شاعر و صحافی عمران راقم کی ہمہ جہت شخصیت

شاعر و صحافی عمران راقم کی ہمہ جہت شخصیت

رہبر گیاوی
بک امپوریم سبزی باغ، پٹنہ، بہار، انڈیا 800004
8507854206 / 9334754862

صوبہ بہار میں نالندہ ضلع کو بڑی فوقیت حاصل ہے. اس کے کئی اہم وجوہات ہیں. اس ضلع کی عظمت کی سب سے پہلی وجہ نالندہ یونی ورسٹی رہی ہے. نالندہ یونی ورسٹی تمام عظیم درس گاہوں میں سب سے عظیم درس گاہ مانی گئی ہے، جس کا قیام 450ء میں ہوا۔ جس میں تاریخ اور ماحولیات کی تعلیم دی جاتی تھی. نویں صدی عیسوی تک نالندہ یونی ورسٹی دنیا کی سب سے مقبول عام یونی ورسٹی رہی. تاریخ یہ بھی ہے کہ نالندہ یونی ورسٹی کے علاوہ تکشلا اور وکرم شیلا یونی ورسٹی بھی اس وقت وجود میں آچکی تھیں. لیکن نالندہ یونی ورسٹی میں دور دراز سے آنے والے طلبا کی تعداد بہ نسبت دیگر یونی ورسٹی سے کہیں زیادہ رہی۔عصری تعلیم کی حصولیابی کےلیے ڈیڑھ ہزار سال قبل ہی نالندہ یونی ورسیٹی نے پورے ایشیا میں خاصی مقبولیت حاصل کر لی تھی۔ چین، جاپان، انگلینڈ، امریکہ، روس کےطلبا اعلا تعلیم کے حصول کے لیے نالندہ یونی ورسٹی کا رخ کیا کرتے تھے۔ یعنی پوری دنیا میں جب اماوس کی گھپ تاریکی تھی اس وقت نالندہ یونی ورسٹی نے پوری دنیا کو علم و عرفان کی روشنی سے منور کیا. وجہ یہ بھی ہےکہ نالندہ ضلع قدیم زمانہ سے ولیوں، رشی مونیوں، سنتوں، شعرا و ادبا اورعلما کا مسکن رہا. حضرت مخدوم الملک شیخ شرف الدین ابن احمد یحی منیری رحمۃ اللہ علیہ نے رشد و ہدایت، نشر و اشاعت تصنیف و تالیف اور تصوف کی تعلیم اور اس کے اوصاف معراج تک پہنچائی. ان کی مشہور بیش قیمت کتاب مکتوبات صدی کی تخلیق اور ترویج واشاعت اسی سرزمین سے ہوئی. حضرت ابراہیم ملک بیا رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مخدوم چرم پوش رحمۃ اللہ علیہ نے اس سرزمین پراپنے علم و فنون سے پوری دنیا کے ہر خاص و عام کو فیض پہنچایا اور توحید و وحدانیت کا پیغام دیا. اگر ان تمام بزرگان دین سے قبل کی بات کی جائے تو جین مذہب کے بانی مہاویر جین اور بدھ مذہب کے بانی گوتم بدھ جیسے رشی منیوں اور مہاپروشوں کےنام لیے بغیرنالندہ ضلع کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی. اہل نالندہ کے علوم و فنون اور حکمت کے کمالات سے پوری دنیا بہ خوبی واقف ہے. یہاں کے شعرا و ادبا اور صوفیائے کرام کی نگارشات سے زبان وادب کی تاریخ مرتب ہوتی ہے۔ سیرت النبی کی تاریخی کتاب لکھنے والے سید سلیمان ندوی سے کون واقف نہیں. مولانا مظفر بلخی، مولانا مناظر حسن گیلانی، مولانا حمد ابراہیم، مولانا محمد سجاد، مولانا احمد سجاد، مولانا محمد متین، مولانا رونق استھانوی، گرد بہاری، جگر بہاری، یاس بہاری، احقر بہاری، ظفر اوگانوی، ذکی انور، ظفر چکدینوی، سید عبد القوی دسنوی، سید شہاب دسنوی، سید شکیل دسنوی، مولانا عبدالصمد، مولانا سید غلام ربانی، معین الدین دردائی، مظفرالدین دردائی، انجم جمالی، شوکت جمالی، کلیم عاجز، پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی، علقمہ شبلی، رضوان رضوی، محمد اسرائیل کیفی، ارشد حلیم، سیدتسنیم بلخی، پروفیسر ایس ٹی امام، سیداعجاز بن ضیااوگانوی، ڈاکٹر اسری ارشد اور عہد حاضر میں پروفیسر عبدالصمد، ڈاکٹر ہمایوں اشرف، اقبال حسن آزاد، خورشیداکرم سوز، مولانا ارشد فردوسی، جسیم احمد فردوسی، یعقوب اطہر ہلسوی وغیرہ ایسے نام ہیں جن کی پرورش لوح و قلم سے دنیائے اردوادب میں علم وفن کے گل بوٹے تاحال کھل رہے ہیں، ان سبھی کا تعلق اسی دیار سے رہا ہے۔ اسی مخدوم کی نگری کے پیداوار اردو ادب کی ہمہ گیر شخصیت کا نام عمران راقم ہے۔ آج کے اردو ادب کے منظر نامے کا ایک اہم نام عمران راقم کا ہے۔ عہد حاضر کی فہرست میں عمران راقم کا نام ان معنی میں اہمیت کا اور بھی حامل ہے کہ اردو زبان کے فروغ میں عمران راقم نے بےمثال خدمات انجام دیے اور تاحال دے رہے ہیں۔ عمران راقم نے یوں تو اپنے ادبی سفر کا آغاز 1986 میں شعری ادب سے کیا۔ شاعری کے ساتھ ساتھ 1990 میں ان کی دل چسپی اردو صحافت سے شروع ہوئی. ابتدا میں اخباری نمائندہ کی حیثیت سے انھوں نے بہارشریف سےہی روزنامہ سنگم صدائےعام، قومی آواز، انقلاب جدید، پندار، قومی تنظیم، ہندوستان ممبئی کی نمائندگی بہ حیثیت صحافی رپورٹنگ کرتے رہے۔ صحافتی خدمات کے ساتھ بہار شریف کی ادبی فضا کو ہموار کرنے کی جستجو میں بھی اسی زمانے سے لگے جب بہارشریف میں کوئی ادبی ادارہ نہیں تھا. آج جو بھی ادارہ بہار شریف میں ہے ان میں موصوف کاخون جگر شامل ہے، قلم بردار لٹریری فورم، تحریک اردو لٹریری فورم، بزم اطہر نالندہ (رجسٹرڈ ) جیسے دیگر ادارے آج جو کام کر رہے ہیں وہ عمران راقم کی کوششوں کا نتیجہ ہیں۔ اردو زبان سے جڑے ادبا و شعرا کو ایک پلیٹ پر لانے کی جستجو، ماہانہ ادبی نشست اور اس کے دعوت نامے کی ترسیل جس کے لیے گھر گھر دستک دیتے رہنا اور اردو سے بیزار لوگوں کو اپنی زبان کے تحفظ کے لیے بیدار کرنا۔ مشاعرے، سیمینار اور اردو کے دیگر بڑے پروگرام کے انعقاد کاذمہ تن تنہا اٹھانا، دن رات اس کی کامیابی کی فکر میں دیوانے رہنا، اردو کی محبت اور ادب کی صحرانوردی میں اپنے وقت کی قربانی دے کر مال و اسباب نچھاور کرنا عمران راقم کا ابتدا سے فطری شیوہ رہا۔ نئے پرانے شاعر و ادیب کے لیے اسٹیج مہیا کیا۔ اردو کی محبت میں دن رات جہد کرنا عمران راقم کا ہی حصہ مانا جاتا ہے۔ پورے نالندہ ضلع میں اگر کسی نے صحیح معنی میں مجاہد اردو ہونے کا حق ادا کیا تووہ عمران راقم ہی ہیں. اردو لکھنا، اردو پڑھنا، اردو پڑھانا، اردو اوڑھنا، اردو بچھانا ان کے شب و روز کے مشاغل میں شامل رہے ہیں۔ نئی نسل کو اردو زبان سے جوڑنا، ان کی تخلیق کی نشرواشاعت کرنا ایسے دیگر بے لوث خدمات انجام دینا عمران راقم کی اردو سے سچی محبت ہی کہی جا سکتی ہے. عمران راقم اردو کے باوقار صحافی ماہنامہ صورت کے چیف ایڈیٹر ہیں۔ جو نہایت معیاری اور خوب صورت رسالہ ہے. اس لیےاکثر لوگ اس رسالے کوصورت کے بجائے خوب صورت کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ رسالہ بےباک اداریہ کے لیے بھی اہل نظر میں مقبول ہے۔صورت اردو زبان و ادب کے فروغ نیز نئی نسل کی بھرپور نمائندگی کر رہا ہے۔ عمران راقم اردو کی تحریک جاری رکھنے کے ساتھ اپنے ادبی فتوحات میں بھی ہم عصروں میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ "نئی آواز" 2004 میں منصئہ شہود پر آیا۔ جس کو بہار اردواکادمی نے انعام سے سرفراز کیا. اس کے علاوہ کئی اردو اداروں سے انھیں ایوارڈ وتوصیفی سند ملے۔ جس کی فہرست سازی کرنا میرا مقصد نہیں ہے۔ تاہم شیکھرسمان مرزا غالب ایوارڈ برائے شاعری "غلام سرور ایوارڈ" برائے صحافت کا ذکرکیا جا سکتاہے۔ دوسرا شعری مجموعہ "نئی زمین" 2015، تیسرا شعری مجموعہ "غزل زار" 2019 میں منظر عام پر آکر ارباب ادب سے داد و تحسین حاصل کیااور اب عمران راقم کا چوتھا شعری مجموعہ دیوان راقم کی شکل میں اشاعت کے مرحلے سے جلد گذرنے والا ہے۔ ان چار کتابوں کے علاوہ بھی عمران راقم کی کچھ کتابیں زیر ترتیب اور منتظر اشاعت ہیں. جن میں بنجر آسماں (افسانوی مجموعہ) نیا آسمان (نظموں کا مجموعہ ) "اعتراف فن اور فنکار" (مجموعہ مضامین) وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ عمران راقم کے حوالے سے مشہور زمانہ معتبر محقق ادیب دانشور شاعر علامہ نادم بلخی، شمس الرحمن فاروقی، ہمت رائے شرما، علامہ ناوک حمزہ پوری، پروفیسر مظفر حنفی، پروفیسر مولا بخش اسیر، پروفیسر علیم اللہ حالی، پروفیسر عبد المنان، پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی، ڈاکٹر ہمایوں اشرف، ڈاکٹرآفاق فاخری، علیم صبانویدی، شان بھارتی، راشد انور راشد، طارق متین، ڈاکٹر نسیم احمد نسیم، بے نام گیلانی، ڈاکٹر معصوم رضا امرتھوی وغیرہ صاحبان علم وفن کےعلاوہ دیگر ادیبوں محققوں نے بھی عمران راقم کی شعری عظمت کا اعتراف کیا اور شعر و ادب میں وہ ایک دستخط کی حیثیت سے تسلیم کیے جا رہے ہیں۔ عمران راقم ہمہ جہت فن کار اس لیے ہیں کہ وہ بہ ایک وقت شاعر بھی ہیں، صحافی ہیں، فکشن نگار بھی ہیں، ادیب بھی ہیں، انشائیہ نگار بھی۔ اردو کی بقا و تحفظ میں اگر کسی شخصیت کی گراں قدر خدمات بہار شریف میں حاصل ہے تو وہ عمران راقم ہی کی ہے۔ بہار شریف کے اہل نظر اس حقیقت کاخود اعتراف بھی کرتے ہیں۔ اس بات سے کم ہی لوگ واقف ہیں کہ عمران راقم اپنے پروپرائٹرشپ میں”ایڈ کو" (Adco ) کے نام سے ایک اشتہاری کمپنی کولکاتا میں چلاتے ہیں۔ یہ کمپنی صرف اردواخبارات میں ہی اشتہار مہیا کرتی ہے۔ جس سے خصوصا اردو اخبارات کو فروغ مل رہا ہے۔ اردو کی فضاہموار کرنے کی جب بھی ضرورت آن آئی اس میں عمران راقم بڑھ چڑھ کر اپنا رول ادا کر رہے ہیں۔ اس تناظر میں عمران راقم کا ایک شعر اس بات کے عین مصداق نظر آتاہے۔ وہ کہتے ہیں ؏
چراغ دل جلا کر ہی اجالا ہم تو کرتے ہیں
ہمارے شہر میں بجلی ذرا سی دیر رہتی ہے
اب میں عمران راقم کے اشعار کے حوالے سے ان کے فنی کمالات، اسلوب، زبان وبیان اور متنوع موضوعات و خیالات، عصری حسیت، داخلی خارجی کیفیات، واردات، محبوب کے حسن و جمال، خدوخال، نازوادا، حیا و شوخی، تغافل، بے اعتنائی، ہجرووصال اور حسن و عشق کا بو قلمی انداز کے جائزے اور تجزیے پیش کریں گے۔ عمران راقم کی شاعری میں اقدار کی پامالی، غریبی و بدحالی، غرض پرستی، دنیا کی بے ثباتی، معاشرے میں پھیلی گندگی اور زندگی سے بیزار رجحان کی دل پذیر صورت نظر آتی ہے۔ ان کے اشعار میں افکار کی گہرائی، لہجے کی سرگوشی، سوزوگداز کی تلخ و شیریں لہریں، سہانے ساز کی طرح معلوم ہوتی ہیں۔ ان کے خیالات میں رعنائی بھی ہے، خون کی گرمی میں احتجاج اور مزاحمت کے پہلو بھی ہیں۔ عمران راقم کی غزلوں میں کیف و نشاط کی روشناسی بھی ہے اور حزن و ملال کی کربناک فضا بھی مخصوص علامت میں روشن ہیں ؏
روٹھ جاتی ہے جو پازیب کبھی پاؤں کی
اس کو پھر حاصل جھنکار منا لیتے ہیں

رات گئے جو آگ لگاتے ہیں گھر میں
ایسے بھی ہمدرد ہمارے ہوتے ہیں

کبھی ایسا بھی لگتا ہے کہیں ہم
کھڑے ہیں اور رستے جا رہے ہیں

گفتار میں تم نرمی رکھو اپنے ہمیشہ
چھوٹے ہو بزرگوں کے برابر نہیں آنا

مرے بچے ابھی منظر کئی خوں ریز دیکھیں گے
لہو کی سرخیوں سے میں انھیں پتھر بناتا ہوں

بلا شبہ عمران راقم حقائق زندگی اور گردوپیش میں رونما ہونے والے واقعات کی تصویر کشی پورے اوصاف کے ساتھ حقیقت پسندی سے پیش کرتے ہیں۔ ان کی شاعری میں صداقتوں کے اظہار ہیں، جس کے آہنگ میں بےساختہ جذبات و احساسات کی ہنرمندی ہے۔ عمران راقم کی شاعری میں زمانے کے حالات و کوائف کی چمک دمک بھی ہے۔ ان کی شاعری میں ضرب الامثال محاورہ اور روز مرہ کی زبانوں کے اثرات بھی صاف طور پر نظر آتے ہیں ؏
سہانی رات اکیلے میں جب بھی ہوتی ہے
قلم سے اور بھی کاغذ سیاہ کرتا ہوں

جہاں تھی صحرا نوردی عروج پر میری
وہیں درخت لگائے گئے ببولوں کے

ہم اندھیروں کے تصور سے بھی ڈر جاتے ہیں
لوگ کرتے ہیں بسر رات گھنے جنگل میں

دل برباد کا قصہ سنائیں کس طرح راقم
دھواں لگتا ہے آنکھوں میں ہمارے دل کے جلنے کا

عمران راقم پرسوز انفرادی شاعری سے اور بھرپور معنی خیز کلام سےاردو دنیا کےافق پر درخشاں ستارے کی طرح چمک رہے ہیں. یہ سچ ہے کہ ان کے کلام پر بہت کم لکھا گیا مگر اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان کی شاعری حق وصداقت کی آواز ہے اور اس میں حرکت و حرارت اور عمل پیہم پر آمادہ کرنے والے اشعار کثرت سے ملتے ہیں ؏
وقت کا فنکار مجھ میں ڈوبنے والا ہے اب
خودمیں ڈھالےگاوہ مجھ کو اک کہانی کی طرح

وہ کہہ رہے تھے آپ کی شیریں زبان ہے
خط لکھاجب حسین کواردو میں ایک دن

بند اندر سے ہے غسل خانہ
اور باہر ہے جھرجھری آواز

فلک کے سارے ستارے زمیں پہ اترے ہیں
چمک رہے ہیں جو حد نظر بدن اس بار

کہیں تو راہ کا پتھر نظر آتا نہیں راقم
کہیں محسوس کرتےہیں مرے تلوے بھی کنکرکو

جاں ہتھیلی پر لیے تلوار پر چلنا پڑا
یوں کوئی بڑھتا نہیں ہے کامرانی کی طرف

خاطر میں جو لاتے نہیں اردو زبان کو
تہذیب وہ رکھتے نہیں اردو کے مطابق

مکان چیخ رہے تھے مکان والے بھی
مگر سنا کہ وہیں شاد ہو رہی تھی آگ

سب نے ہی جان محبت میں گنوائی لیکن
عشق ہے اب بھی خسارے میں کہا جاتا ہے

تقدیر کے ہاتھوں ہی اڑی گرد یقینا
ہم خاک نشینوں کی ہوئی خاک کی گردش

مذکورہ اشعار کی روشنی میں عمران راقم کی شاعرانہ بے باکی اور صالح افکار کی معیار روش معتبر معلوم ہوتی ہے۔ عمران راقم کی فکر میں وسعت، ذہن میں فراخ دلی اور قلم میں پختگی ہے۔ عمران راقم کے مشاہدے میں غضب کی قوت ہے۔ ان کے اشعارمیں طنز کی کاٹ اس سفاک انداز سے درآئے ہیں کہ جن سے معاشرے کو درس عبرت ملتا ہے ؏
حسرت ہی رہی دل میں مرے کاش کسی دن
سجادہ نشیں سنتے بغل گیر کی آواز

تحفے میں پھول بھیج کے مجھ کو گلاب کا
پھر اس کے بعد کرتا ہے کانٹوں سے روشناس

فرصت نہیں ہے آج کسی آدمی کے پاس
کچھ دیررک کےسانس لےجو زندگی کے پاس

برساہے مری آنکھ سے وہ ٹوٹ کے بادل
اس خط کا لکھا ایک بھی جملہ نہیں محفوظ

اڑا اڑا کے شجر کے کثیف پتوں سے
کئی مزار زمیں پر بنا گیا پت جھڑ

ہم بھی خدا کی خاص نگاہ کرم میں ہیں
غربت پہ ہنس نہیں تو مری مفلسی پہ ناچ

پیر کی خاطر مدارات کرتے ہیں یہ مرید
حجرے کے سادات کا بوسہ کرنا ہے تفویض

مریخ مشتری نہ عطارد ہوں میں کوئی
میں ہوں حدیث دل مجھے باب وفا میں ڈھونڈ

دل دیکھ مرا آنکھ کی کشتی میں اتر کر
کس عشق نے اس شہر کو سیلاب کیا ہے

ہر دور میں زینت رہے ہم بزم کی راقم
کس عہد کے نایاب رسالے میں نہیں تھے

خدا کے فضل سے کچھ نیکیاں نکل آئیں
مرے عمل کا فرشتوں نے جب حساب کیا

امیر شہر کے آنے میں جو بھی صرف ہوا
تمام خرچ یہاں کے مکیں پہ بیٹھیں گے

سنی سنائی ملی ہے ادھر ادھر کی خبر
وہ اپنے آپ کو پاگل بناکے بیٹھے ہیں
عمران راقم دراصل ادبی قدروں کے آفاقی قلم کار ہیں. وہ پرتوں والی تخلیقی اہلیت رکھتے ہیں۔ ان کے اسلوب کی تازگی اور لہجے کی مہک دلوں کو چھو لیتی ہے۔ ان کے شعر میں حسن بھی ہے اور جاذبیت بھی، الفاظ و خیال ان کے وجدان میں بنے بنائے اور ڈھلے ڈھلائے ہوئے اترتے ہیں۔ عمران راقم کی معصوم شوخی بھی ان کی تحریر میں جا بجا انوکھی جاذبیت پیدا کر دیتی ہے۔ صاف گوئی اور بے باکی ان کی تحریر کا لازمی حصہ رہی ہے۔ ان کا تخلیقی وژن ہمہ گیری اور جامعیت کا بہترین نمونہ ہے۔ اردو ادب پر ان کی گہری نظر ہے۔ قدیم اور جدید ہر طرح کے میلانات اور رجحانات کے بارے میں ان کی اپنی سوچی سمجھی رائے ہے۔ تحریر میں ضبط و اعتماد اور لہجے میں اعتدال و توازن ہے۔ انداز بیان سنجیدہ اور عالمانہ ہی نہیں شگفتہ اور رواں ہے۔
بہار شریف کے ادبی منظر نامے کا اگر جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ گزشتہ آدھی صدی یعنی پانچ دہائیوں سے زائد کے عرصہ میں عمران راقم کے علاوہ ملکی سطح پر کوئی بھی شاعر ادیب بہارشریف سے نہیں ابھرا۔ اس عرصے میں کوئی بھی شاعر صاحب دیوان نہیں ہوا۔ اردو کے موقررسائل وجرائد کے حوالے سے یا مشاعرہ کے حوالے سے ادبی منظر نامے میں صاحب دیوان عمران راقم کی ہی ادبی حیثیت وثوق کےساتھ مسلم نظر آتی ہے۔
عمران راقم کا ادبی سفر گزشتہ پینتیس برسوں سے صلے کی تمنا کیے بغیر جاری ہے. اس عرصے میں ان کی اردو سے محبت کی داستان طلسم ہوشربا سے کم نہیں۔ خدا کرے کہ ان کی ادبی فتوحات کا سلسلہ اسی طرح جاری رہے۔ ان کی شب وروز کی محنت زبان و ادب اور اردو کے فروغ میں کام آسکے.
صاحب تحریر کی شاعری یہاں پڑھیں :رہبر گیاوی : تعارف، نعتیں اور غزل

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے