لڑکیوں کی شادی کی عمر

لڑکیوں کی شادی کی عمر

✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ، پھلواری شریف، پٹنہ
رابطہ : 9431003131

۱۷؍ دسمبر ۲۰۲۱ء کو مرکزی حکومت کی کابینہ نے لڑکیوں کی شادی کی عمر بڑھا کر اکیس (۲۱) سال کر نے پر اتفاق کر لیا، وزیراعظم نریندر مودی نے یوم آزادی کے موقع سے اپنے خطاب میں اس کا تذکرہ کیا تھا کہ لڑکیوں کی شادی کی عمر کے سلسلے میں جائزہ لیا جا رہا ہے، اس کے بعد جیا جیٹھلی کی صدارت میں ایک ٹاسک فورس کی تشکیل عمل میں آئی تھی اور اس کی سفارش کی روشنی میں کابینہ کی منظور کے بعد وزیر اسمرتی ایرانی نے اسے پارلیامنٹ میں پیش کر دیا ہے، گو اسے پاس نہیں کیا گیا ہے، حزب مخالف کے شور شرابے سے مجبور ہو کر حکومت نے اسے اسٹینڈنگ کمیٹی کے سپرد کر نے کا فیصلہ کیا ہے۔
ہندستان میں کم عمر کے بچے بچیوں کی شادی پر روک لگانے کی غرض سے ایشور چندر ودیا ساگر نے ۱۸۵۰ء میں کم عمر کی شادیوں کے خلاف عوامی بیداری پیدا کرنے کے لیے تحریک چلائی تھی، جیوتی باپھولے، گوپال ای دیش مکھ، جسٹس رانا ڈے، کے ٹی تلنگ، ڈی کے کردے نے بھی عورتوں کی حالت سدھارنے کے لیے عوامی بیداری لانے کے کام میں سرگرم حصہ داری نبھائی تھی، اس کے نتیجے میں ۱۸۹۰ء میں لڑکیوں کی شادی کی عمر دس سے بڑھا کر بارہ سال کی گئی۔ ۱۹۲۷ء میں ہرلاس ساردا جو ایک ماہر تعلیم، جج اور سماجی اصلاح کے کام کے لیے مشہور تھے، انھوں نے لڑکوں کے لیے شادی کی عمر اٹھارہ (۱۸) اور لڑکیوں کی عمر چودہ (۱۴) سال رکھنے کی تجویز رکھی تھی، ۱۹۲۹ء میں یہ قانون بنا اور انہی کے نام پر اس قانون کا نام ساردا ایکٹ رکھا گیا، یہ قانون مسلم پرسنل لا کے خلاف تھا، اس لیے امارت شرعیہ نے اس بل کے خلاف تحریک چلانے کا فیصلہ کیا، بانی امارت شرعیہ ابوالمحاسن مولانا محمد سجاد نے مسلمانوں کو اس بل کے منسوخ نہیں ہونے کی صورت میں سول نا فرمانی کی تحریک چلانے کا مشورہ دیا، اس کے لیے ’’تحفظ ناموس شریعت‘‘ کے عنوان سے ایک ایکشن کمیٹی بنائی گئی. اس کا ناظم مولانا ابو المحاسن محمد سجاد کو چُنا گیا، پورے ملک میں منظم تحریک چلائی گئی، امارت شرعیہ کی زیر سرپرستی احتجاجی جلسے منعقد ہوئے اور ہر جگہ سے وائسرائے ہند کو تار کے ذریعہ احتجاج درج کرایا گیا، قانون تو ختم نہیں ہوا، البتہ اس احتجاج کے نتیجے میں حکومت کی طرف سے عمل در آمد کا کام نہیں ہو سکا۔
آزادی کے برسوں بعد ۱۹۷۸ء میں اس قانون میں ترمیم کرکے لڑکوں کی شادی کی عمر اکیس (۲۱) اور لڑکیوں کی اٹھارہ سال کر دی گئی، جو اب تک رائج ہے، البتہ اس قانون کی وجہ سے کم عمر کی شادیوں پر روک نہیں لگ سکی؛ کیوں کہ یہ ایک سماجی مسئلہ تھا اور لڑکے، لڑکیوں کی جسمانی ساخت اور بلوغیت پر منحصر تھا؛ اس لیے عملی طورپر اس کو برتا نہیں جا سکا، عام رجحان یہ بنا کہ یہ شخصی آزادی پر پابندی کے مترادف اور بنیادی حقوق کی دفعات میں جس قسم کی آزادی کا ذکر ہے یہ اس کی روح کے منافی ہے، لیکن حکمراں طبقہ اس دلیل سے مطمئن نہیں تھا، چنانچہ ۲۰۰۶ء میں بچوں کی شادی پر روک کا قانون بنا کر اسے جرم کے دائرہ میں لایا گیا، اور اس کے لیے دو سال جیل اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا بھی مقرر کی گئی، لیکن یہ قانون فطرت کے خلاف تھا، اس لیے آج بھی اس قانون کے خلاف شادیاں ہو رہی ہیں اور اعداد و شمار کے اعتبار سے راجستھان اس معاملہ میں سب سے آگے ہے۔
خود قانونی اعتبار سے اس میں بڑا تضاد ہے، اٹھارہ سال کی عمر میں حکومت لڑکے لڑکیوں کو بالغ مانتی ہے اور اس عمر کو پہنچ کرسارے اختیارات لڑکے لڑکیوں کو حاصل ہوجاتے ہیں، وہ سرکاری نوکری حاصل کر سکتا ہے، کمپنی کھول سکتا ہے، ووٹ کا حق اسے مل جاتا ہے، لیکن وہ اپنی شادی نہیں کر سکتا، کیوںکہ وہ ابھی اکیس (۲۱) برس کا نہیں ہوا ہے۔ اسی طرح ہم باشی (لیو ان ریلیشن شپ) کے لیے بھی عمر کی قید نہیں ہے اور اسے ہندستان میں قانونی حیثیت حاصل ہے، لڑکا، لڑکی بغیر کسی ذمہ داری لیے ایک کمرے میں رہ کر گل چھڑے اڑائے تو غیر قانونی نہیں، کئی کئی گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ سے ریلیشن شپ رکھے تو قانون اس پر دار و گیر نہیں کرتا، بلکہ مختلف عدالتوں کے فیصلے میں اس تعلق پر دار و گیر کرنے سے منع کیا گیا ہے، بلکہ بعض فیصلوں میں ریلیشن شپ میں رہنے والوں کو تحفظ فراہم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
آخر سرکار کو اس سے کیا دل چسپی ہے؟ یہ ایک سوال ہے، سرکار کہتی ہے کہ شادی کی عمر میں مرد و عورت میں تفریق صنفی بنیاد پر قانون کے مطابق نہیں ہے، اس کے جواب میں اسد الدین اویسی صاحب نے یہ بات صحیح کہی ہے کہ اگر تفریق درست نہیں ہے تو اتنے دن سے اسے قانون کے دائرہ میں کیوں رکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ لڑکوں کی عمر ہی کم کرکے اٹھارہ سال کر دو، مساوات ہوجائے گی، لیکن اصل بات یہ ہے کہ سرکار چاہتی ہے کہ شادی کی عمر جتنی بڑھائی جائے گی، توالد و تناسل کی مدت اسی قدر کم ہوتی جائے گی، اور بڑھتی آبادی پر اس طرح بھی قابو پایا جا سکے گا، یہ ایک منفی سوچ ہے اور اس منفی سوچ کی مارصرف مسلم پرسنل لا پر ہی نہیں، بھارتیہ عیسائی ازدواجی ایکٹ، پارسی ازدواجی و طلاق ایکٹ، خصوصی اطفال ازدواجی ایکٹ، مسلم عائلی قانون (شریعت) طلاق ایکٹ، خصوصی ازدواج ایکٹ، ازدواج ہنود ایکٹ (۱۹۵۵) اور غیر ملکی ازدواج ایکٹ کے بھی خلاف ہے، اس قانون کو پاس کرنے کی وجہ سے حکومت کو ان تمام ایکٹ میں تبدیلیاں لانی ہوں گی، جو بہت آسان نہیں ہوگا۔
اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ لڑکا لڑکی بالغ ہوجائے تو اس کو ازدواجی رشتے میں بندھ جانا چاہیے؛ تاکہ جنسی بے راہ روی میں مبتلا ہونے کا امکان ختم ہوجائے اورمیاں بیوی ایک دوسرے کے لیے سکون و محبت کا ذریعہ بن جائیں۔ اس سلسلے میں واضح ہدایات دی گئی ہیں کہ اگر کوئی ایسا معقول رشتہ مل جائے، جس کے دین و ایمان سے تم مطمئن ہو تو اسے رشتہ نکاح میں باندھ دو، ورنہ بڑے فساد کا اندیشہ ہے، یہ بڑا فساد وہی جنسی بے راہ روی، زنا کاری، بن باپ کے بچوں کی ولادت ہے، اس لیے ہمیں یہ قانون کسی طرح منظور؛ بلکہ گوارہ نہیں ہے، جب اٹھارہ سال کی عمر میں شادی ہو تی ہے تو ان کی تولیدی صلاحیت میں کمی محسوس کی جارہی ہے اور ایک سروے کے مطابق تیرہ فی صد عورتیں بانجھ پن کی شکار پائی جا رہی ہیں، تین سال عمر میں اضافہ کی وجہ سے بانجھ پن میں مزید اضافہ ہوگا، یہ ہماری سوچ نہیں، دہلی میڈیکل کونسل کے سکریٹری ڈاکٹر گریش تیاگی کا کہنا ہے۔
ہندستان کی مختلف ریاستوں میں بلوغیت کی عمر لڑکیوں کی الگ الگ ہے، اس میں رہن سہن کے طریقے، کھانے پینے اور موسم کا بھی اثر ہوتا ہے، ماہر طبیبوں کی رائے اس سلسلہ میں یہ ہے کہ جسمانی ساخت کے اعتبار سے لڑکیاں، لڑکوں سے عمر کے اعتبار سے بہت پہلے بالغ ہوجاتی ہیں، ان کے اندر جنسی تبدیلی نو سال کے بعد سے شروع ہونے لگتی ہیں، اور بارہ سال کی عمر ان کی اس لائق ہوتی ہے کہ وہ رشتۂ ازدواج میں بندھ سکیں۔ تیس برس کی ہوتے ہوتے ان کی تولیدی صلاحیت اس قدر کم زور ہونے لگتی ہے کہ ماں بننے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ معاشی طور سے کم زور والدین اپنی اس ذمہ داری سے جلد سبک دوش ہونا چاہتے ہیں، انھیں اپنی ضعف و علالت کی وجہ سے بھی ان کے ہاتھ پیلے کرنے کی جلدی ہوتی ہے، ایسے میں تین سال مزید انتظار ان کے لیے انتہائی پریشان کن ثابت ہوگا، معقول رشتے جلد ملتے نہیں ہیں، مل جائیں تو اس مرحلہ سے گذرجانے میں ہی عافیت محسوس کیا جاتا رہا ہے، سرکار اچھی طرح جانتی ہے کہ لڑکیوں کی شادی کی عمر بڑھا دینے سے کوئی انقلاب آنے والا نہیں ہے. یہ کام ہمیشہ سے لڑکیاں اپنی مرضی یا گارجین کی ہدایت پر کرتی رہی ہیں، اب بھی ایسا ہی ہوگا۔ البتہ اس قانون کے ذریعہ ملک کی عوام کو تقسیم کرکے ووٹر کو اپنی طرف کیا جا سکے گا.
مفتی صاحب کی یہ نگارش بھی پڑھ سکتے ہیں :تعلیمی نصاب کا بھگوا کرن

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے