سَرقہ: ایک مذموم عمل

سَرقہ: ایک مذموم عمل

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ، پھلواری شریف، پٹنہ(9431003131)
 
سَرقہ عربی زبان کا لفظ ہے اس کا اردو ترجمہ ’’چوری‘‘ معروف اور متداول ہے، جس کا مطلب خفیہ طریقے سے کسی اور کی چیز اٹھا لینے کے ہیں، زمانہ قدیم میں چوری کی اصطلاح رات کی تاریکی میں گھر میں گھس کر مال و اسباب غائب کرنے کے لیے بولا جاتا تھا، پھر چوری کا یہ عمل متعدی ہوا اور آنکھ جھپکی اور مال غائب کا رواج عام ہو گیا، اب نہ رات کی تاریکی کی ضرورت ہے اور نہ چپکے سے گھروں میں سیندھ لگانے کی. اب تو آنکھ بند ڈبہ غائب کا محاورہ عام ہے. اس کے مناظر مختلف اسفار میں سامنے آتے رہتے ہیں، آپ چوکنا نہیں ہیں، سامان کی طرف سے غافل ہیں تو کہاں پر اور کس کے ذریعہ آپ کی جمع پونجی اور مال و متاع اُچک لیا جائے، کہنا مشکل ہے، چوری کا یہ عمل شاعروں کے یہاں بھی بڑا مقبول رہا ہے، لیکن وہ کسی کا سامان نہیں چُراتے، محبوبہ کی آنکھوں سے کاجل اور سرمہ چُرانے میں خاصی دل چسپی دکھاتے ہیں۔
 اب چوری کرنے والے سینہ زوری بھی کرتے ہیں، بلکہ اب تو چوری سے زیادہ ڈکیتی نے رواج پالیا ہے اور بہ قول شاعر، رات کا انتظا کون کرے، آج کل دن میں کیا نہیں ہوتا، دن میں ہی لوگ ہتھیار سے لیس آتے ہیں اور سب کچھ لوٹ کر چلتے بنتے ہیں، عافیت پسند لوگ ان کے مزاحم ہونے سے گھبراتے ہیں، کیوں کہ مزاحمت کے نتیجے میں مال کے ساتھ جان کے چلے جانے کا خطرہ بھی رہتا ہے، پولیس اور حفاظتی دستے اس کو روک سکتے ہیں، لیکن عموما ہماری پولیس کی ناک کے نیچے ہی جرم ہو تاہے تو اس وقت متوجہ ہوتی ہے جب سب کچھ لُٹ چکا ہوتا ہے، بلکہ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ جن علاقوں میں تھانہ قائم ہے وہاں جرائم کا گراف کچھ زیادہ ہی رہتا ہے، کیوں کہ پولیس کی ملی بھگت سے جرائم پیشہ جرم کرتے ہیں، ملی بھگت کے بعد کس کی مجال ہے کہ جرائم کو روک دے، اسی بنیاد پر یہ مثل مشہور ہے کہ سیاں بھئے کوتوال اب ڈر کاہے کا۔
 چوری سے کتابوں کے چھاپنے کا بھی رواج بر صغیر ہند و پاک میں عام ہے، آپ لاکھ جملہ حقوق محفوظ لکھتے رہیں، مکتبہ اور کتب خانہ والوں کی صحت پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا، اشاعتی اداروں کو اس کی وجہ سے سخت نقصان اٹھانا پڑتا ہے اور جس نے اس کتاب پر کوئی رقم خرچ نہیں کی، مصنف کو رایلٹی نہیں دی، وہ کتابیں بیچ بیچ کر وارے نیارے کر لیتا ہے۔
 چوری کا یہ عمل تخیلات میں بھی ہوتا ہے، شعرا کے یہاں عموما اس عمل کو توارد سے تعبیر کرتے ہیں، ایک ہی قسم کا خیال دو شاعروں کے یہاں شعر میں بندھ گیا تو اسے اتفاق سمجھا جاتا ہے، توارد کا سہارا لے کر بہت سارے متشاعر تو مصرع کا مصرع اڑا لے جاتے ہیں۔
 اردو نثر میں خیالات مستعار لینے کو ’’قوت اخذ‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں اور اسے معیوب بھی نہیں سمجھا جاتا، ادب و شاعری اور مذہبی لٹریچر میں بھی اس کی بہت ساری مثالیں ہیں، لیکن نثر میں یہ عمل الفاظ و جملہ کی ساخت، تعبیرات کی تبدیلی کی وجہ سے چوری نہیں قرار دیا جاتا، کیوں کہ تخیلات بھی بعینہ نہیں ہوتے، قلم کار اپنا دماغ لگا کر سابقہ تخیل کو پروان چڑھاتا ہے، اور اس طرح پیش کردیتا ہے کہ وہ بالکل نئی معلوم ہوتی ہیں، کبھی کبھی پیش یا افتادہ موضوع ہوتا ہے، ممکن ہے کسی نے اس پر کچھ لکھا بھی ہو، لیکن اس کی اپنی سوچ اور لکھنے کا انداز اس کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتا ہے۔
مذموم وہ حرکت ہے کہ کسی اہل قلم کا پورا کا پورا مضمون اڑا کر اپنے نام سے شایع کر لیا جائے، اپنا نام اس کے ٹائٹل پیج پر دینا ضروری ہو تو بھی اسی قدر دینا چاہیے، جتنا کام اس نے کیا ہے، عربی و اردو کتابوں کے جو ایڈیشن ورک ہوتے ہیں، ان میں ٹائٹل پر’’ تحقیق وتحشیہ‘‘ ،’’ نظر ثانی و اضافہ‘‘ جیسے الفاظ لکھ کر واضح کر دیا جاتا ہے کہ اس نے کتنا کام کیا ہے، بعض مصنفین کے یہاں یہ طریقہ بھی رائج ہے کہ وہ جب دوسروں کی تصنیفات و تالیفات کو مرتب کرتے ہیں تو باضابطہ پیش لفظ اور مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ میں نے اس تصنیف پر اس قسم کی محنت کی ہے، اصل کتاب فلاں صاحب کی ہے، پوری پوری کتاب کے سرقہ کا یہ عمل آج کل ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لیے زیادہ ہوتا ہے، ایک یونی ورسٹی میں جوکام ہو گیا، اسی عنوان پر رجسٹریشن کراکر پورا مقالہ نام بدل کر داخل کر دیا جاتا ہے، اس عمل کو روکنے کے لیے کوششیں بہت ہوئیں، یونی ورسٹی میں جن موضوعات پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی گئی اس کی فہرست کی اشاعت کی گئی، قینچی کے کام کو روکنے کے لیے طویل اقتباس کے نقل پر بھی یک گونہ روک لگائی گئی، لیکن یار لوگ کہاں ماننے والے ہیں۔
 اسی طرح جو کام ٹیم ورک نے کیا ہے، اس کو بھی کسی ایک نام سے منسوب کر دینا ’’سرقہ‘‘ کے ذیل میں آتا ہے، اس لیے کہ اجتماعی محنت کو انفرادی محنت قرار دینے کی جسارت کی گئی ہے، سرکاری اداروں میں جو ورک شاپ ہوتا ہے اس میں بہت سارے شرکا ہوتے ہیں، آپ نے دیکھا ہوگا کہ کتابوں پر تمام شرکا کے نام شائع کیے جاتے ہیں، مثال کے طور پر ایک کتاب ہے ’’اردو زبان کا جادو‘‘ یہ کتاب فروغ اردو دہلی سے شائع ہوئی ہے، اس کا موضوع کھیل کھیل میں تدریس تھا، سو لن ہماچل پردیش میں میرے ساتھ درجن بھر لوگ اس ورک شاپ میں تھے، اس لیے میرے لیے یہ درست نہیں ہوگا کہ میں اسے اپنی کتاب قرار دوں، یہ صرف میری نہیں پورے ورک شاپ کے شرکا کی محنت کا نتیجہ ہے، ایمان داری یہ ہے کہ سب کی محنت کو سراہا جائے اور اگر چیز چھپ رہی ہے تو سب کا نام دیا جائے، کم از کم پیش لفظ اور مقدمہ میں اس کا ذکر ضرور آنا چاہیے۔
 آج کل ایک طریقہ دوسرے کے مضامین کے طویل اقتباسات نقل کرنے کا ہے، یہ طویل اقتباسات اس لیے نقل کیے جاتے ہیں کہ اپنے مطالعہ کا رعب قارئین پر ڈالا جائے اور اقتباس نقل کرکے مقالہ اور مضمون کو طویل کیا جائے، اقتباسات کا نقل کرنا ’’سرقہ‘‘ نہیں ہے، بشرطیکہ آپ نے اسے واوین کے درمیان نقل کیا ہے، ایمان داری سے مصنف اور اس کی کتاب کا حوالہ دیا ہے، لیکن اگر آپ نے بغیر واوین کے اقتباسات کو اپنے مضمون کا جز بنا لیا تو یہ سرقہ ہے اور مذموم ہے، خود میرے ساتھ یہ ہو چکا ہے کہ میرا پورا مضمون جو پہلے سے مطبوعہ ہے، دینی تعلیم اور فکر معاش، اسے ایک صاحب نے پورے کا پورا اپنے نام سے شایع کر دیا، مضمون قارئین کو پسند آیا تو کئی رسائل میں چھپا۔
 اس کا مطلب یہ نہیں ہے، مثل اور محاورہ کو بھی واوین کے درمیان ڈالے بغیر نقل نہ کیا جائے، ظاہر ہے اسے بھی کسی نے وضع کیا ہوگا، لیکن وہ اب زبان وادب کی میراث اور جاگیر ہو گئی، ان کے واضع کا نام بھی معلوم نہیں ہے، اس لیے ان محاوروں اور ضرب الامثال کے استعمال کو ’’سرقہ‘‘ کی فہرست میں نہیں رکھا جا سکتا، اس لیے اسے نہ تو واوین میں لینے کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی وضاحت کی۔
آج کل سرقہ کا ایک اور طریقہ رواج پا گیا ہے اور وہ ہے دوسروں کی تحریر، تبصرے اور پوسٹس کو اپنے نام سے فارورڈ کرنا، بعض لوگ تو اس قدر جری ہوتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر اپنا نام لکھ کر دوسروں کی تحریر کو آگے بھیج دیتے ہیں، فارورڈ کیا کرتے ہیں اور مقصد اپنے کو نمایاں کرنا ہوتا ہے اور شاباشی بٹورنا ہوتا ہے اور یہ سب وہ اس عمل پر چاہتے ہیں جو انھوں نے کیا ہی نہیں ہے، ایسے لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآ ن کریم میں درد ناک عذاب کا اعلان کیا ہے، سورہ آل عمران آیت نمبر ۱۸۸ میں ہے : ’’وہ لوگ اپنے کرتوتوں پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو انھوں نے نہیں کیا اس پر بھی ان کی تعریفیں کی جائیں، آپ انھیں عذاب سے بری نہیں سمجھیے، ان کے لیے تو درد ناک عذاب ہے‘‘ علامہ ابن عبد البر ؒ نے ابو عمر کا یہ قول نقل کیا ہے کہ علم کی برکت اس میں ہے کہ ہر چیز کو اس کے قائل کی طرف منسوب کیا جائے، چنانچہ امام قرطبی ؒ نے تفسیر کے مقدمہ میں ہی یہ بات واضح کر دی ہے کہ میں اقوال کو ان کے قائلین کی طرف ہی منسوب کروں گا، امام نووی ؒ نے نشان العارفین میں لکھا ہے کہ علماے کرام کا ہمیشہ سے یہ دستور رہا ہے کہ وہ فوائد کو اس کے قائل کی طرف ہی منسوب کرتے ہیں، علامہ البانی ؒ نے دوسرے کی چیزوں کو بغیر اس کی طرف منسوب کرنے کو چوری قرار دیا ہے، اور اسے شرعا نا جائز بتایا ہے۔
 سرقہ کی تفصیلات اور بھی ہیں، شریعت میں بعض شرائط وقیود کے ساتھ اس کے لیے ہاتھ کاٹنے تک کی سزا مقرر ہے اور ایک ہاتھ کاٹنے پر وہ باز نہیں آیا تو یہ سزا اور حد دوبارہ بھی جاری کی جائے گی، میں بالکل یہ نہیں کہتا کہ اس مضمون میں سرقہ کی جتنی قسموں پر کلام کیا گیا ہے، سب حد کے دائرہ میں آتے ہیں، بعض میں حد ہے، بعض میں تعزیر ہے، اور بعض میں ہندستانی قوانین کے اعتبار سے سزائیں مقرر ہیں، لیکن اس بات میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ چوری اور سرقہ چاہے جس قسم کا بھی ہو یہ عند اللہ اور عند الناس مذموم عمل ہے، اس سے باز آنا چاہیے.
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:تنقید پارے
شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے