حسین الحق کے ساتھ اردو فکشن کے ایک اسلوب کا خاتمہ ہوگیا: پروفیسر شہزاد انجم

حسین الحق کے ساتھ اردو فکشن کے ایک اسلوب کا خاتمہ ہوگیا: پروفیسر شہزاد انجم

شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام حسین الحق کی رحلت پر تعزیتی نشست کا انعقاد

(٢٧/دسمبر،نئی دہلی) شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام عہد حاضر کے ممتاز فکشن نگار حسین الحق کے سانحۂ ارتحال پر تعزیتی جلسے کا انعقاد کیا گیا۔ صدر شعبہ پروفیسر شہزاد انجم نے ان کی شخصیت، زندگی، علمی و ادبی کارناموں پر مفصل گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کا تعلق ایک علمی اور صوفیانہ گھرانے سے تھا۔ ان کی تربیت باضابطہ خانقاہی ماحول میں ہوئی تھی اور اس کے گہرے اثرات ان کی طبیعت و مزاج اور تخلیقی افتاد پر نظر آتے ہیں۔ انھوں نے کسی جبر کو قبول کیے بغیر اپنی شرطوں پر زندگی گزاری۔ حسین الحق کے ساتھ اردو فکشن کے ایک اسلوب کا خاتمہ ہوگیا۔ پروفیسر احمد محفوظ نے رنج و ملال کی کیفیت میں کہا  کہ بلاشبہ حسین الحق اس عہد کے ممتاز فکشن نگار تھے۔ ان کی خوش خلقی اور شخصی جاذبیت نہایت متاثر کن تھی۔ پروفیسر کوثر مظہری نے اظہار غم و اندوہ کرتے ہوئے ان کے تبحر علمی، قلندرانہ طبیعت اور خلاقانہ بصیرتوں کے حوالے سے انھیں خراج عقیدت پیش کیا۔ پروفیسر خالد جاوید نے اپنے تعزیتی کلمات میں حسین الحق کے فکشن کو علمی ذہانت اور تخلیقی ذہانت کے حسین امتزاج سے تعبیر کیا۔ ڈاکٹر سرور الہدیٰ نے کرب آمیز لہجے میں کہا کہ ان کا داستانوی رنگ اور علامتی بیانیہ اپنی مشرقی جڑوں سے حد درجہ وابستہ ہے اور یہ وصف انھیں اپنے ہم عصروں سے ممتاز کرتا ہے۔ ڈاکٹر خالد مبشر نے ان کی اساطیریت، بھرپور داخلی کشمکش اور درون وجودی تصادم سے خلق پذیر کرداروں کے حوالے سے انھیں یاد کیا۔ جلسے میں پروفیسر ندیم احمد، ڈاکٹر محمد مقیم، ڈاکٹر عادل حیات، ڈاکٹر جاوید حسن، ڈاکٹر ساجد ذکی فہمی، ڈاکٹر آس محمد صدیقی، ڈاکٹر آفتاب احمد منیری اور اقبال حسین وغیرہ کے علاوہ ریسرچ اسکالرز اور طلبا و طالبات موجود تھے۔

جامعہ سے وابستہ اترپردیش اردو اکادمی کے انعام یافتگان کے اعزاز میں تہنیتی جلسے کا انعقاد

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے