زندگی میں صبر، شکر اور محبت کا مقام

زندگی میں صبر، شکر اور محبت کا مقام

عبدالرحمٰن
نئی دہلی
(سابق چیف منیجر، الہ آباد بینک)
rahman20645@gmail.com
9650539878

صبر، شکر اور محبت جیسے اوصاف انسانی زندگی کا نہ صرف حسن ہیں، بلکہ ان کے بغیر خود زندگی بھی کوئی زندگی نہیں۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں یہ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ صبر اگر مصیبتوں کو ٹالنے کا ذریعہ ہے، تو شکر نعمتوں کو بڑھانے کا، جب کہ محبت زندگی میں خوشیوں کی روح پھونکتی ہے؛ گویا کہ صبر، شکر اور محبت زندگی کی جان ہیں۔ با معنی زندگی، ان عوامل میں سے کسی ایک سے بھی محرومی کا تحمل نہیں کرسکتی۔ صبر اور شکر اللہ تعالی کا حکم ہیں اور عبادت کا درجہ رکھتے ہیں، جب کہ محبت اس کا حق ہے!
محبت سے محروم عبادات خدا کی معرفت کا ذریعہ نہیں بن سکتیں ۔ قرآن میں اعلان کیا گیا ہے کہ ایمان والے ہی سب سے زیادہ اللہ سے محبت کرتےہیں(البقرہ، 2: 165)
دراصل، انسان کی زندگی صبر، شکر اور محبت سے ہی عبارت ہے۔ علامہ اقبال کا شہرہ آفاق شعر ہے:
"یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں"
دنیا میں یقین کو مضمحل کرنے والے ہزاروں عوامل موجود ہیں۔ صبر ہی وہ داعیہ ہے جو نہ صرف حالت تذبذب کو رفع کرتا ہے، بلکہ یقین کو اسحتکام بھی عطا کرتاہے۔ کسی بھی عمل کے سلسلے کو بنائے رکھنے کے لیے، شکر کے جذبات نہایت ضروری ہیں۔ چھوٹی چھوٹی چیزوں کے حصول پر بھی شکر خدا وندی بجا لانا مزید توفیق کا سبب بنتا ہے۔ نتیجتاً، عمل کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ صبر و شکر کے جذبات اگر نیک اور خالص ہوں، یعنی ان کو محبت کا درجہ حاصل ہو، تو کسی بھی کوشش کے نتیجہ خیز ہونے میں کسی شک کی گنجائش نہیں رہتی، یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ‘فتح` یقینی ہوجاتی ہے۔
صبر، شکر اور محبت کے داعیات، انسان پر اس کے خالق کے بڑے احسانات ہیں۔ اگلی سطور میں، انسانوں کو حاصل، اللہ تعالی کی ان تینوں نعمتوں کو الگ الگ سمجھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
صبر
انسانوں کے لیے، صبر کا سب سے پہلا سبق تو کائنات کی تخلیق میں ہی رکھ دیا گیا ہے۔ اللہ تعالی نے کائنات کو چھہ دن (ادوار) میں بنایا ہے( الاعراف،7: 54)، جب کہ وہ ‘کن` کہتا اور کائنات تخلیق ہوجاتی، کیونکہ "اللہ تعالی کی شان تو یہ ہے کہ وہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے فرما دیتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہوجاتی ہے" (یٰس،36: 82)۔
تخلیق کائنات میں وقت لگانے کی حکمت منصوبہ بندی اور پلاننگ کی جانب اشارہ کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اللہ تعالی کی انسانوں پر یہ عظیم مہربانی ہے کہ اس نے کائنات کی ہر شے کو فطری قوانین کا پابند بنا دیا ہے، تاکہ کائنات کا انسانی مطالعہ ممکن ہو سکے، اور انسان اللہ تعالی کی معرفت حاصل کرسکے۔ اللہ تعالی اپنے بندوں سے چاہتا ہے کہ وہ کائنات میں پھیلی ہوئی اس کی بے شمار نشانیوں پر غور و فکر کے ذریعہ اپنے رب کی معرفت حاصل کریں، اور اس طرح اللہ تعالی کا وجود ان کی اپنی ذاتی دریافت (ڈسکوری) بن جائے۔
تخلیق کائنات کی اسی حکمت کی مزید وضاحت انیسویں صدی عیسوی کے مشہور امریکی پادری، فلپس بروکس (Phillips Brooks) نے اپنے الفاظ میں کچھ اس طرح کی تھی:
"The trouble is that I am in a hurry but God isn’t.”
یعنی مشکل یہ ہے کہ میں تو جلدی میں ہوں، مگر خدا جلدی میں نہیں۔ دوسرے الفاظ میں، اللہ تعالی نے ہر کام کا ایک وقت مقرر کردیا ہے، وہ اسی طرح انجام پذیر ہوتا ہے، جب کہ انسان جلد باز واقع ہوا ہے (الاسراء، 17: 11)، اور چاہتا ہے کہ اس کے چاہنے بھر سے کام ہوجائیں، گویا کہ انسان خدا کا منصب حاصل کرنا چاہتا کہ وہ جو کہہ دے، وہ ہوجائے۔
آج کی حیرت انگیز سائنسی ترقیات کے تناظر میں، وسیع پیمانے پر، مختلف زاویوں سے، کائنات کے مطالعہ کے بعد تو انسان کو یہ ادراک ہو جانا ہی چاہیے کہ فطرت اس کی خواہشوں کی نہیں، بلکہ اصولوں کی پابند ہے۔ دراصل، یہی ادراک (realisation) اور اس کا احترام لفظ صبر کی تشریح ہے۔
صبر چونکہ انسان کی خواہش و تمناؤں کی ضد ہے، اسی لیے اللہ تعالی نے صبر کرنے والوں کے لیے بڑے بڑے انعامات کا اعلان کیا ہے۔
اپنی سروس کے دوران، ایک مرتبہ نئی دہلی زونل آفس میں، اپنے باس کو بزنس ٹارگیٹ کے تناظر میں بہت غمگین دیکھ کر، میں نے ان کی بے چینی کو رفع کرنے کی غرض سے، فلپس بروکس کی مذکورہ بالا سطور لکھ کر دی تھیں۔
موجودہ خوشامدی دور میں مختلف دفاتر اور بینکوں میں کاروبار بڑھانے کے لیے جو ہدف (ٹارگیٹ) مقرر کیے جاتے ہیں، عمومی طور پر، ان کا انحصار صورت حال کے مطالعہ کی روشنی میں کم، بلکہ باس لوگوں کے دباؤ اور ان کی خوش خیالیوں کی روشنی میں زیادہ ہوتا ہے۔ نتیجتاً، مختلف اہداف کو لے کر، جملہ متعلقین پورا سال بے چینی سے بسر کرتے ہیں۔
فطری قوانین کی روشنی میں ہدف طے کرنا، نہ صرف ہدف کو حاصل کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے، بلکہ مستقبل کی بڑی بڑی ترقیات کو بھی یقینی بناتا ہے۔
خدا کے منصوبہ تخلیق کے تحت، دنیا کی ہر چیز کو ایک "مقررہ مدت" کا پابند بنایا گیا ہے۔ مثال کے طور پر، دن اور رات کا وقوع پذیر ہونا، پھلوں کا پکنا، فصلوں کا تیار ہونا، یہاں تک کہ بچپن کا لڑکپن اور لڑکپن کا جوانی میں تبدیل ہونا، اور اسی طرح چھوٹی بڑی تمام اشیا کو کسی نہ کسی وقتی مدت اور نزاکت سے وابستہ کردیا گیا ہے۔ سمجھ دار انسان وہ ہے جو اس ربانی منصوبہ تخلیق کا ادراک کر سکے اور چیزوں کے ہونے میں جو انتظار درکار ہے اس کا تحمل کرسکے۔ اسی حقیقت کو دوسرے الفاظ میں صبر کہتے ہیں۔
صبر کا دائرہ کار بہت وسیع ہے۔ صبر زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کرتا ہے۔ عام فہم کے مطابق، غم و تکالیف کے حالات کو برداشت کر لینا ہی صبر نہیں ہے۔ خوشی اور آسائش کے حالات میں تو صبر کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔
پریشانی کے عالم میں، صبر انسان کو مزید ٹوٹنے سے بچاتا ہے اور اس کے اندر مایوسی کی کیفیت پیدا ہونے سے اس کی حفاظت کرتاہے۔ اس طرح، انسان اللہ تعالی کی مصلحت کا احترام کرتے ہوئے، خود کو حاصل ہوئیں نعمتوں کا شکر بھی ادا کرنے لگتا ہے۔ نعمتوں کے حصول پر شکر کرنے والوں کے لیے اللہ تعالی کا قانون یہ ہے کہ وہ اس کی نعمتوں کی صرف حفاظت ہی نہیں کرتا، بلکہ ان کو مزید بڑھا بھی دیتا ہے۔
انسانوں کو صبر کی تلقین کرنے میں اللہ تعالی کی بڑی مصالحت کار فرما ہیں۔ ظلم و زیادتی کے مقابلے میں صبر، صبر کرنے والے کی جان، مال اور آبرو کی حفاظت کی ضمانت بن جاتا ہے۔ امن کی سلامتی کی خاطر، کم پر راضی ہونے کی صورت میں کیا گیا صبر مختلف ترقیات کے بڑے بڑے مواقع فراہم ہو جانے کا سبب بن جاتا ہے۔
صبر گویا کہ ہر طرح سے خیر کے چشمے جاری کرنے میں خدا کی مدد کو یقینی بناتا ہے۔ تکالیف کے مواقع پر ہی نہیں، خوش حالی کے حالات میں بھی صبر انسان کی بڑے پیمانے پر معاونت کرتا ہے۔ نت نئی فتح و کامرانی کے جھنڈے بلند ہونے کا دور تنگی اور بد حالی کے دور سے بھی سنگین تر ہوتا ہے۔ یہاں شیطان پوری کوشش کرتا ہے کہ وہ اس کو تکبر اور استکبار (arrogance) کی نفسیات میں مبتلا کردے، کیوں کہ ‘مستکبر` کے لیے جنت نہیں۔ یہاں بھی صراط مستقیم پر ثابت قدم رہنے میں صبر کا مزاج ہی مدد کرتا ہے۔
اتاولے پن کی وجہ سے انسان کے لیے صبر کرنا، یعنی انتظار کرنا اور صحیح بات پر جمے رہنا ہمیشہ ہی مشکل ترین کام رہا ہے۔ اوپر سے، شیطان کا ہر وقت اس کو صراط مستقیم سے ہٹاکر کفر و شرک کے اندھیروں میں بھٹکانے کی کوشش میں لگے رہنا، انسانوں، خاص طور پر، ایمان والوں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ انسان کی اسی کم زوری کا لحاظ کرتے ہوئے اللہ تعالی نے اس کی مدد کو نماز اور صبر سے وابستہ کردیا ہے اور صبر کرنے والوں کی مزید نصرت کے لیے خود کو ان کے ساتھ ہونے کا اعلان بھی کردیا ہے(البقرہ،2: 153)۔
ایمانی زندگی عمل کے اعتبار سے صبر والی زندگی کا دوسرا نام ہے۔ جو لوگ صبر کی قیمت پر مومن بننے کے لیے تیار ہوں وہی وہ لوگ ہیں جو خدا کے اعلا انعامات میں حصہ دار بنائے جائیں گے۔ وہ ان کو ان کے صبر کے بدلے میں جنت اور ریشمی لباس عطا کرے گا (الانسان، 76: 12)۔
چوں کہ صالح اہل ایمان کی پوری کی پوری دنیاوی زندگی صبر کی زندگی ہوتی ہے۔ اس لیے، "بے شک صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا” (الزمر،39: 10)۔
آخر میں، پھر ایک بار، دنیاوی علوم سے ایک اقتباس پیش کیا جاتا ہے ۔
معاشرہ میں نہایت ہی موثر سمجھے جانے والے افراد کی سات عادات کے مطالعہ کی روشنی میں لکھی گئی، ایک مشہور امریکی معلم، مصنف، کاروباری اور مقرر کی مایہ ناز کتاب کا نام ہے:
Stephen R. Covey:
The 7 Habits Of Highly Effective People
اس کتاب میں درج، "صبر" کی حکمت عملی کی تائید کرنے والی پہلی عادت کا نام ہے: "بی پروایکٹو”
(Be Proactive) یعنی، فعال قسم کا رویہ اپنائیے۔ مزید وضاحت کے طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ ردعمل کی نفسیات میں مبتلا ہوکر کوئی عمل نہ کیا جائے، بلکہ غور و فکر کے بعد وضع کیے گئے لائحہ عمل کی روشنی میں ہی کام کیا جائے۔ یہاں، کسی مبالغہ کے بغیر کہا جا سکتا ہے کہ ایک صبر پسند انسان ہی خود کو ردعمل کی منفی نفسیات سے بچا سکتا ہے۔
شکر
قرآن مجید کی شروعات جن مبارک کلمات سے ہوتی ہے وہ سورة الفاتحة کی آیات 1 اور 2 ہیں، یعنی
بسم اللہ الرحمن الرحیم اور
الحمدللہ رب اللعالمین
ان دونوں آیتوں کے ذریعہ اللہ تعالی نے انسان کو تعلیم دی ہے کہ وہ کس طرح اس کی بڑائی کا اعتراف کرے اور کس طرح اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرے۔
پہلی آیت اشارہ کرتی ہے کہ اللہ تعالی کی بڑائی ( یعنی، ‘اللہ اکبر` کا ادراک) کے تناظر میں ہر ایک کام کی ابتدا اسی کے نام سے کی جائے۔ اپنی بڑائی کی حیثیت کے ساتھ ساتھ وہ رحمٰن و رحیم بھی ہے۔ ہر وقت خدا کی بڑائی میں جینے والا ایک شخص اپنے چھوٹا ہونے یا بہ الفاظ دیگر، خدا کا بندہ ہونے کی کیفیت سے خالی نہیں رہ سکتا۔ "خدا کا بندہ" بن کر زندگی گزارنا ہی، دراصل، انسان کی اصل پہچان ہے۔ اور اسی کے ساتھ شکر گزاری کا پہلا زینہ بھی۔
دوسری آیت واضح کرتی ہے کہ ساری تعریف، یا دوسرے الفاظ میں سارا شکر اللہ ہی کے لیے ہے۔
اسی سچائی کے پیش نظر، اسلامی تہذیب نے اللہ کی تعریف میں ہی اس کے بندوں کی تعریف کا اصول وضع کر لیا ہے۔ ماشاء اللہ، الحمدللہ، سبحان اللہ، ان ہی الفاظ کا حصہ ہیں، جو انسانوں کی تعریف کرتے وقت استعمال کیے جاتے ہیں۔ گویا کہ، کسی شخص کی تعریف یہ ہے کہ اس کا خالق قابل تعریف ہے۔
اللہ تعالی کا شکر بجا لانے کے لیے اس سے بڑی اور کیا نعمت ہو سکتی ہے کہ وہ ہمارا ہی نہیں، بلکہ تمام کائنات کا بھی رب ہے۔
رب، یعنی مالک اور آقا ہونے کے ساتھ ساتھ وہ بہترین پرورش اور نگہبانی کرنے والا بھی ہے۔ یہ حقیقت کہ اللہ تعالی کی کرم فرمائیاں جملہ مخلوقات کو حاصل ہیں، تقاضا کرتی ہے کہ سبھی انسان ایک دوسرے کے احترام کے ساتھ ساتھ ان کے حسنات اور احسانات کا اعتراف بھی کریں اور شکر بھی بجا لائیں۔
اللہ تعالی اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک انسان کا دوسرے انسان کی مہربانیوں کے لیے شکریہ ادا کرنا بہت پسند ہے، جب کہ اس کے برعکس رویہ پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہ فرمائی ہے۔ حدیث شریف کے الفاظ میں:
لا یشکر الله من لا یشکر الناس ( سنن ابو داؤد : 4811)، یعنی جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا اللہ کا (بھی) شکر ادا نہیں کرتا۔
انسانوں میں بہترین انسان وہ ہوتے ہیں جو ایمان والے ہوں۔ ایمان والوں میں بہترین مقام پر فائز وہ خوش نصیب لوگ ہوتے ہیں جو ہمیشہ بہ صد اخلاص صبر و شکر سے وابستہ ہوں۔
کسی انسان کے دوسرے انسان کے ساتھ کیے گئے حسنات، خلوص اور خیر خواہی کے قول و افعال کے جواب میں دل کی گہرائیوں میں نیک اور احسان مندی کے ساتھ پیدا ہونے والے جذبات تشکر جب دل سے آگے بڑھ کر زبان سے ادا ہونے لگتے ہیں، تب یہی کلمات "شکر" کہلاتے ہیں ۔
یہ انسانی فطرت کا وصف ہے کہ وہ اپنے محسن کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہے، جب کہ فطرت کے مسخ ہوجانے کی صورت میں، انسان کے لیے اپنے خیر خواہ کا شکر و اعتراف بھی مشکل ترین کام ہوجاتاہے۔ اس تناظر میں، جن اشخاص نے اپنی فطرت کو فطری حالت میں محفوظ کر لیا ہے وہ شکر و اعتراف میں کسی بھی طرح تساہل نہیں کرسکتے۔ یہی وہ قابل رشک ہستیاں ہیں جو انسانوں کے شکر و اعتراف میں پیش پیش رہتی ہیں، اور رب العزت کے شکر و اعتراف میں پیش تر۔
نتیجتاً، دنیا میں بھی نعمتوں سے شاد و آباد اور آخرت میں بھی جنت ان کی منتظر!
شکر گزاری کی کیفیت اور خوش گواری کی حیثیت سے ہمیشہ ہم کنار رہنے کےلیے ایک آسان فارمولہ:
Look back, thank God!
Look fore, trust God!!
یعنی، ماضی قریب میں جھانک کر، حاصل ہو رہیں نعمتوں کا احساس کیجیے اور ان ساری ربانی عنایات کےلیے دل سے خدا کا شکر ادا کیجیے۔ اب مستقبل کی طرف نظر اٹھائیے اور ابھی تک حاصل ہوئیں نعمتوں کا حوالہ دے کر، خدا پر بھروسہ کیجیے۔ یہ دعا اسم اعظم کے ساتھ مانگی گئی دعا ثابت ہوگی، ان شاء اللہ !
محبت
قرآن و حدیث میں محبت کو ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ اس میں سر فہرست بندوں کا اپنے رب سے محبت کرنا ہے۔ تمام کائنات سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے کو جزو ایمان قرار دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ، سورة البقرة کی ایک آیت کے مفہوم کے طور پر، اہل ایمان سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں.
جہاں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ رحم کرنے والا ہے جتنا ایک ماں اپنے بچہ پر مہربان ہو سکتی ہے (صحيح البخاري:5999)، تو وہیں پر قرآن میں، سورةالبروج(85) کی آیت نمبر 14 اعلان کرتی ہے:
"و هو الغفور الودود”
یعنی، وہ بخشنے والا ہے، محبت کرنے والا ہے۔
اللہ تعالی کا اپنے بندوں سے محبت کرنے کا ایک مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ اس کے بندے، یعنی حضرت آدم علیہ السلام کی نسبت سے سارے انسانی بھائی، آپس میں ایک دوسرے سے محبت کریں، تاکہ محبت و اخوت کے ماحول میں، ختم نبوت کے بعد کار نبوت کے طورپر جاری خدا کے پیغام وحدانیت کا ابلاغ، کسی تعصب کے بغیر، قیامت تک رواں دواں رہے۔
(05 FEBRUARY 2022)
صاحب تحریر کی یہ نگارش بھی پڑھیں:جھوٹ: قرآن و حدیث، انسانی فطرت اور تجربات کی روشنی میں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے