غالب: انسانی احساسات کا عظیم شاعر

غالب: انسانی احساسات کا عظیم شاعر

میر امتیاز آفریں
بڈگام، کشمیر، انڈیا

اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر عالمی سطح کے عظیم ترین شعرا کی ایک فہرست مرتب کی جائے تو غالب ضرور اس میں اپنا نام بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ غالب نہ صرف ہندستان کے ایک عظیم اور مشہور شاعر ہیں بلکہ تمام دنیا کے معزز ترین شعرا میں بھی ان کا شمار ہوتا ہے۔
ڈاکٹر سرفراز نعیمی نے تو اپنی کتاب The Love Sonnets of Ghalib میں یہاں تک لکھا ہے کہ دیوان غالب برصغیر میں قران اور گیتا کے بعد سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ کلامِ غالب کے تراجم تقریباً دنیا کی ہر بڑی زبان میں ہو چکے ہیں اور دنیا کے کونے کونے میں غالب کے مداحوں کی ایک اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔
غالب انسانی جذبات و احساسات کی ایک پر تاثیر آفاقی آواز کا نام ہے۔ غالب کی آفاقیت کا راز اس کی درد بھری لے میں مضمر ہے، ہر شخص جس کے سینے میں انسانی دل دھڑکتا ہے اور جس کا زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر غم ہستی سے سامنا ہوتا رہتا ہے، غالب کو پڑھ کر اسے ایسا لگنے لگتا ہے جیسے کسی نے اس کے دل کے درد کو زبان دے دی ہو۔
ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﺗﻘﺮﯾﺮ ﮐﯽ ﻟﺬﺕ ﮐﮧ ﺟﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺟﺎﻧﺎ ﮐﮧ ﮔﻮﯾﺎ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ
غالب کا سب سے بڑا کمال یہی ہے کہ وہ فطرت انسانی کی فنکارانہ ترجمانی کچھ اس انداز سے کرتے ہیں کہ انسان حیرت زدہ ہوکر رہ جاتا ہے۔ غالب عالم میں انسان کی حالت زار (Human Condition) کو قنوطی زاویے سے دیکھتے ہیں اور تقدیر خداوندی کی بالادستی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ اپنے ذاتی غم کو وہ آفاقی بنا دیتے ہیں اور اپنے خوب صورت اور دل نشیں انداز بیان سے دل موہ لیتے ہیں۔ ہر انسان کو ان کے انداز بیان میں اپنائیت سی محسوس ہوتی ہے۔
چونکہ غالب اپنے دور کی ادبی افق سے انتہائی بلند و ارفع تھے اس لیے اپنے دور میں انھیں وہ مقام نہیں ملا جس کے وہ حق دار تھے مگر آنے والے ادوار میں ان کے کلام نے اپنے میرِٹ(merit) کی بنیاد پرتمام عالم میں اپنا لوہا منوایا۔
رالف رسل کے مطابق "اگر غالب انگریزی زبان میں لکھتے تو تمام زبانوں کے ہی نہیں بلکہ رہتی دنیا کے عظیم ترین شاعر ہوتے۔"
اردو اور فارسی منظوم کلام کے ساتھ ساتھ ان کے خطوط بھی نثری ادب کا ایک شاہ کار تسلیم کیے جاتے ہیں۔
اردو اور فارسی زبان و ادب پر غالب زبردست مہارت رکھتے تھے۔ وہ اپنے داخلی خیالات، احساسات اور واردات کو اپنی نکتہ آفرینی اور جدت ادا سے لافانی بنا دیتے ہیں۔ وہ اپنی فن کاری سے ایک سادہ سی بات کو بھی اپنے اچھوتے انداز سے کچھ اس طرح پیش کرتے ہیں کہ پڑھنے والا عش عش کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
رگ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا
جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہوتا
ڈاکٹر عبادت بریلوی لکھتے ہیں، ”غالب زبان اور لہجے کے چابک دست فن کار ہیں۔ اردو روزمرہ اور محاورے کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ اس کی سادگی دل میں اتر جاتی ہے۔“
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
غالب طبیعتاً آزاد مشرب انسان تھے. وہ کسی قسم کی مذہبی، سماجی اور فکری بندشوں سے خود کو آزاد سمجتے تھے اور کبھی کبھار ان بندشوں کے خلاف علم بغاوت بھی بلند کرتے تھے۔
اپنی رندانہ روش کے باوجود وہ ایک صوفی کی نگاہ رکھتے تھے۔
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
غالب کے یہاں استدلالی اندازِ بیان اور جدت ادا اس قدر دل آویز اور پختہ ہے کہ ہر کوئی داد دینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
ایک موقعے پر اردو کے معروف ناقد شمس الرحمان فاروقی نے کہا تھا: ‘اس آدمی (غالب) کی ہم کیا بات کریں، اس کو جہاں سے آپ اٹھاؤ، جس پہلو سے دیکھو، جہاں جس کونے کو اٹھاؤ کوئی نہ کوئی نیا پہلو نکالتا ہے۔`
ان کے مطابق کوئی شاعر اس وقت تک عظیم ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ اس کی شاعری زمان و مکاں کی قید سے آزاد نہ ہو اور معروف مصنف ولیم ڈیلرمپل کے مطابق غالب شیکسپیئر جیسے دوسرے عظیم شاعروں کی طرح ہر زمانے کے لیے ہیں۔
دیوان غالب کے پہلے شعر میں ہی غالب نے اپنے فن کا غیر معمولی مظاہرہ کرتے ہوئے دنیا میں انسانوں کی حالت زار کو بڑی خوبی سے پیش کیا ہے۔ اس شعر کی تفہیم میں کئی نامور شارحین نے خامہ فرسائی کی ہے اور اس کی تسہیل و تشریح میں کافی دل چسپی دکھائی ہے۔ سب نے یک زبان ہو کر غالب کی بے مثال فن کاری اور ذہنی افتاد کو سراہا ہے اور ان کی بلاغت کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن، ہر پیکرِ تصویر کا
ایک شارح کے مطابق "اس شعر کی مثال اردو ادب تو کیا عالمی ادب میں ملنی مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے. البتہ اس شعر سے جزوی مماثلت مولانا روم کی "بشنو از نے"رکھتی ہے. لیکن اس میں غالب کے مطالب میں سے ایک ہی مطلب جزوی طور پر بیان ہوا ہے. اگر کسی نے حقیقت میں دریا نہیں بلکہ سمندر کوزے میں بند کیا ہے تو وہ غالب نے کیا ہے. کیا یہ کمال نہیں ہے کہ ایک ہی شعر بیک وقت حمدیہ بھی ہو، وجودی بھی ہو، طنزیہ بھی ہو، المیہ بھی ہو، اور اگر ایک خاص لہجے میں پڑھیں تو وہی شعر سننے والے کو آگ بگولا بھی کر دے."
غالب کو ‘غم کا شاعر` بھی کہا جاتا ہے کیونکہ غمِ ہستی کو انھوں نے اپنے کلام میں خاص طور پر زبان دی ہے۔ ان کی نظر میں انسان کا موجود ہونا ہی اس کے غم و اندوہ کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ کبھی کبھی وہ تسلیم و رضا کی خو ڈالنے کی بات کرتے ہیں تو کبھی بےباکی کے ساتھ اپنے خالق پر طنزیہ انداز میں شکوہ و شکایت بھی کرتے ہیں۔
ہم کہاں کے دانا تھے کس ہنر میں یکتا تھے
بے سبب ہوا غالبؔ دشمن آسماں اپنا
غالب میں تشکک پسندی اور یقین کا امتزاج پایا جاتا ہے جسے وہ گاہے گاہے اپنی شاعری میں استعمال کرتے ہیں۔
کبھی جنت کی حقیقت پر طنز کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے
اور کبھی کچھ اس انداز سے اظہار بندگی کرتے ہیں۔
جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا
غالب کے کلام میں فلسفیانہ مسائل کے ساتھ ساتھ عشق و عرفان کی چاشنی بھی پائی جاتی ہے۔ وہ زیادہ تر غمِ عشق سے ہی نڈھال نظر آتے ہیں اور عشق کو ہی سرمایہ حیات قرار دیتے ہیں:
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
درد کی دوا پائی درد بے دوا پایا
ان کی نظر میں عشق درد بھی ہے اور دوا بھی اور محبت کے سوز و گداز کے بغیر زندگی میں کوئی لطف نہیں۔ بزم ہستی سوزِ محبت سے ہی آراستہ ہے اور اسی کے فیض سے یہ دنیا آباد ہے۔
کلام غالب سے ہر کوئی محظوظ ہوتا ہے، ان کے اشعار کانوں میں رس گھولتے رہتے ہیں اور ان کی طرز کا ہر کوئی دل دادہ ہے۔ کچھ لوگ غالب کے اشعار کو صرف پڑھ لیتے ہیں اور محظوظ ہوتے ہیں، کچھ لوگ پڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کو سمجھنے کا بھی حوصلہ رکھتے ہیں مگر بہت کم لوگ ایسے ہیں جو ان کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ محسوس بھی کرلیتے ہیں. حالانکہ غالب ایسا شاعر ہے جسے پڑھنے اور سمجھنے کے ساتھ ساتھ محسوس کرنے کی ضرورت ہے.
گلزارؔ نے کلامِ غالب کی تفہیم کے لیے کچھ اس طرح سے نصیحت کی ہے:
"ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں! غالب کے اشعار کو سمجھ لیا اور محسوس نہ کیا، تو کچھ نہ کیا۔ آپ نے غالب کو محسوس کیا اور تب سمجھا! بہت بڑا کام کیا۔"

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے