فخرِ ادب : علی گڑھ کا بَلّے

فخرِ ادب : علی گڑھ کا بَلّے

ڈاکٹر فوق کریمی علیگ، علی گڑھ

آج میں جی اٹھا ہوں۔
دل کرتا ہے چلا چلا کر دنیا کو بتادوں کہ میراویزا آگیا ہے اور میں لاہور جا رہا ہوں. ڈھنڈورا پیٹوں۔ شادیانے بجاؤں۔ کیا کروں؟ اپنے جذبات کا انخلا نہ ہوا تو میرا سینہ پھٹ جائے گا۔ کیا واقعی اب مجھے رختِ سفر باندھ لینا چاہیے۔ میں گھنٹوں خود کلامی کرتا رہا۔ خود ہی سوال کرتا اور پھر خود ہی جواب دیتا رہا۔ ہر جواب میں سے نئے سوال جنم لیتے رہے اور میری آنکھ لگ گئی۔ خواب میں بھی میں لاہور کے باغات کی سیر کرتا رہا۔ پرانے لاہور کے گلی محلوں میں گھومتا رہا۔ اپنے برسوں سے بچھڑے دوستوں سے گلے ملتا رہا۔ ان کے شکوے سنتا رہا۔ اپنی شکایتیں کرتا رہا۔ آنکھ کھلی تو میں اپنے بستر پر تھا۔ جاگ جانے پر لاہور نظر نہیں آیا۔
چند روز کی تیاری کے بعد آخر وہ گھڑی آہی گئی، جس کا مجھے انتظار تھا۔ آج میرا برسوں پرانا خواب پورا ہو رہا ہے۔ میں لاہور میں کیسے دن گزاروں گا؟اشفاق احمد، بانوقدسیہ، شہزاد احمد، احمد ندیم قاسمی، منصورہ، ڈاکٹر وزیر آغا، ڈاکٹر انورسدید، سید غلام شبیر بخاری، ڈاکٹر خورشید رضوی، ڈاکٹر وحید قریشی، مظفروارثی، حفیظ تائب، طفیل ہوشیارپوری سمیت ادبی دنیا کے روشن ستارے میری آنکھوں کے سامنے جھلملانے لگے۔ کیا ان سب سے ملاقات ہو پائے گی؟ لاہور تو اب بہت بدل چکا ہوگا۔میں دیر تک خیالات کے تانے بانے بُنتا رہا۔ اور یکایک مجھے اپنے دیرینہ دوست کا ہنستا مسکراتا چہرہ نظر آگیا۔ وہ بھی کتنا بے وفا نکلا۔ جاکر پوچھا بھی نہیں؟ مگر میں نے اُسے کب پوچھا؟ فوراً میرے اندر کے فوق نے مجھ پر جوابی حملہ کردیا۔ دوست پر حرف آنے سے پہلے ہی میرے اندر کے انسان نے اُسے بچانے کے لیے وار کردیا۔ مجھے اپنے دوست کی یاد ستانے لگی. میں جا تو اسی کے شہر میں رہا ہوں۔ پھر اب یہ بے تابی کیوں؟ میں نے خود کو سمجھانے کی کوشش کی اور پھر یکایک خیالات کے بہاؤ نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا۔
اب زمانہ بدل گیا ہے۔ لوگ بدل گئے ہیں۔ ان کے رویے دیکھتے ہی دیکھتے تبدیل ہوچکے ہیں۔ کیا میرا دوست فخرالدین بلے بھی بدل گیا ہوگا؟ کیا اس کی جوانی پر بڑھاپے نے اپنے پنجے گاڑ دیے ہوں گے؟ کیا میں اُس کے سامنے جاکر کھڑا ہوگیا تو وہ مجھے پہچان پائے گا؟ کیا میں بھی اسے پہچان سکوں گا؟ میں ابھی انہی سوالوں میں الجھا ہوا تھا کہ مجھے فخرالدین بلے کی غزل کا ایک شعر یاد آگیا۔ مجھے ایسا لگا کہ اُس نے میری خود کلامی سُن لی ہے اور اسی لیے مجھے یاد دلا رہا ہے کہ
میں بھی بدل گیا ہوں زمانے کے ساتھ ساتھ
آئینہ آج دیکھا تو خود دنگ رہ گیا
شعر اور خوش بو کی خوب صورتی یہ ہے کہ یہ دونوں چشمِ زدن میں دیوارِ چمن عبور کرسکتے ہیں۔ انھیں پاسپورٹ اور ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسی لیے تو رابطہ کٹ جانے کے باوجود مجھ تک اس کے شعروں کی خوش بو پہنچتی رہی۔
سیاہ گھنگھریالے بال، بڑی بڑی آنکھیں اور ان پرکشش آنکھوں میں سرخ ڈورے، میانہ قد، دامنِ دل کو اپنی طرف کھینچ لینے والے خال و خد، سیاہ شیروانی، علی گڑھ کٹ پاجامہ، چہرے پر مسکراہٹ، گفتگو میں بلا کر ٹھہراو، لفظوں کا خوب صورت چناو اور ان میں معانی کا الائو، دھیما لب ولہجہ ، طبیعت میں نفاست، مزاج میں تحمل، فکر میں گہرائی، خیال میں رعنائی۔ یہ ہے وہ سید فخرالدین بلے، جس سے مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ میں میری پہلی ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات ہی میں اُس نے مجھے اپنا کرلیا۔ دوستی کے لیے برسوں کی رفاقت ضروری نہیں۔ بعض اوقات صدیوں کے فاصلے لمحوں میں طے کرلیے جاتے ہیں اور کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ برسوں ملتے رہنے کے باوجود قربتوں میں فاصلے برقرار رہتے ہیں۔ سید فخرالدین بلے کی شخصیت میں کوئی ایسا مقناطیس ضرور تھا کہ ہم دوست احباب کیا؟ اساتذہ تک اس کی طرف کھنچے چلے آتے تھے۔ جو اُس سے ایک بار مل لیتا، ملنے کا اشتیاق وہ اُس میں جگا دیا کرتا تھا اور دوچار ملاقاتوں میں ہی صدیوں کا سفر لمحوں یا دنوں میں طے ہوجاتا اور اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے فخرالدین بلے کا حلقہ احباب بڑھتا چلاگیا۔
ادب اس کی گُھٹی میں تھا۔ وہ کتابیں پڑھتا نہیں، اپنے اندر اتار لیا کرتا تھا۔ حافظہ بلا کا تھا، جو پڑھتا، اس کا بیش تر حصہ اُس کے ذہن کے نہاں خانوں میں گھر کر لیا کرتا تھا۔ سگریٹ نوشی کی لت تو شاید بچپن ہی میں پڑ گئی تھی۔ وہ ہمیشہ سگریٹ کی دو ڈبیاں اور دو ماچسیں خریدتا۔ مالی آسودگی انسان کو بھٹکاسکتی ہے اور خصوصاً ایسے حالات میں کہ وسائل کی فراوانی ہو، جوانی ہو، انسان خوش شکل اور خوش کلام ہو اور خاندانی پس منظر ایسا جس پر رشک کیا جاسکے۔ یہ تمام خزانے فخرالدین بلے کے پاس رہے لیکن وہ کبھی بھٹکا نہیں۔ شراب کو کبھی منہ کیا ہاتھ تک نہیں لگایا حالاں کہ بعض نواب گھرانوں کے کچھ بگڑے ہوئے نوجوانوں کی صحبت بھی چاہتا تو اُسے میسر آ سکتی تھی۔ مگر اس کی پارسائی کی قسم کھائی جا سکتی ہے۔
کتابیں پڑھنا اور ان میں نئے زاویے تلاش کرنے کا وائرس مجھے بلے سے لگا۔ بلے بڑا عجیب وغریب ہے۔ اُس پر مختلف وقتوں میں مختلف مشاغل اور میلانات کے دورے پڑتے ہیں۔ جب ادیبِ کامل کا امتحان بلے نے امتیازی نمبروں کے ساتھ پاس کیا تو اُس پر اقبال سوار ہوگیا۔ وہ اقبال کا حافظ تھا۔ یہ میرا نہیں، ان اساتذہ کا بھی خیال ہے، جنھوں نے اقبالیات پر فخرالدین بلے سے گفتگو کی۔ سید غلام شبیر بخاری اور شکیل بدایونی مرحوم کہتے تھے کہ وہ شعر اقبال کا ہو ہی نہیں سکتا، جوفخرالدین بلے کو یاد نہیں۔ شکیل بدایونی جب بھی علی گڑھ آتے، بلے سمیت ہم دوستوں سے بھی ملتے تھے اور بلے کی ادبی اٹھان دیکھ کر انھوں نے کئی باراسے گیت نگاری کی طرف آنے کی ترغیب بھی دی لیکن بلے نے اس پیش کش کی طرف کبھی رغبت کا اظہار نہیں کیا۔ اس کا کہنا تھا میں کسی کے جذبوں کی ترجمانی نہیں کرسکتا، صرف اپنی فکر کو شعر کا ملبوس دے سکتاہوں۔ کوئی اور نوجوان ہوتا تو سوچتا اب میرے گیت لتا، آشا اور محمد رفیع کی زبان پر ہوں گے۔ غیر معمولی شہرت میرے قدم چومے گی لیکن بلے اس طرح نہیں سوچتاتھا۔ نہ اس نے کبھی سوچا۔
ہم دوستوں میں فارسی زبان میں روانی کے ساتھ گفتگو کرنے میں فخرالدین بلے کو یدِطولیٰ حاصل تھا۔ کچھ ایرانی نوجوان جب مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ آئے تو وہ گھنٹوں ان سے فارسی میں تبادلہ خیال کرتا رہا اور ہم باقی دوست "زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم “ کی تصویر بنے بیٹھے رہے۔ ہمیں فارسی پڑھنی تو آتی تھی لیکن بول چال کی زبان سے ہم نا بلد تھے۔ بیچ میں لقمہ دینے کے لیے کوئی فارسی جملہ سوجھتا بھی تو جب تک موضوع بدل چکا ہوتا تھا۔ میں سوچتا ہوں کہ ایسے لوگ دور کیوں چلے جاتے ہیں، جنھیں یاد کرنے کی ہمت بھی اب ہم نہیں جُٹا پاتے۔ واہ ،فراق ۔کیا شعر کہہ دیا ہے تم نے۔
اب یادِ رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی
یاروں نے دور جا کے بسائی ہیں بستیاں

بلے نے واقعی بہت دور جاکر بستی بسالی ہے لیکن پاسپورٹ اور ویزے کا جھنجھٹ نہ ہو تو اتنا دور بھی نہیں کہ آدمی جا کر مل بھی نہ سکے۔ حالات انسان کو بعض اوقات اتنا بے بس کر دیتے ہیں کہ وہ کچھ کرنا بھی چاہے تو نہیں کرپاتا۔ میں نے کئی بار ارادہ کیا مگر کوئی نہ کوئی مجبوری ایسی تھی، جس نے میرے بڑھتے قدموں کو روک لیا۔
آج سوچتا ہوں کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ بلے پاکستان نہ جاتا. ہم اکٹھے رہتے مگر میرے اندر سے یہ آواز آتی مجھے سنائی دے رہی ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ پاکستان نہ جاتا۔ وہ تو اس وقت بھی پاکستانی تھا، جب پاکستان بنا نہیں تھا. وہ بتاتا تھا کہ اس کے گھر میں مسلم لیگی زعما آکرٹھہرتے ہیں۔ اس کے بزرگ مسلم لیگی پرچم تلے اجتماعات کا اہتمام کرتے تھے۔ اُس نے جب ہوش سنبھالا ”بٹ کے رہے گا ہندوستان،بن کے رہے گا پاکستان" کے نعرے سُنے تھے۔ جب اُس کے شعور نے آنکھ کھولی تو اپنے گھر میں نئے وطن کی تعمیر کی باتیں سنیں۔ لوگ بچپن میں اسکول یا دینی مدارس کا رخ کرتے ہیں۔ وہ بھی اسکول جاتاتھا لیکن جب قائد اعظم، لیاقت علی خان، آئی آئی چندری گر سمیت دیگر مسلم لیگی قائدین سیاسی اجتماعات میں آتے تو ان میں چائلڈ اسپیکر کی حیثیت سے خطاب کی دعوت سید فخرالدین بلے کو ملا کرتی تھی۔ یہ قد آور سیاسی شخصیات اس کے گال تھپتھپاتیں اوراس کا حوصلہ بڑھاتی تھیں۔ پاکستان کا بیج اس کی زمینِ دل میں پروان چڑھتا رہا اور جب اُس کی طرح یہ بھی تناور پیڑ بن گیا تو فخرالدین بلے کے ساتھ وہ بھی چلاگیا۔ اب بلے اور ’اس کا پاکستان` دونوں پاکستان میں ہیں۔
فخرالدین بلے روشن خیال شخصیت کا نام ہے۔ وہ پنج وقتہ نمازی تھا۔ لیکن اندھوں اور بہروں کی طرح اسلامی احکامات کو تسلیم کرنے کا قائل مجھے کبھی نظر نہیں آیا۔ وہ اکثر کہتا تھا کہ آیاتِ قرآنی پر غور و فکر کرتے رہنا چاہیے، محض تفاسیر پڑھ کر آنکھیں بند کرلینا دانشمندی نہیں۔ اللہ کی آیات پر تدبر اور تفکر کی دعوت بھی خود خداوندِ قدوس نے دی ہے۔ لہذا اس کے اس حکم کو کسی صورت نظرانداز نہیں کرناچاہیے۔ یہ روشن خیالی آج کے مسلمان اپنالیں تو بہت سے مسائل کا حل نکل سکتا ہے لیکن کیا کریں بلے تو پاکستان چلاگیا ہے۔ یہاں کے مسلمانوں کو سمجھانے کے لیے بھی تو کوئی فخرالدین بلے ہونا چاہیے۔ بلے کے والدِ بزرگوار سید غلام معین الدین چشتی ایک بار اُسے ملنے یونی ورسٹی آئے تو بلے کہیں گیا ہوا تھا۔ میں نے ان کے ساتھ کچھ وقت گزارا اور یہ سُن کر حیران رہ گیا کہ بلے نے اپنے گھر میں یہ عبارت آویزاں کر رکھی ہے کہ اگر کسی ملازم نے نماز نہیں پڑھی تو میرے لیے روٹی نہ پکائے۔ ایسے دورے اُس پر پڑاکرتے تھے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اُس نے کبھی خود کو کسی سے برتر نہیں سمجھا۔ بڑوں کی وہ بہت عزت کرتا تھا اور اس کا کہنا تھا کہ میں اس لیے بھی ان کی عزت کرتا ہوں کیوں کہ یہ عبادت و ریاضت اور نیکیوں میں ہم سے آگے ہیں اور چھوٹوں کی وہ اس لیے عزت کرتا تھا کیوں کہ ان کے گناہ کم ہیں۔ دراصل احترام ِانسانیت کی جو قدریں کتابوں میں پڑھنے کو ملتی ہیں، ان کی جیتی جاگتی تصویرکا نام سیدفخرالدین بلے ہے۔
لوگ کہتے ہیں کہ موسم لوٹ کر نہیں آتا لیکن علی گڑھ میں جو وقت ہم نے ساتھ گزارا، وہ واپس آگیا ہے یا میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے عہد رفتہ میں لے آیا ہے۔ بلے سائنس کا طالب علم ہے لیکن نظمیں کہتا ہے، غزلیں تخلیق کرتا ہے۔ اور اب تو یونی ورسٹی کے جریدے دی یونین کا ایڈیٹر بھی بن گیا ہے۔ مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے انتخابی عمل میں بھی کود پڑا ہے، ہم اس کی انتخابی مہم چلا رہے ہیں اور وہ کامیابی کے لیے فکر مند نہیں۔ اُسے یقین ہے کہ ووٹ مل جائیں گے۔ یہ انتخابی مہم خوب چلی اور جب بلے مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا جوائنٹ سیکرٹری بن گیا تو اس کا ہمیشہ مسکرانے والا چہرہ مزید کھل اٹھا۔ کچھ دوستوں کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ اس منظر کو میں ایسے دیکھ رہا ہوں جیسے یہ سب کچھ میری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے، حالانکہ یہ واقعہ آج کا نہیں برس ہا برس پہلے کی بات ہے۔ بلے نے دی یونین کا ایڈیٹر بننے کے بعد ایک رسالہ "جھلک“ بھی نکالا تھا۔ جس میں اس کی تخلیقی توانائیوں کی جھلک موجود تھی۔ پوت کے پاوں پالنے ہی میں نظر آ جاتے ہیں۔ اسی لیے اس کے دوست احباب کو یقین تھا کہ بلے سائنسی علوم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ادب اور صحافت سے بھی دور نہیں رہے گا۔ پھر یہی ہوا۔ اس نے لاہور سے ماہنامہ فلاح جاری کیا اور مجھے اس کے شمارے باقاعدگی سے بھجواتا رہا۔ پھر ماہنامہ اوقاف، ماہنامہ ہم وطن، ماہنامہ یارانِ وطن اسلام آباد کے کچھ شمارے بھی مجھے ملے، جو اسی کی زیر ادارت شائع ہوئے۔ ان شماروں کے اداریے میری سوچ کو غذا بخشتے اور میں اس کی شعری تخلیقات سے بھی فیض یاب ہوتا۔ کبھی کبھارخط وکتابت بھی ہوجاتی لیکن پھر یہ سلسلہ بھی ایک عرصے تک رکا رہا۔ یہ اور بات کہ میں اور وہ ایک دوسرے سے دور ضرور رہے لیکن میں نے اسے کبھی خود سے دور محسوس نہیں کیا۔ آپ دیکھیے کہ وہ اب بھی میرے ساتھ ساتھ ہے۔
ہم اکٹھے کیسے رہتے تھے؟ آپس میں کیا باتیں کرتے تھے؟ یہ سوال ذہن میں کلبلانے لگا تو جواب سوچنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوئی۔ شمع کے گرد جیسے پروانے منڈلاتے ہیں، دوست احباب کا بلے کے آس پاس جمگٹھا لگا رہتا۔ صرف اس لیے نہیں کہ وہ محبتیں بانٹنے کا ہنر جانتا تھا بلکہ اس لیے بھی کہ اس کے ہاتھ میں دولتِ ہنر تھی۔ یہ ہنر بھی بہت سے تھے۔ وہ دست شناس بھی تھا اور چہرے پڑھنے میں بھی اُسے مہارت حاصل تھی۔ علم الاعداد کے اس نے بہت سے ”چمتکار“دکھائے۔ جسم کے مستور اعضا کے تل بھی وہ اپنے علم کی بنیاد پر بتا دیا کرتا تھا۔مجھے یاد ہے کہ کچھ دوستوں نے اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تو بلے نے بُرا نہیں منایا بلکہ موضوع بدل دیا لیکن وہ دوست یہ بھی چاہتے تھے کہ وہ انھیں بتائے کہ ان کے جسم پر کہاں کہاں تل ہیں؟ بلے نے کہابتا سکتا ہوں لیکن بتاوں گا نہیں، کم از کم تمھیں تو بالکل نہیں بتاوں گا۔ اصرار بڑھا تو بلے آمادہ ہوگیا۔ اس نے کہا کہ تم کوئی ایسا کرتہ پہن کر آجاؤ ،جسے پھاڑا جا سکے. اس نے کہا اس کی کیا ضرورت ہے؟ تو بلے نے ازراہِ مذاق کہا کہ میں بھری محفل میں تمہارے کپڑے نہیں اُتروانا چاہتا۔ میں جہاں بتاوں گا کہ تل ہے، وہاں تل ہونا چاہیے، اور میں اس حصے سے کپڑے کو قینچی سے کاٹ کر دکھاوں گا۔ تمہارے کپڑے نہیں اُترواﺅں گا۔ چنانچہ وہ ایک پرانا کرتہ پہن کر آگیا۔ بلے نے ایک سوئی لی اور اس کے پیٹ کے قریب کرتے کے اوپر چبھودی اور کہا کہ قینچی سے اس حصے کو کاٹ دو۔ جب وہاں سے پرانے کرتے کو کاٹا گیا تو واقعی وہاں تل موجود تھا۔ اس بات نے سب کو حیران کر دیا۔ یہ اور ایسی بہت سی خوبیاں اس میں ہیں کہ لوگ اُس سے جُڑجاتے ہیں۔ مطالعہ اتنا وسیع ہے کہ وہ یہ پتا نہیں لگنے دیتا کہ اس کا میدان کون سا ہے؟ آرٹ پر بات ہو تو وہ آرٹ کی دنیا کا افلاطون نظر آتا ہے۔ نفسیات کی بات ہو تو نفسیاتی باریکیوں کو بیان کرنے لگتاہے۔ علم الفلکیات موضوع بنے تو اپنی گفتگو سے اس دنیا کے ماہرین کو چونکا دیتا ہے۔ بہ ظاہر چوبیس پچیس سال کانوجوان ہے لیکن اتنا غیر معمولی اور اتنا کثیرالوصف کہ اگر میں نے اس کی ذہانت اور فطانت نہ دیکھی ہوتی تو میں کبھی نہ مانتا کہ کوئی اتنا باکمال اور بے مثال بھی ہوسکتا ہے۔ نوجوانوں کو اپنے مستقبل سے دل چسپی ہوتی ہے۔ شاعری کے بھی وہ رسیا ہوتے ہیں۔ یہ وہ باتیں ہیں، جو انھیں بلے کا دیوانہ بنادیتی تھیں۔ بلے بڑا دریا دل تھا۔ دوستوں پر خرچ کرکے سکون محسوس کرتا تھا۔ سوچ کر پیسے خرچ کرتے میں نے اُسے کبھی نہیں دیکھا۔ غریبوں کے لیے اس کا دل بڑا کشادہ تھا۔ خاموشی کے ساتھ دوستوں کی مدد کردیا کرتا تھا۔ اُس کے ہجرت کر جانے کے بعد یہ بھید مجھ پر کُھلا ورنہ اس نے اشارتاً بھی ایسی بات مجھ سے کبھی نہیں کی۔ جو لوگ اس سے فیض یاب ہوئے۔ انھوں نے خود یہ راز افشا کیا۔ بیت بازی میں بھی وہ ہمیشہ بازی لے جاتا۔ اتنا زود گو اور قادرالکلام تھا کہ برجستہ شعر کہہ کر بھی اس نے کئی محفلیں لوٹیں۔
میں نے جو وقت اس کے ساتھ گزارا، اس میں دو مواقع پر میں نے اُسے جھوٹ بولتے سنا. میں یہ کہوں کہ وہ ہمیشہ سچ بولتا ہے تو یہ بڑا جھوٹ ہوگا۔ وہ ایک سچااور کھراانسان ہے لیکن یہ بھی تو سچ ہے کہ اُس نے میرے سامنے دوبار سچ نہیں بولا۔ بلے کو یاد ہو یا نہ ہو، مجھے یاد ہے۔ ایک بار کچھ قریبی دوستوں میں بدمزگی ہوئی اور معاملہ اتنا بگڑا کہ آپس میں بات چیت بھی بند ہوگئی۔ برسوں کی پرانی یاری انھوں نے لمحوں میں بُھلا دی۔ بلے میرا ہاتھ پکڑ کر ان میں سے ایک نوجوان کے پاس لے گیا، جو اپنے دوست سے خفا تھا، بلے نے کہا تمھیں ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے، تمہارا دوست تو تمہاری بڑی تعریف کرکے گیا ہے۔ وہ تمہارے ناراض ہونے سے مجھے رنجیدہ نظر آیا۔ تم اس بارے میں ضرور سوچنا اورپھر دوسرے فریق کے پاس جا کر بھی یہی کچھ کہا۔ اگلے روز سب نے انھیں پہلے کی طرح ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے گھومتے دیکھا۔ چاہے اس نے روٹھے دوستوں میں صلح کرادی لیکن بولا تو جھوٹ ہی ناں۔ دوسرا جھوٹا ایسا ہے جو بلے مہینے میں دو تین بار ضرور بولا کرتا تھا۔ وہ یہ جھوٹ نہ بولتا تو شاید اس کی روٹی ہضم نہ ہوتی۔ دراصل اُسے مونگ کی بریاں دال پسند تھی۔ ہاسٹل میں اُس کے کہنے پر یہ دال نہیں بن سکتی تھی کیونکہ "مینو" طے تھا۔ بلے ڈاکٹر سے فرضی نسخے پر لکھوا کر وارڈن کو دے دیا کرتا تھا، جس پر یہ ہدایت درج ہوتی تھی کہ آپ دو تین روز مونگ کی دال کھائیں۔ سچائی یہ ہے کہ اس کے سوا میں نے کسی موقع پر بلے کو جھوٹ بولتے نہیں سنا۔ وہ اپنا نقصان بھی ہوجاتا تو سچائی کا دامن نہیں چھوڑتا تھا۔ وہ سچا ہے یا جھوٹا ؟ یہ خدا اور اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ میں اللہ میاں سے تو پوچھنے سے رہا، اب لاہور جا رہا ہوں تو میرے خیال میں اسی سے پوچھ لوں گا۔
ہاسٹل میں بلے کمرہ نمبر 50 میں رہتا تھا۔ اگر مجھے صحیح یاد ہے تو انجم اعظمی اس کے روم میٹ تھے اور 51 نمبر میں پیرآف پگاراشریف کا مسکن تھا۔ بلے کو 5 کے عدد سے بڑا پیار تھا اوروہ کہاک رتا تھا۔ 50 کا مفرد عدد بھی 5ہے۔ اس لیے اسے اپنا کمرہ اور کمرہ نمبر 50 بڑا اچھا لگتا ہے۔ علم الاعداد میں اس کی گہری دل چسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کہتا تھا کہ ہاتھ کی انگلیاں بھی 5 ہیں۔ بنیادی ارکانِ اسلام بھی 5ہیں۔ نمازیں بھی 5 وقت کی فرض کی گئی ہیں۔ اگر ہم سوچیں تو اس کائنات میں 5 ہی کی عمل داری نظر آتی ہے اوریہ بھی پنجتن پاک ہی کے فیضان کا پرتو ہے۔ میں نے اس کی ہر بات میں گہرائی دیکھی۔ وقت نے زندگی کی جن حقیقتوں سے اب پردے اٹھائے ہیں، وہ عالم ِنوجوانی میں بھی اس پر منکشف ہوچکی تھیں۔ اسی لیے بعض دوست سوچتے رہ جاتے تھے۔ میں نے بلے کے چلے جانے کے بعد اس کی بہت سی باتوں کے بارے میں سوچا تو اُس کے کچھ نئے مفاہیم مجھ پر کھلے اوراب سوچتا ہوں کہ 5 کے عدد کی باتیں کرنے والے بلے کا مقدر بھی پانچ دریاوں کی سر زمین پنجاب ہی میں جا کر کُھلا۔
بلے شرطیں لگاتا اور ہمیشہ ہارتا۔ کبھی کبھی میرے دل میں اس کی ہار پر ہمدردی بھی جاگتی لیکن اسے روکا نہیں جا سکتا تھا۔ یہ پتا ہی نہیں چلتا تھا کہ شرط کب لگائی؟ البتہ اس کے ہارنے پر چرچا ضرور ہوتا۔ میں نے کئی بار چاہا کہ وہ شرط نہ لگائے لیکن میں اپنی یہ بات اس سے کبھی نہ منوا سکا۔ ایک بار بلے حسبِ دستور ہارگیا۔ جس کے نتیجے میں بیس طلبا کو ناشتہ کرانا پڑا۔ ناشتے کے بعد ایک دوست نے کہا اب تو کوشش کر کے بلے سے ہارناپڑے گا۔ بلے نے کہا میں تو تم لوگوں کو خوش دیکھنے کے لیے شرطیں ہارتا ہوں۔ اس پر ایک دوست نے جملہ کسا، اب کھسیانی بلی کھمبا نوچنے پر اتر آئی ہے۔ جس پر بلے نے کہا چلو شرط لگا لو کہ اب مسلسل میں تین شرطیں جیتوں گا۔ چنانچہ ایک شرط یہ لگی کہ بلے شرط نہیں جیت سکتا۔ ہارنے پر بیس طلبا کو ناشتہ کراناتھا۔ بلے نے کہا میں شرط جیت سکتا ہوں، اس کے لیے پہلے ایک شرط اور لگانا ہوگی۔ پھر اس نے کہا تم میں سے کوئی ہے جو ایک فٹ لمبے اور ایک فٹ چوڑے طاق میں تکیہ رکھ کر سو سکے۔ سب نے کچھ سوچ کر کہا ہم ایسا نہیں کرسکتے۔ بلے نے کہا میں ایسا کرسکتا ہوں۔ چنانچہ شرط لگ گئی۔ اور ایک نہیں تین دوستوں نے الگ الگ شرط لگائی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بلے ہارا تو اسے ساٹھ طلبا کو ناشتہ کرانا پڑے گا۔ یہ سرگوشیاں بلے نے بھی سنیں تو کہا یہ بھی تو سوچو کہ میں جیتا تو تین دن ناشتہ چلے گا۔ اور پھرواقعی تین دن ناشتہ چلا۔ بلے شرط جیت گیا۔ سب حیران رہ گئے۔دراصل اس نے ایک طاق میں تکیہ رکھا اور بستر پر آکر لیٹ گیا۔ اور لیٹاہی نہیں سو بھی گیا۔ سب نے کہا یہ کیا بات ہوئی۔؟ طاق میں سوناتھا۔ بلے نے کہامیں نے کہاتھا؟ہے کوئی جو ایک فٹ لمبے چوڑے طاق میں تکیہ رکھ کرسوسکے؟ تکیہ طاق میں رکھنا ضروری تھا۔ سونے کے لیے یہ شرط نہیں تھی۔ دوسری شرط بلے نے لگائی۔ اور پوچھا ہے کوئی جو دو روٹیاں نہار منہ کھا کر دکھائے؟ تین لڑکوں نے کہا ہم کھا سکتے ہیں۔گویا پھر ایک وقت میں تین شرطیں لگ گئیں۔ ایک دوست نے نہار منہ دو روٹیاں کھالیں۔پھر دوسرے نے اور اس کے بعد تیسرے نے دو دو روٹیاں نہار منہ کھائیں اور بلے سے ناشتے کامطالبہ بھی کردیا۔ بلے نے کہا تم شرط جیتے نہیں، ہار گئے ہو۔ سب نے پوچھا کیسے؟ تو بلے نے کہاجب تم نے پہلا نوالہ حلق سے اتار لیا تو تم نہار منہ نہیں رہے، اس لیے تم لوگ شرط ہار گئے ہو۔ البتہ تینوں نے ایک ایک نوالہ نہار منہ ضرور کھایا ہے۔
بلے کی طبیعت میں نفاست ہے۔ وہ تن کابھی اجلا ہے اور من کا بھی۔ خوش لباسی کیا ہوتی ہے؟ یہ معنی بلے کو دیکھ کر کھُلتے۔ وہ صبح کو جس پہناوے میں ہوتا۔ شام کو اس کے جسم پر نظر نہیں آتا تھا۔ کپڑے ارجنٹ دھلوانے کا اسے چسکا تھا۔ میلے کپڑے اس کے ہاسٹل میں ہو کیسے سکتے تھے۔اس لیے کہ وہ جوکپڑے بدلتا، میلے کپڑوں کاجوڑا ڈرائی کلینر کو بھجوا دیا کرتا تھا۔ رنگ روپ، انداز، شکل صورت، وجاہت سب یہ تقاضا کرتیں کہ تمہیں تو کسی فلم کا ہیرو ہوناچاہیے. آئینہ تو اسے بھی یہی کچھ بتاتا ہوگا لیکن وہ بناوٹی دنیا کا کردار نہیں بن سکتا تھا۔ یہ بلے کی سب سے بڑی کم زوری ہے۔ ایک اور بات یاد آئی اور وہ یہ کہ اس کے کچھ انداز فقیرانہ اور کچھ شاہانہ ہیں۔ کھانے میں اسے بیسنی روٹی لہسن کی چٹنی کے ساتھ بہت پسند ہے۔ کھانا پسند نہ آئے تو تھوڑی سی چینی منگاکر اس کے ساتھ لقمے خوشی خوشی حلق سے اتار لیتاہے۔ روغنی روٹی بھی اس کی مرغوب غذاہے۔ کھیرا ککڑی سلاد میں اسے اچھے لگتے ہیں۔ مشروب پیے گا تو لیموں پانی کا۔ اسکنجبین اس کادل بھاتا مشروب ہے۔ سرسوں کاساگ اور مکئی کی روٹی مکھن کے ساتھ مل جائے تو ان ڈشز کو دیکھ کر ہی اس کی بھوک بڑھ جاتی ہے۔ چائے کا بڑا شوقین ہے اور اس کے ذوق و شوق کے مطابق چائے مل جائے تو ابوالکلام آزاد کے حوالے دینا کبھی نہیں بھولتا۔ ابوالکلام آزاد کی علمیت کا مداح ہے۔ ان کے ساتھ ایک دو ملاقاتیں بھی ہوئیں، جن کا ذکر کرتے ہوئے اس کی آنکھیں چمک اٹھتی ہیں۔ میں نے اس کے فقیرانہ انداز تو بتادیے ۔اب ذرا شاہانہ انداز کابھی ذکر کردوں. شہر میں یکے چلتے ہیں، چھٹی کے دن بلے کو جہاں جہاں جانا ہوتا ہے، وہ صبح ایک یکہ کرائے پر لے لیتا ہے، اسے فارغ نہیں کرتا، شام تک وہی یکہ اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ اگر کوئی اور ہو تو یکہ فارغ کردے اور دو تین گھنٹے بعد دوسرا یکہ لے لے لیکن یہ بلے کی شاہانہ شان کے خلاف ہے۔ اس طرح اسے دن بھر یکہ ساتھ رکھنے کی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے اور وہ چکاتا ہے لیکن بچت کے لیے اپنی عادت ترک کرنے کو تیار نہیں۔اسٹائلش کپڑے پہنتا ہے۔ اسٹائلش پاپوش بھی۔ ان تمام باتوں کے ساتھ ساتھ یہ بات ضرورہے کہ وہ کسی احساسِ برتری کا شکار نظر نہیں آتا۔ سب کو خود سے بہتر انسان سمجھتا ہے۔ سب کی عزت کرتاہے۔ کیاچھوٹا؟ کیا بڑا؟ محبت، عزت اور احترام کرنا، انکساری سے ملنا، اس کے مزاج کاحصہ ہے۔مولائے کائنات حضرت علی مرتضیٰ کا یہ ارشاد بھی اس کی زبان سے میں نے پہلی بار سناکہ اکڑتے تو مردے ہیں، زندہ لوگوں میں لچک ہوتی ہے اور ہونی چاہیے۔ لوگ اسے چاہے پیار کا اظہار سمجھ لیں لیکن سچائی یہ ہے کہ تبسم اور پریم بھرا تکلم اس کی عادت ہی ہے۔ سوتا کم ہے۔ کھاتا کم ہے۔ رات بھر میں بہ مشکل چار پانچ گھنٹے سوتاہوگا۔ دن میں پانچ دس منٹ کے لیے اونگتا ضرور ہے۔ کبھی کبھار تو یہ بھی کہتاہے کہ میں پانچ منٹ سو لوں، پھر باتیں کریں گے اور وہ واقعی پانچ منٹ بعد بالکل تازہ دم اٹھتا۔ وہ جب بھی سو کر اٹھے یا اونگھ کر جاگے، کلمہ شریف پڑھ کر اپنے دونوں ہاتھوں پر پھونک کر اپنے چہرے پر یہ ہاتھ پھیرتا ہے۔ یہ عادت اتنی پختہ ہے کہ میں نے کبھی ایسا نہیں دیکھا کہ وہ اٹھا ہو اور کلمہ پڑھ کر ہاتھوں کواس نے اپنے چہرے پر نہ پھیرا ہو۔ علامہ سید غلام شبیر بخاری علیگ ہمارے سینئیر ہیں۔ وہ بھی پاکستان کے ہوچکے ہیں۔ کبھی کبھار ان سے خط و کتابت ہوجاتی ہے۔ بلے خوش نصیب ہے کہ اسے ان کا قرب حاصل ہے۔ ان کی چٹھیوں سے بلے کی سرگرمیوں کاپتہ چل جا تاہے۔ بہا ول پور، ملتان اور لاہور میں انھیں اکٹھے ہونے کا موقع ملا۔ سید صاحب نے اپنی کچھ یاد داشتیں مجھے بھیجیں، ان میں بلے کی بھی کچھ باتیں تھیں۔
بلے خود نمائی کا قائل نہیں تھا۔ میں یہ کہوں کہ وہ چُھپا رستم تھا تو یہ بھی صحیح نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ اس کے اندر تو بہت سی شخصیات نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ جیسے بجلی کا ہم جو سوئچ آن کرتے ہیں، اس سے منسلک بلب ہی روشن ہوتا ہے۔ اسی طرح اس کا جو سوئچ بھی آن ہوتا تو اس کے اندر کی چھپی کوئی نئی شخصیت سامنے آتی۔ بڑی بے تکلفی، دوستی یاری، قربت اور محبت کے باوجود میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں اس کے اندر آباد تمام شخصیات سے مل چکا ہوں۔ ڈاکٹر عنوان چشتی نے علی گڑھ کے دورِ طالب علمی ہی میں اس میں ایک صوفی کو دریافت کرلیا تھا۔ ستر کی دہائی میں کنور مہندر سنگھ بیدی سحر سے میری شناسائی بڑھی۔انھیں معلوم تھا بلے میرا دوست رہا ہے۔ وہ مجھے خط لکھتے توبلے کو بلے بلے کہہ کر ہی مخاطب ہوا کرتے تھے۔ ایک دو بارکنور جی نے یہ وضاحت بھی کی کہ میں صرف بلے نام کی مناسبت سے انھیں بلے بلے نہیں کہتا بلکہ ان کا کام اور کلام دیکھ کر میرے اندر سے بلے بلے کی آواز آتی ہے۔ دنیا جہان ک اکوئی موضوع چھڑجاتا تو گفتگو میں وہ معلومات کادفتر کھول دیا کرتا۔ پھلوں، ترکاریوں کی بات ہوتی تو یہ بتا دیتاکہ کس ترکاری یا پھل کو کس مقام یادیس میں سب سے پہلے کاشت کیا گیا، کس کے کیا خواص ہیں؟ کس بیماری کے لیے مفید ہے۔ کس بیماری میں یہ استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ دیسوں کی بات ہوتی تو بھی اس کی معلومات حیران کردیا کرتیں۔ اسی لیے اب بھی اس کا ذکرچھڑجائے توکچھ دوست اسے چلتا پھرتا انسائیکلو پیڈیا ہی کہتے ہیں۔ البتہ آپ اسے متحرک کتب خانہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ علامہ انور صابری نے تو اسے دل میں بسا رکھا تھا اور جب بلے کے پاکستان کے لیے پر تولنے کا انھیں پتا چلا تو اس حوالے سے خصوصی طور پرانھوں نے ایک خوب صورت نظم بھی کہی اور ایک ادبی محفل میں اپنے مخصوص اندازمیں سنائی بھی تھی۔ اس کی گونج کئی دنوں تک فضاوں میں سنائی دی۔ ایک مصرع تو زبان زدِ عام ہوگیا۔ دوست احباب آتے جاتے بلے کو دیکھ کر یہ مصرع پڑھتے۔ دراصل اس ایک مصرعے میں تمام احباب کے دل کی آواز سمودی گئی تھی۔اسی لیے تو بلے کو یہی مصرع پڑھ کر احباب نے رخصت کیا۔
جان! مت جاو، تم مان جاو۔
بھائی قمر رئیس اس کے قدردان ہیں۔ کہتے ہیں بلے ہندستان سے پاکستان چلاگیا لیکن اس کے نصیب کی ہجرتیں ابھی باقی ہیں۔ اسی لیے کبھی پتا چلتا ہے کہ وہ کوئٹہ میں ہے۔ کبھی سنتے ہیں اس نے قلات اور خضدار میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ کبھی اطلاع آتی ہے کہ اس نے پاکستان کے وفاقی دارالحکومت کو اپنا بسیرا بنارکھا ہے۔ کبھی لاہورسے اس کی سرگرمیوں کی خبریں پہنچتی ہیں۔ اس کے پاوں میں چکر ہے۔ بھائی قمر رئیس یہ بھی چاہتے ہیں کہ بلے کی شخصیت اور فن کے حوالے سے منظم انداز میں کوئی تحقیقی کام ہونا چاہیے۔ محض کچھ نظمیں اورغزلیں لے کر ان کی بنیاد پر مضامین لکھنے کافی نہیں۔ وہ جن لوگوں کے ساتھ رہا، جن کے ساتھ ہے۔ جن سے علمی اور ادبی موضوعات پر تبادلہ خیال کرتا ہے۔ ان سے مضامین لکھوائے جائیں تو بلے کے کئی نئے رخ سامنے آئیں گے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ بلے کے پاکستان چلے جانے کے بعد بھی مولانا حسرت موہانی سے ملاقات ہوتی تو وہ بلے کی خیریت کے حوالے سے ضرور پوچھتے تھے۔ وہ بلے کے قدردان کیوں تھے؟ یہ کون بتائے گا؟ بابائے اردو مولوی عبدالحق کو بلے میں کیا نظر آیا؟ ہم نہیں جانتے۔ جو ہوچکا، اس پر پچھتاوا بے سود ہے۔ ہمیں بلے کے اندر جو جہان آباد ہیں، انھیں دریافت کرنا ہوں گے۔ پھر بلے کا ایک شعر سناتے ہوئے بھائی قمر رئیس نے مجھے یہ بھی کہا کہ تم اسے شعر نہ سمجھنا بلکہ ایک سچائی ہے، جس سے بلے کی شخصیت اور فکر کی وسعتوں کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ شعر آپ بھی سُن لیں۔
ہے ایک قطرۂ خود ناشناس کی طرح
یہ کائنات مری ذات کے سمندر میں

بلے کی ذات میں واقعی ایک کائنات ہے، میں اس کے ساتھ رہتے ہوئے دریافت نہیں کرپایا تو کیا اب یہ ممکن ہے؟ کیا بھائی قمر رئیس کے منصوبے پر عمل کرکے ہی یہ ممکن ہوسکے گا؟؟؟ میں ابھی اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ بلے نے پیچھے سے دبے پاوں آکر میرا شانہ ہلایا اور اپنا یہ شعریاد دلایا۔
عجائبات کی دنیا میں کچھ کمی تو نہیں
یہ ہو بھی سکتا ہے مجھ سا کوئی ہوا ہی نہ ہو

کیا میں یادوں کی برات کے ساتھ لاہور جا رہا ہوں۔ میں نے خود سے سوال کیا اوراس سے پہلے کہ میں کچھ مزید سوچتا میرے اندر سے جواب آیا ہاں!ضرور مگر یادوں کی اس برات کا دولہا بھی فخرالدین بلے ہے۔ دولہاکی بات سے یاد آیاکہ اس کی زندگی میں ایک۔” مہرو"۔ بھی تھی۔ جس نے اس کی زندگی میں اجالا کررکھا تھا۔ یہ بتاتا چلوں کہ یہ “مہرو" بلے کی خالہ زاد بیوی تھی۔ آپ نے خالہ زاد بیوی کا نام پہلے نہیں سنا ہوگا کیونکہ یہ ترکیب بھی میں نے سب سے پہلے بلے ہی سے سنی تھی۔دراصل بلے کی شادی اس کی خالہ زاد سے ہوئی تھی اور وہ ازراہّ مذاق “مہرو" کو خالہ زاد بیوی کہتا تھا۔یہ مہرو آج بھی اس کے ساتھ ہے اور اس کی چاندنی سے بلے کی زندگی میں اجالا ہے۔
فخرالدین بلے ایک ایسی شخصیت ہے، جس نے علی گڑھ یونی ورسٹی کے دور طالب علمی ہی میں خود کو منوالیا تھا۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے اس کے کچھ مقالات اورمضامین پڑھے اورنظمیں سنیں تو دنگ رہ گئے اور اتنا کہا کہ بلے کی نثر ہو یا نظم اس میں کوئی نقص نکالنا محال ہے۔ فراق گورکھپوری ادب کا بہت بڑا نام ہے، انھوں نے بلے کو لفظوں کا مصور قراردیا۔ بلے کی ہجرت کے بعد جگر مراد آبادی ایک مشاعر ے میں شرکت کے لیے علی گڑھ آئے تو انھوں نے بلے کو یاد کرکے ایک شعر پڑھا۔ کیا تھا وہ شعر؟ مجھے یاد تو نہیں لیکن اس کی گونج ادبی حلقوں میں دیر تک سنی گئی۔ شاید میں نے بلے کو ایک خط میں لکھ کر بھی یہ شعر بھیجا تھا۔ اتنا یاد تو آ رہا ہے لیکن شعر یاد نہیں آرہا۔ اگر میں نے خط میں لکھ کر بھیجا تھا تو بلے کو ضرور یاد ہوگا۔ اس لیے کہ اس کا حافظہ بڑے غضب کا ہے۔ میں لاہور کے تمام ادیبوں اور شاعروں سے ملناچاہتا ہوں۔ میرے خیال میں بلے اس معاملے میں مددگارثابت ہوسکتا ہے۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ، رام لعل اور ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد جب دورہ پاکستان سے واپس آئے تھے تو انھوں نے بلے کے گھر میں سجنے والی ادبی محفلوں کا بڑا چرچا کیاتھا۔ اس لیے کہ ان کے اعزاز میں بلے نے قافلہ تنظیم کے تحت ادبی ستاروں کی کہکشاں اپنے آنگن میں سجالی تھی۔ ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد بلے کے قریبی دوست رہے۔ وہ کہتے تھے کہ اس شخصیت میں کوئی ایسا کمال ہے اور اس کی شاعری میں بھی کہ آپ اگر کچھ تخلیقات سُن لیں تومدتوں اس کے سحر سے باہرنہیں آ پائیں گے۔ یہ بات بھی وہ اس وقت کہتے تھے جب بلے اور میں علی گڑھ یونی ورسٹی میں زیر تعلیم تھے اور اب تو اس بات کو چالیس پینتالیس سال بیت چکے ہیں۔ خدا جانے میں کیا کیا سوچتا رہا۔ میں نے اپنے خیالات کو جھٹکا اور پھر یہ سوچنے لگا کہ کتنی عجیب بات ہے کہ ویزا میں نے لاہور کا لیا اور جا بھی میں پاکستان ہی رہا ہوں لیکن بلے کسی پاسپورٹ اور ویزے کے بغیر بھارت آگیا ہے۔ اسی لیے تو قدم قدم پر میرے ساتھ ہے۔ اگر وہ علی گڑھ آگیا ہے تو پھر میں اسے چھوڑ کر لاہور کیوں جا رہا ہوں؟ اس سوال کا مجھے خود سے کوئی جواب نہیں مل پا رہا۔اس لیے سوچتا ہوں کہ بلے سے یہ سوال کروں گا ۔ وہ مشکل سوالوں کا جواب دے کر مجھے یقینا لاجواب کر دے گا۔ لاہور یاترا کی کہانی میں دورۂ پاکستان سے واپسی پر ضرور لکھوں گا۔ اب تک جو الل ٹپ باتیں میں سوچتا رہا، انھیں قلم بند کردیا ہے۔ اپنی پریشاں خیالی کا دستاویزی ثبوت بھی میں بلے کو دے آوں گا، وہ میری بہکی بہکی باتوں پر ہنسا نہ بھی تو مسکرائے گا ضرور اور میں اُس کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ سجی دیکھناچاہتا ہوں۔
مجھے اعتراف ہے کہ میں نے کل کے بلے کا ذکر کیا ہے اور آج کا بلے آپ کو ان سطور پر کہیں دکھائی نہیں دے گا۔ دکھائی دے بھی تو کیسے؟ جب وہ میری آنکھوں کے سامنے ہی نہیں ہے تو میں آپ کے سامنے کیسے لاسکتا ہوں؟۔ اتنا وعدہ ضرور ہے کہ آج کے بلے سے ملنے کے بعد میں “فخرِادب” کی نئی تصویر آپ کے سامنے ضرور لاوں گا۔ پھر پوچھوں گا کہ کیسا لگا؟ میرا فخرالدین بلے۔

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے