اجمل العلما: سیرت و خدمات

اجمل العلما: سیرت و خدمات

مفتی احمد رضا مصباحی (کوشامبی)
استاد: مرکزی مدرسہ اجمل العلوم ، سنبھل

چودھویں صدی ہجری میں جن ارباب علم و فن اور اصحاب طریقت نے غیر منقسم ہندستان میں اپنے علم و عمل کے ذریعے سے دینی خدمات انجام دی ہیں، ان مقدس شخصیات میں ایک نام سند الفقہا، سلطان المناظرین، اجمل العلما مفتی اجمل شاہ سنبھلی بانی مرکزی مدرسہ اہل سنت اجمل العلوم علیہ الرحمہ کا بھی ہے، جو اپنے آپ میں ایک ماہر مدرس، عظیم فقیہ اور میدان مناظرہ کے شہسوار تھے.
ولادت باسعادت: مغربی اترپردیش کے تاریخی شہر سنبھل (مرادآباد ) کے باشندے عالی جناب حضرت مولانا حافظ محمد اکمل شاہ علیہ الرحمہ کے کوئی نرینہ اولاد نہ تھی، آپ نے بارگاہ خالق کائنات میں دعا کی "اے مولی تعالی؛ اگر تو مجھے بیٹا عطا فرمائے تو میں اسے خدمت دین کے لیے وقف کر دوں گا ،، بفضلہ تعالی دعا باب اجابت سے ٹکرائی اور ۱۵/ محرم الحرام ۱۳۱۸ھ بہ مطابق ۱۵ / مئی ۱۹۰۰ء بوقت صبح ایک سعادت مند فرزند کی ولادت ہوئی۔
نام و القاب: آپ کا نام محمد اجمل ہے، اہل علم آپ کو سند الفقہا، سلطان المناظرین، اجمل العلما جیسے عظیم الشان القاب سے یاد کرتے ہیں اور شہر سنبھل میں آپ کو شاہ صاحب کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
تعلیم و تربیت: جب آپ کی عمر مبارک چار سال، چار ماہ اور چار دن کی ہوئی تو آپ کے جد امجد عارف باللہ حضرت شاہ جی غلام رسول صاحب علیہ الرحمہ نے بسم اللہ شریف پڑھائی، اور قرآن پاک ناظرہ، اردو کی ابتدائی کتابیں اور فارسی زبان کی کتب اپنے چچا حضرت مولانا محمد افضل شاہ اور والد ماجد حضرت مولانا حافظ محمد اکمل شاہ علیہما الرحمہ سے پڑھیں۔ ابتدائی عربی سے شرح جامی تک کی تعلیم اپنے چچا زاد بھائی جامع معقول و منقول حضرت مولانا عماد الدین صاحب سے حاصل کی۔ اس کے بعد آپ مولانا عماد الدین کی معرفت میں مرادآباد کی شہرہ آفاق دینی درس گاہ جامعہ نعیمیہ، مراد آباد تشریف لائے، اور شرح جامی کے بعد کی جملہ کتب تاج العلما حضرت مفتی محمد عمر نعیمی اور صدر الافاضل، مفسر قرآن حضرت علامہ مفتی سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہما الرحمۃ کے پاس پڑھیں۔ آپ کی تعلیم و تربیت کا سہرا آپ کے جد امجد، والد ماجد، چچا جان اور چچا زاد بھائی خصوصا صدر الافاضل علیہ الرحمہ کو جاتا ہے، جن کی توجہات اور نواز شات سے آپ نے یہ بلند پایہ علمی مقام حاصل کیا۔
بیعت وخلافت : اجمل العلما پر صدر الافاضل علیہ الرحمہ کی خصوصی نظر تھی اس لیے خود صدرالافاضل آپ کو مرکز عقیدت بریلی شریف لے کر حاضر ہوئے، اور شیخ الاسلام والمسلمین، مجدد اعظم، اعلی حضرت، امام احمد رضا خان قادری حنفی بریلوی علیہ الرحمہ کے دست حق پرست پر بیعت کرائی۔ پیر و مرشد کے وصال کے بعد شہزادہ اعلی حضرت، حجۃ الاسلام، علامہ حامد رضا خان علیہ الرحمہ نے سلسلہ رضویہ قادریہ کی اجازت و خلافت سے نوازا، اور خانوادہ اشرفیہ کچھوچھہ شریف کے عظیم بزرگ حضرت مخدوم المشائخ، اعلی حضرت شاہ علی حسین اشرفی الجيلاني نے بھی اجمل العلما کو سلسلۂ اشرفیہ چشتیہ کی خلافت و اجازت عطا فرمائی۔
درس و تدریس: اجمل العلما بلند پایہ عالم دین، علوم مروجہ پر اچھی دست رس رکھنے والے اور کتب درسیات کے ماہر مدرس تھے۔ آپ نے بعد فراغت تدریس کا آغاز مرادآباد کی شہرہ آفاق دینی دانش گاہ جامعہ نعیمیہ، مرادآباد سے فرمایا، اس کے بعد آپ نے خود تاریخی شہر سنبھل (مرادآباد) میں ایک دینی ادارہ بہ نام مدرسہ اہل سنت اجمل العلوم قائم فرمایا، اور تاحیات مدرسہ اجمل العلوم میں تشنگان علوم نبویہ کو سیراب کرتے رہے اور تدریس کے اس طویل عرصے میں طالبان علوم نبویہ کی بڑی جماعت کو زیور علم سے آراستہ فرمایا. ان میں سے بعض کے اسما درج ذیل ہیں: حضرت مولانا مفتی صوفی محمد اول شاہ اجملی صاحب، حضرت مفتی اختصاص الدین صاحب، حضرت مفتی محمد حسین صاحب، حضرت مفتی عبد السلام صاحب وغیرھم (تلامذہ کی ایک لمبی فہرست ہے جن کا تذکرہ ہم پھر کریں گے)
آپ کا معمول تھا کہ بعد نماز عشا میاں صاحب والی مسجد میں پابندی کے ساتھ قرآن پاک کا ترجمہ و تفسیر بیان فرماتے اور درس قرآن کا یہ سلسلہ تقریباً دس سال تک چلتا رہا، جہاں پر کثیر تعداد میں سامعین شرکت فرماتے تھے، اس کے بعد احباب کی فرمائش کے بعد پر مسجد اہلسنت پاکھڑ والی میں آپ نے مکمل درس قرآن دیا، اور بہت سے گم گشتگان راہ کو راہ راست سے آشنا فرما کر ہمیشہ کے لیے ان کے ایمان و عقیدے کی حفاظت فرمائی۔
تصنیف و تالیف: حضور اجمل العلما کا معمول تھا کہ بعد ظہر آۓ ہوے خطوط کا جواب رقم کرتے. اگر فقہی سوالات ہوتے تو ان کا نہایت مدلل جواب لکھتے، آپ نے تقریبا چالیس سال تک فتویٰ نویسی فرمائی، آپ کے فتاویٰ کی تعداد دو ہزار سے زیادہ ہے جو آج فتاوی اجملیہ کے نام سے چار جلدوں میں اہل علم کی بیچ مقبول و متعارف ہے، اس کے علاوہ آپ نے باطل فرقوں کی سرکوبی اور عوام الناس کو اسلامی تعلیمات و راہ راست کی شناخت کرانے کے لیے متعدد کتب تصنیف فرمائی ہیں جو درج ذیل ہیں: (۱) فتاوی اجملیہ 4/ جلدیں، (۲) رد شہاب ثاقب بر وہابی خائب، (۳) رد سیف یمانی در جوف لکھنوی و تھانی، (۴)اجمل المقال لعارف رویت الہلال، (۵) عطر الکلام فی استحسان المولد والقیام، (۶) تحائف حنفیہ بر سوالات وہابیہ (۷) فوٹو کا جواز در حق عازمان سفر حجاز، (۸) اجمل الکلام فی عدم القرات خلف الامام، (۹) افضل الانبیاء والمرسلين (۱۰) فیصلہ حق و باطل، (۱۱) طوفان نجدیت وسبع آداب زیارت، (۱۲) بارش سنگی در قفاۓ دربھنگی، (۱۳) قول فیصل (۱۴) اجمل الارشاد فی اصل حرف الضاد ( ۱۵) کاشف سنیت و ہابیت (۱۶) سرمایۂ واعظین (۱۷) ریاض الشہدا منظوم (۱۸) نظام شریعت اول، دوم (۱۹) اسلامی تعلیم اول، دوم (۲۰) مذہب اسلام (۲۱) اجمل السیر في عمر سید البشر (۲۲) مضامین اجمل العلما (۲۳) نعتیہ دیوان حضرت اجمل العلما۔
وصال پر ملال : مسلسل علالت کے سبب ۶۳/ سال کی عمر میں یہ علمی ستارہ ۲۸/ ربیع الثانى ۱۳۸۳ھ بہ مطابق ۸/ ستمبر ، ۱۹۶۳ء بروز بدھ ۱۲/بج کر ۲۰ / منٹ پر ہمیشہ کے لیے روپوش ہوگیا۔
اولاد و ازواج : آپ نے تین شادیاں کی ہیں، پہلی بیوی افضل النساء سے ایک بیٹا اور دو بیٹیاں تولد ہویں ۱۔حضرت علامہ مفتی صوفی محمد اول شاہ(پاکستان )، دو بیٹیاں ۱۔ راشدہ بیگم ، ۲۔ عارفہ بیگم ۔ دوسری بیوی مونی بیگم سے ایک بچی پیدا ہوئی اور بچپن ہی میں انتقال کر گئی۔ اور تیسری بیوی اکبری بیگم سے ایک فرزند ہیں جن کو ہم غلامان اجمل العلما حضرت مفتی اختصاص الدین صاحب کے نام سے جانتے ہیں جو بعد میں اجمل العلما علیہ الرحمہ کے جانشین اور مرکزی مدرسہ اجمل العلوم کے ناظم ہوے۔ اللہ تعالی ہم سب کو فیضان اجمل العلما سے مالا مال فرماۓ۔

اجمل العلماء کے لیل و نہار
مغربی اترپردیش کے تاریخی شہر "سنبھل" میں ایک ولی صفت اور نیک بندے رہتے تھے جو عالم دین اور حافظ قرآن ہونے کے ساتھ نہایت ہی عبادت گزار اور عامل اوراد و وظائف تھے، جن کا نام حضرت مولانا میاں محمد اکمل شاہ علیہ الرحمہ ہے۔ چودھویں صدی ہجری 15/ محرم الحرام سن ۱۳۱۸ھ میں آپ کے گھر ایک سعادت مند فرزند کی ولادت ہوئی، جن کا نام محمد اجمل شاہ تجویز کیا گیا، جو زیور علم سے آراستہ ہونے کے بعد اجمل العلما اور سلطان المناظرین جیسے عظیم القاب سے جانے گئے۔ حضور اجمل العلما (علیہ الرحمۃ) اعلی حضرت، مجدد اعظم، امام احمد رضا خان قادری حنفی (علیہ الرحمہ) کے مرید اور صدر الفاضل، مفسر قرآن، مفتی نعیم الدین مرادآبادی کے شاگرد رشید تھے۔ آپ کو ان دونوں بزرگوں کی نگاہ کرم اور فیضان نظر نے اس قابل بنا دیا کہ باطل مقابلے کی ہمت و جرات نہ رکھتا تھا۔ آپ نے اپنی پوری زندگی تصنیف و تالیف، درس و تدریس، بندگان خدا کی اصلاح و ارشاد اور دین مبین کی تبلیغ و اشاعت میں گزار دی۔
آپ کے لیل و نہار کچھ اس طرح تھے کہ صبح صادق سے پہلے اٹھتے اور نماز تہجد ادا فرمانے کے بعد اوراد و وظائف میں مشغول ہوجاتے۔ پھر صبح صادق طلوع ہوتے ہی اپنے گھر کے قریب "میاں صاحب والی مسجد" تشریف لے جاتے اور خود ہی اذان فجر پڑھتے۔ دو رکعت سنت فجر پڑھ کر اوراد و وظائف میں مشغول ہو جاتے، فرض پڑھانے کے بعد گھر واپس آتے اور قرآن پاک کی تلاوت کرتے، بعدہ دلائل الخیرات اور دعائے حزب البحر پابندی کے ساتھ پڑھتے۔ ناشتہ کرنے کے بعد مرکزی مدرسہ اہلسنت اجمل العلوم تیل منڈی تشریف لاتے اور پورے انہماک کے ساتھ طلبۂ درس نظامی کو اپنے علم سے فیض یاب فرماتے۔ تدریس کے بعد اپنے گھر تشریف لے جاتے اور کھانا تناول فرما کر قیلولہ کرتے۔ پھر نماز ظہر کے لیے میاں صاحب والی مسجد جاتے، نماز ظہر کے بعد آئے ہوئے خطوط اور سوالات (استفتے) کے جوابات تحریر کرتے اور صرف نماز عصر ادا کرنے کے لیے اٹھتے۔ مغرب کی نماز پڑھانے کے بعد کھانا تناول کرتے، اس کے بعد اپنی نشست گاہ میں بیٹھ جاتے، اس دوران شہر کے لوگ شرعی مسائل دریافت کرنے آتے اور آپ عشا تک لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر مسائل شرعیہ سے آگاہ فرماتے رہتے۔ پھر بعد نماز عشا دینی مجلس لگتی، چند لوگ اکثر معمول کے مطابق حاضر رہتے. جب وہ اٹھ کر چلے جاتے تو آپ کتب کے مطالعے میں مشغول ہو جاتے. غرض کہ آپ کا ہر پل اور ہر لمحہ رضائے الہی اور مخلوق خدا کی خدمت میں گزرا ۔ آپ نے اپنی مصروف زندگی میں تشنگان علوم نبویہ کی ایک کثیر تعداد کو اپنے علم و فضل سے سیراب فرمایا، اس کے علاوہ ڈھائی ہزار تحقیقی فتاوی اور ۲۲/ کتب دینیہ آپ کی نوک قلم سے معرض وجود میں آئیں ۔
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:مکاتـــب کا نظـــام تعلـــــیم

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے