کورونا کی تیسری لہر مگر مرکزی حکومت کی ترجیحات میں عوامی مفاد کا کہیں پتا نہیں

کورونا کی تیسری لہر مگر مرکزی حکومت کی ترجیحات میں عوامی مفاد کا کہیں پتا نہیں


عالمی سطح پر ہاہاکار کی کیفیت شروع ہو چکی ہے مگر اپنے ملک میں وبا سے لڑنے کے لیے کہیں کوئی خاص تیّاری نظر نہیں آ رہی ہے۔

صفدرا مام قادری
شعبۂ اردو، کالج آف کا مرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ
دو مرحلوں میں اپنے ملک ہندستان میں لاکھوں جانوں کے نقصان کا واقعہ گذشتہ دو برسوں میں ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ملک کا کون خاندان ہوگا جس میں کوئی ایک موت کے منہہ میں نہ سمایا ہو، کون ایسا چھوٹا گھر ہوگا جس میں کوئی وبا کی چپیٹ میں نہ آیا ہو، جو بچ گئے یا بچے رہ گئے، وہ بھی ہزار طرح کی جسمانی اور نفسیاتی بیماریوں کی زد پہ رہے ہیں۔ چین سے لے کر امریکا اور انگلینڈ سے لے کر فرانس اور جرمنی تک تمام ملکوں نے جان کی قیمت سمجھی اور اپنے ملکوں میں شعبۂ صحت کو مستحکم کرنے، کورونا کے معاشی اور دیگر پہلوؤں کو سمجھ کر اُن کی چارہ گری کرنے میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کی مگر اُن کے مقابلے میں جب ہندستان کے حالات کا جائزہ لیا جاتا ہے تو اکثر مایوسی کی کیفیت سے ہمارا سامنا ہوتا ہے۔
ہندستان کی موجودہ حکومت کو ہر کام میں جشن اور اہتمام کا زیادہ شوق رہتا ہے اور اُسے نعروں کی شکل میں شاہ سرخیاں پیش کرنے میں مہارت حاصل ہے، اِس کی وجہ سے کورونا کے معاملے میں گذشتہ دو برس بدلتے ہوئے حالات سے تو مقابلہ کرتے ہوئے گزرے مگر مستقبل پسندی کی کمی کی وجہ سے صحت کے قومی ڈھانچے میں کوئی بڑی تبدیلی نظر نہ آئی۔ پورے ملک میں حکومتِ ہند اور اس کی نگرانی میں کام کرنے والے صوبوں نے مل جل کر ایک ہزار جدید سہولیات کے نئے اسپتال بھی نہیں بنائے۔ جب کہ دوسرے ملکوں میں دیہی علاقوں کو نگاہ میں رکھتے ہوئے اسپتال اور صحت کے مسائل کے حل کے لیے نئے نئے انداز کے مراکز قایم کیے گئے۔ یہ بات صرف ہندستان میں نظر نہ آئی کہ یہاں صحت سے مقابلے کے لیے وسائل صرف بڑے شہروں میں موجود ہیں۔ یورپ اور امریکا کی بھی یہ خامیاں اُجاگر ہوئی تھیں کہ وہاں بھی شہروں میں تمام تر سہولیات سمٹ گئی تھیں اور وبا کے پھیلنے پر اُن شہری سہولیات پر اتنا سخت دباؤ قایم ہوا کہ شیرازہ بکھر گیا اور ساری دنیا نے سڑک، گھر، اسپتال ہر جگہ لاشوں کے ڈھیر دیکھے اور ایک ایک گھر میں بے چارگی اور بے بسی کے مظاہر دیکھنے کو ملے۔
اخبارات میں ابھی حکومتِ ہند کی طرف سے ڈیڑھ سو کروڑ ویکسن دیے جانے کی کامیابی پر تالیاں بجاتے اعلانات شایع ہوئے۔ کبھی ان اعداد و شمار کو کھلے طور پر سامنے نہیں لایا جاتا کہ ویکسن کی دو ڈوز لے کر ابتدائی طور فارغ کتنے افراد اس ملک میں بستے ہیں۔ہندستان کی آبادی کے مطابق دو سو بہتر کروڑ ویکسن چاہیے۔ اس سے جیسے ہی ڈیڑھ سو کروڑ کی تعداد گھٹے گی تو اس سے سمجھ میں آ جائے گا کہ کس غیر سنجیدگی سے پورے ایک برس یہ ویکسنیشن پروگرام طے کیا گیا۔ اس دوران کبھی اس بات پر توجہ نہیں دی گئی کہ جنھیں ایک ڈوز مل چکا ہے، انھیں مدتِ معینہ میں دوسرا ڈوز بھی دے دیا جائے کیوں کہ یہ بات ثابت تھی کہ دونوں ڈوز کے بغیر ابتدائی بچاؤ کا کام ادھورا ہی رہ جائے گا۔ مختلف ذرایع سے جو خبر آ رہی ہے، وہ اس وجہ سے بے حد خوف ناک ہے کہ ابھی ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی دونوں ڈوز نہیں لینے والی ہی ہے۔یہ یاد رہے کہ ترقی یافتہ قوموں نے دو ڈوز کے بعد بوسٹر ڈوز کے اہداف بھی مکمل کر لیے اور شاید ہی کسی ملک میں اس کام کے لے واویلا مچایا گیا ہو مگر ہمارے ملک میں ناکامیوں کو چھپانے کے لیے بڑے بول پیش کرنے کا ایک خاص انداز ہے جس کی وجہ سے تھوڑی دیر کے لیے حقائق پسِ پشت چلے جاتے ہیں اور ہماری کوتاہیاں آنکھوں سے اوجھل ہو جاتی ہیں۔
٢٠٢٠ء کے اواخر جنوری سے مارچ تک کے دورانیے کو یاد کیجیے تو ہماری آنکھیں کھل جائیں گی کہ حکومتِ ہند نے دوسرے ملکوں سے سبق لینے اور وقت سے پہلے بچاو کی کوششیں کرنے میں کسی بھی انداز کی پیش قدمی نہیں کی۔ یہ درست کہ وبا کا حملہ اچانک تھا مگر چین، یورپ اور امریکا ہوتے ہوئے اس نے ہمارے ملک کو اپنی زد میں لیا تھا۔ بین الاقوامی پروازوں کو روکنے اور ایسے مسافرں پر صحت کے نقطۂ نظر سے نگرانی رکھنے کی کوششوں میں ہم نے ابتدائی دو مہینوں میں جو کوتاہیاں کیں، اس سے مقابلہ کرتے ہوئے ہزاروں جانیں تلف ہوئیں۔ یہ الگ بات کہ وزیرِ اعظم کے ٹیلی ویژن پیغامات میں تین ہفتے میں سارے مسائل کو حل کر لینے کی نعرہ بازی بھی سامنے آ ئی تھی۔ اسی زمانے میں ماہرین نے یہ واضح اندیشہ ظاہر کیا تھا کہ یہ وبا کئی بار ہمیں اپنے چنگل میں پھنسائے گی۔ وائرس زمانی دائروی شکل میں ہمیں ستائے گی۔ کورونا کی پہلی لہر میں روتے بلکتے عوام سڑکوں پر مرتے ہوئے لوگ حکومتِ ہند کے بڑھ چڑھ کر اعلانات سے گزرتے ہوئے قوم نے تقریباً چھے سات مہینوں کے بعد ذرا عافیت کی سانس لی مگر پھر چھے سات مہینوں کی مندی کے بعد ٢٠٢١ کے اپریل، مئی اور جون میں تو وہ تباہی مچی کہ اسپتال، سڑک اور گھر کا کیا کریں، قبرستان اورشمشان اور ندیوں کے گھاٹ کم پڑنے لگے اور لاشیں ریتوں میں چھپائی جانے لگیں۔ ایمبولینس کے سائرن کی آواز کا خوف اپنی جگہ ہزاروں لاشوں کو ایمبولینس اور گاڑیاں پلوں سے ندیوں سے پھینک کر بھاگتے ملے۔ قبرستانوں میں اور اسپتالوں میں یہ بھی ہوا کہ مرنے والے کے رشتہ دار لاش کو چھوڑ کر اپنی جان بچاتے ہوئے بھاگ کھڑے ہوئے۔ وبا کے ماہرین پہلے سے ہی یہ واضح کرتے رہے کہ پہلی لہر کے مقابلے دوسری زیادہ خطرناک ہوگی اور جانوں کا حد درجہ نقصان ہوگا مگر حکومت کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی اور لاکھوں افراد اس بے بسی میں قربان ہوئے۔
جون /٢٠٢١ء کے بعد سے ہی دنیا بھر میں کورونا کی تیسری لہر کے اندیشے ظاہر کیے جا رہے تھے۔ ترقی یافتہ ممالک میں یہ بھی دیکھا جانے لگا تھا کہ ویکسن کس حد تک موثر ہے اور اگر وبا کی اگلی لہر آتی ہے تو اس میں کتنی دفاعی صلاحیت قایم رہ سکے گی مگر اس زمانے تک تو ہندستان میں پندرہ بیس فی صد افراد کو ہی ویکسن کے دونوں ڈوز مل سکے۔ دیکھتے دیکھتے کچھ مہینوں پہلے سے دنیا کے بہت سارے ملکوں میں بوسٹر ڈوزدیے گئے۔ اس سے قبل اُن ملکوں میں اٹھارہ برس سے نیچے کی عمر کے بچوں کو ویکسن کے دونوں ڈوز دیے جا چکے تھے مگر ہندستان تو یہ مان کر بیٹھا رہا کہ اُسے اٹھارہ برس سے اوپر والوں کی جان کی ہی حفاظت کرنی ہے۔ اب جب کہ یقینی طور پر کورونا کی تیسری لہر نے ہندستان میں دستک دے دی ہے اور روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ متاثرین کی گنتی عام ہو رہی ہے، اس وقت ٢٠٢٢ء سے اٹھارہ برس سے کم عمر کے بچوں کے لیے ویکسینیشن پروگرام پر عمل در آمد شروع ہوا ہے۔ اب آگے کب مکمّل آبادی کا ویکسینیشن ہو سکے گا خدا بہتر جانتا ہے۔
دنیا میں ماہرین یہ بات بچھلے چھے مہینوں سے کہتے آ رہے ہیں کہ تیسری لہر کی رفتار بہت تیز ہوگی اور تعداد کے اعتبار سے بھی اس کی زد میں سب سے زیادہ افراد آ جائیں گے۔ بعض اخباروں نے چند ماہرین کی آرا شایع کی ہیں جن کے مطابق جنوری /٢٠٢٢ء اور فروری ٢٠٢٢ء مہینے عوامی زندگی کے لیے بے حد مشکل ثابت ہوں گے۔ مشکل یہ ہے کہ ہندستان کی کسی ریاست نے صحت کے انتظامات میں کوئی انقلاب آفریں تبدیلی نہیں کی۔ اس کے بر خلاف کاروباری نقطۂ نظر کا فروغ ہوا اور وبا میں فائدے کے موقعے تلاش کرنے والے افراد اتنی بڑی تعداد میں سامنے آ چکے ہیں جن سے حکومت بھی آسانی سے پار نہیں پا سکتی۔ آکسیجن کی کمی کے مسائل اور ہاسپیٹل میں بستروں کی کمی کے معاملات جس طرح دوسری لہر کے دوران پوری قوم کو الجھن میں مبتلا کرتے رہے، تیسری لہر میں ایسے حالات پیدا ہو گئے تو کیا ہوگا۔ حکومت وبا کے زور کے کم پڑنے کے بعد آیندہ کی تیّاری سے غافل ہو کر انتخاب اور ہار جیت یا نفرت کے کھیل تماشے میں مبتلا ہو جاتی ہے۔
اسکول کالج بند کر دینے اور کار وبار پر قد غن لگا دینے یا اصطلاحی طور پر لاک ڈاؤن کی مہر مار دینے کو سب کچھ سمجھتی ہے، ایسا ہر گز نہیں ہے۔ یہ کھلا دھوکا ہے۔ دو برسوں سے تمام مرکزی یو نی ور سٹیاں بند ہیں۔صوبائی ادارے اور اسکول کالج بھی تقریباً بند ہی ہیں۔ لاکھوں کی انتخابی ریلیاں جاری ہیں۔ چار پانچ ریاستوں میں انتخابات ہو چکے ہیں اور ابھی فروری میں پانچ ریاستوں میں اتخابات کی باری باقی ہے۔ وزیرِ اعظم اور دوسرے لیڈران لاکھوں کی ریلیاں کر رہے ہیں۔ بھیڑ، دھکم پیل اور جسم سے جسم چھل رہے ہیں مگر یہ ملتوی نہیں کیا جا سکتا۔ عجیب تضاد ہے کہ کسی اسکول میں دو سو بچے پڑھتے ہوں یا کسی امتحان مرکز پر پانچ سو بچے امتحان دے رہے ہوں، ان سب کے جمع ہونے سے حکومت کی نظر میں کورونا پھیل جائے گا مگر لاکھوں کی انتخابی ریلیوں سے یہ وبا دور دور رہتی ہے۔ دوسری لہر کے پیچھے پریاگ اور ہری دوار کے مہا کمبھ کے اثرات سب نے مانے تھے۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ فروری کے انتخابات کے بعد ہم پھر سے لاکھوں انسانوں کی شہادت دیتے ہوئے تیسری لہر کو یقینی بنانے میں کامیاب ہو جائیں۔ کاش حکومتِ ہند اور صوبائی حکومتیں اپنی بند آنکھیں کھولتیں اور ان کے لیے عوامی حفاظت پہلی ترجیح میں شامل ہوتی۔
safdarimamquadri@gmail.com
مضمون نگار پٹنہ کے کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس میں شعبۂ اردو کے استاد ہیں

گذشتہ عرض داشت : فرقہ واریت کی با مقصد نئی لہر: انتظامیہ، عدلیہ اور قانون سازیہ سب کے سب خاموش تماشائی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے