طالب علم  : ایک غیر معمولی شخصیت

طالب علم : ایک غیر معمولی شخصیت

عبدالرحمٰن
نئی دہلی
(سابق چیف منیجر، الہ آباد بینک)

اس حقیقت کا ادراک مشکل نہیں کہ بیک وقت ایک طالب علم معلم بھی ہوسکتا ہے اور ایک معلم طالب علم! علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں خود راقم الحروف کو اپنی کلاس کے کچھ اسٹوڈنٹس کو پڑھانے کا شرف حاصل رہا ہے۔
یہاں زیر نظر مضمون کے تحت ‘طالب علم اور استاد، استاذ یا معلم` کے مابین واقع امتیازی حیثیت کا مطالعہ کرنا ہمارا مقصود ہے۔ میرے خیال میں، اس سمت میں مزید وضاحت سے قبل موجودہ دور کے ایک معروف اسلامی عالم و معلم کا حوالہ درج کرنا نہایت موزوں رہے گا۔
واضح رہے کہ مذکورہ عالم کا حوالہ کسی مسلکی یا نظریاتی ہم آہنگی کی وجہ سے نہیں دیا جا رہاہے، بلکہ ان کی شخصیت کے ایک سبق آموز پہلو سے علمی استفادہ کرنے کی غرض سے ایسا کیاجانا ضروری ہو جاتاہے۔
ویسے بھی "حکمت و دانائی کی بات مومن کا گمشدہ سرمایہ ہے، جہاں بھی اس کو پائے وہی اس کا سب سے زیادہ حق دار ہے" ( سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 4169)۔
حقیقت واقعہ کے طور پر، ‘جاوید احمد غامدی` عالم اسلام کا ایک قابل احترام نام ہے! وہ اسلامیات کے ایک بڑے عالم اور محقق ہیں، جنھوں نے قرآن اور دین اسلام کے موضوع پر بیش قیمتی علمی و تحقیقی کام کیا ہے۔ قرآن پاک کی ایک منفرد تفسیر کے علاوہ، قریب 700 صفحات کی صرف ایک جلد پر مشتمل "میزان" نام کی کتاب میں پورے کا پورا دین (اسلام) بیان کردینا ان کا خاص امتیاز ہے۔
غامدی صاحب کے تمام طلبا جنھیں وہ درس دیتے ہیں اور تمام متعلقین جو ان کے مختلف ادارے سنبھالتے ہیں اور علمی کاوشوں میں ان کی معاونت کرتے ہیں، سبھی ان کو "استاذ محترم" کہتے ہیں، جب کہ بذات خود وہ متفرق اجتماعات وغیرہ میں دین کا ایک "طالب علم" کے طور پر اپنا تعارف کراتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
یہاں پر میری ساری بحث اس نقطہ پر مرکوز رہے گی کہ ایک عالم اور معلم ہونے کے باوجود، علامہ یا مولانا جیسے القاب سے منسوب کرنے کی بجائے، ان کے لفظ طالب علم سے خود کو متعارف کرانے میں کیا کوئی حکمت پوشیدہ ہے؟
یوں تو شیکسپیئر (Shakespeare ) نے فرمایا تھا کہ ” نام میں کیا رکھا ہے"
(What’s in a name)
مگر ہمارا مدعا اس سے مختلف ہے اور یہاں نام میں بہت کچھ رکھا ہے۔
آئیے، یہ دریافت کر نے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایک معلم کی شخصیت کے مقابلہ میں ایک طالب علم کی شخصیت کو کیوں کر امتیازی درجہ حاصل رہ سکتا ہے!
ہمارے کیا، کسی بھی معاشرے میں ہر فرد اپنی زندگی جینے کے لیے کوئی نہ کوئی ہدف مقرر کرتا ہے، اور پھر اس کو حاصل کرنے کے لیے اپنا لائحہ عمل وضع کرتا ہے۔ طالب علمی کے شروعاتی دور سے ہی یہ سلسلہ جاری ہوجاتا ہے۔ کوئی گریجویٹ، کوئی پوسٹ گریجویٹ تو کوئی ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کو اپنا ہدف بناتا ہے۔ کسی کا خواب انجینئر، کسی کا خواب ڈاکٹر، کسی کا خواب ایک معلم بننا ہوتا ہے، جب کہ دوسرے بہت سارے افراد میدان قانون، میدان اقتصادیات و معاشیات اور ملک کی انتظامیہ کے میدان میں درجہ امتیاز حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ، کچھ لوگ علم کے مختلف شعبہ جات میں اختصاص حاصل کرنے کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں، تو وہیں شہریوں کی ایک بڑی تعداد افواج کے مختلف شعبوں میں شمولیت حاصل کر ملک کی حفاظت کی نیت سے ملک کی سرحدوں پر اپنی ذمہ داری نبھانا پسند کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ایک طبقہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ سائنس داں بننے کی تمنا رکھتا ہے، جس کی رو سے قوانین فطرت کی دریافت میں حصہ لے کر، ملک و ملت کی بہبود سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر بڑے پیمانے پر نوع انسانی کی خدمت کا کام انجام دیتا ہے۔ غرضے کہ، اپنے اپنے فطری رجحانات، طاقت و توانائی اور اہلیت و لیاقت کے تناظر میں سبھی لوگ اپنا اپنا ہدف متعین کرتے ہیں ۔
اسی کے شانہ بہ شانہ، ہمارے معاشرے میں کامیاب زندگی کی ضمانت کے طور پر قبولیت حاصل کر چکے مختلف معیارات ہمارے مقصد حیات کو طے کرنے میں اثر انداز ہوتے ہیں۔
موجودہ صورت حال میں، بڑے بڑے مناصب پر فائز ہونا، خوب دولت کمانا، بڑے بڑے محل و باغات تعمیر کرنا، خوب شہرت حاصل کرنا وغیرہ وغیرہ، زندگی کے بڑے نصب العین سمجھے جاتے ہیں۔ اپنے نصب العین تک پہنچنے کے لیے انسان محنت و مشقت کی کسی بھی حد تک جانے میں گریز نہیں کر تا ہے۔
جائز طریقہ سے دولت کمانا، اپنی حس جمالیات کی تسکین کا سامان کرنا، آسائش کی زندگی بسر کرنا کبھی بھی معیوب نہیں ہوتا، بلکہ اسلام تو ان سب کوششوں کو اللہ تعالی کا فضل تلاش کرنے سے تعبیر کرتا ہے (قرآن: سورة الجمعة، آیت 10)۔
یہاں بنیادی بات یہ ہے کہ امتحان کے لیے بنائی گئی موجودہ دنیا میں مادی اشیا کبھی بھی سکون و اطمینان کا ذریعہ نہیں بن سکتیں، کیونکہ یہ چیزیں صرف انسان کی ضرورت اور اس کی آزمائش کے لیے فراہم کی گئی ہیں۔ اس پس منظر میں، مادی ساز و سامان کے حصول کو مقصد زندگی بنانا، الٹے نتائج پیدا کرنے والا (counterproductive) ثابت ہو سکتا ہے۔ افراط مال و زر انسان کو صراط مستقیم سے ہٹاکر ‘استکبار` جیسے مہلک عذاب میں مبتلا کر سکتا ہے۔ استکبار کے متعلق اسلامی تعلیمات کا خلاصہ کچھ اس طرح سے ہے کہ "اونٹ سوئی کے ناکہ میں داخل ہو سکتا ہے، مگر مستکبر جنت میں داخل نہیں ہوسکتا" (قرآن: سورة الأعراف، آیت 40 )۔
چونکہ مادی عیش و آسائش کا ہدف قابل حصول ہوتا ہے، اس لیے بیش تر افراد مضبوط ارادوں اور محنت و جاں فشانی کے دم پر، اپنی دولت-شہرت، بنگلہ-گاڑی اور سامان عیش و عشرت کی منزل پر جلد یا بدیر پہنچ ہی جاتے ہیں، مگر اپنی خواہشات کی منزل پر پہنچ کر انسان ایک غیر متوقع حادثہ کا شکار ہوتا ہے!
چاہی ہوئی ہر چیز مل جانے کے بعد اس کی نفسیات بدل جاتی ہے، اب اس کو لگنے لگتاہے کہ زندگی جیسے ختم ہوگئی ہے اور اب اس کا کوئی جواز باقی نہیں رہا۔ ایسے ہی دولت مند لوگوں کے قصوں سے رسائل بھرے پڑے ہیں، جنھوں نے اس لیے خود کشی کرلی کہ ان کی اپنی دولت اور اپنی شہرت ہی انھیں ڈسنے لگی تھیں۔ جو لوازمات کبھی ان کی زنگی کا ہدف ہوتے تھے، وہ ان کے ڈپریشن کا سبب بن گئے۔
مادی ہدف کے حصول میں جینے والوں کو بہت جلد یہ تلخ تجربہ ہو جاتاہے کہ ان کی تمناؤں کی ندی کی روانی ختم ہوگئی ہے، اور وہ رکے ہوئے پانی کا ایک تنگ تالاب بن کر رہ گئی ہے۔ اس حقیقت سے کون واقف نہیں کہ رکا ہوا پانی بہت جلد سڑنے لگتا ہے اور مکدر ہو جانے کی وجہ سے کسی مصرف کا نہیں رہتا۔
رکے ہوئے پانی کے حوالہ سے مجھے اپنی زندگی کا ایک اہم واقعہ یاد آتا ہے۔ سبق آموز ہونے کی وجہ سے یہاں نقل کرنا مناسب رہےگا:
بہترین کارکردگی اور اہلیت کے باوجود مجھے قریب پانچ سال تک چیف منیجر کی حیثیت میں پروموشن نہیں ملا۔ سنہ 2014ء میں جس انٹرویو کے بعد چیف منیجر کے طور پر میرا تقرر ہوا وہ بہت دل چسپ ہے۔ متفرق قسم کی گفتگو کے درمیان، بہت ہی سنجیدہ اور پر اعتماد طریقہ سے میں نے انٹرویو بورڈ کے چیئرمین سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا، "سر، اتنا جان لیجیے کہ نو چینج، نو چیلنج.
(no change, no challenge)
اور یہ بھی کہا کہ رکا ہوا پانی بے کار ہو جاتاہے اور اس سے کسی طوفان کی امید نہیں کی جاسکتی۔"
اس خطاب کے ساتھ ہی بورڈ کا ماحول یکسر بدل گیا۔ مجھے محسوس ہوا کہ میں جو پیغام ارسال کرنا چاہتا تھا وہ ہو گیا ہے۔ بورڈ کے سبھی ممبران نے سرگوشی کے انداز میں آپس میں بات کی۔ انٹرویو اس اطلاع پر ختم ہوا کہ "وہ سب مجھے چیف منیجر بنانے پر متفق ہیں۔" چند دنوں کے بعد جب رزلٹ آیا تو مجھے دی گئی خبر درست پائی گئی، الحمدللہ!
مادی اہمیت کی چیزوں کو مقصد حیات تصور کرنے والے اشخاص کے نا مبارک انجام کے بر عکس، طالب علم یعنی اپنے سیکھنے کی روح کو زندہ رکھنے والا اور علم کے سلسلہ کو جاری رکھنے والا ایک شخص کش مکش سے بھری اس دنیا میں بھی سکون و اطمینان کی زندگی حاصل کر لیتا ہے۔ مدرسہ، اسکول، کالج، یونی ورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والے بچے اور نوجوان ہی طالب علم نہیں ہوتے، مدرسوں کے مدرس، قاری، مولوی، مفتی؛ یونی ورسٹیوں کے لیکچرر، ریڈر، پروفیسر؛ بڑے بڑے سرکاری عہدوں پر فائز افسران؛ بڑے بڑے بزنس اور انڈسٹری چلانے والے سیٹھ اور ساہوکار؛ یہاں تک کہ بڑی بڑی سیاسی اور حکومتی شخصیات بھی طالب علم ہو سکتی ہیں اور طلب علم کے ساتھ اپنے لیے ایک باوقار زنگی تشکیل دے سکتی ہیں۔
علم حاصل کرنے کی تاکید اللہ تعالی کی طرف سے کی گئی ہے( قرآن: سورة العلق، آیت 1 )، شاید اسی لیے علم حاصل کرنا کسی کے لیے کبھی بھی اکتاہٹ و اداسی کا سبب نہیں رہا، بلکہ طالب علم کا علمی ہدف حصول کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتا رہتا ہے، اور وہ کسی بھی مرحلہ میں زندگی کے "بے کیف" ہونے کے تجربہ سے دوچار نہیں ہوتا، اور ہمیشہ تروتازہ بنا رہتا ہے۔ جیسا کہ سقراط ( Socrates ) کے نام سے مشہور ہے ــ
"Smart people learn from everything and everyone ۔۔۔”
یعنی ہوشیار لوگ ہر ایک چیز سے اور ہر ایک انسان سے سیکھتے ہیں۔ طالب علم سے زیادہ ہوشیار اور کون ہو سکتا ہے؟ اس لیے ایک طالب علم ہر ایک چیز سے اور ہر ایک انسان سے سیکھتا ہے۔ ایک سچا طالب علم ہی اس مقولہ کو درست ثابت کرتا ہے کہ "گود سے گور تک علم حاصل کرو۔" علم کی طلب زندہ رکھنے والا ایک شخص استکبار کی جملہ نفسیاتی بیماریوں اور پیچیدگیوں سے بھی پاک رہتا ہے، کیونکہ وہ دنیا کی بے ثبات چیزوں کو اپنا مقصد زیست نہیں بناتا کہ اس کے حاصل ہونے پر اترانے لگے، اور شکران خدا وندی سے بھی محروم ہوجائے۔
کسی بھی میدان میں سرگرم جملہ عہدیدار، افسران، مدرس اور معلم وغیرہ استاد، استاذ اور معلم حضرات کے ساتھ بہ خوبی بریکٹ کیے جاسکتے ہیں۔ ایک طالب علم کی طرح زندگی بسر کرنے والے کو ہر روز نئے پن کی حلاوت محسوس ہوتی رہتی ہے، اس لیے اس کے کام سے ریٹائر ہو جانے کا بھی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ نوبل انعام یافتہ سائنس داں اس امر کی بہترین مثال ہیں کہ بڑی بڑی عمر تک اپنے علمی تجسس کو مطمئن کرنے کے لیے علمی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں، اور جوان بنے رہتے ہیں۔ کسی نے خوب کہا ہے کہ "اپنے سیکھنے کی للک کو زندہ رکھیے اور دیر تک جوان رہئے"۔ ہمارے موجودہ معاشرہ کے تاثرات کے برعکس، علمی طلب میں سرگرداں افراد زندگی کے لوازمات سے بھی محروم نہیں رہتے ہیں، ہاں، بس لوازمات ان کی زندگی کا ہدف نہیں ہوتے۔
علم والے ہی اللہ تعالی کے خاص ہوتےہیں۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالی ہے کہ اللہ سے اس کے بندوں میں سے صرف وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں (قرآن: سورہ فاطر، آیت 28 )۔
مذکورہ آیت سے متاثر ہونے والے یقیناً اپنے علم کو بڑھانے اور اس کو پاکیزہ بنائے رکھنے کی جدوجہد سے بےنیاز نہیں رہ سکتے۔ وہ ‘رب ذدنى علما` یعنی اے اللہ میرے علم کو بڑھادے ( قرآن: سورہ طه، آیت 114) جیسی دعاؤں سے مستقل طور پر وابستہ ہو جاتے ہیں۔ اسی قسم کے لوگ سچے ‘طالب علم` کے زمرہ میں آتے ہیں.
شان و شوکت، عہدہ و مناصب اور دولت و ثروت جیسے ناپائیدار مقاصد انسان کے شایان شان نہیں، اسی لیے وہ اس کو سکون بھی نہیں دے سکتے۔ صرف اور صرف ‘معرفت الٰہی` ہی وہ ہدف ہے جو ‘ہمیشہ اطمینان` سے ہم کنار رکھتے ہو دائمی منزل سے متعارف کراتا ہے۔
قرآن پاک میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ
زمین میں جتنے درخت ہیں اگر وہ سب کے سب قلم بن جائیں اور سمندر (دوات بن جائے) جسے سات مزید سمندر روشنائی مہیا کریں تب بھی اللہ کی باتیں(لکھنے سے) ختم نہ ہوں گی۔ بے شک اللہ زبردست اور حکیم ہے( سورہ لقمان، آیت 27)۔ اللہ تعالی کی لا محدود معرفت حاصل کرنے والا ایک شخص کیونکر ایک معمولی شخصیت ہو سکتا ہے، دنیا میں موت آنے کے بعد بھی آخرت میں اس کی معرفت کا سفر جاری رہےگا۔
اے اللہ، تو مجھے اور میرے ہم عصر مسلمانوں کو اپنی معرفت عطا کر اور اپنے ہدایت یاب مومنین و صالحین کی صف میں شامل فرما۔ آمین!
***
صاحب تحریر کی یہ نگارش بھی ملاحظہ فرمائیں :جہیز، مسلم معاشرہ اور قرآنی ہدایات

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے