سروگیسی یا عورت کی تذلیل

سروگیسی یا عورت کی تذلیل

منزہ سیّد

رابطہ: munazzasayed2020@gmail.com

حضرتِ انسان نے ارتقائی ادوار سے موجودہ دور تک ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے بے شمار ایجادات کی ہیں۔اور انہی ایجادات کے حوالے سے ہر دور کے مکاتبِ فکر میں فوائد و نقصانات، حلال و حرام اور جائز و نا جائز کے موضوعات بھی زیرِ بحث آتے رہے ہیں۔ سائنس اور طب کے میدان میں بیماریوں کی تشخیص کے لیے ٹیسٹس اور بہت سی لا علاج بیماریوں کا علاج دریافت کیا گیا جس کو پوری دنیا میں انسانیت پر احسان مانتے ہوئے سائنس دانوں کو بڑے بڑے اعزازات سے نوازا گیا۔سائنس کی ترقی نے جہاں بہت سے نا ممکنات کو ممکن بنایا، وہیں خالقِ کائنات کی مقرر کردہ حدود و قیود اور اصول و ضوابط میں دخل اندازی کے بعد انسانیت کو شرمناک تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا، جو کہ دورِ حاضر میں ”انسانیت“ اور ”آزادی“ کا نعرہ بلند کرنے والوں کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے۔
اس لیے کہ انسانیت اور آزادی کے حوالے سے دورِ جدید کے نام نہاد ترقی یافتہ ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے لیے اولین ترجیح عورت ہے جب کہ سائنس دانوں نے عورت ہی کو کسی غیر مرد کا نطفہ منتقل کرنے کے بعد ”کرائے کی کوکھ“ یا ”سروگیٹ مدر (surrogate mother)“ کا نام دے کر نہ صرف ایک لونڈی، باندی یا کنیز بننے پر مجبور کر دیا ہے بلکہ اس کی شخصی آزادی سلب کرتے ہوئے ایک ماں کی حیثیت سے بھی اس کی بد ترین تذلیل کی ہے۔
آئیے! دیکھتے ہیں کہ سرو گیسی (surrogacy) کا عمل ہے کیا اور اُسے کس طرح انجام دیا جاتا ہے۔ اس عمل کے لیے سب سے پہلے تو ایک عورت کرائے پر لی جاتی ہے جسے جیتی جاگتی عورت یا ماں کہنے کی بجائے ”کرائے کی کوکھ“جیسے غلیظ نام سے نوازا جاتا ہے اور پھر بچے کے خواہش مند مرد کے مادۂ تولید یا سپرمز اور اس کی بیوی کا بیضہ یا انڈہ لے کر اسے ”ٹیسٹ ٹیوبز“ میں بار آوری، افزائش یا فرٹیلیٹی کرنے کے بعد یا پھر ڈائریکٹ اس نطفے کو اس غیر متعلقہ عورت کی کوکھ، بچہ دانی یا یوٹرس میں ڈال دیا جاتا ہے، جس کے بعد وہ نطفہ اس عورت کے جسم سے اٹیچ یا مربوط ہو کر خوراک حاصل کرتے ہوئے نشوونما پاتا ہے۔ یوں اس عورت کو زچگی یا بچے کی پیدائش تک لونڈی بنا کر ایک غیر مرد یا اس کے منتخب شدہ ڈاکٹر کی مرضی کے مقرر کردہ اوقات اور جگہوں پر آنے جانے کی پابند کر دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس عورت کو بچے کے ساتھ کسی بھی جذباتی و نفسیاتی لگاؤ کے نتیجے میں ”کاؤنسلنگ“ کے ذریعے سمجھایا یعنی دھمکایا جاتا ہے کہ تم جس بچے کی نشوونما اپنے خونِ جگر سے کر رہی ہو، وہ بچہ تمھارا ہے ہی نہیں اور زچگی کے جان لیوا مرحلے سے گزرنے کے بعد بھی تمہاری گود خالی ہی رہے گی۔
قارئین کہنے کو تو یہ بات کسی بچگانہ کھیل کا حصہ لگ رہی ہے مگر یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جسے پوری دنیا میں مشہور شخصیات یا ”سیلیبریٹیز“ کے ذریعے فروغ دیا جا رہا ہے، اور ہمسایہ ملک کے اداکاروں میں تو کچھ غیر شادی شدہ یا سنگل مرد حضرات نے بھی صرف اپنے سپرمز یا مادۂ تولید کے ذریعے سروگیٹ بچے ”تیار“ کروا کر باپ یا سنگل پیرینٹ بننے کا شرف حاصل کر لیا ہے۔
چلئیے!مان بھی لیا جائے کہ کسی بھی بے اولاد جوڑے کو سائنس دانوں نے”سروگیسی“ کے ذریعے صاحبِ اولاد بنا کر انسانیت کی بہت بڑی خدمت کی ہے۔۔تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہی انسانیت اس عورت کے لیے لاگو نہیں ہوتی کہ جس کی بچہ دانی یا رحم میں کسی غیر مرد کے مادۂ تولید کو داخل کر کے آپ نو ماہ تک اس کی آزادی سلب کرتے ہوئے اسے نفسیاتی و جذباتی طور پر لونڈی بنا کر پیسوں کے بوجھ تلے دباتے ہوئے اس کی ممتا کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں اور اس کا نومولود چھین کر ماں کے رتبے کی توہین کا فخریہ ارتکاب کرتے ہیں۔
دنیا کے تمام مذاہب کی تعلیمات و احکامات کی روشنی میں دیکھا جائے تو سب نے شادی کیے بغیر کسی بھی بچے کی پیدائش کو حرام اور بچے کو حرامی قرار دیا ہے اور ہر مذہب میں شادی کا تصور اسی لیے موجود ہے کہ انسان اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل اور افزائشِ نسل کو جائز اور حلال راستے سے کر سکے۔ لہٰذا بہت سے علما و فقہا نے قرآنی آیات اور احادیثِ مبارکہ کے حوالے پیش کرنے کے بعد ”سروگیسی“ کو حرام قرار دیا ہے۔
اس لیے اگر آپ انسانیت اور عورت کی آزادی و حقوق کے تحفظ کے اتنے ہی بڑے دعوے دار ہیں تو عورت کو جائز رشتے سے اپنا کر اسے اپنا نام، عزت اور تحفظ دیجیے اور پھر اولاد حاصل کیجیے کیونکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ عورت حساس دل کی مالک ہوتی ہے اسی لیے اسے”صنفِ نازک“ بھی کہا جاتا ہے۔
اگر عورت کو پیسے کی چمک دمک میں الجھا کر بکاؤ مال بنا دیا گیا تو نہ صرف مجبور عورتوں کی اکثریت کے اس طرف مائل ہونے کے باعث عائلی نظام درہم برہم ہونے کا اندیشہ ہے بلکہ اس کے ساتھ ہی”کرائے کی کوکھ“ سے پیدا ہو کر مختلف گھروں اور خاندانوں میں جانے والے بچوں یعنی نا معلوم بہن بھائیوں کی لاعلمی کی بنیاد پر شادیوں یا دیگر قانونی طور پر منظور شدہ جنسی اختلاط کے نتیجے میں وہ بد ترین بگاڑ پیدا ہونے کا احتمال ہے کہ جو کسی بھی مذہب میں قابلِ قبول نہیں۔
اس لیے جو لال بجھکڑ اس کارنامے کو اعضا کی پیوندکاری اور انتقالِ خون کے تناظر میں جائز اور حلال قرار دے رہے ہیں وہ آیات پڑھنے کے باوجود بھی اسلامی تعلیمات اور اللہ اور اس کے رسول  کی حکمت سے یکسر نابلد ہیں۔

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے