مولانا محمد یوسف اصلاحی

مولانا محمد یوسف اصلاحی

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ، پھلواری شریف، پٹنہ

نامور، معتبر، مستند عالم دین، اچھے منتظم، بہترین مدبر، مفسر، محقق، جامعۃ الصالحات رام پور کے سابق ناظم موجودہ سرپرست، مرکزی درس گاہ اسلامی رام پور کے صدر، ماہنامہ ذکریٰ کے مدیر، پانچ درجن سے زائد کتابوں کے مصنف، آداب زندگی سکھانے والا داعی، اور دلوں میں گھر کر جانے والا مقرر، جماعت اسلامی ہند کی مجلس شوریٰ اور مجلس نمائندگان کے رکن مولانا محمد یوسف اصلاحی نے ۲۱؍ دسمبر ۲۰۲۱ء کو رات کے سوا بجے نوئیڈا کے فورٹس اسپتال میں آخری سانس لی، وہ گذشتہ ایک ماہ سے شدید تنفس اور عارضہ قلب میں مبتلا تھے، مراد آباد کے ایک اسپتال میں شروع میں داخل کیا گیا تھا، بعد میں بہتر علاج کے لیے نوئیڈا لایا گیا، لیکن موت کا توکوئی علاج ہی نہیں ہے، وقت موعود آیا اور ملک الموت لے کر چلتا بنا، یہی زندگی کی حقیقت ہے۔
ان کی نماز جنازہ مرکزی درس گاہ اسلامی کے قریب شادی گھر میں ان کے صاحب زادہ جناب سلمان صاحب نے پڑھائی، اور مسجد قلاش کے قریب والے قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں پانچ صاحب زادگان، سعید اختر، سعد، سعود، سلمان، سلیم اور دو لڑکیوں کو چھوڑا، اہلیہ پہلے ہی رخت سفر باندھ چکی تھیں۔
مولانا محمد یوسف اصلاحی بن مولانا عبد القدیم خان کی پیدا ئش ۹؍ جولائی ۱۹۳۲ء کو بریلی اتر پردیش کے ایک اعلا خانوادے میں ہوئی، بعضوں نے جائے پیدائش پرملی ضلع اٹک موجودہ پاکستان لکھا ہے، جو صحیح نہیں معلوم ہوتا، والد تفسیر و حدیث کے بڑے عالم؛ بلکہ شیخ الحدیث تھے، تجوید، حفظ قرآن اور عربی کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کرنے کے بعد بریلی اسلامیہ کالج سے ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا، والد کی خواہش عالم بنانے کی تھی، اس لیے ان کا داخلہ مظاہر علوم سہارن پور میں کرا دیا گیا، دو سال تک وہاں زیر درس رہے، گھر آئے تو ان کے محلہ کا ایک درزی میر راہ کوئی کتاب ان کے حوالہ کرتا، مولانا اسے لے جا کر رکھ دیتے، اور کچھ دن کے بعد واپس کر دیتے، وہ کوئی دوسری کتاب دیتا، ایک دن مولانا نے اس کی دی ہوئی کتاب اٹھا کر پڑھنا شروع کیا، یہ مولانا مودودی کی تنقیحات تھی، اس کتاب کے مطالعہ کی وجہ سے ان کی ذہنی رو جماعت اسلامی کی طرف گئی اور انھوں نے مظاہر علوم چھوڑ کر مدرسۃ الاصلاح سرائے میر اعظم گڈھ میں داخلہ لے لیا، وہاں انھیں مولانا اختر اصلاحی اور مولانا امین احسن اصلاحی کی شاگردی میسر آئی، جنھوں نے انھیں قرآن کریم کے رموز و نکات سمجھائے اور اس فن میں انھیں خصوصی درک حاصل ہوا، اچھے نمبرات سے سند فضیلت حاصل کی، دوران طالب علمی ہی میں جماعت اسلامی کے رجحانات و خیالات ان کے اوپر حاوی ہو گیے اور وہ عملی طور پر جماعت اسلامی کی تحریک سے جڑ گئے، عمر کے اکیس سال ہی پورے ہوئے تھے کہ آپ ۱۹۵۳ء میں جماعت اسلامی کے رکن بن گئے، جماعت اسلامی کے افکار میں بہت سارے اتار چڑھاؤ آئے، لیکن مولانا نے پچیس سال کی عمر میں جو وابستگی اختیار کی تو پوری زندگی اس سے جڑے رہے۔
مولانا کی پہلی تصنیف ’’آداب زندگی‘‘ صرف بیس سال کی عمر میں سامنے آئی، جس نے اہل علم طبقہ کے ساتھ عوام کو بھی مولانا کا گرویدہ بنا دیا، اس تصنیف کی بے انتہا پذیرائی ہوئی اور اس کتاب نے ملک و بیرون ملک میں انسانی زندگی میں بڑی تبدیلیاں پیدا کیں، مدرسۃ الاصلاح سے فراغت کے بعد آپ نے اپنا میدان عمل رام پور کو بنایا؛ کیونکہ جماعت اسلامی کا علمی مرکز ان دنوں وہیں تھا، ادارہ تصنیف اسلامی کے نام سے قائم اس ادارہ کے ذمہ دار مولانا صدر الدین اصلاحی تھے، مولانا فاروق خان، مولانا جلال الدین انصر عمری اس کے ارکان تھے، مولانا محمد یوسف اصلاحی بھی اس ادارہ سے جڑ گئے اور تصنیف و تحقیق کے کاموں میں مصروف رہے، جب ۱۹۷۰ء میں یہ ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی کے نام سے پان والی کوٹھی دودھ پور علی گڑھ منتقل ہوا تو مولانا نے وہاں جانے سے معذرت کرلی، رام پور میں ہی تجارت شروع کی اور علمی کاموں میں مشغول رہے۔ ۱۹۷۲ء میں ایک مکتبہ اور ادارہ ذکریٰ قائم کیا جس سے ماہنامہ ذکریٰ نکالنا شروع کیا، اب اسے ان کے صاحب زادگان دیکھتے ہیں۔
رام پور میں مولانا ابو سلیم عبد الحئی نے ایک مدرسہ بچیوں کی تعلیم کے لیے قائم کیا تھا، مولانا کے انتقال کے بعد جناب توسل حسین صاحب اس کے ذمہ دار منتخب ہوئے، ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد یہ ذمہ داری مولانا محمد یوسف اصلاحی کے سپرد ہوئی، اور مولانا نے اپنی خدا داد صلاحیت سے جامعۃ الصالحات رام پور کو ملک و بیرون ملک میں نہ صرف متعارف کرایا، بلکہ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے اس کی شناخت معیاری تعلیمی ادارہ کی حییثت سے سامنے آئی. یہ ادارہ آج بھی سر گرم عمل ہے۔ ۱۹۷۵ء میں اس ادارہ کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تو آپ اس کے صدر منتخب ہوئے اور پوری زندگی اس ادارہ کی سر پرستی کرتے رہے۔
مولانا نے قرآن و احادیث، سیرت و فقہ اور دیگر موضوعات پر کم و بیش ساٹھ کتابیں تصنیف کیں، ان میں اسلوب کی سادگی، مواد کی فراوانی اور تفہیم کا ملکہ اس قدر ہے کہ ان کتابوں کے کئی کئی ایڈیشن نکل چکے، ان میں سے کئی کتاب کا دوسری زبان میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔ مولانا نے مختلف ملکوں کے دعوتی اسفار بھی کیے، انگلینڈ، امریکہ، جاپان، آسٹریلیا اور خلیج کے کئی ممالک میں ان کا آنا جانا ہوا کرتا تھا، بر صغیر ہند و پاک اور بنگلہ دیش کے اسفار بھی مولانا نے کثرت سے کیے۔
مولانا کی زندگی سادگی کا مرقع تھی، ان کی تقریروں میں بھی سادگی کی جھلک تھی، وہ مرصع اور بھاری الفاظ کے استعمال سے گریز کرتے تھے، ان کی تقریروں میں خطیبانہ گھن گرج، الفاظ کا زیرو بم اور جسمانی حرکات وسکنات (باڈی لنگویج) کا استعمال کم ہوتا تھا، لیکن بات بڑی مؤثر ہوتی تھی، جس سے سامعین کو بہت فائدہ پہنچتاتھا۔
مولانا مرحوم دیکھنے میں نحیف الجثہ تھے، لیکن ان کی جسمانی کیفیت کا اثر ان کے کاموں پر بالکل نہیں پڑتا تھا، ان کا چہرہ بڑا بارونق، پر کشش اور پر نور تھا، اس میں ایک مقناطیسی چمک پائی جاتی تھی، جس کی وجہ سے جلد ہی لوگ ان کے قریب ہی نہیں گرویدہ ہوجاتے تھے، ان کی اس بارعب شخصیت میں ان کی جامہ زیبی کا بھی دخل تھا، سردی ہو یا گرمی ہر موقع سے شیروانی، آنکھوں پر چشمہ اور سر پر کشتی نما ٹوپی ہوا کرتی، قرآن کریم کی تلاوت اس انداز میں کرتے کہ لوگوں پر ایک کیفیت طاری ہوجاتی، ان کی رہائش رام پور میں گھیر سیف الدین خان میں تھی، وہ محلہ کی مسجد میں جب موجود ہوتے تو پابندی سے امامت کرتے، فجر کی نماز میں ان کی تلاوت کا خاص اثر مقتدیوں پر ہوا کرتا تھا، وہ صرف نماز پڑھانے پر اکتفا نہیں کرتے، جماعت اسلامی کی جانب سے درس قرآن، درس حدیث وغیرہ کا جو سلسلہ جاری ہوتا اس کا بھی اہتمام کرتے او رمقتدیوں کی ذہنی تشکیل اور اسلامی اقدار کے ساتھ ان کی تربیت کے فرائض انجام دیتے، وہ اقبال کے لفظوں میں صرف دو رکعت کے امام نہیں تھے.
مولانا اب اس دنیا میں نہیں ہیں، مولانا نے طویل عمر پائی اور پل پل دین کی خدمت میں صرف کیا، مواقع بہت آئے، لیکن رام پور کو جو مستقر بنایا تو آخری سانس تک اس سے رشتہ نہیں توڑا، اللہ نے آپ کے کام میں برکت عطا فرمائی، اور اب وہ اسی خدا کے پاس گیے ہیں، جس کے لیے پوری زندگی وہ کام کرتے رہے، یقینا اللہ کی رحمت و مغفرت نے بڑھ کر استقبال کیا ہوگا، فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی کے مژدہ نے پوری زندگی کی تکان کو دور کر دیا ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں:ادب کو اعلا اخلاقی اقدار کے فروغ کا ذریعہ ہونا چاہیے: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے