"المجیب" کا عمدۃ المتوکلین نمبر

"المجیب" کا عمدۃ المتوکلین نمبر

(یعنی خصوصی اشاعت بہ یاد حضرت مولانا سید شاہ ہلال احمد قادری علیہ الرحمہ)

ڈاکٹر ریحان غنی

خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف بہار کی ایک ایسی قدیم خانقاہ ہے جہاں صاحب کشف بزرگوں کا سلسلہ اکیسویں صدی تک دراز ہے. اس کی ایک ظاہری وجہ یہ ہے کہ اس نے اپنے اسلاف اور بزرگوں کی قدروں اور روایات کو اپنے سینے سے لگائے رکھا اور اسے کبھی پامال نہیں ہونے دیا. اس کے ساتھ ہی اس خانقاہ نے اپنے علمی، دینی اور ادبی ورثے کی بھی حفاظت کی ہے. دارالاشاعت خانقاہ مجیبیہ سے شائع ہونے والا سہہ ماہی رسالہ” المجیب" اس کی مثال ہے. اس کے علاوہ وہ بے شمار دینی اور علمی کتابیں ہیں جو وقتاً فوقتاً اس خانقاہ سے شائع ہوتی رہتی ہیں. میرے خیال میں خانقاہ مجیبیہ کی علمی اور ادبی خدمات کا سلسلہ باغ مجیب میں پیوند خاک بزرگانِ دین کے فیوض و برکات کا ہی نتیجہ ہے. اکیسویں صدی کی تیسری دہائی کے اوائل میں اس خانقاہ کو اس وقت شدید جھٹکا لگا جب عہد حاضر کی ایک با کمال شخصیت ہم سے اچانک جدا ہو گئی. ان کی جدائی کے غم میں ہر اس شخص کی آنکھیں اشک بار ہوتی رہیں گی جن سے ان کی قربت رہی تھی. میرا دعویٰ ہے کہ ان سے قریب رہنے والا ہر شخص ان سے وابستہ یادوں کو ہمیشہ اپنے سینے سے لگا کر رکھے گا اور ان کے لیے بلندی درجات کی دعا کرتا رہے گا. جب میرے ہاتھ میں زیب سجادہ، جواں سال عالم دین، خانقاہ کی قدیم روایتوں کے امین حضرت مولانا سید شاہ محمد آیت اللہ قادری مجیبی کی طرف سے "المجیب" کا عمدہ متوکلین نمبر تحفے کے طور پر ملا تو عصر حاضر کے ولی صفت بزرگ حضرت مولانا سید شاہ محمد ہلال احمد قادری مجیبی علیہ رحمہ کا پورا سراپا میرے سامنے آ گیا، ان سے وابستہ بے شمار یادیں تازہ ہو گئیں اور میری آنکھیں نم ہو گئیں. کافی دیر تک میں اپنے دفتری فرائض کو چھوڑ کر” المجیب" کے اس ضخیم خصوصی شمارے میں کھو سا گیا. سوچتا رہا اکیسویں صدی کی تیسری دہائی کے اوائل میں اچانک ہم سے جدا ہونے والی اس ولی صفت شخصیت کو اس سے بہتر خراج عقیدت اور کیا ہو سکتا ہے. کیا ہی اچھاہوتا کہ دوسری خانقاہیں اور دینی و ملی ادارے بھی اکیسویں صدی کے اس ولی کو اسی طرح یاد کرتے.
"المجیب" کے اس خصوصی شمارے پر ایک نظر ڈالنے کے بعد اس رسالے کے مدیر ڈاکٹر شاہ فتح اللہ قادری، نائب مدیر جناب ظفر حسنین، ان کے رفقا اور دارالااشاعت خانقاہ مجیبیہ کےتمام اراکین کے لیے دل سے بےساختہ دعا نکلی کہ اللہ تعالیٰ سب کو صحت کے ساتھ سلامت رکھے تاکہ وہ اسی طرح خانقاہ کی روایت کو آگے بڑھاتے رہیں. 564 صفحات پر مشتمل "المجیب" کا یہ ضخیم "عمدۃ المتوکلین نمبر" واقعی ایک دستاویز ہے. اسے دیکھ کر محسوس ہوا کہ اس خانقاہ میں اب بھی چراغ سے چراغ جل رہا ہے اور بزرگوں کے فیوض و برکات جاری اورساری ہیں. اس سال مارچ میں اردو صحافت کی دو صدی مکمل ہونے والی ہے. اردو میڈیا فورم بہار پٹنہ دو صدی تقریبات منانے کی تیاری کر رہا ہے. اردو صحافت کی اس دو صدی کو سامنے رکھتے ہوئے جب ہم نے اس خصوصی شمارے کا مطالعہ کیا تو محسوس ہوا کہ پہلے بھی اردو زبان و ادب اور اردو صحافت خانقاہوں میں زندہ تھی اور اکیسویں صدی میں بھی ان ہی بزرگوں کے پہلو میں یہ پروان چڑھ رہی ہے. میں نے پہلے کسی مضمون میں لکھا تھا کہ اگر کوئی مجھ سے یہ کہے کہ ایک جملے میں المجیب کی خدمات کا ذکر کیجیے تو میں کہوں گا کہ "المجیب نے اردو صحافت کو صراط مستقیم پر چلنا سکھایا" حقیقت یہ ہے کہ آج بھی خانقاہوں اور مدرسوں میں ہی اردو صحیح سمت میں پروان چڑھ رہی ہے.
المجیب میں عام طور پر”لمعات" کے مستقل عنوان سے جناب ظفر حسنین (نائب مدیر) کا ہی اداریہ ہوتا ہے. اس خصوصی شمارے میں بھی ان کا ہی اداریہ ہے. اس اداریہ کا یہ جملہ حقیقت پر مبنی ہے کہ "ایک طرح سے خانقاہ ان کے لیے تھی اور وہ خانقاہ کے لیے" اور برادر ذی قدر اور ذی وقار حضرت مولانا سید شاہ ہلال احمد قادری علیہ رحمہ کے لیے بہترین خراج عقیدت ہے. اداریہ کے بعد ان کے تعلق سے درج ذیل عنوانات کے تحت اہل خانہ کے ساتھ علما اور دانشوروں کی قیمتی تحریریں ملتی ہیں. اس میں ابتدائی تحریر موجودہ زیب سجادہ حضرت مولانا سید شاہ محمد آیت اللہ قادری مجیبی کی ہے. اس میں انھوں نے اپنے عہد طفلی کا ایک دل چسپ واقعہ تحریر کیا ہے جس میں میرے دادا ابا علیہ رحمہ حضرت مولانا سید شاہ محمد عثمان غنی کی بچوں کے لیے سیرت النبی پرلکھی گئی کتاب "بشریٰ" کا بھی ذکر ہے. زیب سجادہ لکھتے ہیں:
"میں اپنے عہد طفولیت میں حضرت جدنا الکریم امام المتقین مولانا سید شاہ محمد نظام الدین قادری قدس سرہ کو دارالعلوم مجیبیہ کے طلبا کو تفسیر و حدیث کی کتابیں پڑھاتے ہوئے دیکھا کرتا تھا. ایک بار آپ اپنی درس گاہ میں بڑے بڑے طلبا کو درس دے رہے تھے. ہمارے چھوٹے ماموں حضرت مولانا سید شاہ مشہود احمد قادری (موجودہ پرنسپل مدرسہ اسلامیہ شمس الہدی پٹنہ) کو بھی آپ سے فارسی کی کتابیں پڑھتے ہوئے دیکھا. ایک بار میں نے بھی اپنے لا ابالی انداز میں عرض کیا :میں بھی آپ سے پڑھوں گا. آپ نے مسکرایا اور فرمایا: کیا پڑھیے گا؟ میں دوڑ کر گھر آیا اور اپنی ہم شیرہ کی ایک کتاب بغل میں دبا کر دو بارہ حاضر ہوا اور عرض کیا: یہ کتاب پڑھوں گا. آپ نے نہایت شفقت اور پیار سے فرمایا :اچھا آپ بشریٰ پڑھیے گا ( بشریٰ سیرۃ النبی صل اللہ علیہ وسلم پر مولانا عثمان غنی صاحب کی ایک کتاب تھی جس کو خانوادے کے بچے پڑھا کرتے تھے) پھر آپ نے مسکراتے ہوئے فرمایا: آپ ہلال میاں سے پرھیے گا." یہ واقعہ مسلکی رواداری کی بہترین مثال ہے جس پر یہ خانقاہ آج بھی قائم ہے.
بہر کیف خصوصی شمارے کے عنوانات یہ ہیں.
(1) نقوش حیات (2) اہل تصوف کی نگاہ میں (3) امتیازات و خصوصیات (4)اوصاف و کمالات (5)احوال و آثار (6) تالیفات و تصنیفات (7)مکاتیب و پیغامات تعزیت (8)قطعات تاریخ واظہار غم اور (9)گوشہ کلام عمدۃ المتوکلین.
اس خصوصی شمارے کےصفحہ 561 پر "بجھ گیاوہ شعلہ جو مقصود ہر پروانہ تھا" کے عنوان سے زیب سجادہ حضرت مولانا محمد آیت اللہ قادری نے اپنے خسر محترم حضرت مولانا سید شاہ ہلال احمد قادری علیہ رحمہ کو عقیدت سے یاد کرتے ہوئے اس بات پر افسوس ظاہر کیا ہے کہ "حضرت علیہ رحمہ کی شدید خواہش حضرت اقدس سیدنا آلام بدر الکاملین فیاض المسلمین مولانا سید شاہ محمد بدرالدین قادری پھلواری جعفری زیبی قدس اللہ سرہ العزیز کےسیرت احوال پر "بدر کامل" کے عنوان سے ایک مفصل و مدلل اور جامع تصنیف منصہ شہود پر لانے کی تھی اور حضرت علیہ الرحمۃ والغفران نے اس کا نقش اول بھی مرتب فرما لیا تھا لیکن واحسرتا! وہ عظیم کارنامہ نامکمل رہ گیا." مجموعی طور پر المجیب کا یہ خصوصی شمارہ ان لوگوں کے لیے بہترین تحفہ ہے جو بزرگان دین کےحالات زندگی کا مطالعہ کر کے اپنی دنیا اور آخرت دونوں سنوارنا چاہتے ہیں.
صاحب تحریر کی یہ نگارش بھی پڑھیں:میرا نقطۂ نظر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے