شمس الرحمن فاروقی کی یادمیں

شمس الرحمن فاروقی کی یادمیں

معصوم مرادآبادی

آج عہدساز نقاد اور ادیب شمس الرحمن فاروقی کی پہلی برسی ہے۔ انھوں نے گزشتہ 25 دسمبر2020 کو اپنے وطن الہ آباد میں آخری سانس لی۔ بلاشبہ وہ اردو زبان وادب کے ایک ایسے سرخیل تھے جس کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے جو علمی اور ادبی ورثہ یادگارچھوڑا ہے اس پر اردو دنیا ہمیشہ ناز کرے گی اور اس بات کی مثالیں دے گی کہ اس دور ابتلا میں بھی ہمارے درمیان ایسے ادیب اور محقق پیدا ہوئے جنھوں نے اردو ادب کو عالمی ادب سے آنکھیں چار کرنے کے لائق بنایا۔ یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ فاروقی صاحب اگر انگریزی میں ایسا ادب تخلیق کرتے تو انھیں نوبل پرائز ضرور ملتا۔ وہ ایک ہمہ جہت قلم کار تھے۔ انھوں نے اپنے لیے ایسے دقیق موضوعات کا انتخاب کیا جنھیں چھوتے ہوئے ہمارے تن آسان ادیب خوف محسوس کرتے ہیں۔ ان کی مثال ایک ایسے جوہری سے دی جاسکتی ہے جو جس چیز کو ہاتھ لگاتا ہے، وہ کندن بن جایا کرتی ہے۔ انھوں نے اپنا سفر ایک نقاد کے طور پر شروع کیا اور میرفہمی پر ایسی معرکۃ الآراء کتاب تخلیق کی جس پر اردو والے آج تک سردھنتے ہیں۔ چارجلدوں پر مشتمل میرتقی میر کی شاعری پر ان کا تنقیدی شاہ کار ”شعر شور انگیز“ ہی اتنا بڑا کارنامہ ہے کہ اگروہ کچھ اور نہ بھی کرتے تو اردو ادب کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ اور تا بندہ رہتے۔
وہ بیک وقت کئی اصناف ادب پر دسترس رکھتے تھے۔ انھوں نے اردو زبان و ادب اور خاص طور پر کلاسیکی ادب کو انگریزی سے متعارف کروایا اور دو نسلوں کی ذہنی تربیت کا فریضہ انجام دیا۔ اردو شعر وادب کو پڑھنے اور سمجھنے کے نئے زاویے ایجاد کیے اور تحریر کو سب سے بڑی طاقت ثابت کردیا۔ وہ ایک نہایت مربوط اور منظم ذہن کے مالک تھے اور موضوعات پر ان کی گرفت اتنی مضبوط تھی کہ کوئی بھی ان کی ہمسری نہیں کرسکا۔ معاملہ غالب کی تفہیم کا ہو یا میرشناسی کا یا پھر داستان گوئی کا۔ ان میدانوں میں ان کا کوئی ہمسر نہیں تھا۔ داستان گوئی کو تو انھوں نے ایک ایسے دور میں زندگی بخشی جب وہ ایک متروک صنف سمجھی جانے لگی تھی۔ انھوں نے طویل ترین داستان ”داستان امیرحمزہ“ پر جس جفاکشی اور محنت سے کام کیا، وہ شاید ہی کوئی کرسکتا۔ کلاسیکی شعر و ادب، غزل کی شعریات، میرشناسی، داستانی ادب، لغت نویسی، فکشن، ادبی صحافت اور شاعری وہ کون سا میدان ہے جو ان سے اچھوتا رہا ہو اور جس سے وہ سرخرو ہوکر نہ گزرے ہوں۔ انھوں نے کبھی کسی کو خوش کرنے کے لیے کچھ نہیں لکھا بلکہ ان کی بعض تحریریں ایسی ہیں جن پر لوگوں نے ناک بھوں چڑھائی مگر وہ اپنے کام میں مگن رہے۔ کسی نے درست ہی کہا ہے کہ فاروقی صاحب کی رحلت سے ادبی بساط الٹ گئی ہے۔
یادش بخیر!
یہ گزشتہ صدی کی آٹھویں دہائی کا قصہ ہے۔ راقم الحروف غالب اکیڈمی، نئی دہلی میں فن خطاطی کا طالب علم تھا۔ کلاس بعد دوپہر ہوتی تھی اور شام چھ بجے فراغت کے بعد ہم اکثرغالب اکیڈمی کے آڈیٹوریم میں جاکر بیٹھ جاتے تھے۔ یہاں تقریباً روزانہ ہی کوئی ادبی محفل آراستہ ہوتی جس میں دہلی وبیرون دہلی کے مشاہیر اہل قلم جمع ہوتے تھے۔یہ وہ زمانہ تھا جب دہلی میں ادبی سرگرمیاں عروج پر تھیں اور غالب اکیڈمی کے آڈیٹوریم میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی۔ جو لوگ ان محفلوں کی شان بڑھاتے تھے، ان میں مالک رام، پروفیسر گوپی چند نارنگ، پروفیسر قمررئیس، پروفیسر شمیم حنفی، پروفیسر محمدحسن، پروفیسر نثار احمدفاروقی، مجتبیٰ حسین، خواجہ حسن ثانی نظامی اورجوگیندرپال کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔فاروقی صاحب ان دنوں دہلی کے ڈاک بھون میں تعینات تھے اور اکثر ان محفلوں میں تشریف لاتے تھے۔ انھیں بڑے ادب و احترام کے ساتھ اسٹیج کی زینت بنایا جاتا۔ ان کی جو ادا دوسروں سے انھیں ممتاز کرتی تھی، وہ ان کے پائپ پینے کا نرالا انداز تھا۔ ہم نے پہلی بار کسی کو پائپ پیتے ہوئے دیکھا تھا۔ آنکھوں پر موٹا چشمہ اور نہایت دیدہ زیب لباس۔ جب وہ مہمان خصوصی یا صدر کے طور پر تقریر کرنے کھڑے ہوتے تو ان کی باتیں سن کر جی چاہتا کہ بس وہ بولتے ہی رہیں۔ ان کی زبان سے علم و فضل کے دریا بہتے تھے۔ وہ تقریر نہیں کرتے تھے اور نہ ہی غیر ضروری ہاؤ بھاؤ سے سامعین کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے تھے بلکہ بے تکلف انداز میں کسی لاگ لپیٹ کے بغیر باتیں کرتے تھے۔ حالانکہ بہت سی باتیں ہمارے سر سے گزر جاتیں کہ اس وقت ہماری عمر ہی کیا تھی۔ علمی مباحث اور تحقیق و تنقید کی بیش تر جہتیں سمجھ میں نہیں آتی تھیں، لیکن فاروقی صاحب کی گفتگو میں ایسا جادو تھاکہ ہم انھیں بہت ذوق وشوق سے سنتے تھے۔ اکثر ادبی محفلوں میں فاروقی صاحب کے دیدار ہوتے اور ہم انھیں حسرت بھری نظروں سے یہ سوچ کر دیکھتے اور سنتے تھے کہ آگے چل کر اپنے دوستوں اور ہم نشینوں کو بتائیں گے کہ
ہم نے بھی فراق کو دیکھا تھا
میں نے 1991 میں جب اپنا پندرہ روزہ اخبار”خبردار جدید“ جاری کیا تو اس کی اعزازی کاپی جن سرکردہ اردو ادیبوں کو روانہ کی جاتی تھی، ان میں شمس الرحمن فاروقی صاحب کا نام بھی شامل تھا۔ عام طور پر اتنے مصروف لوگوں کے پاس اس قسم کے اخبارات و رسائل کی اعزازی کاپیاں آتی ہیں تو وہ اکثر ردی کی ٹوکری کی نذرہوجاتی ہیں، لیکن مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ فاروقی صاحب میرے اخبار کے مستقل قاری تھے۔ اس کا اندازہ اس وقت ہوا جب میں نے پروفیسر محمدحسن کی تجہیز و تدفین کا آنکھوں دیکھا حال قلم بند کیا۔ یہ اتنا عبرت ناک تھا کہ ملک کے تمام ہی اخباروں نے اسے نقل کیا۔ اس سلسلہ میں 8 مئی2010کو فاروقی صاحب نے ای میل کے ذریعہ جو خط مجھے ارسال کیا، وہ آپ بھی ملاحظہ فرمائیں:
”برادرم معصوم مرادآبادی، السلام علیکم
ادھر کچھ دنوں سے آپ کا اخبار نہیں ملا۔ میں امید کرتا ہوں کہ میرا نام ابھی فہرست میں ہوگا۔ اگر کٹ گیا ہے تو براہ کرم دوبارہ درج کرادیں۔ آپ چاہیں تو میں مناسب رقم کا ڈرافٹ بھیج دوں۔ مجھے آپ کا اخبار بہت پسند ہے۔
محمدحسن کے جنازے اور تدفین کے بارے میں آپ کا مضمون دیکھا۔ آپ نے بہت اچھا لکھا ہے۔ میں اسے اپنے ’خبرنامہ‘ میں شائع کرنا چاہتا ہوں۔ اجازت مرحمت فرمائیے اور یہ بھی لکھئے کہ یہ آپ کے اخبار کی کس اشاعت میں شائع ہوا ہے۔
امید ہے کہ آپ کا مزاج بخیر ہوگا۔
آپ کا
شمس الرحمن فاروقی
فاروقی صاحب نے ”شب خون“ کی اشاعت بند ہونے کے بعد ’خبرنامہ شب خون‘ کے عنوان سے ایک مختصر پرچہ جاری کیا تھا جو مخصوص لوگوں کو بھیجا کرتے تھے۔ اس خط سے مجھے اندازہ ہوا کہ میری محنت رائیگاں نہیں جارہی تھی اور میں اپنا جو اخبار انہیں روانہ کررہا تھا، وہ باضابطہ ان کے مطالعہ میں تھا، درمیان میں ڈاک کی خرابی کے سبب جب اخبار ان تک نہیں پہنچا تو انھوں نے اس کی یاد دہانی کرائی۔ ظاہر ہے یہ بھی چھوٹوں کو بڑا بنانے کا ایک طریقہ ہے۔ فاروقی صاحب ان لوگوں میں ہرگز نہیں تھے جو محض علم و ادب کا لبادہ اوڑھ کر اپنے بڑا ہونے کاڈھونگ رچاتے ہیں۔ وہ صحیح معنوں میں علم و ادب کے رسیا تھے اور انھیں جہاں سے بھی حاصل ہوتا اسے بے تکلف حاصل کرتے۔ اس خط کے بعد جب وہ دہلی تشریف لائے تو انھوں نے مجھے یاد کیا اور میں نے جامعہ کے مجیب باغ میں ان کی بیٹی کے گھر پران سے تفصیلی ملاقات کی۔ کبھی کبھی ان سے فون پر بات ہوتی تھی۔
شمس الرحمن فاروقی نے اپنی غیرمعمولی ادبی خدمات کے لیے ادب کے تمام ہی بڑے اعزازات حاصل کیے۔ 1982 میں تنقیدات میر پر چار جلدوں پر مشتمل ان کی غیرمعمولی تصنیف ”شعرشورانگیز“ کو ادب کا سب سے باوقار انعام ’سرسوتی سمان‘ ملا۔ 1986 میں شاعری پران کی کتاب ”تنقیدی افکار“ کو ساہتیہ اکادمی نے انعام سے نوازا۔ 2009 میں حکومت ہند نے ان کی ادبی خدمات کے عوض انھیں ’پدم شری‘ کے اعزاز سے نوازا۔ 2010 میں حکومت پاکستان نے صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی نے انھیں ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری دی اور دہلی اردو اکادمی نے انھیں اپنے سب سے بڑے اعزاز بہادر شاہ ظفر ایوارڈ سے سرفراز کیا۔ یہ ان کا بڑا پن تھا کہ انھوں نے کبھی ان اعزازات کو اپنے سینے پر نہیں سجایا۔ انھوں نے اپنے نام کے ساتھ کبھی ’پدم شری‘ نہیں لکھا۔ ظاہر ہے ان کی شناخت انعام و اکرام نہیں تھے بلکہ وہ کام تھا جس کی بنیاد پر انھیں موجودہ عہد میں اردو کا سب سے بڑا ادیب تسلیم کیا گیا۔ وہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے وائس چیئرمین بھی رہے اور اس کے بنیادی خدوخال طے کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
2006 میں شائع ہونے والا ان کا شہرہ آفاق ناول ”کئی چاند تھے سرآسماں“ منظر عام پر آیا تو اردو دنیا میں تہلکہ مچ گیا۔ ہمارے عہد کے ایک بڑے فکشن نگار انتظار حسین نے ان لفظوں میں اس ناول کا استقبال کیا ”مدتوں بعد اردو میں ایسا ناول آیا ہے جس نے ہندوپاک کی ادبی فضا میں ہلچل مچادی ہے۔“ یہ حقیقت ہے کہ اس ناول نے مقبولیت کے سارے ریکارڈ توڑ دیے اور یہ اردو فکشن کی بہترین کتاب قرار پائی۔ فاروقی صاحب نے اس ناول میں تاریخ اورفکشن کا بہترین تانا بانا بن کراپنے قارئین کو ماضی کا پیرہن اوڑھا دیا۔ اس کی بے پناہ مقبولیت کے سبب خود فاروقی صاحب نے اسے انگریزی میں ترجمہ کرکے شائع کرایا۔ بعد کو یہ ناول ہندی میں بھی شائع ہوا۔
فاروقی صاحب نے ترقی پسند تحریک کے عروج کے زمانے میں جدیدیت کا علم اٹھایا۔ 1966 میں انھوں نے ایک منفرد جریدے ”شب خون“ کی داغ بیل ڈالی، جس کی اشاعت تقریباً چالیس برس تک جاری رہی۔یہ دراصل ان ادیبوں کی پناہ گا ہ تھا جو ترقی پسند تحریک سے اتفاق نہیں رکھتے تھے۔ اس دوران فاروقی صاحب کے نظریات پر رنگ برنگے الزامات بھی لگے۔ انھیں سی آئی اے کا ایجنٹ بھی قرار دیا گیا۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ”شب خون“ میں علی سردار جعفری، عصمت چغتائی اور راجندرسنگھ بیدی جیسے ترقی پسند ادیبوں کو بھی جگہ ملی۔ جب اس کی اشاعت بند ہوئی تو انھوں نے ”خبرنامہ شب خون“ کے نام سے کچھ عرصہ کے لیے ایک مختصر خبرنامہ بھی جاری کیا۔ ان کی پیدائش 30 ستمبر 1935 کو اعظم گڑھ کے ایک علمی خانوادے میں ہوئی۔ وہ اپنے والد مولوی خلیل الرحمن فاروقی کی سب سے چہیتی اولاد تھے۔ بچپن ہی میں انھیں مطالعہ کا شوق پیدا ہوگیا تھا اوراپنی بہن کے ساتھ مل کر انھوں نے ایک ماہنامہ قلمی رسالہ”گلستاں“ شائع کیا تھا۔ پندرہ سال کی عمر میں انھوں نے اپنا پہلا ناول ”دلدل سے باہر“ لکھا۔ انھیں کمسنی میں ہی سینکڑوں اشعار یاد ہوگئے تھے۔ اعظم گڑھ سے میٹرک اور گورکھپور کے مہا رانا پرتاپ کالج سے فرسٹ بیچ کے ساتھ بی اے کیا۔ 1955میں الہ آباد یونی ورسٹی سے انگریزی میں ایم اے کیا اور وہ بھی اس شان سے کہ پوری یونی ورسٹی میں اول پوزیشن حاصل کی۔ اس کے بعد وہ درس وتدریس سے وابستہ ہوگئے مگر ساتھ ساتھ سول سروس کے امتحان کی تیاری بھی کرتے رہے۔1957 میں سول سروس کے امتحان میں کامیابی کے بعد پوسٹل سروس سے وابستہ ہوگئے۔ اس دوران ملک کے مختلف صوبوں میں انھیں تعیناتی ملی۔ 1994 تک وہ نئی دہلی میں چیف پوسٹ ماسٹر جنرل اور پوسٹل سروسز بورڈ کے ممبر رہے۔ سبک دوشی کے بعد وہ الہ آباد منتقل ہوگئے جہاں ان کی ذاتی لائبریری میں دس ہزاروں کتابیں ان کی منتظر تھیں۔ فاروقی صاحب نے باقی ماندہ عمر لکھنے، پڑھنے اور سوچ بچار میں گزاری۔ ان کی سب سے بڑی خوبی جس نے انھیں اپنے دور کا سب سے بڑا ادیب، محقق، نقاد، ناول نگار اور شاعر بنایا وہ دراصل ان کی ثابت قدمی اور پتہ ماری تھی۔ وہ جس کام کے بھی پیچھے پڑجاتے اسے اس کے انجام تک ضرور پہنچاتے تھے اور وہ بھی اتنے وقار اور معیار کے ساتھ کہ پڑھنے والے سردھنتے ہیں رہ جائیں۔ فاروقی صاحب کے انتقال پر اردو حلقوں میں غم و الم کی لہر دیکھ کر مجھے افتخارعارف کا یہ شعر یاد آتا ہے.
وہی چراغ بجھا جس کی لو قیامت تھی
اسی پہ ضرب پڑی جو شجر پرانا تھا

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے