انتخاب کے ماحول میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور وزیر اعظم کا بہ تدریج کمزور ہونا

انتخاب کے ماحول میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور وزیر اعظم کا بہ تدریج کمزور ہونا

پانچ صوبوں میں انتخاب کے مرحلے میں ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اقتدار کی طاقت سے محروم ہو جائے گی۔

صفدرا مام قادری
شعبۂ اردو، کا لج آف کا مرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

ابھی ٹیلی پرامپٹر کی تکنیکی خرابی کے لطیفے ملک اور بیرونِ ملک کے سیاسی اور صحافتی حلقے میں نمک مرچ کے ساتھ ہر جگہ دیکھنے کو مل رہے ہیں مگر اصلی سوال یہ ہے کہ وہ کون سی ذہنی کیفیت تھی جس میں وزیرِ اعظم کے ساتھ ایسا معاملہ در پیش ہوا۔ وہ وزیرِ اعظم جو اپنی خطابت کے لیے اور زبان دانی سے وقت کے ٹھہرے ہوئے پانی میں آگ لگا دینے والی صلاحیت کے لیے شہرت رکھتا ہو، وہ شخص آخر ایک تکنیکی خرابی کا بوجھ برداشت نہیں کر سکا اور جگ ہنسائی کے لیے وہ مجبور ہوا۔ سیاسی مبصرین کے پیشِ نظر ایک طرف نریندر مودی کی زور آور تقریریں سامنے ہیں، جوش اور جذبے کے ساتھ چہرے اور جو سر یا ہاتھ کے استعمال سے ایک عالم بپا کر دینے میں مہارت رکھتا ہو، جسے اُس کے نکتہ چیں بھی باتوں کا راج کمار کہتے ہوں، وہ آخر ساری دنیا کے سامنے گونگا کیوں بن گیا؟ کیا وہ بغیر کسی سہولت کے تکنیکی مدد کے چار جملے ایسی پریشانی کے عالَم میں کیوں کر نہیں ادا کر سکتا تھا؟ وزیرِ اعظم کی تقریر کے دوران ڈرامائی کیفیت اور محاکاتی مہارت کو دنیا تسلیم کرتی ہے مگر اُس روز آخر کیا ہو گیا؟ آخر اِس میں ملک کی جگ ہنسائی تو ہوئی ہی کہ ہندستان کا وزیرِ اعظم دیکھے ہوئے لفظوں کے آگے اپنی طرف سے چار جملے بھی نہیں بنا سکتا ہے۔
ہندستانی میڈیا نے بہت حد تک وزیرِ اعظم کی اِس جگ ہنسائی میں حکومت کا ساتھ دیا اور اُن کی یہ کوشش رہی کہ یہ خبر دب جائے یا اتنا پیچھے رہ جائے کہ لوگ اِس پر توجہ ہی نہ کریں مگر صحافتی انقلاب اور تکنیکی حیرت کے اِس دور میں پوری دنیا کی سطح پر ویڈیو رکارڈنگ عام ہوئی اور نہ چاہتے ہوئے بھی دنیا کو ماننا پڑا کہ نریندر مودی کے پاس بدلتی ہوئی دنیا اور ہندستان کے چیلنجز جیسے مسئلوں پر کوئی پر تصوّر نہیں ہے۔ عالمی مسئلوں میں اِس شکست نے ہماری آنکھیں کھول دیں اور لوگوں کو نئے سِرے سے نریندر مودی کی ذہانت، خطابت، علمی لیاقت اور قائدانہ شعور کو سمجھنے اور جائزہ لینے کا موقع دیا۔ کون جانتا ہے کہ یہاں سے پورا ملک نئے سِرے سے اُن کا محاسبہ کرنے لگے اور اُن کے حقیقی مقام کے مطابق انھیں جگہ دے۔
ماہرین کے تجزیے میں خاص طور سے دو باتیں اُبھر کر سامنے آ رہی ہیں۔ پہلی بات سیاسی ہے اور لوگوں کا کہنا ہے کہ نریندر مودی کو یہ بات سمجھ میں آ چکی ہے کہ اُن کے ہاتھ سے اقتدار نکلنے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔جن ریاستوں میں وہ اپنی طاقت ثابت کرنا چاہتے تھے، وہاں ایک ایک کر کے اُن کے لیے وسائل محدود ہوتے جا رہے ہیں اور آنے والے وقت میں جہاں اُنھیں طاقت بڑھانے کے مواقع کی طلب ہے، وہاں بھی ایسی کوئی توقع نہیں کہ وہ اپنی پارٹی کو منزل تک پہنچا پائیں گے۔ جب ریاستوں میں ایک ایک کرکے بساطِ حکومت اُلٹتی جائے گی تو ٢٠٢٤ء میں آخر تیسری بار وزیرِ اعظم کے لیے کیسے گنجائش پیدا ہوگی؟ فصیلِ وقت پر لکھی اِن عبارتوں کو نریندر مودی دوسروں سے پہلے پڑھ رہے ہیں اور اُس کی مایوسی میں وہ گرفتار ہونے لگے ہیں۔ اقتدار کا چھننا اُسے ہی معلوم ہوتا ہے، جس سے یہ چھینی جاتی ہے۔
نریندر مودی کی گھبراہٹ کا حقیقی سبب یہی ہے کہ گجرات سے دہلی کی ترقی کے بعد اقتدار سے بے دخل ہونے کا سوچتے ہوئے بھی اُنھیں وحشت ہوتی ہوگی۔ اُتر پر دیش کے ایک ایک حلقۂ انتخاب سے زمینی سطح کی جو اطلاعات آ رہی ہیں، ان کے تجزیہ نگار یہ نتیجہ اخذ کر رہے ہیں کہ مودی اور یوگی مخالف لہر میں سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ جب اُتر پردیش ہاتھ سے نکل جائے تو بھلا اسمبلی کے بعد پارلیمنٹ میں وہاں سے کتنے لوگ بھارتیہ جنتا پارٹی کے کارواں کو منزلِ مقصود تک لے جا سکیں گے؟ گومتی میں پارٹی ڈوبنے سے بچ جائے تب بھی جمنا کا پار کرنا اُس کے لیے ناممکن ہوگا۔
اِسی طرح پنجاب میں بھارتیہ جنتا پارٹی نئے سِرے سے کوئی خواب دیکھ پانے میں خود کو موزوں نہیں سمجھ پا رہی ہے۔ پہلے یہ توقع تھی کہ کانگریسیوں میں گھماسان مچا ہوا تھا۔ دلّی سے چنڈی گڑھ تک اُتھل پُتھل ہو رہی تھی۔ وزیرِ اعلا کی تبدیلی کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی نے آگ میں گھی ڈالنے کا کام کیا مگر اُسے کوئی فائدہ نہ ملا۔ اُلٹے اُس کی مقبولیت اور گھٹتی گئی۔کانگریس کی حکمتِ عملی کا جو نقص تھا، اُس کا فائدہ اکالی دل اور بھارتیہ جنتا پارٹی لینے میں کامیاب نہ ہوئے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے قائد اِس سے بھی محروم اور بے بس نظر آ رہے ہیں۔ آخر اقتدار کی بلند تر منزل پر رہتے ہوئے رہ رہ کر اِس شکست اور شکستِ خواب کو کوئی کس طرح برداشت کرے۔ انتخاب کے دوران اُدھر نریندر مودی کی تقریروں سے وہ اعتماد سِرے سے غائب نظر آتا ہے جس کے لیے وہ مشہور ہیں۔ پنجاب میں انتخاب کے دوران اپنی حفاظت کے لیے جس طرح کا اُنھوں نے ماحول بنایا، اُس نے بھی ان کی قلعی اُتاردی اور یہ عام ہو گیا کہ تحفظ کے سوال کو جس طرح مودی جی نے آگے کیا، حقیقی بات تو یہ تھی کہ انتخابی جلسے میں لوگ ہی جمع نہیں ہو سکے تھے اور یہ مزید ذلّت کی بات ہوتی کہ محترم وزیرِ اعظم دو چار پانچ سو لوگوں کے سامنے تقریر فرمائیں۔ ٢٠١٤ء میں جس طرح اُنھوں نے اپنی مقبولیت کے ایک سے ایک پیمانے وضع کیے، اب رفتارِ زندگی اُلٹی ہو گئی ہے اور حد تو یہ ہے کہ ملک کے وزیرِ اعظم کی باتوں کو سننے کے لیے کوئی نظر نہیں آ رہا ہے۔ یہ صرف سیاست اور ووٹ کا معاملہ نہیں بلکہ اِس سے یہ بات بھی ثابت ہو رہی ہے کہ نریندر مودی کے پاس ایسی کوئی بات بھی نہیں جسے سننے کے لیے ہندستان کا عام آدمی اپنے گھروں سے نکل کر سڑک اور میدان پر آ جائے۔ یہ مودی جی کی نا مقبولیت کا کھلا ثبوت ہے۔
لوگوں کو اب بھی یاد ہوگا کہ ٢٠١٤ء میں جب ١٥/ اگست کو وزیرِ اعظم کی حیثیت سے اُنھیں پہلی بار لال قلعہ سے ملک کے عوام کے سامنے خصوصی خطاب پیش کرنا تھا تو اُنھوں نے پہلے ہی یہ اعلان کیا کہ وہ لکھی ہوئی تقریر نہیں پڑھیں گے بلکہ فی الفور اپنی طلاقتِ لسانی کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے ہندستانی عوام کے سامنے اپنا خصوصی خطاب پیش کریں گے۔ اُس سے پہلے دس برسوں تک منموہن سنگھ کے تحریری خطابات سامنے آ چکے تھے۔ نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے کار کنان نے منموہن سنگھ کا مذاق بھی اُڑایا۔ اُنھیں گونگا وزیرِ اعظم بھی کہا جاتا تھا۔ حالاں کہ وہ صرف سیاست داں نہیں تھے۔ یونی ور سٹی میں درس و تدریس کا انھیں اچھا خاصا تجربہ تھا۔ اُن کی کتابیں بھی شایع چکی تھیں۔ ایک استاد کے لیے بولنا اور لکھنا کبھی کوئی مشکل کام نہیں ہو سکتا تھا مگر اُن کی ضابطہ بندی اور نپی تلی گفتگو کامذاق اُڑاتے ہوئے نریندر مودی نے اپنی کھُلی تقریر کا جواز پیش کیا تھا۔
نریندر مودی حقیقت میں اقتدار کے اعتماد اور اُس سے پیدا شُدہ غرور کے سبب اپنی خطابت پر اِس قدر نازاں تھے۔ انھیں یہ یاد ہی نھیں تھا کہ قوم کے سامنے خطاب کی دفتری اعتبار سے کس قدر اہمیت ہے اورکس طرح اُس کی دستاویزی اہمیت پوری دنیا کے لیے ہوتی ہے۔ اُس میں زبان کی ایک پھسلن بھی خطرناک ثابت ہوگی مگر نریندی مودی نے زبانی تقریر کا کچھ اِس انداز سے شگوفہ چھوڑا کہ لوگوں نے اُسے صلاحیت سے جوڑ لیا اور حکومت کے خوشامدیوں کو یہ کہتے ذرا بھی دیر نہیں لگی کہ علمی اعتبار سے نریندر مودی بر تر اور عظیم ہیں۔
کہتے ہیں کہ غرور بالآخر آپ کے سر کو جھکا دینے کے لیے ہی ہوتا ہے۔ پچھلے سات برسوں میں نریندر مودی ملک کے سب سے بڑے سیاست داں ہی نہیں ہیں بلکہ وہ اپنی زبان، اپنے بیان، اپنے فیصلوں اور اپنے لباس یا انداز و اطوار سے ایک ایسے شخص کے روپ میں دکھائی دیتے ہیں جو غُرور اور تمکنت کا ایسا سورج ہے جو نصف النہار تک پہنچا ہوا ہے۔ اُس وقت آپ کا سایہ بھی آپ کے قدموں میں لوٹنے لگتا ہے۔ سر پر سورج ہے تو اُسے اُوپر خدا بھی دکھائی نہیں دیتا ہے۔ نریندر مودی اِسی مغرور کیفیت کا ایسا شکار ہوئے جس سے نکل پانا اب اِس زندگی میں ممکن نہ ہوگا۔ منموہن سنگھ نے دس برس کی وزیرِ اعظم کی کُرسی کو اپنے وقار اور اپنی شخصیت کی نرمی سے سینچا تھا۔ نریندر مودی نے سات برس میں اپنے غرور سے اُسے ایسا بھسم کیا کہ اب اُن کی پارٹی، اُن کی حکومتیں اور خود اُن کا وجود ہی جل کر خاک ہونے کے لیے تیّار ہے۔ حکومت کے تام جھام نے اُنھیں اپنی عقل اور شعور کے استعمال کی عادت سے بھی دور کر دیا۔ بنی بنائی تقریریں اور اُن کے لیے ہزار تکنیکی پردے اور سب سے بڑھ کر اداکارانہ انداز میں بیک گراؤنڈ کی آواز کے ساتھ ہونٹ میں ہونٹ ملاتے ہوئے بولنے کی لت؛ ایسے میں ذہن میں کوئی نیا موضوع یا نئی بات کہاں سے آئے گی۔ جگ ہنسائی تو ہونی ہی تھی۔ کہاوت مشہور ہے، آنکھ بند اور ڈبّا غائب۔ ایک تکنیکی رُکاوٹ پیدا ہوئی، وزیرِ اعظم نے ملک کی عزت داؤں پر لگا دی۔ آنے والے مہینوں میں اُتر پردیش اور پنجاب میں عوام کہیں انھیں اِس کا خمیازہ بھگتنے کے لیے بے بس نہ کر دیں۔
safdarimamquadri@gmail.com
مضمون نگار پٹنہ کے کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس میں شعبۂ اردو کے استاد ہیں
گذشتہ عرض داشت یہاں پڑھیں : کورونا کی تیسری لہر مگر مرکزی حکومت کی ترجیحات میں عوامی مفاد کا کہیں پتا نہیں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے