علی سردار جعفری

علی سردار جعفری

خرّم ملک كيتھوی
پٹنہ، بہار،

آج ہی کے دن29 نومبر 1913 کو علی سردار جعفری اترپردیش کے گونڈہ ضلع کے بلرامپور میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے لکھنؤ میں ایک مذہبی ماحول میں پرورش پائی تھی۔ تعلیمی اعتبار سے انھوں نے لکھنؤ یونی ورسٹی سے ماسٹرز کیا.
علی سردار جعفری کا شمار ترقی پسند ادبی تحریک سے وابستہ اردو کے عظیم شاعروں میں ہوتا ہے، وہ بہ یک وقت ایک اچھے شاعر اور نقاد کی حیثیت سے ادب میں پہچانے گئے، وہ بے مثال مقرر ، سیاسی رہنما بھی اور ادبی نظریہ ساز بھی رہے.
وہ بنیادی طور پر نظم کے شاعر تھے لیکن انھوں نے غزلیں بھی کہیں، وہ سادہ گو اور سلیس شاعری کے دل دادہ رہے، رفعت سروش ان کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں :
"سردار جعفری عنفوان شباب میں اپنے اس شعر کے ساتھ مطلع شاعری پر طلوع ہوئے،
دامن جھٹک کے منزل غم سے گزر گیا
اٹھ اٹھ کے دیکھتی رہی گرد سفر مجھے"
کہا جاتا ہے کہ وہ آٹھ سال کی عمر میں انیس کے مرثیے کے 1000 اشعار پڑھ سکتے تھے، انھوں نے مختصر کہانیاں بھی لکھیں، انھوں نے شکسپیئر کے کچھ ڈراموں کا بھی ترجمہ کیا.
ترقی پسند تحریک میں سب سے پہلا نام سجاد ظہیر کا آتا ہے لیکن علی سردار جعفری ترقی پسند تحریک کے روحِ رواں کی حیثیت کے طور پر جانے جاتے ہیں.
وہ خود کہتے ہیں کہ:
"تحریک، تنظیم اور تخلیق کا باہمی رشتہ ہے."
وہ ملک میں امن و شانتی کی فضا قائم کرنا چاہتے تھے.
نغمہ نگار کے طور پر ان کے مختصر کاموں میں دھرتی کے لال 1946 اور پردیسی 1957 شامل ہیں،
1948 سے 1978 کے بیچ ان کے شعری مجموعے شائع ہوئے ہیں:
1- نئی دنیا کو سلام (1948)
2-خون کی لکیر، امن کا ستارہ, ایشیا جاگ اٹھا (1951)
3-پتھر کی دیوار (1953)
4- ایک خواب اور، پیراہن شرر (1965)
5- لہو پکارتا ہے (1965)
انھیں اس کے علاوہ اودھ کی خاک حسین، صبح فردا، میرا سفر اور ان کے آخری شعری مجموعے "سرحد" جسے اس وقت کے وزیراعظم جناب اٹل بہاری واجپائی نے اپنے لاہور سفر کے دوران رکھا تھا، وزیراعظم نے سردار جعفری صاحب کو بھی اپنے ساتھ چلنے کو کہا لیکن علالت کی وجہ سے وہ لاہور سفر میں شرکت نہیں کر سکے.
ایوارڈز اور احترام:
فراق گورکھپوری (1969) اور قرۃ العین حیدر (1989) کے بعد گیان پیٹھ ایوارڈ (1997) کو حاصل کرنے والے وہ صرف تیسرے اردو شاعر تھے. انھوں نے پدم شری (1967)، جواہر لال نہرو فیلوشپ (1971)، سمیت کئی دیگر اہم اعزازات اور اعزاز بھی وصول کیے تھے، پاکستان حکومت اقبال مطالعہ (1978) کے لیے گولڈ تمغے (1978)، اترپردیش اردو اکیڈمی ایوارڈ کے لئے شاعری، مخدوم ایوارڈ، فیض احمد فیض ایوارڈ، مدھیہ پردیش حکومت سے اقبال سمان ایوارڈ اور مہاراشٹر حکومت سے سینٹ دیوانشور ایوارڈ بھی حاصل کیا.
ان کی شاعری وہ شاعری ہے جو رہتی دنیا تک قائم و دائم رہے گی جب تک اردو ادب سے محبت کرنے والے زندہ رہیں گے تب تک ان کو سردار جعفری یاد آتے رہیں گے، ان کی شاعری کا کینوس بہت وسیع ہے جو ان کو ادب کی دنیا میں تا حیات زندہ جاوید رکھے گی.
آپ 1948 میں سلطانہ منہاج سے رشتہِ ازدواج میں منسلک ہوئے.
1 اگست 2000 کو حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے اس دار فانی سے کوچ کر گئے.

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے