ہم نئے سال کی آمد پہ ہنسیں یا روئیں

ہم نئے سال کی آمد پہ ہنسیں یا روئیں

امان ذخیروی، ذخیرہ، جموئی، بہار
رابطہ: 8002260577

اوڑھ کر شام سے تقدیر کی چادر سوئیں
ہم نئے سال کی آمد پہ ہنسیں یا روئیں

ہر زباں پر ہے یہ چرچا کہ نیا سال آیا
دور ماضی گیا اور پیش نظر حال آیا
آو دکھلائیں اسے اپنی ہتھیلی بڑھ کر
وقت کی چاک پہ بیٹھا کوئی رمال آیا

اس پہیلی سے ذرا ہم بھی تو واقف ہوئیں
ہم نئے سال کی آمد پہ ہنسیں یا روئیں

سب کو معلوم شب غم کی حکایت کیا ہے
جانے والے کی ہوئی ہم پہ عنایت کیا ہے
روح زخمی ہے، ہر اک تار نفس ٹوٹا ہے
حکم اب کیا ہے، مشیت کی ہدایت کیا ہے

خوش گمانی کی یہ صندوق کہاں تک ڈھوئیں
ہم نئے سال کی آمد پہ ہنسیں یا روئیں

بیس، اکیس میں کیا کیا نہیں ہم نے جھیلے
کھیل حالات کے کیا کیا نہیں ہم نے کھیلے
کیسے بائیس سے امید وفا رکھیں ہم
جب کہ دیکھے ہیں اجڑتے ہوئے میلے ہم نے

بیج امید کے کیوں دل کی زمیں پر بوئیں
ہم نئے سال کی آمد پہ ہنسیں یا روئیں

درد سینے میں نہاں، اشک رواں آنکھوں سے
دل سلگتا ہے، نکلتا ہے دھواں آنکھوں سے
اب ہمیں کوئی مسرت کی گھڑی یاد نہیں
دیکھ کر سنگ ہوئے مرگ جواں، آنکھوں سے

کیسے پلکوں پہ کوئی خواب حسیں سنجوئیں
ہم نئے سال کی آمد پہ ہنسیں یا روئیں

زخم دل ہر کس و ناکس کو دکھانا کیسا
دل میں سوئی، دبی آہوں کو جگانا کیسا
ناچنا کاندھوں پہ خود اپنا جنازہ لے کر
اپنی بربادی کا یہ جشن منانا کیسا

سب تو کھو ہی چکے اب ہوش و خرد بھی کھوئیں
ہم نئے سال کی آمد پہ ہنسیں یا روئیں

دل کا صحرا کبھی گل زار بنے گا کہ نہیں
کوئی اس غم کا نگہ دار بنے گا کہ نہیں
لے کے خوشیاں بھی نیا سال کوئی آئے گا
یہ خرابا بھی ضیابار بنے گا کہ نہیں

ہو جو ایسا تو ہنسیں، داغ جگر بھی دھوئیں
ہم نئے سال کی آمد پہ ہنسیں یا روئیں
***
امان ذخیروی کی گذشتہ نظم یہاں ملاحظہ ہو:در شان ڈاکٹر مقبول منظر بہ حوالہ شعری مجموعہ: چھاؤں مرے حصّے کی

شیئر کیجیے

One thought on “ہم نئے سال کی آمد پہ ہنسیں یا روئیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے