اشرفیت کے گیت گائے گئے

اشرفیت کے گیت گائے گئے

افضل الہ آبادی

اشرفیت کے گیت گائے گئے 
بزم انجم میں ہم جو لائے گئے

آئینہ ہو گئیں ہیں یہ آنکھیں
ایسے جلوے ہمیں دکھائے گئے

دل میں روشن تھے اور روشن ہیں
کب چراغ حرم بجھائے گئے

رقص ہی رقص تھا ہر اک جانب
بزم امکاں میں ہم جو لائے گئے

زندگی یوں وجود میں آئی
دیپ برسات میں جلائے گئے

تب کہیں جا کے کوئی شکل ملی
مدتوں چاک پر گھمائے گئے

جب شہادت کا وقت آیا تو
اس کی محفل میں ہم بلائے گئے

اس کی مجلس نہ مل سکی ہم کو
جس کی خاطر زمیں پہ لائے گئے

یہ بھی تھا فیصلہ مشیت کا
ہم جو تاخیر سے بنائے گئے

جن کی تعبیر مل نہیں پائی
خواب ایسے ہمیں دکھائے گئے

دربدر کس نے کر دیا ہم کو
تھے کہاں کے کہاں بسائے گئے

جانے کس کی تھیں منتظر آنکھیں
جس گھڑی قبر میں لٹائے گئے

جل اٹھیں جانے کتنی قندیلیں
جب سر شام ہم بجھائے گئے

کار آساں نہیں تھا یہ افضل
پھول پتھر پہ جو کھلائے گئے
***
افضل الہ آبادی کی یہ غزل بھی پڑھیں:ہر سماں نور میں نہایا تھا

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے