ابوذر غفاریؓ

ابوذر غفاریؓ

الطاف جمیل آفاقی

حضرت ابوذر غفاریؓ اسلام کی ایسی عظیم شخصیت ہیں جنھوں نے اسلامی نظریات کی ہر قدم پر جان جوکھوں میں ڈال کرحفاظت ونصرت فرمائی۔ آپ دین حق کے نڈر سپائی، بے باک مبلغ، عزم و استقلال کے پیکر مظلوم صحابی رسول(ص) تھے۔ آپ نے کبھی لذت غم و شدائد کو عارضی خوشیوں کے ہاتھوں فروخت نہ فرمایا۔ آپ کے حوصلہ منداور جرأت افزا جذبات ایمانی بڑی بڑی آزمائش میں غالب نظر آتے ہیں۔ اس میں شک نہیں اس حق گو اور صدیق امت ہستی کو اشاعت حق کی بھاری قیمت اداکرنی پڑی لیکن ایک لمحہ کے لیے بھی یہ سرفروش اسلام باطل کے سامنے سرنگوں نہ ہوا. ہر طرح کی مصیبت کو ہنسی خوشی قبول کیا لیکن سچ کو آنچ نہ آنے دی، عشق دین الہی کی مستی میں جابر سلطان سے ٹکراجانے والے اس بہادرصحابی رسولﷺ نے.
شخصی خاکہ:
ابوذرغفاری ظہور اسلام سے بیس سال پہلے متولد ہوئے۔ آپ کے والد جنادہ غفار کے فرزند تھے جب کہ آپ کی والدہ رملہ بنت الوقیعہ کا تعلق بنی غفار بن ملیل خاندان سے تھا۔ آپ کے والد کے لیے یزید، عشرقہ، عبداللہ اور سکن جیسے نام بھی ذکر ہوئے ہیں۔
علماے علم رجال اور صحابہ کے بارے میں لکھنے والے مورخین نے کہا ہے کہ ابوذر لمبے قد، گندمی رنگ، نحیف جسم، سفید بال اور داڑھی، اور بعض کے مطابق صحت مند جسم کے مالک تھے.
تاریخ اسلامی کے جھروکوں سے ان کی یادیں :
مدینہ منورہ میں شام کے سائے پھیل رہے تھے۔ دوپہر کے بعد سے ہی لوگوں کا ایک ہجوم شہر کے باہر جمع ہوگیا تھا۔ سب کی نظریں شہر کی جانب سے آنے والی شاہ راہ پر جمی ہوئی تھیں۔ آج اس نوجوان کی واپسی کا دن تھا جس کو خلیفہ وقت فاروق اعظم ؓ نے اس کی آخری خواہش کی تکمیل کے لیے تین دن کی مہلت عطا کی تھی اور جس کی ضمانت حبِ رسول ﷺ سے سرشار ایک صحابی نے دی تھی۔ اگر وہ نوجوان سورج غروب ہونے تک نہ آیا تو اس کے بدلے میں ضامن صحابی رسول ﷺ کو قتل ہونا تھا۔ وقت آہستہ آہستہ گزر رہا تھا۔ لوگوں کی نگاہیں شہر سے آنے والی شاہ راہ پر مرکوز تھیں۔ مگر وہاں سے کسی کے آنے کا نام و نشان نہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وقت جوں جوں گزر رہاتھا، فاروق اعظم سمیت تمام لوگوں کی پریشانی بڑھتی جارہی تھی۔ دوسری جانب ضامن صحابی رسول ﷺ جرأت و استقامت سے میدان میں کھڑا تھا۔ کیوں کہ اجنبی نوجوان کی ضمانت دیتے وقت اُس نے امیر المومنین سے کہا تھا۔ ’’میں نے اپنا انجام سوچ لیا ہے مگر میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ ایک نوجوان دوسرے مسلمان کے موجود ہوتے ہوئے خود کو بے گانہ سمجھے۔ ﷲ کے رسول ﷺ نے ہمیں جو اخوت کا درس دیا ہے اس کی بنا پر یہ میرا بھائی ہے اور میں اس کی ضمانت بہ خوشی دیتا ہوں‘‘۔ سورج غروب ہونے کا وقت قریب تھا کہ جلاد کو گردن مارنے کا حکم جاری کر دیا جاتا کہ اچانک مجمع میں ایک شور اٹھا۔ ٹھہرو، ٹھہرو ، اُدھر دیکھو۔ گرد و غبار اُڑ رہا ہے شاید کوئی سوار آرہا ہے۔ جیسے ہی اونٹنی پر سوار جوان قریب آیا، لوگ چلّا اٹھے۔ دیکھو! وہ نوجوان آگیا۔ پہنچتے ہی نوجوان نے اونٹنی سے اُتر کر معذرت کی اور کہا کہ میری اونٹنی کی زین کا تنگ ٹوٹ گیا تھا جس کی وجہ سے تاخیر ہوئی۔ مجھے خوشی ہے کہ میں وقت پر پہنچ گیا اور میرے محسن ضامن کی جان بچ گئی۔ اَب میں ہر سزا بھگتنے کے لیے تیار ہوں۔ امیر الومنین نے نوجوان سے مخاطب ہو کر فرمایا۔ ’’سزا تمھیں بعد میں دی جائے گی۔ پہلے یہ بتاؤ کہ تمھیں تین دن کی مہلت دی گئی تھی۔ تمھارا پتہ و نشان بھی کسی کو معلوم نہیں تھا۔ سزائے موت سے بچنے کے لیے تم فرار بھی ہوسکتے تھے‘‘۔ نوجوان نے بھیگی آنکھوں سے جواب دیا ۔ ’’امیر المومنین ! میں فرار ہو کر کہاں جاتا؟ یہاں نہ سہی، وہاں سزا ملتی۔ لیکن قیامت تک اسلام کے دشمن یہ طعنہ دیتے کہ محمد ﷺ کے غلام عہد شکن ہوتے ہیں۔ اس لیے میں نے سوچا کہ زمین پر میرے خون کا دھبہ چند دنوں کے بعد مٹ جائے گا لیکن عہد شکنی کا دھبہ اسلام کے دامن پر ہمیشہ کے لیے رہے گا ‘‘۔ اجنبی نوجوان کی ضمانت کرنے والے اس جلیل القدر صحابی کا نام حضرت ابوذر غفاری تھا.
بے عشق عمر کٹ نہیں سکتی ہے اور یاں 
      طاقت بقدر لذت دیدار بھی نہیں 
مسافر راہ حق و عزیمت کا آخری سفر :
ہجرت کا بتیسواں سال اپنی ہستی کو فنا کرتے ہوئے اپنے اخیر مہینے میں قدم رنجہ ہوچکا تھا. عرب و عجم کی بے شمار روحیں عشق الہیہ میں سرشار و مست ہوکر مکہ کی وادیوں میں پھیل رہی تھیں. لبیک اللھم لبیک کی دل آویز صدائیں دل میں دبی چنگاریوں کو بھڑکا رہی تھیں. 
ربذہ سے گزرنے والے لباس مستانہ میں گر کچھ نہیں کرتے تھے پر ایک بات ضرور تھی کہ حسرتوں کے جہان میں ایک ضعیف کے دل کو چھلنی کیے جاتے تھے. دل اچھل رہا تھا. اس تن ناتواں میں جو دو قدم چلنے کی سکت کھو چکا تھا اپنے ہزار خواب دل میں بسائے سامنے نگاہوں کے حسرتوں کے صحرا دیکھنے والا کوئی اور نہیں ابوذر غفاری ؓ تھے.
یہ وادی کرب میں اچانک اک چیخ بلند ہوئی. یہ چیخ ابوذر غفاری ؓ کی رفیق حیات کی تھی. بستر سے آواز آئی کہ تمھیں کس نے رلایا.
بیوی کہتی ہے تمھارا وقت قریب آیا ہے. میں عورت ہوں اتنی قوت کہاں کہ اس سخت پتھریلی زمین پر قبر کھود سکوں اور پھر کپڑا بھی تو نہیں کہ لپیٹ کر تمھیں دفن کرسکوں.
آواز آئی مت رو مجھے بشارت ملی ہے کہ تم اک سنسان وادی میں جان دو گے. مسلمانوں کا اک گروہ آئے گا، وہ تمھارے کفن دفن کا انتظام کرے گا.
بیوی صاحبہ راستہ بالکل سنسان ہوچکا ہے حاجیوں کی آمد و رفت رک گئی ہے. خدا جانے لوگ آئیں گے کہاں سے.
بستر سے لرزتے ہوئے آواز آئی دیکھو تو سہی.
بیوی اٹھی، انتہائی تکلیف دہ احساس کے ساتھ کرب و الم کی تصویر بنی دور افق کی اور دیکھنے لگی کہ گرد و غبار اک جانب سے نظر آیا. گرد و غبار کم ہوا تو اندر سے ستر گردنیں اٹھائے اونٹ نمودار ہوئے. عربی عماموں والے سوار گرد و غبار میں ڈوبے ہوئے ان انٹوں پر سوار تھے. وہ لوگ بیوی صاحبہ کے قریب پہنچ گئے. ان کی نظر جو اس جگہ اک خاتون پر پڑی تو ٹھٹک گئے. پوچھا اے خاتون آپ یہاں کیوں تنہا کھڑی ہیں کیا حادثہ ہوا.
بیوی صاحبہ کہتی ہیں :
مسلمانو ایک آدمی بےچارہ مر رہا ہے. خدا کے لیے اس کے کفن دفن کا انتظام کرو. اس کے بعد جو الفاظ بیوی صاحبہ اس قافلے کے سامنے کہتی ہیں تو دل پھٹ جاتا ہے، آنکھ برس جاتی ہیں، فرشتے حیران ہیں، کائنات محو حیرت ہے، جنگل کے اس اندھیرے میں اس کی بیوی جس نے کبھی ہاتھ مانگنے کو نہیں اٹھائے، مخلوق کے سامنے جس نے زبان کو حرکت ہی نہیں دی، کبھی دنیا کی کوئی چیز پانے کے لیے اب اس کی شریک حیات مسافروں سے کہتی ہے.
او لوگو اس بے چارے مسلمان کے پاس کفن نہیں ہے، خدارا اس کے کفن کا انتظام کرو، خدا کے یہاں اجر پاؤ گے، سوار پوچھتے ہیں آخر کون ہے یہ مسلمان جو اس بے کسی کے ساتھ انتقال کر رہا ہے. آواز آئی ابوذر. نام سن کر ہی سواروں کے ہوش اڑ گئے، حواس باختہ ہوگئے، ہچکیوں اور آہوں کا کہرام مچ گیا، ہر طرف چیخ بلند ہوئی، اے خاتون ان پر ہمارے ماں باپ اور ہم قربان یوجائیں، اونٹوں کی پیٹھیں خالی ہوئیں، گریاں و نالاں اس خیمے کی اور سب دوڑ پڑے.
اندر پہنچ کر دیکھا ابوذر کے دل سے شورش انگیز، روح فرسا، حوصلہ گسل آواز اٹھ رہی ہیں اور حسرتوں سے کہا اے کاش میرے پاس کپڑا ہوتا کہ اپنا کفن بنا لیتا تو پھر کسی سے کفن کی محسوس نہ ہوتی. اب التماس ہے آپ لوگوں سے خدا کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ مجھے وہ شخص کفن دے جو کسی قسم کا ذمہ دار یا عہدیدار نہ ہو حکومت کا.
اتفاق یہ تھا کہ یہ سب عہدوں پر فائز تھے. صرف ایک انصاری اس جماعت میں شریک سفر تھا وہ بول پڑا میں ہوں جس میں تمام خصوصیات ہیں جو آپ نے بیان کیں. میرے تھیلے میں دو چادریں پڑی ہیں، اس کا سوت میری ماں نے ہاتھ سے کاتا ہے، میں ماں نے بنا ہے یہ ملا کر تین کپڑے بن جائیں گئے جو کافی ہیں آپ کے کفن کے لیے.
ابوذر غفاری ؓ نے فرمایا ہاں تم میرے حسب منشا ہو بس انہی میں مجھے کفنانا.
بس اب وہ پردے سرکنے لگے، حجاب اٹھنے لگے، دنیا کے مخمصوں سے نجات کا وقت قریب ہونے لگا، قدسیوں کے جھرمٹ میں فرشتہ اجل مشک عنبر کے ساتھ اپنے میزبان کے پاس پہنچا، حجابات اٹھنے لگے، ٹوٹتی ہوئی سانسوں کے ساتھ آخری صدا آئی قبلہ کی طرف میرا رخ کردوں.
آخری حکم کی تعمیل ہوئی.
اب یہ الفاظ بلند ہوئے، بسم اللہ وباللہ وعلی ملة رسول اللہ ﷺ ان الفاظ کے ساتھ ہی اک تاباں روشنی گل ہوگئی اور مقدس تعلق سے جڑنے چلی گی. ۸ ذی الحجہ کو ربذہ کے افق میں غروب ہوگیا وہ آفتاب کہ جس کی روشنی صدیوں پر بکھری ہوئی ہے.
اور یوں 
وما كان قيس هلك و احد 
ولكنه بنيان قؤم تمعدما 
مجذوبوں کا آخری سردار رئس الطائفہ فقیری کی ایک جدید یادگار چھوڑ کر دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگیا.
آنکھیں بند ہوگئیں، انگوٹھے باندھ دیے گئے، غسل ہوا، انصاری نوجوان نے کفن دیا، حضرت عبداللہ بن مسعود احرام باندھے ایک جماعت کے ساتھ مکہ کے ارادے سے تشریف لا رہے تھے، تیزی سے اونٹ بھگاتے ہوے قریب تھا جنازے سے گزر جاتے، جو راہ پر پڑا ہوا تھا، لیکن آپ یکایک ٹھٹک گئے، جنازہ دیکھ کر اونٹ روکا، سب لوگ ٹھہر گئے، کچھ لوگ پہلے قافلے کے سامنے آئے، کہا ابوذر ہیں، ان کے دفن میں ہماری مدد کیجیے، ابن مسعودؓ کی روح میں زلزلہ سا آیا، روتے ہوئے کہا، میرے بھائی میرے دوست مبارک ہو رسول اللہ ﷺ نے سچ فرمایا تھا کہ اکیلا چلتا ہے، اکیلا ہی مرے گا، اکیلا ہی اٹھایا جائے گا.
لوگوں نے ابن مسعود ؓ سے جنازہ پڑھانے کی درخواست کی.
یہ منظر کیا خوب تھا کہ سامنے ان کا جنازہ ہے جو اپنے محبوب سے ملنے جارہا ہے اور پڑھا وہ رہا ہے جس کی مرضی سب سے بڑے آدمی کی مرضی قرار دی گئی جن کے علوم پر اعتماد کی تصدیق حضور ﷺ نے اپنے عہد میں کی تھی.
توزہد جہاں کا قبلہ ہے اےقلب ابوذرغفاری
واللہ کہ تیرا فقررہا دنیائے حکومت پر بھاری

تو ہے وہ خطیب عرفانی دل دہل گئے جس کے خطبوں سے
صحرائے عرب کی ریتی میں گل کھل گئے جس کے خطبوں سے
***
الطاف جمیل آفاقی کی گذشتہ نگارش:مجموعہ تفاسیر از خاکی محمد فاروق 

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے