ بھی نہیں“، ”آؤ چلو اس پار چلیں“، ”سنسار بدلنے والا ہے“، ”اے شہیدان وطن تم کو سلام“، ”ہمارا وطن“، ”انتباہ“، "شاعر کا اعلان جنگ“، ”ایشیا آج بیدار ہے“ وغیرہ نظمیں شامل مجموعہ ہیں۔ ان نظموں میں حب الوطنی کے جذبے کے ساتھ ساتھ قومی یکجہتی اور تہذیب و تمدن کے مرقعے جذباتی ہم آہنگی سے پیش کیے گئے ہیں۔
ہندی ؔگورکھ پوری نے بہت سی نظمیں وطن کے جذبۂ تصور اور وطنیت کے رائج الوقت احساس کے زیر اثر لکھی ہیں. یہ سب نظمیں اطمینان بخش اور امید افزا ہیں، ان میں سے ہر نظم نہ صرف اپنے عنوان کا احاطہ کیے ہوئے ہے بلکہ بڑے قرینے کے ساتھ بلیغ اشاروں میں ہمارے فکر و احساس کو ابھارتی ہے ؎
اٹھو ! نوجوانان عالم اٹھو
زمانہ کو تخریب کا درس دو
امارت کی رگ کا لہو چوس لو
غریبوں کی دنیا بساتے چلو
بغاوت کے نعرے لگاتے چلو
(بغاوت کا نعرہ)
یہ مانا چمن کا ہے دل کش سماں
یہ مانا ہے عشرت کدہ یہ جہاں
یہ مانا، ہے موجوں میں مستی رواں
مگر اے مرے پیارے ہندوستاں
غلامی میں لطف جوانی کہاں
(غلامی میں لطف جوانی کہاں؟)
جی نہیں لگتا ہے بہلانے سے اب میرا یہاں
تیری مٹی میں غلامی بھن گئی ہے الاماں
تجھ میں افلاس اور غربت کا تلاطم ہے رواں
تجھ میں پستی ہے بلندی کا نہیں نام و نشاں
مادر ہندوستاں، اے مادر ہندوستاں
(مادر ہندوستاں)
بلندیوں کا آخری مقام ہے مرے لیے
حیات نو کا ہر نفس پیام ہے مرے لیے
جہاں میں کار کشت و خون عام ہے مرے لیے
جواں ہوں تیغ زن ہوں میں، مجاہد وطن ہوں میں
(مجاہد وطن)
ہندی ؔ گورکھ پوری بڑی سلیم الطبعی کے ساتھ اپنے تخلیقی شعور کو سنوار تے رہے ہیں اور بیک وقت پرانے اسالیب کے محاسن اور نئی زندگی کے میلانات اور مطالبات کو ایک آہنگ بنا کر اپنی شاعری کی روح میں جذب کرتے رہے ہیں:
جیون کے پرانے سپنوں کا اوتار بدلنے والا ہے
ٹوٹے ہوئے ساز فطرت کا ہر تار بدلنے والا ہے
چوٹی پہ ہمالہ پربت کی وہ سرخ پھریرا لہرایا
مشرق سے کرن پھوٹی ہے نئی سنسار بدلنے والا ہے
(سنسار بدلنے والا ہے)
دشمن کے ہر اک وار سے ہم بڑھ کے لڑیں گے
وقت آنے دو اغیار سے ہم بڑھ کے لڑیں گے
یا امن کا ہر ملک میں لہرائیں گے پرچم
یا جنگ کی تلوار سے ہم بڑھ کے لڑیں گے
(شاعر کا اعلان جنگ)
کتاب کے آخر میں قطعات کے بکھرے ہوئے شرارے، غلامانہ ماحول، سامراجی بیڑیوں اور غیر ملکی بندشوں میں جکڑے ہوئے جسم کے آزاد جذبات اور احساسات کی وہ للکار ہے جو باغیانہ جرأت کو پیش کرتا ہے :
بہار ہو کے ستم دیدۂ خزاں ہوں میں
کہ آشیاں ہی میں محروم آشیاں ہوں میں
مجھے غلامی نے پستی نصیب کر ڈالا
وگر نہ عظمت و رفعت میں آسماں ہوں میں
نوائے عزم اٹھی جنگ کا پیام اٹھا
رگ حیات میں پھر جوش انتقام اٹھا
اٹھ ! اور تو بھی اے مزدور خانماں برباد
وہ سامنے ہے دھری تیغ بے نیام اٹھا
زیر نظر مجموعہ میں ہندیؔ گورکھ پوری نے بڑے سے بڑے باغیانہ احساس یا انقلابی خیال کو بڑے شائستہ سوز و گداز سے ادا کیا ہے اور انھوں نے کسی کو آزردہ کیے بغیر اپنے انحرافی میلان کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے عصر حاضر کی عکاسی کرتے ہوئے مختلف نظمیں تخلیق کی ہیں اور کئی تلخ حقائق سے پردہ اٹھایا ہے جو حقیقت نگاری کی بہترین مثال ہیں۔
زبان و بیان کے علاوہ ظاہری اعتبار سے کتاب بہت عمدہ اور پرکشش ہے۔ سرورق سادگی کے باوجود حد درجہ جاذب نظر اور خوب صورت ہے۔ کاغذ کا بھی بہتر استعمال ہوا ہے۔ کتاب کے بیک پیج پر ہندی ؔگورکھ پوری اور ثمینہ ادیب ضیاءؔ کی تحریر کتاب کی زینت کو بڑھا رہی ہے۔ قوی امید ہے کہ قارئین اسے قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے اور اہل علم کے مابین اس کی خاطر خواہ پذیرائی ہوگی۔
Mobile: 8423961475, Email:daudahmad786.gdc@gmail.com
صاحب تبصرہ کی یہ نگارش بھی پڑھیں:کتاب : شعرائے جنوبی مگدھ

شیئر کیجیے

One thought on “نام کتاب : قفس سے آشیاں تک(جدید ایڈیشن)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے