تنقید پارے

تنقید پارے

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ، پھلواری شریف، پٹنہ

ڈاکٹر عشرت بیتاب بنیادی طور پر استاد ہیں، پوری زندگی سرکاری طور پر معلم رہے، پڑھا، پڑھایا، لڑکوں کو کام کے لائق بنایا، ان کی حیثیت سے مغربی بنگال خصوصا آسنسول اور اس کے نواح میں مردم ساز استاذ کی رہی ہے، انھوں نے اپنی سر پرستی، سربراہی میں تربیت کرکے کتنوں کو ادیب، شاعر، مضمون نگار اور مقالہ نویس بنا دیا، میں نے بہ ذات خود ان کے شاگردوں کو ان پر جان چھڑکتے دیکھا ہے، جان چھڑکنا ایک محاورہ ہے جو خدمت کے لیے آخر حد تک تیار رہنے کے لیے بولا جاتا ہے۔
ڈاکٹر عشرت بے تاب نے افراد سازی کے ساتھ کتاب کی تصنیف و تالیف پر بھی اپنی توجہ مرکوز رکھی، وہ مسلسل لکھتے رہے ہیں، پیرانہ سالی، ضعف و نقاہت، کمر کے درد، چلنے پھرنے میں دشواری کے باوجود آج بھی ان کا قلم رواں دواں ہے، ان کی کئی کتابیں، سفر جاری ہے، محب الرحمن کوثر: تخلیقی سفر ایک جائزہ، سہیل واسطی کے افسانے، ادبی میزان مقبول عام ہیں، مغربی بنگال کے ادبی افق کا وہ ایک روشن ستارہ ہے، ستارے کی روشنی بہت نہیں ہوتی، لیکن اندھیری رات میں اس کی روشنی گھٹاٹوپ اندھیرے کو ہم پر مسلط ہونے سے محفوظ رکھنے کا کام کرتی ہے۔
تنقید پارے ڈاکٹر عشرت بے تاب کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے، جو قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے مالی تعاون سے اشاعت پذیر ہوا ہے، دو سو چھبیس صفحات پر مشتمل اس مجموعہ کی قیمت ایک سو تینتالیس روپے ہے، جو یقینی طور پر قومی کونسل کی ہدایت پر رکھی گئی ہوگی، ورنہ اتنی ضخیم کتاب اتنی کم قیمت پر اب کہاں ملتی ہے، طباعت ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی کی ہے، جس کی طباعت اور مارکیٹنگ مشہور ہے اور ان دنوں اہل قلم کی وہ پہلی پسند بن گئی ہے۔ ٹائٹل تجریدی آرٹ کا عمدہ نمونہ ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پہاڑ سے آبشار جاری ہے اور وہ اوپر سے نیچے کی طرف آکر زمین پر پھیلتا جا رہا ہے، تجریدی آرٹ کے سلسلے میں، میں انتہائی بد ذوق واقع ہوا ہوں، شاید اس آرٹ سے قارئین کو یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ مصنفین کے اعلا ارفع خیالات کو تبصرے، تجزیے، طنز ومزاح، گوشۂ اطفال، شخصیات اور شعری و نثری ادب کے ذریعہ عام قاری کو سمجھانے کے لیے پانی کی طرح رواں دواں کر دیا ہے، اب جس کا جی چاہے اس سے فیض پالے۔
کتاب کا انتساب ڈاکٹر عشرت بے تاب نے بیٹیوں کے نام نہیں بہوؤں کے نام کیا ہے، ان کا احساس ہے کہ وہ ان کے لیے بیٹیوں سے کم نہیں ہیں، بیٹیاں جب سسرال چلی جاتی ہیں تو ساری خدمت بہوئیں ہی کرتی ہیں، جو عقل مند ہوتے ہیں وہ بہوؤں کو بیٹیاں ہی سمجھتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی محبت بوڑھے سسر کو حاصل ہو جاتی ہے، عشرت بے تاب صاحب کے عقل مند ہونے میں کسی کو کیا شبہہ ہو سکتا ہے۔
پوری کتاب چھ ابواب پر مشتمل ہے، شروع کے تین ابواب شخصیات، شعر وادب اور تبصرہ میں چھ چھ مضامین شامل ہیں، چوتھا باب اطفال سے متعلق ہے اس میں چار مضامین ہیں، آخر کے دو باب میں امام اعظم کو ہمہ جہت شخصیت کا مالک، مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی کو قدآور شخصیت، عاصم شہنواز کو فعال اور متحرک، شمیم انجم وارثی کو انفرادی شخصیت، ڈاکٹر علی شیر خان کو وقت کا بشر، اور انجم روحان کو نئی نسل کا نمائندہ فن کار قرار دیا گیا ہے، شعر و ادب کے باب میں انتظار حسین، پریم چند، شان بھارتی، خان شین کنور، امان اللہ ساغر اور طلعت انجم فخر کی شعری و ادبی جہات کو موضوع سخن بنایا گیا ہے۔ تبصرہ کے باب میں امام اعظم کے تمثیل نو، حسین الحق کے اردو فکشن ہندستان میں اور سید شاہد اقبال کی نشتر تحقیق کے در وبست کا جائزہ لیا گیا ہے، مناظر عاشق ہرگانوی کی افسانوی جہتیں، ادبی آبیاری اور ان کے افسانے اور تجزیے نامی کتاب پر بھی سیر حاصل بحث کی گئی ہے، یہ تینوں کتابیں علی الترتیب عدد امناط صفی الرحمن راعین اور عرش منیر کی ہیں۔
باب اطفال میں مناظر عاشق ہرگانوی کو بچوں کی نفسیات کا عالم، رونق جمال کو بچوں کا من پسند ادیب، نذیر احمد یوسفی کو گنجینۂ اطفال کا ایک روشن باب اور معراج احمد معراج کو گلشن اطفال کا نمائندہ فن کار قرار دیا گیا ہے، اس باب کے مندرجات شخصیات والے باب میں سما سکتے تھے، الگ کرنے کا مقصد شاید یہ ہو کہ ادب اطفال کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرائی جا سکے۔
تجزیہ کے باب میں اشتیاق سعید کے حاضر غائب، مشتاق انجم کے خواب دریچہ اور سلیم سرفراز کے بد دعا کرنے والے پر ڈاکٹر عشرت بے تاب نے قلم اٹھایا ہے، یہ باب تبصرہ میں بھی ڈا لا جا سکتا تھا۔
طنز ومزاح میں پطرس بخاری، مناظر عاشق ہرگانوی اور بازغ بہاری کے طنز ومزاج کا فنی اور تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے، اس باب کو تبصرے میں شامل کرنے سے کتاب سہ بالی ہو سکتی تھی۔
کتاب کے مندرجات علمی ہیں، لیکن شکوہ یہ ہے کہ پروف پر توجہ بالکل نہیں دی گئی ہے، بے پناہ غلطیاں رہ گئی ہیں، جس کی وجہ سے قاری کا ذہن بوجھل ہوتا ہے۔ ملنے کے پتے آٹھ درج ہیں، اگر آپ پٹنہ میں ہوں تو کتاب گھر، سبزی باغ۔ کولکاتہ میں ہوں تو عثمان بک ڈپو، کولو ٹولہ اور آسنسول میں ہوں تو حنفی بک ڈپو، ریل پار کے ٹی روڈ سے حاصل کر سکتے ہیں۔
صاحب تبصرہ کی یہ نگارش بھی پڑھیں :تاریخ بدلنے کی مہم

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے