انا اور محبت

انا اور محبت

خالد مبشر
جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی

(ابتدائیہ : شاعر اپنی دنیا کا تخلیق کار ہوتا ہے، صناع ہوتا ہے. اس تخلیق و صناعت کے جو لوازم ہوتے ہیں ان کے اہتمام سے ہی اس کا مرتبہ متعین ہوتا ہے. یا رجحان و رویے کا اندازہ کیا جاسکتا ہے.
ڈاکٹر خالد مبشر ( جامعہ ملیہ اسلامیہ ، نئی دہلی) کی چند نظمیں پیش خدمت ہیں. ان نظموں کی قرات سے بار بار گزرنے پر معنی کے الگ الگ زاویے کھل سکتے ہیں. اور معنی کی راہیں پامال نہیں ہوتیں.
شاعر اپنے احساس، فکر، زاویہ نگاہ اور اس زاویے میں قاری کو شریک کرنے کے خاص عمل سے گزرتا ہوا نظر آتا ہے. مثلاً وہ ہجر کا موضوع نظم کرتا ہے تو ہجر کے بیان کے روایتی طریقوں سے الگ وہ خود ہجر کے لمحے میں جس طرح ذات، کائنات، نیچر ( چاند، ستارے، آبشار، وغیرہ) کو اپنے تجربے میں شریک کرلیتا ہے؛ یہ عمل خالد مبشر کی نظم میں ترفع پیدا کرتا ہے.( نظم ایک ڈی پی کی اداسی پڑھیں.)
خالد مبشر کے یہاں خاص لمحے کو بڑے کینوس پہ پھیلانے کا عمل ملتا ہے. سوال کہ ابن آدم کیا ہے؟ گوشت پوست کے بنے اس جسم کا کائنات اور خدا سے کیا ربط ہے؟ اس کے اعمال و افعال اور احساس و ادراک کس طرح ظہور پذیر ہوتے ہیں؟ خالد مبشر نوع انسانی کا نمائندہ بن کر ابھرنے کے عمل سے گزرتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ ان کی نظموں میں بلند آہنگی ہے. احساس و ادراک کے ساتھ خارج سے داخل اور داخل سے خارج کی طرف نگاہ کرتے ہوئے وہ وہ رنج و الم اور وہم و اداسی کو حقیقت، یقین، اعتماد، بھروسے میں بدلنے کی سعی کرتے ہیں. یہ فطرۃ اللہ سے ہم آہنگی کی متوازن صورت ہے. ان نظموں کا فارم آزاد ہے لیکن ان میں شوکت الفاظ اور صوتی آہنگی قاری کو مسرت بخشتی ہے.
اشتراک ڈاٹ کام ان کی خدمت میں نیک خواہشات پیش کرتا ہے. طیب فرقانی) 


یہ "میں" کہ مجھ سے چھن گیا ہے سر بسر
وہ کون ہے کہ جس کی دسترس میں آکے "میں" مرا نہیں رہا
مجھے تو "میں" تمام کائنات سے عزیز تھا
مری انا کی سلطنت وسیع تھی، عریض تھی اور اس کا "نارسِس" تھا میں
وہ سلطنت جہاں پہ صرف میں تھا، میرا عکس تھا
اور اس کے ماسوا نفی کا رقص تھا
میں اپنی ذات پر فریفتہ رہا
میں اپنے آپ ہی کا شیفتہ رہا
نہ جانے کتنے مہر و مہہ کی تابشیں مری تجلیوں کی زد پہ آکے خاک ہوگئیں
مری نظر کو کوئی بھی مرے سوا جچا نہیں
مگر وہ ایک شام عجب طلسم رنگ شام تھی
فسوں طراز ساحرہ سراپا رشکِ جام تھی
وہ ساحرہ کہ لشکرِ جمال باکمال اس کے ساتھ تھا
وہ ساحرہ کہ قتلِ عام کے تمام اسلحوں سے لیس تھی
بلا کی جنگ چھڑ گئی
مری انا تھی اک طرف اور اس کا حسن اک طرف
وہ یک بیک شدید یورشیں ہوئیں
مرے سبھی حواس اس کے یرغمال ہوگئے
تمام خود پسندیوں کا تخت وتاج لٹ گیا
مری انا کی سلطنت تمام اجڑ کے رہ گئی

نظم
ایک شکوے کی تردید

اگرچہ عید کا دن تھا مگر خوشیاں ندارد تھیں
قبیلے کے سبھی حساس لوگوں کی طرح میں بھی خود اپنے آپ سے بیزار بیٹھا تھا
بس اک بے ساختہ حرفِ شکایت منہ سے نکلا تھا کہ رنگ و بو سے خالی عید کوئی عید ہوتی ہے؟
مگر اتنے سے شکوے پر زمین و آسماں سارا مخالف ہوگیا میرا
چہار اطراف سڑکوں پر ہزاروں زخمی تلوؤں کے لہو نے مجھ کو یہ طعنہ دیا دیکھو کہ مہندی عید کی ہے یہ
دہکتے، آگ اگلتے راستوں پر ایک عورت چلتے چلتے خون میں لت پت ہوئی اور ماں بنی، پھر چل پڑی یوں ہی
ٹپکتے خوں کے قطروں سے صدا آئی
کبھی بھی عید رنگ و بو سے خالی ہو، یہ ہرگز ہو نہیں سکتا
ان آوازوں سے مجھ پر ایک جھلاہٹ سی طاری تھی
فضا میں ایک چیخ ابھری
مری ہی چیخ تھی، لیکن مرے قابو سے باہر تھی
مرا شکوہ مرے لب پر بغاوت بن کے ابھرا تھا
مری چیخیں یہ کہتی تھیں کہ عید ایسی نہیں ہوتی
نہاتے ہیں، نئے کپڑے پہنتے ہیں، سیوئیاں، شیٖر کھاتے ہیں، سبھی مل کر نمازِ عید پڑھتے ہیں، گلے مل کر مبارک باد دیتے ہیں
مری چیخوں کا کہنا تھا کہ اب کی عید میں ایسا کہاں کچھ ہے؟
مگر میری بغاوت سے زیادہ تیز چیخیں ہرطرف میرے خلاف اٹھنے لگیں پھر سے
صدا آئی
نہایا عید میں کس نے نہیں آخر؟
قبیلے کے سبھی حساس لوگوں کی طرح تم بھی تو اشکوں میں نہائے تھے
بتاؤ کون ہے جس نے نئے کپڑے نہیں پہنے؟
اداسی میں سبھی ملبوس تھے اس دن
غم واندوہ کی شیرینیاں کس نے نہیں کھائیں؟
کوئی بھی عید گہہ ویراں نہیں، آبادیاں زاغ و زغن کی سب میں قائم تھیں
چہار اطراف بھوک اور موت جم کر ابنِ آدم سے گلے ملتی رہی دن بھر
سو اب بے جا شکایت بند بھی کردو کہ رسمیں عید کی ساری ادا کردی گئیں ______ساری


نظم
میں کہ ایک شاعر ہوں

میں کہ ایک شاعر ہوں
کیا کہوں طبیعت پر
جب خمار چھاتا ہے
بے خودی کے عالم میں
میرے جی میں آتا ہے
غم کی ماری دنیا کو
وہ غزل سنا جاؤں
جس کے لفظ و معنی میں
درد کا مداوا ہو
زیست کی تمنا ہو
شورشِ طبیعت ہو
نغمۂ بشارت ہو
جذبۂ محبت ہو
حسن کی نزاکت ہو
عشق کی حرارت ہو
شوخی و شرارت ہو
غم کی ماری دنیا کو
وہ غزل سنا جاؤں
اور پھر وہ خوش ہوکر
مجھ کو یہ دعائیں دیں
تجھ کو غم نہ چھو پائے

میں کہ ایک شاعر ہوں
بے خودی کے عالم میں
میرے جی میں آتا ہے
درد کے سمندر میں
بے خطر اتر جاؤں
اور اس کی موجوں میں
یاس کے نہنگوں سے
خوب ڈٹ کے لڑ جاؤں
اور اس سمندر میں
ڈوبتا چلا جاؤں
ڈوب کر جو میں نکلوں
میرے پاس موتی ہوں
کیف کے، مسرت کے
پیار کے، محبت کے
اور پھر اسی لمحے
غم کی ماری دنیا میں
سارے موتیوں کو میں
یوں ہی منقسم کردوں
اور پھر وہ خوش ہوکر
مجھ کو یہ دعائیں دیں
تجھ کو غم نہ چھو پائے

میں کہ ایک شاعر ہوں
بے خودی کے عالم میں
میرے جی میں آتا ہے
گھر سے میں نکل جاؤں
جنگلوں میں کھو جاؤں
دوست ہو شجر میرے
چھاؤں ہم سفر میری
بے زباں پرندوں کی
میں زبان بن جاؤں
آبشار و دریا کی
موج بن کے لہراؤں
ریگزار و صحرا کی
وحشتیں نگل جاؤں
مضطرب غزالوں کی
شوخ چشم بن جاؤں
سرخ لالہ زاروں کے
داغ سر بہ سر لے لوں
اور پھر وہ خوش ہوکر
مجھ کو یہ دعائیں دیں
تجھ کو غم نہ چھو پائے

میں کہ ایک شاعر ہوں
بے خودی کے عالم میں
میرے جی میں آتا ہے
جسم و جاں کے بندھن کو
توڑ کر نکل جاؤں
آسماں میں اڑ جاؤں
اور جن کی قسمت میں
ظلمت و نحوست ہو
ایک مشتری بن کر
ایسے بدنصیبوں کے
روح و دل کو چمکا دوں
اور پھر وہ خوش ہوکر
مجھ کو یہ دعائیں دیں
تجھ کو غم نہ چھو پائے

نظم
مرے خدا

مرے خدا!
مجھے یہ اعتراف ہے کہ تو نے کوئی چیز بے سبب نہیں بنائی ہے
مگر مجھے حواس کیوں دیے گئے
پتہ نہیں
یہ باصرہ، یہ سامعہ، یہ لامسہ، یہ ذائقہ، یہ شامّہ
مرے خدا مجھے یہ سب حواس تو نے کیوں دیے
وہ جس کی دید سے مجھے حیات نو عطا ہوئی
مگر وہ روپ اپنی زندگی کا روپ دیکھنے کے واسطے مرے نین ترس گئے
وہ حرف و صوت جس کے شوق میں مری سماعتیں سراپا انتظار ہیں، شدید بے قرار ہیں
وہ بول جس سے مجھ میں ایک زندگی بپا ہوئی
مسیحیت نما وہ بول سن کے جس کو میں دوبارہ جی اٹھا
پہ اب وہ حرفِ جان فزا مرے نصیب میں کہاں
وہ ایک لمس کی طلب کہ جس کی بے قراریاں اک آگ بن کے مجھ کو خاک کرگئیں
وہ ذائقہ کہ ہے تمام آرزو کی انتہا
وہ ذائقہ مگر ہے جس کے واسطے مرا وجود حسرتوں کا سلسلہ، سراپا اضطراب کا مجسمہ
وہ گل بدن، مرے مشام جاں کو جس کی خوشبوؤں سے نابلد رکھا گیا
یہ باصرہ، یہ سامعہ، یہ لامسہ، یہ ذائقہ، یہ شامّہ
مرے خدا مجھے یہ سب حواس تو نے کیوں دیے
اگر دیے ہی ہیں تو ان تمام حسیات کا اسی سے اتصال کر کہ جس کا مجھ پہ سر بسر مکمل اختیار ہے، مرے وجود پر تمام اسی کا اقتدار ہے
مرے خدا!
اگر نہیں تو پھر یہ سب حواس مجھ سے چھین لے

نظم
میں کہ ابن آدم ہوں

میں کہ ابن آدم ہوں
عالم عناصر کا
اک خمیر تازہ دم
اک حیات مجھ میں ہے
کائنات مجھ میں ہے
میری سلطنت ہے سب
مجھ سے ہے جہاں قائم
میں ہوں گردش پیہم
رو میں ہے لہو ہر دم
کیا خبر لہو کیا ہے
ایک شورش ہستی
ایک داخلی طوفاں
ایک محشر دوراں
کیا خبر لہو کیا ہے
گردشیں ستاروں کی
گردش آسمانوں کی
گردشیں زمینوں کی
گردشیں زمانوں کی
کیا خبر لہو کیا ہے
یہ نظام کل جاری
یعنی حرکتیں ساری
سب لہو کی حرکت ہے
ہے لہو کے دم سے ہی
امن بھی، محبت بھی
جنگ بھی، عداوت بھی
شورش و بغاوت بھی
کیا خبر لہو کیا ہے
گردشیں لہو کی جب
مجھ میں شور کرتی ہیں
بے خودی کے نشے میں
جسم کا ہر اک خلیہ
رقص کرنے لگتا ہے
اور پھر یہ ہوتا ہے
خشکیوں کا ہر ذرہ
پانیوں کا ہر قطرہ
ایک بے بدن جذبہ
رقص کرنے لگتا ہے
اس جنوں کے عالم میں
زخم جاگ جاتے ہیں
درد چیخ اٹھتا ہے
اور پھر یہ ہوتا ہے
روح و دل کی وادی میں
نغمے گونج اٹھتے ہیں
نغمہ ہائے سحر انگیز
بے کراں فضاؤں میں
لا مکاں خلاؤں میں
سوز اور فغاں بن کر
میٹھی لے میں ڈھل ڈھل کر
جب بکھرنے لگتے ہیں
ایسے سحر عالم میں
ایک کیف و مستی کا
نشہ چھانے لگتا ہے
اور پھر یہ ہوتا ہے
کائنات کی ہر شے
گنگنانے لگتی ہے
اور پھر وہی نغمے
روح و دل کے چھالوں کو
تار، تار زخموں کو
نیم جاں کراہوں کو
لالہ زار داغوں کو
جاگتے پھپھولوں کو
مست لوریاں دے کر
خواب کے گلستاں میں
لاپتہ زمانے تک
یوں ہی چھوڑ دیتے ہیں
اصل میں وہی نغمے
درد کا مداوا ہیں!!

نظم
ایک ڈی پی کی اداسی

چودھویں کی شب ہے لیکن ماتمی ملبوس میں لپٹی ہوئی ہے
چاندنی بھی آنسوؤں میں تر بتر ہے
آسماں حدِ نظر تک آسماں ہے یا دھواں ہے
ہر طرف اک خامشی محوِ فغاں ہے
گل سے خوشبو بے وفائی کرچکی ہے
مانی و بہزاد نقش و رنگ سارے کھو چکے ہیں
بربط و نے سے خوشی اور سر خوشی روٹھی ہوئی ہے
رقص کی موجیں بدن کی حرکتوں سے اور اداؤں سے خفا ہیں
شاعری سے لفظ و معنی کا تعلق زخم خوردہ ہوچکا ہے
آج کی شب کیا ہوا ہے
کیوں زمین وآسماں میں ہر طرف ماتم بپا ہے
واٹس ایپ پر تم کو دیکھا
تب یہ راز افشا ہوا ہے
ایک ڈی پی کی اداسی کائناتی ہوگئی ہے

خالد مبشر کی یہ نظم بھی ملاحظہ فرمائیں :میں کہ اک معلم ہوں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے