بلبلِ ہندوستاں، سُوَر کوکِلا خاموش ہوگئی

بلبلِ ہندوستاں، سُوَر کوکِلا خاموش ہوگئی

مسعود بیگ تشنہ

افسوس صد افسوس کہ بلبلِ ہندوستاں، سُوَر کوکِلا لتا منگیشکر جی نہیں رہیں. سب سے پہلے انھیں میری منظوم خراجِ عقیدت پھر کچھ باتیں :

آہ-لتا منگیشکر! ( 1929-2022 )

ل : لتا اُمّ کلثوم تھیں ہند کی
سُوَر کوکِلا جن کو کہتے سبھی
ت : تھرکتے تھے سُر کنٹھ میں جادوئی
سُروں میں کشش، کنٹھ میں تازگی
ا : ابھی عمر تیرہ کی تھی بس ہوئی
کہ پھر فکر گھر بھر کی سر آ پڑی
م : مصیبت میں مالی پریشاں ہوئیں
جوانی کے سُر سے گریزاں ہوئیں
ن : نئے سُر نئے تال کی بانگی
تھی سنگھرش کی وہ نئی زندگی
گ : گئی عمر شادی کی سنگھرش میں
پِتا کی جگہ جو لی سنگھرش میں
ی : یہ جو فلمی گانوں نے پہچان دی
نئے سُر دیے اور نئی تان دی
ش : شریک ان کے نغمے سماعت میں ہیں
ثقافت میں، اپنی وراثت میں ہیں
ک : کہاں اب سُروں کی لتا ہے کہاں
بدن خاک لیکن سُوَر جاوداں
ر : ریاضت، یہ سنگیت کی سادھنا
امر ہو گئی ان کی آرادھنا

آہ! لتا منگیشکر نہیں رہیں. بلبلِ ہندوستاں، سُوَر کوکلا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی. لتا جی 92 سال کی عمر میں آخری سانس لے کر اس فانی دنیا کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ گئیں. لتا جی کے جانے سے ایک سُنہری، سنگیت مے یُگ کا انت ہو گیا. ایسی عظیم شخصیت صدیوں میں جنم لیتی ہے. اداکاراؤں کی تین نسلوں کو اپنی آواز میں نغمے دینے والی اور فلمی نغموں کے شائقین کی تین نسلوں کو متاثر کرنے والی یہ عجوبۂ روزگار شخصیت ہماری تہذیبی و ثقافتی پہچان کو بھی بہ خوبی اجاگر کرتی ہے. جو مقام مصری گلوکارہ امّ کلثوم کو مصر میں حاصل ہے وہی مقام بھارت میں لتا منگیشکر کو حاصل ہے. پورے بر صغیر ہند و پاک ہی نہیں دنیا میں جہاں جہاں بالی وڈ نغمے سنے جاتے ہیں، ان کا وجود، ان کی آواز کا جادو زندہ ہے اور لتا جی کے گزرنے کے بعد بھی زندہ رہے گا. لتا جی نے ادا کاراؤں کی تین نسلوں کو اپنی آواز دینے کا عالمی ریکارڈ بنایا. مدھو بالا، نرگس سادھنا سے لے کے کر مادھوری دکشت، تک اور مادھوری دکشت سے لے کر پرینکا چوپڑا تک.
لتا جی کے نام 36 زبانوں میں 30000 گانے گانے کا عالمی ریکارڈ گینیز بُک میں درج ہے. جس میں تقریباً 300 ہندی ہندستانی فلموں کے گانے بھی شامل ہیں. لتا جی نے ستّر سال تک لگاتار ہندی ہندستانی فلمی گانے گائے. آخری ہندی گانا 2009 میں گایا. لتا دیدی نے ہر بڑے اور مشہور موسیقار کے ساتھ اور ہر بڑی اداکارہ کے لیے پلے بیک گانے گائے. پہلا نغمہ 13 سال کی عمر میں گایا. ‘اے میرے وطن کے لوگو` نغمہ پنڈت نہرو کی بھی آنکھیں نرم کر گیا تھا. تب اندرا گاندھی نے اپنے دونوں بچوں سنجے گاندھی اور راجیو گاندھی سے انھیں ملوایا تھا.
لتا جی 28 ستمبر 1923 کو اِندور مدھیہ پردیش (تب سی پی اینڈ برار) میں پیدا ہوئیں اور 1945 کو بامبے (ممبئی) میں شفٹ ہوئیں. لتا جی نے آخری سانس برج کینیڈی اسپتال ممبئی میں لی جہاں وہ کووِڈ سے متاثر ہونے کے بعد مہینے بھر سے زیرِ علاج تھیں. سخت نمونیہ ہونے کے بعد سے وہ وینٹی لیٹر پر تھیں. 6 فروری 2022 کی صبح، مرکزی وزیر نِتِن گڈکری نے اسپتال سے ہی ان کے سانحۂ ارتحال کا اعلان کیا. بھارت سرکار نے دو دن کے قومی سوگ کا اعلان کیا ہے تو مہاراشٹر سرکار نے ایک دن کی تعطیل کے ساتھ پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ شام 6.30 بجے شوا جی چوک پر انتم بدائی کی تیاری کا اعلان.
لتا منگیشکر کا پیدائشی نام کچھ اور تھا بعد میں پتا جی دینا ناتھ منگیشکر نے ان کا نام لتا منگیشکر رکھا، پھر اسی نام سے وہ مشہور ہوئیں. ان کے پِتا کلاسیکل سنگر اور ڈراما آرٹسٹ تھے. ان کی ماں گجراتی تھیں جن کا نام شیونتی تھا جو ان کے پتا کی دوسری بیوی تھیں. لتا منگیشکر سے چھوٹے ایک بھائی ہردے منگیشکر (سنگیت کار) اور تین چھوٹی بہنیں مینا کھانڈیکر (گائیکا )، آشا بھونسلے (گائیکا) اور اوشا منگیشکر (گائیکا) ہیں.
ان کی اسکولی تعلیم پوری نہیں ہو پائی. وہ سنگیت کا پہلا استاد اپنے پِتا کو مانتی تھیں، جنھوں نے پانچ چھ سال کی عمر میں اس بچّی میں سنگیت کو بستے دیکھ لیا تھا. لتا جی نے بچپن میں بہت چھوٹی عمر سے ہی شاستری سنگیت کی باقاعدہ تعلیم ایک مسلم استاد سے لی.
لتا جی تاعمر کنواری رہیں اور تاعمر سفید ساڑی زیب تن کیے رہیں گرچہ بارڈر پر کام ہوتا تھا.
پِتا جی کی سنگیت کی وراثت ایک بیٹے اور چار بیٹیوں میں منتقل ہوئی. پِتا جی کے اچانک انتقال ہونے پر بڑی اولاد ہونے کے ناطے لتا جی نے بھائی بہنوں کی پوری پرورش کا ذمہ بہ حسن و خوبی نبھایا. جب کہ خود ان کی عمر پدرانہ توجہ کی محتاج تھی. لتا جی سنگیت کی ہر وِدھا میں پارنگت تھیں، فلمی گانے، شاستری سنگیت، غزل گائیکی، قوالی، بھجن سبھی میں برابر کا ادھیکار. برٹش انڈیا میں انھوں نے شمشاد بیگم اور نور جہاں جیسی گلو کاراؤں کے بیچ اپنی جگہ بنائی. تقسیمِ ہند کے بعد کئی بڑی پاکستانی ہستیاں از راہ مذاق ہی صحیح کہا کرتی تھیں کہ بھارت تاج محل اور لتا منگیشکر دے دے تو پاکستان بدلے میں کشمیر دے دے گا. لتا جی دلیپ کمار (یوسف خان) کے گزرنے کے بعد مشترکہ ہندستانی تہذیب و ثقافت کی آخری زندہ نشانی تھیں. ممبئی میں 1993 کے بم دھماکوں اور اس کے بعد بڑے پیمانے پر ممبئی میں برپا فسادات کے بعد، مراٹھا ذیلی قومیت کے شدت پسند علم بردار بال ٹھاکرے سے دلیپ کمار کا موہ بھنگ ہو گیا تھا. مگر لتا جی نے اس بال ٹھاکرے کے خاندان سے آخری وقت تک نزدیکی بنائے رکھی. لتا جی سے نزدیکی کے دعوے دار پردھان منتری نریندر مودی بھی ہیں جنھوں نے اپنے سیاسی مفاد کے لئے ایک بار لتا جی کی یومِ پیدائش کی پیشگی مبارکباد کی نجی بات چیت کو اپنی سرکاری ریڈیو نشریات ‘من کی بات’ کا حصہ تک بنایا. دراصل لتا جی بڑے دل والی ملنسار شخصیت تھیں. بچپن کی سی معصومیت تاعمر ان کی شخصیت کا حصہ بنی رہی.
بھارت سرکار نے پدم بھوشن، پدم وِبھوشن، دادا صاحب پھالکے ایوارڈ اور آخر میں سب سے بڑے شہری ایوارڈ بھارت رتن سے نوازا. وہ تین قومی فلم ایوارڈ، چار فلم فئیر ایوارڈ، دو فلم فئیر اسپیشل ایوارڈ، پندرہ بنگالی فلم جرنلسٹس ایسوسی ایشن ایوارڈ اور کئی انعامات سے نوازی گئیں. وہ بالی وڈ کی اور سنگیت کی دنیا کی سب سے زیادہ اعزازات و انعامات پانے والی پہلی شخصیت ٹھہریں. لتا جی کو کئی بار ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے بھی نوازا گیا. لتا جی کے اعزاز میں مدھیہ پردیش سرکار نے ان کے نام پر سنگیت میں سالانہ لتا منگیشکر ایوارڈ قائم کر رکھا ہے جو سنگیت کے میدان کے شہ سواروں کو ہر سال تفویض کیا جاتا ہے.
(6 فروری 2022، اِندور، انڈیا)
مسعود بیگ تشنہ کی یہ نگارش بھی پڑھیں :ابراہیم اشک (1951 – 2022)

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے