کھوکھلی کگر:  افسانوں کا اک گلدستہ 

کھوکھلی کگر: افسانوں کا اک گلدستہ 

الطاف جمیل آفاقی

زمانہ سخت کم آزار ہے بہ جان اسد
وگرنہ ہم تو توقع زیادہ رکھتے ہیں
 
سفر جہاں کے ساتھ ہی ہر زمانے میں مختلف حادثات و واقعات ہوتے رہے. جو تاریخ جہاں میں مختلف ادوار میں مختلف تبدیلیاں پیدا کرتے گئے. ان تاریخی حوادث و واقعات کے تناظر میں اقوام جہاں کامیابی سے ہم کنار ہوئیں یا دنیا سے کچھ اس طرح غائب ہوتی گئیں کہ انسان انگشت بہ دنداں رہ گیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کیا سے کیا ہوگئی. یہ حوادث و واقعات آنے والی اقوام کے لیے نصیحت بنتے گئے کہ عروج و زوال کے اسباب سے اسباق تازہ حاصل کیے جائیں اور بقائے انسانیت کے لیے قواعد و ضوابط کی ازخود تجدید کے بجائے جہاں کے خالق کی فرماں برداری کی جائے. اللہ تعالی نے قرآن کریم میں بہت سے حوادث و واقعات کا تذکرہ کیا ہے تاکہ اہل تفھیم اور صاحب ادراک لوگ ان واقعات و حوادث سے نصیحت لیں. اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ تاریخی اہمیت کے حامل واقعات و حوادث کو جاننا اہم ہے،سفر زندگی کو بقا و دوام بخشنے کے لیے.
زمانے کے ان تغیرات کے ہوتے ہوئے زمانہ حال کا ورود ہوا جہاں اب علم تحقیق کی بھر مار ہے ،جہاں میں علوم کا دبدبہ قائم و دائم بنانے رکھنے کے لیے مختلف اقوام اپنی حیثیت کے اظہار کے لیے مختلف علوم و فنون کی سرپرستی کرکے خود کو منوانے کے لیے ہمہ وقت کوشاں ہیں. اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ جابر اقوام پوری دنیا پر اپنا سکہ جمائے رکھنے کے لیے تیر و تلوار کی جگہ آگ برساتے ہتھیار بھی آزمانے سے نہیں ہچکچاتے اور دیکھتے ہی دیکھتے بستیوں کی بستیاں ویران کرنے میں ذرا بھی نہیں شرماتے اور یوں اپنی چودراہٹ کو دوام بخشتے رہتے ہیں. اس دوران مظلوم اقوام گر اپنی مظلومیت کے اظہار کے لیے کوئی طریقہ آزمانے کے لیے سرکنا شروع کردیں اپنی جگہ سے تو جابر اقوام اسے دہشت گردی اور اللہ جانے کیا کیا نام دے جاتے ہیں. میں سمجھتا ہوں یہ دلوں کی نفرت و کدورت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے . ایسے میں اہل ادراک جو ہوتے ہیں وہ ان حوادث پر دن رات آنسو بہانے کے ساتھ ساتھ مختلف کاوشیں انجام دینے کے لیے کوشاں رہتے ہیں. انھیں ہم مختلف علمی خانوں میں تقسیم کرسکتے ہیں. کوئی کسی یونی ورسٹی سے علوم و نظریات کو پروان چڑھا رہا ہے تو کوئی کسی سیمنار میں اپنی بات رکھ رہا ہے، کوئی کسی اور طرح سے. اس سب کے درمیان ایک طبقہ ایسا ہے جو افکار و نظریات کے ساتھ ساتھ انسانیت، پاکیزگی، معاشرتی مسائل، سیاست، ظلم و جبر تشدد، غربت، افلاس جیسے بنیادی مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے کوشاں رہتا ہے. یہ قسم ہم کہہ سکتے ہیں اہل ادب کی ہے، جو حوادث زمانہ پر تاریخیں مرتب کرکے اقوام جہاں پر احسان کرتے ہیں. زمانہ قدیم میں میں ایک طریقہ تھا اپنی بات رکھنے کا جسے ہم داستان گوئی کے نام سے جانتے ہیں. داستان گوئی اکثر و بیش تر سینہ بہ سینہ یاد رکھی جاتی تھی اور پھر لوگوں میں مجالس بناکر سنائی جاتی تھی، پر ناول نگاری ایک ایسی ادبی صنف ہے جو مصنف کے ساتھ ساتھ معاشرے کے مختلف حوادث و واقعات کی عکاسی کرتی تھی. اس سلسلے میں ہزاروں ناول ایسے ہیں جنھیں ہم ادبی دنیا کی شاہ کار تخلیقات کہہ سکتے ہیں. پر انسانیت نے جتنی ترقی کی اسی قدر اس کے لیے اوقات زمانہ سکڑتے گئے. اب فرصت کے ایام اہم ہوتے گئے اور انسان مادی مسائل میں الجھ کر یا ترقی کی راہ کو پانے کے لیے رات کو دن اور دن کو رات بنا بیٹھا. اس نے خود کو آرام دینے کے لیے بے آرامی اور بے سکونی کو گلے لگا لیا. خیر اس ادبی صنف مطلب ناول کی ضخامت نے اسے آہستہ آہستہ لوگوں کی توجہ سے محروم کرنا شروع کردیا. گرچہ علم دوست لوگ اب بھی اس صنف سے جڑے ہوئے ہیں اور پوری قوت سے اس کے بچاؤ کے لیے مصروف العمل ہیں. خیر فرصت ندارد کے اس زمانے میں ایک اور ادبی صنف نے انسانوں کی بستیوں میں دستک دی جسے ہم افسانہ کہتے ہیں. افسانہ ایک ایسا فن پارہ ہے جو مختصر سی نشت میں انسانیت کے مختلف مسائل پر بات کرکے انسانوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرنے کی سعی کرتا ہے. یہ صنف ادبی دنیا میں آج کل عروج پر ہے. اب اس صنف کا بھی متبادل آچکا ہے جسے افسانچہ کہتے ہیں. اس صنف کے موجد یا اس کے سفر کی باتیں کرنے کا یہ وقت میرے لیے مناسب نہیں ہے. اس پر کبھی پھر بات کریں گے.
ویسے تو اس صنف سے جڑے ہزاروں ادب شناس اور اس صنف کے ماہرین ہیں، پر میں جن کے لیے آج کچھ گزارشات رکھنے کی کوشش کر رہا ہوں یہ اس ادبی صنف کے ایک اعلا تخلیق کار اور بہترین دسترس رکھنے والے صاحب ادب جناب احمد رشید علیگ ہیں. آج سے کچھ وقت پہلے میرے انتہائی قابل احترام دوست اور ادیب جناب اشہر اشرف نے ایک کتاب تھما دی. کھوکھلی کگر نامی کتاب کو الٹ پلٹ کر دیکھا تو سمجھ آیا ایک افسانوی مجموعہ ہے جس میں شامل کل افسانوں کی تعداد( ۱۳) تیرہ ہے جو زیادہ بڑے بھی نہیں ہیں اور جنھیں ہم چھوٹے افسانچے بھی نہیں کہہ سکتے. کتاب کا سر ورق انتہائی خوب صورت اور دیدہ زیب ہے اور کتاب کی ضخامت بھی کوئی زیادہ نہیں ہے. کتاب کی خاص بات جو مجھے محسوس ہوئی وہ یہ ہے کہ کتاب پر ایک تبصرہ نئی علامت نگاری اور احمد رشید کے افسانے جو جناب غالب نشتر کی تحریر ہے ایک عمدہ اور بہترین تبصرہ ہے. جس کی جس قدر بھی تعریف کی جائے اتنی ہی کم ہے. کیوں کہ جناب نشتر صاحب نے پوری کتاب کا خلاصہ اور مصنف کا تعارف پوری قلمی قوت اور بہتر انداز سے کیا ہے کہ قاریِ کتاب کو کتاب میں شامل افسانوں کا پورا ادراک ہوجائے. کتاب کے آخری صفحات پر کچھ اہل علم، صاحب ادب لوگوں کے ہلکے پھلکے تبصرے بھی شامل ہیں، جنھوں نے کتاب کی زینت اور بڑھا دی ہے کہ قاری کتاب کو آسانی سے مصنف مذکور کی علمی صلاحیتیں ازبر ہوجائیں گی. ان کے مختلف افسانوں کے بارے میں کچھ باتیں آپ بھی ان مبصرین کی پڑھیں جیسے کہ:
احمد رشید کی عورت حیات و کائنات کے اس بے ہنگم شور اور ناہموار نظام پر سوال پر سوال قائم کرتی ہے تو سماجیات کی ایک نئی تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے.
پروفیسر علی احمد
روایتی انداز میں مطالعہ کرنے والوں کو شاید احمد رشید کے ان افسانوں میں کشش محسوس نہ ہو مگر افسانہ کے سنجیدہ قارئین کے لیے ان کے افسانے دل چسپی کا مرکز بنے رہیں گے.
سیما صغیر
افسانوی نظام کے ساتھ انھیں فنی ہنر مندی پر عبور حاصل ہے. ساتھ ہی یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ان کے افسانوں کے اکثر کردار متوسط طبقے سے متعلق ہوتے ہیں. عبدالباسط
کتاب پر ایسے ہی کئی علمی ادبی شخصیات کے تبصرے موجود ہیں، جو اس بات پر دال ہیں کہ صاحب تصنیف ایک اچھے صاحب علم و ادب ہونے کے ساتھ ساتھ اس سماج اور معاشرے کے بناؤ اور بگاڑ سے کافی واقف اور دل چسپی رکھتے ہیں. جس معاشرے اور سماج کے مسائل نے ان کے اندر چھپے افسانہ نگاری کا فن وا کیا اور انھوں نے اس ادبی صنف میں قدم رکھا اور کامیابی سے اس سفر پر گامزن بھی ہیں. میرے لیے یہ احساس عجیب سا تھا کہ ادبی دنیا کے اس مذہب سے جنوں کی حد تک محبت کرنے والے افسانہ نگار نے جہاں اپنے افسانوں میں تصور مذہب دل میں بنائے رکھنے کے لیے اپنے افسانوں میں کشش پیدا کی ہے وہیں وہ فرسودہ رویات کو مذہبی لبادہ اوڑھ کر انسانیت کو شرمسار کرنے والے حرکات پر بھی نقد کرتے ہیں. وہ سیاسی انارکی اور جمہوریت کی بات بھی کرتے ہیں. ان کی کہانیوں کا مرکزی موضوع اخلاقیات سے عاری اور مذہب بے زار روایات پر تنقید کرنے کے ساتھ ساتھ واپسی کے سفر کے نام پر اپنے مذہب پر عمل کی ترغیب دینا بھی ہے. وہ انسانیت کی وکالت کرتے ہیں. خواہ انسان کوئی سا بھی ہو. اس کے لیے مذہب رنگ و نسل یا ملک کی کوئی خاص تخصیص نہیں ہے بلکہ بس انسان ہونا کافی ہے. خواتین کے حوالے بات کریں تو کہہ سکتے ہیں کہ ان کے افسانوں میں عورت مختلف انداز سے سامنے آتی ہے اور ہر انداز نرالا اور منفرد ہے. اقوام کے عروج و زوال کی داستان بھی موصوف سناتے ہیں، جنھیں پڑھ کر ظالم و جابر بادشاہوں سے تنگ آئی ان کی رعایا کی بغاوت اک طوفان کی مانند ہوجاتی ہے. احمد رشید علیگ ایک ایسے افسانہ نگار کہے جاسکتے ہیں جو زندگی کو مختلف زاویوں سے دیکھ کر اور ان پر سوچ سمجھ کر نقد بھی کرتے ہیں اور مختلف مسائل سے نکلنے کی نوید سناتے اور راستہ بھی دکھاتے ہیں. ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کے افسانوں میں ترغیب ہے، امید ہے، احساس ہے اور یہ سمجھنے کے لیے لازم ہے کہ ان کی کتاب کا بہ غور مطالعہ کیا جائے. ذاتی تعلق نہ ہونے کے باوجود میں نے احمد رشید علیگ کو جیسا تخیل میں محسوس کیا ویسے ہی تب محسوس ہوا جب ان سے بات ہوئی. میں نے انھیں ایک علم دوست اور انسانیت کا ہم درد محسوس کیا، جن کے بات کرنے کا انداز انتہائی درجہ عمدہ اور پاکیزہ ہے. ان کے الفاظ میں محبت اور خلوص کی جھلک محسوس کیے بنا نہیں رہا جاسکتا.
میں افسانوی ادب کا ایک نیا نیا متوالا ہوں. ابھی اس صنف سے نئی نئی شناسائی ہوئی ہے. ممکن ہی نہیں بلکہ حق ہے کہ میں اس کتاب کھوکھلی کگر کا صحیح سے مطالعہ کرنے اور تبصرہ کرنے سے کوسوں دور رہ گیا ہوں، پر امید ہے کہ آنے والے ایام میں یہ کوشش بار آور ثابت ہو اور میری کوشش میرے لیے قابل مطالعہ ہو. اس کے لیے آپ سب ہی ادبی شخصیات سے وابستگی ہی ایک واحد ذریعہ ہے. اسی لیے علمی استعداد نہ ہوتے ہوئے بھی اور ادبی دنیا کا طفل مکتب ہونے کے باوجود بھی میں ہمیشہ ادبی کتب کا مطالعہ شوق و ذوق سے کرتا رہتا ہوں.
***
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:ابوذر غفاریؓ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے