آ نس معین: چھوٹی عمرکا بڑا شاعر

آ نس معین: چھوٹی عمرکا بڑا شاعر

(پاک وہند کےادیبوں،شاعروں اورناقدین کی نظرمیں)

میری قامت سے ڈرنہ جائیں لوگ
میں ہوں سورج مجھے دِیا لکھنا

ولادت: لاہور.29 نومبر 1960 ،وفات: ملتان. 5 فروری 1986
تحریر و ترتیب: ڈاکٹر فوق کریمی، علی گڑھ

آنس معین بلا شبہ جدید اردو شاعری کا ایک معتبرحوالہ ہی نہیں بلکہ ایک روشن اور زندہ روایت کا بھی نام ہے۔ آنس معین اردو کی شعری روایت میں ایک ایسا خوب صورت اورجان دار اضافہ ہے کہ تنقید کے بےتاج بادشاہ ڈاکٹر انور سدید نے تو آنس معین کی وفات کو جدید غزل کی مو ت قرار دے دیا ہے اور اردو غزل کے عہد کا تعین ان الفاظ میں کیا ہےکہ "میرتقی میر سے لےکر آنس معین تک کو اس صنف سخن (غزل) نے اظہار کی خستگی عطا کی ہے"۔
آنس معین کی خوب صورت، منفرد اور جداگانہ طرز کی شاعری نے تو ہندستان کے بھی بڑے بڑے ناقدین کو چونکا ڈالا۔ آنس معین کی شاعری اور شخصیت کو یوں تو پاکستان کے بھی بڑے بڑے ناقدین نے موضوع بنایا اور بعض حقیقت پسند اور ادب شناس ناقدین نے آنس معین کی تفہیم کے عمل کو مسلسل جاری رکھا ہواہے ۔
ہندستان میں اردو ادب سے بالعموم اور اردو شاعری سے بالخصوص محبت کرنے کی تاریخ اور روایت اتنی ہی قدیم ہے، جتنی اردو کی تاریخ۔ ہندستان میں آنس فہمی کا سفر اُسی وقت شروع ہو گیا تھا، جب پاکستان میں آنس معین کی شعری تخلیقات کا وقفے وقفے سے اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا۔ البتہ اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ 05 فروری 1986 کو آنس معین کی المناک موت کے بعد سے پاکستان اور ہندوستان میں آنس معین کی تفہیم کا عمل تیز تر ہوگیا۔
ہم نے”آنس معین: ہندستانی اور پاکستانی ناقدین کی نظر میں" کے عنوان کے تحت زیر نظر مضمون میں ایک سرسری سا جائزہ لینےکی کوشش کی ہے۔ جس سے ہندستان میں آنس فہمی کی رفتار اور معیارکا تعین کرنے میں مدد مل سکےگی۔ یہ بھی اندازہ لگایا جا سکےگا کہ آنس معین کو ہندستان کے کون کون سے ادبی دھڑوں اور مکاتب فکر کے اہل قلم نے سمجھنے کی کوشش کی۔
ہندستان کے بین الاقوامی شہرت یافتہ اسکالر، شاعر، نقاد اورادیب (پروفیسر)جگن ناتھ آزاد لکھتے ہیں کہ میں ایک مدت سے آنس معین کے کمال فن کا معترف ہوں۔ آنس معین کا کلام جب کبھی میری نظروں گذرا، میں حیرت زدہ رہ گیا، اس کے فکر کی ندرت پر، فکر کو جذبہ بنانے کے عمل پر اور اس کے انداز بیان پر۔ آنس معین کاجتنا بھی کلام دیکھا اور زیادہ تران کی غزلیں ہی دیکھیں اس سے میں متاثر بھی ہوتا رہا. مجھے مسرت بھی حاصل ہوتی رہی اور بصیرت بھی۔ جوش ملیح آبادی نے اسے کمسن سقراط کہا ہے۔ فیض احمد فیض نے اسے چھوٹی عمر کا بزرگ دانشور قرار دیا ہے۔ احمد ندیم قاسمی نےکہا میں آنس معین کے اشعار پڑھ کر دم بخود رہ جاتا ہوں اور رشک بھی کرتا ہوں کہ آنس جیسے اشعار کہہ سکوں۔ جابر علی سید اسے ننھا رومی کہتے ہیں، وزیر آغا لکھتے ہیں کہ اگر آنس معین چند
برس اور زندہ رہ جاتا تو اس کا ادبی مرتبہ کیٹس سے کم نہ ہوتا۔ ڈاکٹر انور سدید کے لفظوں میں آنس معین کی وفات جدید غزل کی موت ہے۔ طفیل ہوشیار پوری لکھتے ہیں” آنس معین پر اتنا کچھ لکھا گیا ہے کہ اگر اسے یکجا کیا جائے تو کئی ضخیم کتابیں مرتب ہو سکتی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ آنس معین جیسے قد آور شاعر صدیوں میں جنم لیتےہیں۔وہ یقیناً اپنے عہد سے بہت آگےکا بلکہ آنے والی صدیوں کا شاعر ہے"۔
پروفیسر جگن ناتھ آزاد جیسی ہستی کا اس قدر واضح الفاظ میں آنس معین کے کمال فن کا اعتراف کرنا اور اس اعتراف کے ساتھ ساتھ یہ وضاحت بھی کرنا کہ آنس کی شاعری نہ صرف انھیں حد درجہ متاثر کرتی رہی، بلکہ یہ بھی کہ کلا م آنس ان کے لیے بصیرت ساماں بھی ثابت ہوتارہا ۔
جگن ناتھ جی آزاد نے آنس کے کلام کی چند خوبیوں کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ وہ آنس معین کی حیرت زدگی، زبان کی سادگی، بیان کی ندرت، اور فکر کو جذبہ بنانے کے عمل کے گُن گاتے نظر آتے ہیں۔
میرے محترم راز سنتوکھ سری بھی تسلیم کرتے ہیں کہ آنس کی شاعری حد درجہ چونکا دینے والی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ”آنس معین کی غزل نیز نظم واقعی چونکا دینے والی ہے۔ آنس معین کی موت اس کے والدین اور اعزا و اقارب کے علاوہ اردو ادب کے لیے بھی ناقابل تلافی نقصان ہے۔ ایسے لوگ کیوں اتنی جلدی مرجاتے ہیں؟ کوئی ہے جو اس بات کا جواب دے۔ واقعی ایسے لوگ رجحان ساز بلکہ عہد ساز ہوتے ہیں۔
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
جب میں نے ترجمان میں آنس معین کی شخصیت اور شاعری کے حوا لے سے طفیل ہوشیار پوری صاحب کا مضمون شائع کیا تھا، توشہنشاہ سخن مجروح سلطان پوری نے مجھے خط لکھ کر اپنے تاثرات سے آگاہ کیا تھا، لکھا تھا، آنس معین کی تخلیقات اور شخصیت دونوں ہی حد درجہ غیر معمولی حیثیت کی حامل ہیں اور دیکھئے کہ صرف 27 برس کی عمر میں اس نے ایسا حیرت انگیز، خوب صورت اور لازوال شعری سرمایہ اردو شاعری کو عطا کیا ہے، جس کی اردو ادب میں تو شاید ہی پہلے کوئی مثال ہو۔ آنس معین کے لہجے اور اسلوب کی انفرادیت اور اس کی چونکا دینے والی کیفیت کی بنیاد پر اسے ایک جدید، خوب صورت اور لافانی انداز اور طرز شعر گوئی کا بانی کہا جا سکتا ہے۔ آنس معین کی شاعری کے مطالعے کے بعد تو اس تشنگی کا احساس بھی نہیں رہتا کہ جو فانی بدایونی، اختر شیرانی اور شکیب جلالی، یا ن۔م، راشد کے کلام کوپڑھ کرہوتی رہی ہے۔ بےشک
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
مگر اہلِ ادب غالب کے مصرعے میں ذرا سے تصرف
کے ساتھ ٹھیک ہی کہتےہیں کہ:
آنس کا ہے اندازِ بیاں اور
آنس معین پر بہت کچھ لکھا گیا اور یقیناً ہندوپاک اور دنیا بھر کے اہل نظر بہت کچھ لکھیں گے مگر انھیں آنس معین کے اشعار کے سحر سے باہر نکل کر آنے تو دیجئے.

انجام کو پہنچوں گا میں انجام سے پہلے
خود میری کہانی بھی سنا ئے گا کوئی اور

ڈاکٹر ایس حسن (ارمان نجمی) نے خوب صورت الفاظ میں آنس معین کی عظمتِ فن کا اعتراف کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
"میں نےآنس معین جیسا جینئس نہیں دیکھا۔ آنس معین بہت بڑا شاعر ہے۔ آنس معین کی شاعری اتنی منفرد اور کرب سے لبریز ہے کہ جو قاری کے دل و دماغ کو جھنجھوڑ ڈالتی ہے۔ آنس معین جیسی ہستیاں بہت کم پیدا ہوتی ہیں۔ آنس معین کی شاعری کی خوش بو دور دور تک پھیلی ہوئی ہے"
رام لعل نے خیال ظاہر کیا کہ "آنس معین نے اردو شاعری کو جلا بخشی ہے، وہ یقیناً ایک لافانی شاعر ہے۔ اس کا شعری ورثہ اردو شاعری کا لازوال سرمایہ ہے"۔
پروفیسر عزیزعالم نے اپنے ایک طویل تنقیدی مضمون میں آنس معین کی شاعری کا ناقدانہ تجزیہ کیاہے۔ لکھتے ہیں”آنس معین نےکیٹس کی طرح زندگی کی 27 بہاریں دیکھیں مگر شاعری کا ایسالا زوال ورثہ چھوڑا ہے کہ جدید اردو شاعری کا ذکر آنس کے بغیر ہمیشہ ادھورا رہےگا “۔
ڈاکٹر اسد زیدی لکھتے ہیں”آنس معین کو ”شیلے" اور”کیٹس" کا ہم پلہ قرار دینا آنس کی شاعرانہ عظمت کم کرنے کے مترادف ہے"۔
میرے اپنےخیال میں”ہندستان میں آنس فہمی" کا عمل تیزی سےجاری ہے اور تنقیدی، تحقیقی اور تصنیفی کام کی رفتار بھی تسلی بخش ہے۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی جیسی عظیم درس گاہ (کہ جس کے پڑوس میں رہنے کا شرف اور اعزاز ایک مدت سے مجھے حاصل ہے) کےشعبہ اردو کے متعدد اساتذہ اور تحقیقی کاموں کی نگرانی پر مامور سینئر پروفیسر حضرات سے اکثر ملاقاتوں میں مجھے معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ چند برسوں میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ہی میں نہیں بلکہ دیگر یونی ورسٹیوں میں بھی آنس معین پر تحقیقی کام کا آغاز ہوسکتا ہے مگر ان تحقیقی منصوبوں میں ایک بڑی رکاوٹ دور ہونے کا انتظار ہے اور وہ یہ کہ پہلے انتخاب یا کلیات کی شکل میں آنس معین کا کلام زیورطباعت سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آئے۔ اور پھر یقیناً تحقیقی اور تنقیدی کام مزید آگے بڑھ سکےگا۔
یوسف جمال بھندوی آنس معین کو عہد حاضر کا شکیب جلالی، مصطفی زیدی، کیٹس اور شیلے کا ہم پلہ قرار دینے پر معترض ہیں۔ انھیں تو آنس معین کو اردو ادب کا شیکپیئر قرار دینے پر بھی اعتراض ہے۔ وہ لکھتے ہیں”آنس معین کا ہر شعر ان کے اپنے اسلوب اور محاسن کی عکاسی کرتا ہے۔

نہ تھی زمین میں وسعت مری نظر جیسی
بدن تھکا بھی نہیں اور سفر تمام ہوا

آنس معین ایک تازہ آفتاب ہے۔ جو کسی سیارے سے روشنی حاصل نہیں کرتا بلکہ روشنی لٹاتا ہے۔ جس شاعر کا ذہن ایسے منفرد اور چونکا دینے والے لہجے کے خوب صورت اشعار تخلیق کرے اس کے لیے کسی دوسری شخصیت کا حوالہ دینا نا مناسب ہے"۔
میرے ایک انتہائی محترم بزرگ جنھیں نہ صرف ہند و پاک میں بلکہ پوری دنیا میں احترام اور قدر و منزلت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، وہ ہیں حضرت کنور جی مہندر سنگھ بیدی سحر۔ کنور مہندر سنگھ بیدی سحر نے اپنی منفرد اور خوب صورت رائے کا اظہار ان الفاظ میں کیا۔
“آنس معین کا سارا کلام خوب ہی نہیں، بہت خوب ہے۔ آنس معین کی شاعری میں تیکھا پن ہے۔ مقصدیت ہے، انفرادیت ہے اور گہرائی ہے۔ آنس جیسے بلند قامت شاعر کم کم اور صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔
حیرت سے جو یوں میری طرف دیکھ رہے ہو
لگتا ہے کبھی تم نے سمندر نہیں دیکھا
اور واقعی آنس معین کی تخلیقات پڑھ کرمیں حیرت کی تصویر بن گیا۔ کلامِ آنس، کمالِ آنس ہے"۔استاذالاساتذہ پروفیسر آل احمد سرور نےتو بہت پہلے ہی اپنی رائے کا اظہار کردیا تھاکہ”آنس معین کی شاعری میں معجزانہ تخلیق کے تمام تر اوصاف نمایاں ہیں۔ کہیں اس کے اندر جوالا مکھی تو نہیں سلگ رہا؟“۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اردو ادب کی ایسی ایسی مہان اور عظیم المرتبت شخصیات نے آنس معین کی شاعرانہ عظمت کا جس قدر بھرپور انداز میں اعتراف کیا ہے، وہ ہماری اردو شاعری کی تاریخ میں یقیناً ایک منفرد اور انوکھی مثال ہے"۔
پروفیسر ڈاکٹر عنوان چشتی تحقیق و تنقید اور شعر و سخن کے میدان میں اپنی مثال آپ ہیں، انھوں نے بھی آنس معین کو اردو شاعری کی ایک منفرد اور توانا آواز قراردیا۔
ڈاکٹرعنوان چشتی نے اپنے تنقیدی جائزے کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے : ”آنس معین ایک منفرد اور توانا آواز کا نام ہے۔ یہ آواز اپنے چہرے کی شائستگی اور البیلے پن کے سبب ہر غزل میں الگ نظرآتی ہے۔آنس معین نے اپنے لب و لہجہ، اقدار و اظہار اور انداز و اسلوب کو اپنے خون جگر سے پرورش کیا ہے۔
آنس معین کی شاعری میں ہم عصر زندگی کے مسائل اور ان سے پیدا ہونے والے تاثر اور سائیکی کا گہرا اثر ہے۔ اگر آنس معین کی غزل کو زلف آرائی کا اورموقع ملتا تووہ اپنی آواز کو دیگر آوازوں میں سب سے اونچا کرلیتے۔

عجب انداز سے یہ گھر گرا ہے
مرا ملبہ مرے اوپر گرا ہے

رہتا ہوں جس زمیں پہ وہی اوڑھ لوں گا میں
جا ئےاماں اک اور بھی ہوتی ہے گھر کے بعد

ہیرانند سوز کےافسانے، تنقیداورشاعری کودنیائےادب میں پسندیدگی کی نظرسےدیکھاجاتاہے۔ عزیزم ہیرانند سوزکوملال بھی ہے۔ وہ لکھتےہیں "یہ میری کم نصیبی ہےکہ مجھےآنس معین سےبالمشافہ ملاقات کاشرف حاصل نہ ہوسکا۔ وہ اتنی جلدی سب سے روٹھ کرچلاجائےگا، ایسا کبھی سوچاہی نہیں تھا۔ اس کی پہلیغزل ہی اس کی شناخت بن کر میرےسامنےآئی۔
وہ میرےحال پہ رویا بھی، مسکرایا بھی
عجیب شخص ہےاپنابھی ہے، پرایا بھی
آنس کی یہ غزل پڑھ کرمجھےشدت سےاحساس ہوا تھا کہ عصری حسیت کےاس نوجوان شاعرنےاپنی شمع فکراپنےخون جگرسےروشن کررکھی ہے اور اپنی ذات کےکرب کولفظوں میں ڈھال کرنوک قلم سے سطح قرطاس پربکھیرتا ہے ۔
آنس معین زمین،ذات اور کائنات کاشاعرہےاوراس نے اس تثلیث کو اپنےجسم وجاں میں پوری طرح جذب
کرنے کےبعدجزوِبدن بنا کرفکری سطح پرابھاراہے۔
ہے میرےاندر بسی ہوئی ایک اوردنیا
مگر کبھی تم نےاتنا لمبا سفر کیا ہے
ہیرانندسوز نےاپنےمضمون”آنس معین آنےوالی صدی کا شاعر" میں مزید لکھا ہے کہ ”مجھے آنس معین کے اندرایک جوالامکھی سلگتا ہوا دکھائی دیاہے۔ آنس معین کی شاعری میں جہاں ذات کی پراسراریت کا عرفان ہے۔ وہیں دل گرفتگی کی بھی بھرپورعکاسی ملتی ہے۔ اورذاتی زندگی میں پایا جانے والا انجانا خوف بھی اس کی شاعری پرچھایا ہوا لگتا ہے۔اپنے غموں، محرومیوں،بےچارگیوں،اداسیوں اورتنہائیوں کو غزل کاموثرلہجہ عطاکرکےآنس نےاولین مراحل میں ہی اہل ادب کواپنی طرف متوجہ کرلیاتھا۔ وہ اپنی عمرسے کہیں زیادہ عمررسیدہ،تجربےسےکہیں زیادہ تجربہ کاراورقد و قامت سےزیادہ بلندقامت نظر آتا ہے۔ وہ آنےوالی صدی کاشاعر ہے،وہ شعروسخن میں نیارنگ وآہنگ لےکرآیا
اورپائےدارنقش چھوڑگیا
آنس معین کی یکسر منفرد اور چونکادینے والی شاعری کے حوالے سے بھارت کے مشاہیرِ ادب کی مزید آرا  اور تاثرات سے پہلے ملاحظہ فرمائیے آنس معین کے یہ چند اشعار:
ہماری مسکراہٹ پر نہ جانا
دیا تو قبر پر بھی جل رہا ہے

انجام کو پہنچوں گا میں انجام سے پہلے
خود میری کہانی بھی سنائے گا کوئی اور

وہ جو پیاسا لگتا تھا سیلاب زدہ تھا
پانی پانی کہتے کہتے ڈوب گیا

تھا انتظار منائیں گے مل کے دیوالی
نہ تم ہی لوٹ کے آئے نہ وقت شام ہوا

حیرت سے جو یوں میری طرف دیکھ رہے ہو
لگتا ہے کبھی تم نے سمندر نہیں دیکھا

اک ڈوبتی دھڑکن کی صدا لوگ نہ سن لیں
کچھ دیر کو بجنے دو یہ شہنائی ذرا اور

اندر کی دنیا سے ربط بڑھاؤ آنسؔ
باہر کھلنے والی کھڑکی بند پڑی ہے

ممکن ہے کہ صدیوں بھی نظر آئے نہ سورج
اس بار اندھیرا مرے اندر سے اٹھا ہے

عجب انداز سے یہ گھر گرا ہے
مرا ملبہ مرے اوپر گرا ہے

گونجتا ہے بدن میں سناٹا
کوئی خالی مکان ہو جیسے

نہ جانے باہر بھی کتنے آسیب منتظر ہوں
ابھی میں اندر کے آدمی سے ڈرا ہوا ہوں

گہری سوچیں لمبے دن اور چھوٹی راتیں
وقت سے پہلے دھوپ سروں پہ آ پہنچی

یہ انتظار سحر کا تھا یا تمہارا تھا
دیا جلایا بھی میں نے دیا بجھایا بھی

یاد ہے آنسؔ پہلے تم خود بکھرے تھے
آئینے نے تم سے بکھرنا سیکھا تھا

کیوں کھل گئے لوگوں پہ مری ذات کے اسرار
اے کاش کہ ہوتی مری گہرائی ذرا اور

آخر کو روح توڑ ہی دے گی حصار جسم
کب تک اسیر خوشبو رہے گی گلاب میں

میرے اپنے اندر ایک بھنور تھا جس میں
میرا سب کچھ ساتھ ہی میرے ڈوب گیا ہے

گئے زمانے کی چاپ جن کو سمجھ رہے ہو
وہ آنے والے اداس لمحوں کی سسکیاں ہیں

اک کرب مسلسل کی سزا دیں تو کسے دیں
مقتل میں ہیں جینے کی دعا دیں تو کسے دیں

ہزاروں قمقموں سے جگمگاتا ہے یہ گھر لیکن
جو من میں جھانک کے دیکھوں تو اب بھی روشنی کم ہے

آج ذرا سی دیر کو اپنے اندر جھانک کر دیکھا تھا
آج مرا اور اک وحشی کا ساتھ رہا پل دو پل کا

گیا تھا مانگنے خوشبو میں پھول سے لیکن
پھٹے لباس میں وہ بھی گدا لگا مجھ کو

نہ تھی زمین میں وسعت مری نظر جیسی
بدن تھکا بھی نہیں اور سفر تمام ہوا

اتارا دل کے ورق پر تو کتنا پچھتایا
وہ انتساب جو پہلے بس اک کتاب پہ تھا

درکار تحفظ ہے پہ سانس بھی لینا ہے
دیوار بناؤ تو دیوار میں در رکھنا

میں اپنی ذات کی تنہائی میں مقید تھا
پھر اس چٹان میں اک پھول نے شگاف کیا

کب بار تبسم مرے ہونٹوں سے اٹھے گا
یہ بوجھ بھی لگتا ہے اٹھائے گا کوئی اور

تمہارے نام کے نیچے کھنچی ہوئی ہے لکیر
کتاب زیست ہے سادہ اس اندراج کے بعد

یہ اور بات کہ رنگ بہار کم ہوگا
نئی رتوں میں درختوں کا بار کم ہوگا

بدن کی اندھی گلی تو جائے امان ٹھہری
میں اپنے اندر کی روشنی سے ڈرا ہوا ہوں

کس قدرحیرت انگیز بات ہے کہ ہندستان کےقریباً تمام ادبی گروہوں اور دھڑوں سے تعلق رکھنے والے مختلف الخیال اہل قلم نےآنس معین پر تحقیقی اور تنقیدی کام کوجاری رکھنا ادبی فرض اورقرض جانا۔ ڈاکٹر مناظرعاشق ہرگانوی کےان گنت ادبی روپ ہیں مگر میرےخیال میں جدیداردو تنقید کے حوالے سے انھیں جو مرتبہ اورمقام حاصل ہے، وہ کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے ۔
دیکھئے کہ ڈاکٹرمناظرعاشق ہرگانوی کی تنقیدی عینک سے آنس معین کی شاعری کارنگ وآہنگ کیسا نظر آتا ہے؟ وہ لکھتےہیں”۔آنس معین اپنی آوازکی انفرادیت، لہجہ کی شائستگی، طرزادا کی سبک روی اور عصری حسیت کی کامیاب پیش کش کی وجہ سے نئی اردوغزل کا ایک توانا اورمعتبرنام ہے۔ آنس معین اپنی غزلوں میں ایک خاص زبان تراشتے ہیں اور نئے استعاروں، تشبیہوں اورنئی علامتوں کے ذریعے اپنے خیالات اورمحسوسات کا اظہارجداگانہ انداز میں بڑی خوب صورتی کے ساتھ کرتے ہیں :
میری قامت سے ڈر نہ جا ئیں لوگ
میں ہوں سورج ،مجھےدِیا لکھنا

اختر الایمان کا تجزیہ ہے”پاکستان کےناقدین اور سخن فہموں نےآنس معین کی دریافت کوادبی تقاضہ بلکہ قرض سمجھا اورانصاف کیا، مگرجیساکہ ڈاکٹر انور سدیدنےلکھا کہ آنس معین کی وفات جدیدغزل کی موت ہے، مجھےاس سےمکمل طورپراتفاق ہے۔آنس معین کے ہرہرشعرمیں مفاہیم کے جہان آباد ہیں۔ پوری اردو شاعری میں اپنےتخلیقی معجزات کی بنیاد پر آنس معین بے مثل نظرآتے ہیں۔ اتنی کم عمری میں اور اس قدرمحدود وقت میں اردوادب کومالامال کر دینا کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ آنس معین کی غیر معمولی شاعری اورشخصیت ہی ہےکہ جس نےعلی سردار جعفری کویہ کہنےپرمجبورکردیاکہ”آنس معین کی شاعرانہ عظمت سےکس کافرکوانکارہوسکتا ہے؟ترقی پسنداور غیرترقی پسندادب کی دونوں ہی قوتوں نےابتدا ہی سےآنس معین کی تخلیقی صلاحیتوں کوواضح الفا ظ میں سراہااوریہ ایک حقیقت پسند انہ طرزعمل تھا۔
آنس معین جدیداردوشاعری کی اتنی تواناآواز ہےکہ گردش ایام بھی اس پراثراندازنہیں ہوسکی۔ ایسے شاعرکہاں ہوتے ہیں؟ اورہوتےہیں تو کتنے کہ جوحال اور مستقبل پرمکمل طورپرچھائےہوئےہوں اورآنےوالا ہرعہدان کا ہو۔
مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ شعبہ اردوکےاستاد جتنے معروف ہیں،اس سےکہیں زیادہ ممتاز۔ایک ممتازنقاد،شاعراورمعلم پروفیسرڈاکٹراسدبدایونی ہیں۔ وہ جس قد رپیارے اورخوب صورت انسان ہیں، اتنے ہی اچھےاور پیارے بلکہ خوب صورت نقاد،شاعر اور استادہیں۔پروفیسرڈاکٹراسدبدایونی لکھتےہیں “آنس معین کے انتقال کےبعدجومختصرساگوشہ اوراق میں شائع ہوا،وہ اتناپراثر اورمسحورکن تھاکہ میں نےاس جواں مرگ شاعرکی پچھلی تمام (مطبوعہ )تخلیقات کو ایک بارپھرپرانےشماروں میں تلاش کیااوردیرتک ان کےسحرمیں گرفتاررہا۔آنس معین کی شاعری کو اس تناظر میں سمجھنےکی کوشش ابھی تک نہیں کی گئی، جس کی وہ مستحق اور متقاضی ہے۔آنس معین نےکتاب حیرت وامکان کا مطالعہ جس سرعت اور گہرائی سےکیا،وہ بہت کم فنکاروں کا حصہ ہے۔ آنس معین کاایک شعرجوبادی النظر میں بہت سادہ معلوم ہوتاہے،خودکشی کے تناظر میں نہایت تہہ دار نظرآتاہے۔
حیرت سےجویوں میری طرف دیکھ رہے ہو
لگتا ہےکبھی تم نےسمندر نہیں دیکھا
پروفیسرڈاکٹراسد بدایونی اپنےمضمون "ایک اچھوتی طرز سخن کابانی" میں مزید لکھتے ہیں”آنس معین کی شاعری پرہندوپاک کے معتبر ناقدین اورہم عصر شعرا و ادبا کے تاثرات کا
مجھے علم ہے مگر بیشترحضرات نے آنس معین کو کسی نہ کسی پیش روسےوابستہ کرنےکی کوشش کی ہے۔ شکیب جلالی، مصطفی زیدی ہوں، خواہ کیٹس، ارسطو، سقراط یارومی ہوں، ہر شخص اپنی ایک جداگانہ حیثیت رکھتا ہے اور یہ تمام ہستیاں بلاشبہ بلند قامت بھی ہیں۔ میں نے آنس معین کو آنس معین ہی کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کی ہے اورمجھےاس کی شاعرانہ شخصیت میں
ایک بالکل منفرد شاعرنظرآیا۔ آنس نے کہا !
چپ رہ کراظہارکیا ہے کہہ سکتے توآنس
ایک علیحدہ طرزسخن کاتجھ کوبانی کہتے
اس جواں مرگ شاعرکی غزلیہ شاعری کو پڑھنے کے بعدمیں جس نتیجےپرپہنچاہوں،وہ یہ ہےکہ آنس معین واقعی ایک اچھوتی اورنرالی طرزسخن کا موجد یابانی ہے۔
ہمارے پسندیدہ ترین شعرا میں خمار بارہ بنکوی بھائی کا نام سرفہرست ہے خمار بارہ بنکوی فرماتے ہیں کہ اردو دنیا میں آنِس معین کی شاعری کی جو دھوم مچی ہوٸی ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ نہ صرف بھارت اور پاکستان بلکہ دنیا کے ہر اس ملک اور خطے میں کہ جہاں اردو زبان و ادب سے محبت کرنے والے موجود ہیں آپ کو آنس معین کے مداح بھی ضرور ملیں گے۔ آنس معین کی خوب صورت شاعری سے دنیائے شعر و ادب مہک رہی ہے۔ آنس معین نے بڑے بڑے ناقدین، شعرا اور ادبا کو چونکا رکھ کر دیا اور میں سمجھتا ہوں کہ پوری اردو شاعری میں اتنی کم عمری میں ایسی قادرالکلامی کی آنِس معین جیسی مثال ملنا محال ہے.

اظہا راحمد ما ہنا مہ معلم اردو لکھنوکے مدیرہونے کے ساتھ ساتھ خود بھی ایک صاحب نظرادیب ہیں، انھوں نے1992ء کے خصو صی شمارے یعنی آنس معین نمبرکےاداریےمیں لکھا ”آنس معین پرپاکستان میں (خاص کران کےسانحۂ ارتحال کےبعد) بہت کچھ لکھا اورشائع کیاگیاہے۔ آنس معین کوجہاں کچھ ناقدین ادب نےعہد جدیدکا ارسطو، کیٹس، شیکسپیئر اورسقراط کہا ہے، وہیں کچھ حضرات نے آنس معین کومصطفی زیدی اورشکیب جلالی کے مماثل قراردیاہے۔کچھ ناقدین ادب کوآنس کی شاعری میں میرکا تغزل اورغالب کی گہرائی اورگیرائی دونوں ہی نظر آئی ہیں۔جوش اورفیض سےلےکراحمد ندیم قاسمی، انورسدید اوروزیرآغا تک سبھی نےآنس کے فکروفن کوسراہا ہے۔ آنس معین کےلب و لہجہ سے بڑےبڑےادیب چونکےہیں۔ اس کےکلام میں جوگہرائی اور رعنائی اورلب ولہجہ میں جوندرت ہے،وہ اتنےکم عمر شعرا کےکلام میں نہیں ملتی۔آنس معین نےصرف 27 سال کی عمرمیں کتاب زیست کا آخری صفحہ پڑھنے کےلیے خودکشی کرلی۔ ہمیں امید ہےآنس کی ادبی قدروقیمت کا تعین کرنے کےلیے ہندوستانی اور پاکستانی ناقدین خصوصی توجہ دیں گے۔"
آنس معین کی شاعرانہ عظمت سےانکارممکن نہیں۔ آنس کا شمارتوان دیدہ وروں بلکہ جہاں دیدہ دانشوروں اورتخلیق کاروں میں ہوتاہے،جنھوں نے اپنے پورےعہدکومتاثرکیاہے ۔
ہرچندآنس معین کی شخصیت اورشاعری کے حوالے سے ہندستان میں بہت سے تنقیدی مضامین منظرعام پر آئے ہیں لیکن مجھے آنس معین کی تفہیم کاعمل مسلسل جاری رہنےکے باوجود صدیوں ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔ حقیقت یہ ہےکہ پروفیسرڈاکٹراسد بدایونی کے الفاظ میں "موت کوقبول کرنےاوراسے اپنی پسندیدہ شے قرار دینےکا رجحان ماضی قریب کے شاعر فانی بدایونی کے ہاں سب سے قوی یا بھرپور انداز میں سامنے آیا ہے۔ میرتقی میر کا کلام قنوطی انداز یا رویےکا حامل ہے، مگر آنس معین کےہاں موت کے معانی اورمفاہیم ان قدیم شعرا سےبالکل مختلف نظر آتے ہیں۔”
اوربس آنس معین کا منفرد لہجہ ہی اس کی پہچان ہے۔
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :فخرِ ادب : علی گڑھ کا بَلّے

آنس معین کا سوانحی خاکہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے