کتاب: عکس مطالعہ

کتاب: عکس مطالعہ

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
ایڈیٹر ہفت روزہ نقیب، امارت شرعیہ، پھلواری شریف، پٹنہ
ڈاکٹر محمد عارف حسن وسطوی بن انوارالحسن وسطوی بن محمد داؤد حسن مرحوم، ساکن حسن منزل آشیانہ کالونی روڈ نمبر 6 حاجی پور ویشالی بڑی تیزی سے نئی نسل کے اہل قلم کے درمیان اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں، لکھنا، پڑھنا، پڑھانا ان کو ورثہ میں ملا ہے، انھوں نے پروفیسر عبدالمغنی حیات اور ادبی کارنامے پر ڈاکٹر ممتاز احمد خاں مرحوم سابق ایسوسی ایٹ پروفیسر بہار یونی ورسٹی مظفر پور کی نگرانی میں اپنا مقالہ مکمل کیا اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، ان کی پہلی تالیف داؤد حسن زبان خلق کے آئینے میں 2018 میں منظر عام پر آئی تھی، جو ان کے کے دادا پر مختلف اہل قلم کے ذریعہ لکھے گئے مضامین کا مجموعہ ہے، 2019 میں ان کا تحقیقی مقالہ پروفیسر عبدالمغنی ناقد و دانشور کے عنوان سے سامنے آیا اور 2020 میں ان کے مضامین کے مجموعہ عکس مطالعہ نے قارئین، ناقدین اور مبصرین کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے میں کامیابی حاصل کی ہے. سال بہ سال تالیفات و تصنیفات کی طباعت کا یہ عالم رہا تو ان کی نگارشات سے اہل علم و فن کو فائدہ پہنچے گا اور بعید نہیں کہ اردو دنیا میں وہ اپنے نامور والد کے صحیح جانشین ثابت ہوں گے، حالانکہ یہ مقام حاصل کرنا آسان نہیں ہے، انوارالحسن وسطوی کو پروفیسر ثوبان فاروقی جیسے دیدہ ور نے باباہائے اردو ویشالی کہا ہے، ڈاکٹر عارف حسن وسطوی کی طرف ارباب دانش و بینش پوری طرح متوجہ ہیں، تبھی تو 2019 میں دو ایوارڈ سے نوازے گئے، ایک اکبر رضا جمشید اردو ادبی ایوارڈ بہار و جھارکھنڈ اور اردو ادب ایوارڈ برائے مجموعی کارکردگی، آخرالذکر ایوارڈ ہم نشیں بہار نے انھیں دیا تھا۔
عکس مطالعہ ایک سہ بابی کتاب ہے، جس میں مضامین بھی ہیں تبصرے بھی، دو مضامین مسائل اردو سے متعلق بھی شامل کتاب ہیں، مضامین والے حصے میں شاد عظیم آبادی، سلطان اختر، ذکی احمد ذکی، پروفیسر شاہد علی، احمد اشفاق کی شاعری، شین مظفر پوری، مناظر عاشق ہرگانوی، بختیار احمد کی انشائیہ نگاری، کلیم عاجز کی مکتوب نگاری، سید عبدالرافع کی صحافتی خدمات، مولانا آزاد کا پھول پودوں سے شوق، کرشن چندر کا افسانہ کالو بھنگی، مولانا حسرت موہانی اور جنگ آزادی جیسے متنوع قسم کے مضامین شامل ہیں، پروفیسر عبدالمغنی پر دو مضمون شخصیت اور جہتیں اور ان کی نثر نگاری پر اس مجموعہ میں شامل ہیں، مجتبیٰ حسین، تیری یاد شاخ گلاب ہے، مولانا رضوان القاسمی؛ ایک جوہر کمیاب شخصیت اور پروفیسر قمر اعظم ہاشمی کی یاد میں، یاد رفتگاں کے قبیل کے مضامین ہیں، جن میں ان کی علمی، ادبی اور تعلیمی خدمات کا جائزہ بھی لیا گیا ہے، یہ باب اٹھارہ مضامین کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، جس کا سلسلہ صفحہ146 پر جا کر ختم ہوتا ہے، اس باب کا آغاز صفحہ نمبر 16 سے ہوا ہے۔
تبصرے والے حصے میں اقبال شاعر اور دانشور، حرف آگہی، امعان نظر، ڈاکٹر ممتاز احمد خاں ایک شخص ایک کارواں، مناظر عاشق ہرگانوی کی نعت گوئی میں ندرت، مولانا ابوالکلام آزاد اور ان کا نظریہ تعلیم، سید اجمل فرید؛ یادیں، باتیں، بہار میں اردو صحافت: سمت و رفتار، مناظر عاشق ہر گانوی کا ناول، شبنمی لمس کے بعد، متاع لوح و قلم، بدر محمدی کی شاعری خوش بو کے حوالے سے، انوار قمر، صدبرگ سخن ہائے گسترانہ، صدائے گوہر، سہرے کی ادبی معنویت، اردو ادب ترقی پسندی سے جدیدیت تک اور خیال خاطر، اس باب میں اٹھارہ کتابوں پر تبصرہ ہے، عارف حسن نے ڈاکٹر ممتاز احمد خاں، مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی، بدر محمدی، ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق، ڈاکٹر زہرا شمائل، ڈاکٹر احسان عالم، ڈاکٹر منصور خوشتر، پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی، مولانا سید مظاہر عالم قمر، سید مصباح الدین احمد، بختیار احمد، ڈاکٹر محمد گوہر، ڈاکٹر امام اعظم،پروفیسر توقیر عالم اور مولانا رئیس اعظم سلفی کی تخلیقات، تصنیفات، تالیفات اور تحقیقات پر اپنے قلم کی جولانی دکھائی ہے اور ان کی تخلیقی، تنقیدی اور تحقیقی در و بست کو اجاگر کرنے کے ساتھ فکری اور فنی حیثیت کو بھی قاری کے سامنے رکھا ہے، اس مجموعہ کا اختتام اردو کے مسائل پر کیا گیا ہے، جس کا عنوان ہے عوامی سطح پر اردو زبان کے فروغ میں درپیش مسائل اور ان کا حل نیز نئی نسل کی اردو سے بڑھتی دوری، اسباب اور سد باب اسے مسک الختام کہنا چاہئے۔
’’عکس مطالعہ‘‘ کا حصہ مضامین والا ہو یا تبصرہ والا دونوں میں ڈاکٹر عارف حسن نے اعتدال اور توازن کے ساتھ اپنا مطالعہ پیش کردیا ہے، ان کے تبصرہ والے مضامین کی خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے صرف گل چینی ہی نہیں کی ہے؛ بلکہ جہاں کہیں کوئی غلطی نظر آئی، کسی جھول پر نظر ٹک گئی تو انھوں نے برملا اس کا اظہار کردیا ہے، تنقید کرتے وقت زبان شستہ رکھی گئی، سوقیانہ اور شخصیت کو مجروح کرنے والے الفاظ سے انوں نے گریز کیا ہے، بات ساری کہہ گئے ہیں؛ لیکن اسلوب، پیرایہ بیان، جملوں کا انتخاب اس طرح کیا ہے کہ کسی کو اپنی ہتک عزتی کا احساس نہیں ہوتا؛ بلکہ وہ لب لعل و شکر خارا کی طرح ایک قسم کی مٹھاس لیے ہوے ہے، ان کے الفاظ اور جملوں میں ترسیل کی جو صلاحیت ہے وہ قاری کو اس کے اندرون تک پہنچا دیتی ہے، انھوں نے خود بھی لکھا ہے کہ ’’اعتدال کی راہ ہر جگہ روا رکھی گئی ہے،‘‘ یہی اعتدال اس کتاب کی خصوصیت ہے ۔
دوسری خصوصیت ’’عکس مطالعہ‘‘ کے مضامین کا تنوع ہے، جس میں ادب، شاعری، خاکے انشائیے، سبھی کچھ سما گئے ہیں، ان پر قلم اٹھانے کا مطلب سیدھا سیدھا یہ ہے کہ مضمون نگار کا مطالعہ ان اصناف ادب کے سلسلے میں وسیع ہے، جن میں گہرائی بھی ہے اورگیرائی بھی، دو سوچونسٹھ صفحات کی اس کتاب کا انتساب مصنف نے اپنے دادا مرحوم کے نام کیا ہے، شروع میں حرف افسر ابراہیم افسر کا ہے، اور پیش لفظ مصنف کے قلم سے ہے، کتاب کی قیمت 160 روپے زائد نہیں مناسب ہے، کتاب المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کے زیر اہتمام روشان پرنٹرس نئی دہلی سے چھپی ہے، آپ اگر پٹنہ میں رہتے ہیں تو بک امپوریم پٹنہ سے خرید سکتے ہیں، کتاب مصنف کے پتہ کے ساتھ ممتاز اردو لائبریری ساجدہ منزل باغ ملی حاجی پور اور نور اردو لائبریری حسن پور گنگھٹی بکساما، ویشالی سے بھی مل سکتی ہے۔
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :رشتوں کا احترام کریں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے