ڈانس آف ڈیموکریسی (جمہوریت کا ناچ)

ڈانس آف ڈیموکریسی (جمہوریت کا ناچ)

مسعود بیگ تشنہ

ہندستان میں پانچ ریاستوں کے چناؤ سر پر ہیں جن کے نتائج 10 مارچ 2022 کو عام کیے جائیں گے. یہ الگ بات ہے کہ ٹکڑوں ٹکڑوں میں چناؤ کروانے کے مرکزی بھاجپا سرکار کے اپنے فائدے ہیں جس میں پردھان منتری کے بھاشن بہ آسانی چناوی آچار سنہتا (انتخاباتی قواعد و ضوابط) کو لانگھ جاتے ہیں.
ہندستان میں تازہ چناوی ماحول میں ہندو مسلم، شمشان قبرستان، جنّا (جناح) بھائی جان، مغل سکھ، مغل جاٹ کی بانٹنے والی سیاست کر کے، نام نہاد تاریخی منافرت کو تاریخ کے پنّوں سے چن چن کر باہر نکالا جا رہا ہے. کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ یہ تو بھاجپا کا سنہ2012 سے کھلا ایجنڈا ہو گیا ہے. دیش کے وزیراعظم، وزیر داخلہ اور اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ کھلے عام اپنے بیانوں سے جھوٹے سچے تاریخی حوالے دے کر مسلم اقلیت کے خلاف جذبات بھڑکا رہے ہیں اور بھڑکاتے آ رہے ہیں اور ایسا آبھاس کرا رہے ہیں کہ ہندو اکثریت اور ان کا دھرم خطرے میں ہے. ابھی حال ہی میں سابق نائب صدر جمہوریہ ہند محمد حامد انصاری نے انڈین امریکن مسلم کاؤنسل کے ایک ویبینار میں حصہ لیتے ہوئے بھارت میں مودی سرکار کے ثقافتی قوم پرستی یعنی ہندُتوا کی طرف تیزی سے بڑھتے قدموں سے اقلیتوں کو خوف زدہ کرنے والے ملکی ناموافق سیاسی حالات کی طرف اشارہ کیا تو بھاجپا اس کو بری طرح مذمت کرنے پر اتر آئی اور کہہ رہی ہے کہ نائب صدر جمہوریہ ہند جیسے ایک اہم آئینی عہدے پر رہ چکے شخص کو دیش کو اس طرح بدنام نہیں کرنا چاہیے. ان پر سوال اٹھانے سے پہلے پورا دیش کیا یہ نہیں پوچھ سکتا ہے کہ جو ہمارے دیش کے وزیراعظم اور وزیر داخلہ ہیں وہ کیا گنگا کو شُدھ کرنے کا کام کر رہے ہیں یا چھپّن انچ کی چھاتی کے ساتھ مسلمانوں سے کھلی دشمنی کا مظاہرہ کر رہے ہیں؟ یہ تنگ نظرانہ اکثریتی تہذیبی و ثقافتی فوقیت کا ہندُتوا کا نظریہ دینِ براہیمی خاص طور پر دینِ اسلام کے ماننے والوں کے ساتھ نابرابر اور ناروا اور جارحانہ سلوک نہیں ہے؟
حالیہ یومِ جمہوریہ کی جھانکیوں سے بھی ہندُتوا کے رنگوں کی صاف توثیق ہوتی نظر آتی ہے جب کہ وہی وزیراعظم اور وزیر داخلہ آئین اور آئین میں دیے شہری تحفظات کی بِنا بھید بھاؤ کے تحفظ اور دیش کو ایک اور مضبوط رکھنے کی شپتھ لیتے نظر آتے ہیں. اس جھانکی میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ نہرو کے ساتھ ساتھ مہاتما گاندھی کی بھی رخصتی ہو گئی ہے. جب کہ آزاد ہند فوج کا گٹھن کرنے والوں میں ایک نیتا جی سبھاش چندر بوس کا تو گن گان ہو رہا ہے مگر ان کے آزاد ہند فوج کے نعرے ‘اتحاد، اعتماد اور قربانی Unity, faith & and sacrifice ‘ کا دور دور تک ذکر نہیں ہے. نیتا جی میموریل بناکر اور نیتا جی جینتی کو پراکرم دِوس (یومِ شجاعت) کے طور پر منانے کا اعلان اور یومِ جمہوریہ کی پریڈ کے موقع پر نیتا جی کی طرح ترچھی ٹوپی لگانے کا ناٹک کیا حالیہ چُناووں میں ووٹ میں تبدیل ہوگا؟ یاد رہے کہ مغربی بنگال کے چناؤ میں رابندر ناتھ ٹیگور کی داڑھی سجانے کا ناٹک تو فیل ہو گیا تھا. کسی دل جلے نے تو ترچھی کالی ٹوپی پر تو بھپتی کسی کہ یہ تو آر ایس ایس کی خاص پہچان ہے. خاتونِ آہن اندرا گاندھی کے بنگلا دیش کی آزادی کے لئے کیے گئے یوگ دان کی یادگار، بنگلا دیش جنگ کے شہیدوں کی یادگار، انڈیا گیٹ سے امر اجالا کو بھی نئے وار میموریل میں ضم کر کے ہمیشہ کے لیے انڈیا گیٹ سے الگ کر دیا ہے.
دوسری بات دَل بدل کے دھرم کا سبھی سیاسی دل پالن کرتے نظر آ رہے ہیں اور اپنے اپنے طور اپنی طاقت اور اثر بڑھانے کا کھیل کھیل رہے ہیں.
تیسری بات ایک ترکش (جدید ترکی زبان کی) کہاوت سے شروع کرتا ہوں. ترکش کہاوت ہے کہ ‘مفت کا پنیر چوہے دان کے لیے ہوتا ہے` یعنی مفت میں دینے والا بعد میں ذلیل و خوار کرتا ہے. ہر چناؤ میں ‘فری بیز` یعنی ‘مفت دان’ کا رجحان اپنی انتہائی حدوں کو چھوتا نظر آ رہا ہے. اس میں کوئی سیاسی پارٹی کسی دوسری پارٹی سے پیچھے نہیں ہے. اس مفت دان کو اسی ترکش کہاوت کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے.
ان انتخابات میں یہ دیکھنا دل چسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ اتر پردیش میں اسد الدین اویسی کی ‘اے آئی ایم آئی ایم’ ووٹ کٹوا پارٹی بن کر بھاجپا کی مدد کرتی ہے یا نہیں، یا کچھ جیت بھی دکھاتی ہے یا ہندو جاٹ جِنّا یا گنّا میں سے کسے چنتے ہیں؟ یا پھر پنجاب میں کیجریوال کی عام آدمی پارٹی جو پسِ پردہ بھاجپا کے ہندُتوا کے نظریے کو مانتی ہے اور علامتی نرم ہندُتوا کا مظاہرہ بھی کرتی ہے اپنے مفت دان کے لُبھاونے وعدوں سے پنچاب میں کتنی جگہ بناتی ہے.
چوتھی اور سب سے اہم بات ہے کہ کیا ملک کے بے روزگار نوجوانوں کو احتجاجی مظاہروں میں ہتاشا میں بے قابو ہونے دیا جائے گا اور پھر انھیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جائے گا، جیسا نام نہاد ٹکڑے ٹکڑے گینگ کہہ کر جیلوں میں ڈالا گیا تھا اور کچھ اب بھی اپنے مسلم نام کی وجہ سے دو سال سے ضمانت نہیں پا رہے ہیں. کیا ہاسٹل میں گھس کر نوجوان طالب علموں کے ساتھ ایسی ہی پٹائی اور ٹھکائی جائز قرار دی جائے گی جیسے دہلی میں سی اے اے کے خلاف احتجاج میں ہوا تھا. یاد رہے کہ یہ بے روزگار پڑھے لکھے نوجوان ریلوے بھرتی میں ہوئے بڑے گھوٹالے کا وِرودھ کر رہے تھے. یہ شاہین باغ آندولن ،کسان آندولن کے بعد سب سے بڑا اپنے آپ سے جنما چھاتر آندولن ہے، اس کی لپیٹ میں آج نہیں تو کل پورا دیس آنے والا ہے.
(27 جنوری 2022 ،اِندور)
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :ابراہیم اشک (1951 – 2022)

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے