مکاتـــب کا نظـــام تعلـــــیم

مکاتـــب کا نظـــام تعلـــــیم

احمدرضا مصباحی کوشامبی

آج ہم ایسے دور میں زیست و حیات کے مراحل طے کر رہے ہیں، جس میں مذہب اسلام اور قوم مسلم کو نیست و نابود کرنے کے لیے نہ جانے کتنی تحریکیں، تنظیمیں اور سنگٹھن رات و دن پیہم کوشش اور مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں اور بے شمار باطل افکار اور ناپاک نظریات اسلام کی بیخ کنی میں مصروف کار ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کے رضا کاران وقتا فوقتا اسلام اور اسلام کی مقدس ہستیوں یہاں تک کہ پیغمبر اسلام حضور ﷺ پر نازیبا اور اور زہر آلود تبصرے کرتے رہتے ہیں، اپنے ملک عزیز "بھارت" میں ایسی پارٹی برسر اقتدار ہے جس کا منشور ہی یہی ہے کہ مسلمانوں کو کم زور کیا جائے، اور سوے اتفاق کہ وہ اپنے مقصد اور ہدف میں کامیاب بھی ہے۔ سیاست، معیشت اور تعلیم بلکہ ہر میدان میں مسلمانوں کو کم زور کیا جا رہا ہے، اور شجرۂ اسلام اور اس کے ماننے والوں کی جڑوں کو کاٹنے کی سازش رچی جارہی ہے، آج جدید نصاب تعلیم کے نام پر تعلیمی نصاب کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، وہ اسباق جو اسلامی نظریہ کو اجاگر کرتے یا اسلامی تاریخ پر مشتمل تھے، ان کو خارج کرنے کے لیے منصوبہ بندی کی جا رہی ہے اور ان کی جگہ پر اپنے مذہب کی جھوٹی اور من گھڑت روایات پر مشتمل اسباق کو داخل کرنے کی تیاری ہو رہی ہے، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بچپن سے جو بچہ اسلام مخالف نصاب پڑھ کر پروان چڑھے گا تو اس کی تربیت، تہذیب، اخلاق، کردار اور افکار و نظریات کس نوعیت کے ہوں گے اور اس کے اندر اسلام کے تئیں کیا حوصلہ اور کیا جذبہ بیدار ہو گا۔
ابتدا میں بچوں کو جو تعلیم ملتی ہے وہی ان کے ذہن و دماغ میں نقش ہوتی ہے اور یہی تعلیم ان کی زبان کی گفتار اور کردار ہوتی ہے، حسن بصری نے فرمایا : (التعليم فی الصغر کالنقش فی الحجر) بچپن کی تعلیم پتھر میں نقش کی طرح ہے۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے بچوں کے لیے تعلیم کا انتظام کریں، اگر اعلا تعلیم کا انتظام نہیں کر سکتے، تو کم ازکم ابتدائی تعلیم کا انتظام تو کر ہی سکتے ہیں، ہمارے قصبوں، گاؤں اور محلوں میں مساجد تو ہوتی ہیں، اگر اسی کے زیر انتظام مکاتب بھی قائم کر لیں، جہاں ہمارے بچے قرآن، سنت اور دینیات کی تعلیم بہ سہولت حاصل کر سکیں، تو اس سے معاشرے میں ایک انقلاب پیدا ہوگا اور ہماری آنے والی نسل مذہب کے اصول اور سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ سے آشنا ہوگی۔
ہندوستان میں خدمت خلق اور اشاعت اسلام کے نام پر کئ ایک تحریکیں زمینی سطح پر مصروف کار ہیں اور ہر ایک تنظیم کے اپنے اغراض و مقاصد ہیں، جن کی ایک لمبی فہرست ہے لیکن افسوس کہ ان میں مکاتب کی تعلیم کے متعلق کوئی اہم منصوبہ نہیں ہے، اگر ہے بھی تو افراد تحریک نے اس منصوبے کو معمولی سمجھ کر اسے پس پشت ڈال دیا ہے۔ اگر کوئی تحریک کسی علاقے میں مکاتب کے قیام و نظام پر کام کرنے کو ٹھان لے تو مستقبل میں ایسے بہترین نتائج معرض وجود میں آئیں گے کہ جو میدان دعوت و تبلیغ میں آب زر سے لکھنے کے قابل ہوں گے.

مکاتب کے ناگفتہ بھی حالات:
قرآن اور دینیات کے نام پر نہ جانے کتنے لوگ اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پال رہے ہیں، وہ بچے جو ہمارے معاشرے اور ملک کے مستقبل ہیں، ان کی زندگی اور ان کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔ اگر مکاتب پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو اکثر مقامات پر مکاتب کا وجود نہیں ہے اور جہاں ہے، وہاں کی تعلیم وہاں کے مکتب کی بے شمار کمیوں و اساتذہ کی کوتاہیوں کی نذر ہو جاتی ہے، ذرا مکتب کے نظام پر ایک نظر ڈالیں تو چند نمایاں خامیاں ضرور ملیں گی جیسے
1۔ بچوں کی آمدورفت کا کوئی وقت متعین نہیں ہوتا ہے،
2۔ بچوں کی حاضری اور غیر حاضری کا کوئی اہتمام نہیں ہوتا۔
3۔ مکتب کا کوئی مخصوص نصاب نہیں ہوتا،
4۔ اور نہ ہی تربیت کا انتظام ہوتا ہے،
5۔ بچوں کا کوئی خاص لباس بھی نہیں ہوتا،
6۔ مکتب میں اساتذہ کی کمی یا اساتذہ کے طریقۂ تعلیم میں کمی ہوتی ہے مثلا بہت سے اساتذہ "ج ” کو "ز” اور "ز” کو "ج” پڑھاتے ہیں،
7۔ اور جہاں اساتذہ کی بھرمار ہوتی ہے وہاں کے اساتذہ میں لاپرواہی اور بے توجہی کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے الاماشاء اللہ، کتنی کمیاں شمار کرائی جائیں۔ ایک جگہ پر ایک مکتب چلتا ہے جہاں اساتذہ کی کمی بھی نہیں ہے اور تقریبا دو سو بچے، بچیاں تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں، صبح آٹھ بجے سے وہ بارہ بجے تک مکتب میں رہتے ہیں، لیکن اگر پوچھا جائے کہ مکتب میں کیا تعلیم دی جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے صرف قرآن شریف اور اردو کی تعلیم دی جاتی ہے!!! افسوس وہ دو سو بچے جو اپنے مستقبل کو تابناک بنانے کے لیے چار یا پانچ گھنٹے کا وقت دے رہے ہیں ان کو صرف قرآن اور اردو کی تعلیم دی جارہی ہے !!!
قارئین کرام ؛ آپ ان مکاتب کے حالات، طریقہ تعلیم اور نصاب کا اندازہ لگا سکتے ہیں اور فیصلہ کرسکتے ہیں کہ کیا بچوں کے مستقبل کو تاریک نہیں کیا جارہا ہے؟ کیا بچوں کی زندگی کے ساتھ کھلواڑ نہیں کیا جارہا ہے؟ اللہ کے واسطے اپنے مکاتب کا نظام سدھاریں اور تعلیم کا صحیح انتظام کریں، اور بچوں کے روشن مستقبل کو تاریک نہ کریں ورنہ اللہ کے حضور کیا جواب بنے گا۔ کیا جہاں 8 سے 12 تک بچوں کو صرف قرآن اور اردو پڑھائی جاتی ہے وہاں ہندی، حساب، انگلش کو داخل نصاب نہیں کیا جاسکتا؟

مکاتب کیسے چلائیں:
موجودہ دور میں ملک ہندستان میں تین نوعیت کے مکاتب زیادہ چل رہے ہیں اول : اسکول ٹائم سے پہلے تک غیر منظم مکتب (جزوقتی مکتب)، دوم: صبح سے اسکول ٹائم سے پہلے تک منظم مکتب (جزوقتی مکتب)، سوم: پورے اسکول ٹائم کا مکتب (کل وقتی مکتب)۔
(1) وہ مکاتب جو اسکول ٹائم سے پہلے تک چلتے ہیں ان کی تعداد بہ نسبت دیگر مکاتب کے زیادہ ہے، صبح سے اسکول ٹائم تک کافی وقت ہوتا ہے. اس وقت ہم بچوں کو بہت کچھ تعلیم دے سکتے ہیں، اس میں قابل اصلاح چیزیں درج ذیل ہیں :
1۔ حاضری کا کوئی بندوبست نہیں ہوتا ہے لہذا بچے اگر چہ کم ہوں یا زیادہ، ایک گھنٹے تعلیم دیں یا دو گھنٹے لیکن یہ ہمارے رجسٹر میں درج ہو کہ کون بچہ مہینے میں کتنے دن حاضر اور کتنے دن غیر حاضر رہا.
2۔ بچوں کی آمد و رفت کا کوئی وقت متعین نہیں ہوتا ہے بلکہ دوران تعلیم آنے جانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے، لہذا بچوں کے مکتب میں داخل ہونے اور چھٹی کا وقت متعین ہونا ضروری ہے.
3۔ اہل سنت و جماعت کے مکاتب کی سب سے بڑی غلطی قرآن کو مخارج سے نہ پڑھانا ہے، لہذا قرآن کو مخارج سے پڑھانے پر سب سے زیادہ توجہ دیں، اگر بچے قرآن مخارج سے پڑھنا سیکھ گئے تو ان کے والدین بھی بہت خوش ہوں گے اور آپ کی نجات کا ذریعہ بھی ہو گا، لہذا جو اساتذہ "ج" کو "ز" پڑھاتے ہیں وہ خاص توجہ دیں اور اپنے طریقہ تعلیم میں اصلاح کریں.
4۔ اپنے مکتب کے بچوں کے لیے کوئی لباس بھی خاص کر سکتے ہیں. اگر اس میں زیادہ دشواری ہے تو کم از کم بچوں کے لیے ایک رنگ کی ٹوپی اور بچیوں کے لیے ایک رنگ کا دوپٹہ یا اسکارف پہن کر آنے کی تاکید کریں.
5۔ بچوں کے اسباق سننے کے بعد 20 منٹ بورڈ پر یا کسی اور طریقے سے جو مناسب معلوم ہو اردو اور اردو گنتی کی بھی تعلیم دیں.
6۔ ہفتے میں ایک دن دینیات کے لیے خاص کر لیں. جس دن بچوں کو سات تک کلمے، مسنون دعائیں، اسلامی سوال و جواب اور نماز کا عملی طریقہ وغیرہ ضروری چیزیں سکھائیں۔
( 2) جزوقتی منظم مکتب: اس کا وقت بھی صبح اسکول ٹائم سے پہلے یا شام کا ہے، اس مکتب کا طریقہ کار یہ ہے کہ مکتب کا ایک نصاب ہوتا ہے جس میں عربی، اردو، دینیات، ہندی، انگلش وغیرہ مضامیں شامل ہوتے ہیں، اس نوعیت کے مکاتب میں بچوں کو الگ الگ درجے میں بیٹھایا جاتا ہے اور تربیت یافتہ اساتذہ کرام پڑھاتے ہیں، باقاعدہ امتحان کا بھی وقتا فوقتا انعقاد ہوتا رہتا ہے۔ اس نوعیت کے مکاتب کیرلا اور کرناٹک کے علاوہ دیگر صوبے میں کم یاب ہیں، کیونکہ کیرلا میں منظم طریقے سے اسلامی تعلیمی بورڈ آف انڈیا کا نصاب چلایا جاتا ہے جو بہت کامیاب اور زود نتیجہ خیز ہے۔
(3) کل وقتی مکاتب: یعنی پورے اسکول ٹائم کا مکتب، اس نوعیت کے مکاتب کے زیادہ فائدے ہیں. کیونکہ ہمارے اسلامی نونہال بچے دیگر مذاہب کے دانش گاہوں میں حصول تعلیم کے لیے جاتے ہیں. ان کے مراسم اور تقریبات میں شرکت کرتے ہیں، جس کے سبب بچپن ہی سے بچے کی اسلامی تہذیب کا جنازہ نکل جاتا ہے اور بچہ یہودیت اور نصرانیت کے کلچر میں ڈھل جاتا ہے، لہذا جب ہم اپنے مکاتب میں اپنے بچوں کے لیے قرآن اور اردو کے ساتھ جدید طرز پر علوم عصریہ کی بھی تعلیم دیں گے تو ہم اپنے معاشرے کو بہت بڑے خسارے اور نقصان سے بچالیں گے۔ اس نوعیت کے مکاتب کا طریقۂ تعلیم اور نظم و نسق بالکل انگلش اسکول جیسا ہی ہے. اس لیے اس کے نصاب میں عربی اور اردو کے علاوہ دیگر مضامین بھی شامل ہوں گے اور پانچ کلاس تک منظم طریقے سے چلایا جاتا ہے. لہذا جو بچے دیگر مذاہب کے اسکولوں میں جاکر ان کے طریقے پر تعلیم حاصل کرتے ہیں جب آپ کے مکتب میں ساری سہولیات فراہم ہوں گی، وہی بچے آپ کے مکتب میں آئیں گے. اس طرح آپ کے لیے بچوں کی زندگی کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کا زیادہ موقع اور وقت ملے گا۔
احمدرضا مصباحی کی گذشتہ نگارش:امام جعفر صادق: اخلاق و ارشادات

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے