کتاب : جانے پہچانے لوگ

کتاب : جانے پہچانے لوگ

(خاکے اور شخصی تاثرات)
مصنف : صفدر امام قادری
مرتبین : ڈاکٹر عابدہ پروین، نیلوفر یاسمین
ناشر : ایم آر پبلیکیشنز، نئی دہلی
زیرِ اہتمام : مکتبۂ صدف (بزمِ صدف انٹرنیشنل کا شعبۂ اشاعت، مظفر پور، بِہار
سنہ اشاعت : پہلا ایڈیشن 2020
مبصر : مسعود بیگ تشنہ، اندور، مدھیہ پردیش

میں نے صفدر امام قادری صاحب کی سنہ 2020 میں تحفتاً عنایت کردہ کتاب "جانے پہچانے لوگ" سال بھر میں کئی بار پڑھی. میں سوانح نگاری، خاکہ نگاری اور شخصی تاثرات کی صنفی شناخت کو لے کر کچھ نیا لکھنے کے فراق میں تھا مگر سال بھر سے کچھ بھی نہ لکھ پایا. ایسا لگتا ہے کہ یہ کتاب ماورائے تاثرات، تبصرہ، تجزیہ و تنقید ہے کہ قادری صاحب کے خاکوں اور شخصی تاثرات کی اس کتاب ہی میں ان پر تاثرات، تبصرہ، تجزیہ اور تنقید کے ذیل میں موقر قلم کاروں اور مرتبین ڈاکٹر عابدہ پروین اور نیلوفر یاسمین نے ہی کافی کچھ بلکہ سب لکھ دیا ہے. ایمان داری کی بات تو یہ ہے کہ کتاب میں خصوصی تاثر کے تحت نوجوان ناقد سلمان عبد الصمد کے خصوصی تاثر بہ عنوان "صفدری قلم کی تصویریں" پڑھنے کے بعد مزید کچھ کہنے کی گنجائش کم ہی رہ جاتی ہے. یہ خصوصی تاثر در حقیقت خصوصی نقد و نظر، تنقیدی جائزہ اور تنقیدی محاسبہ ہے. عبد الصمد صاحب خاکہ نگاری اور سوانح نگاری جیسی نثری اصناف کے مروجہ اور بدلتے رنگ و روپ کو لے کر مختلف و منتشر آرا کو یکجا کر کے ان اصناف پر پڑی دھند کو صاف کرنے میں بہت حد تک کامیاب ہوئے ہیں. ان کا تنقیدی محاسبہ خاکہ نگاری اور سوانح نگاری پر ایک ایسا محاسبہ ہے جو ان اصناف کو نئے سرے سے دیکھنے پرکھنے پر اکساتا ہے. یہ تنقیدی محاسبہ میل کا پتھر ہے. میں سمجھتا ہوں کہ اس کتاب سے باہر بھی اس محاسبہ کا آزادانہ وجود قائم رہے گا. ( آپ یہ مضمون یہاں پڑھ سکتے ہیں : صفدری قلم کی تصویریں: "جانے پہچانے لوگ")
ہاں اتنی بات صاف ہے کہ خاکوں کے روایتی ظریفانہ طرز کی چٹکی بھر خاک بھی ان خاکوں پر پڑتی نظر نہیں آتی. مجتبیٰ حسین اور حبیب تنویر کی شخصیات پر لکھی نگارشات کو زیادہ سے زیادہ خاکہ نما مضمون کہا جا سکتا ہے. اخباری صحافتی طرز کی سپاٹ سادہ بیانی ان کے شخصی تاثرات (بیش تر پسِ مرگ) کو دل چسپ یادوں اور خاکوں کو ظریفانہ خاکے بنانے میں ڈھال نہیں پاتی ہے. اس طرح کے سادہ سپاٹ طرزِ نگارش سے انسانی نفسیات کی سطح پر ظریفانہ اور جمالیاتی موشگافیوں کا قتل ناگزیر ہو جاتا ہے. ہاتھ آتا ہے تو بس والدین کے لیے عقیدت مندانہ شخصی تاثر اور دوستوں، عزیزوں اور قریبیوں کی ادبی شخصیات کی ذاتی زندگیوں کا شاخسانہ. (محض مجتبیٰ حسین اور حبیب تنویر پر تاثرات ذاتی اور سوانحی نہیں ہیں اور یہ خاکہ نما تعزیتی مضامین ہیں اور ان دونوں کا تعلق بِہار کی سر زمین سے نہیں ہے) ان سب کی وجہ صفدر امام قادری صاحب کی لمبی صحافتی و تدریسی پیشہ ورانہ زندگی اور ذاتی طور پر وقت کی پابند زندگی ہے جس کا انھوں نے بار بار ذکر کیا ہے اور اپنی اس عادت کو اپنے والد مرحوم کی تربیت کا نتیجہ بتایا ہے. وہ سپاٹ اخباری صحافت کو ہر دم جواں ہر دم رواں رکھتے ہیں اور دوسروں کے اشجارِ زندگانی کے بیان میں اپنا سایہ بھی دراز کر دیتے ہیں.
خود ستائش، احساسِ برتری اور کہیں کہیں احساس کمتری اور اکثر راز افشانی سے الجھتے جوجھتے یہ شخصی اور ادبی کردار پورے بیانیہ میں ایک مضبوط جذباتی ارتباط قائم کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں. یہ اصلی کردار عدم دل چسپی اور بوریت کا شکار ہو جاتے ہیں. ان تحریروں کی صنفی حیثیت پر کتاب میں ہی کافی کچھ لکھ دیا گیا اور سوال قائم کر دیے گئے ہیں. قاری آپ بیتی، یادیں، سوانحی شذرات، خاکے اور تاثرات کے بیچ پندرہ تحریریں پڑھ کر نو دو گیارہ ہو جاتا ہے. ایسا اس لیے بھی ہوتا ہے جب قاری متعلقہ اشخاص اور علاقے سے ذاتی نسبت نہ رکھتا ہو. میری نظر میں مذکورہ کتاب کی ان پندرہ تحریروں سے کوئی نئی صنفِ نثر وجود میں نہیں آئی ہے. یہ تحریریں سوانحی شخصی تاثرات ہیں جس میں خاکہ نگاری کے غالب عناصر ڈھونڈنا مشکل ہے. سلمان عبد الصمد کے خصوصی تاثر اور تنقیدی محاسبے کے باوجود جسے میں نے کھلے طور پر سراہا بھی ہے، مجھے قادری صاحب کی ان تحاریر پر خاکہ نگاری کا لیبل لگانے سے گریز ہے. ان سب کے باوجود یہ امر مسلّم ہے کہ مرحوم والد (اشرف قادری مرحوم)، مرحومہ والدہ، مرحوم بہنوئی (ناز قادری مرحوم) اور زیادہ تر مرحوم ادبی شخصیات پر لکھی گئیں یہ تحریریں ایک تحقیقی سوانحی دستاویز کی شکل میں اپنی حیثیت بنائے رکھیں گی. ماسوا والدہ مرحومہ پر لکھی تحریر کے تمام تحریریں مرحومین کے ادبی کارناموں اور ان کی ذاتی زندگی میں جھانکنے کا ایک نادر موقع فراہم کرتی ہیں.
کتاب کو مصنف کی گزارش کے ساتھ ساتھ مقتدر اہلِ قلم کے تعارف، اعتراف خصوصی تاثر، عرضِ مرتبین اور تہنیت سے بھی سجایا گیا ہے. ایک بار کی قرات اور پھر سوانحی تاثرات کے دستاویزی ماخذ کے طور پر پڑھنے اور سہیجنے کے لے اس کتاب کا پڑھنا ضروری ہو جاتا ہے.
پروفیسر ڈاکٹر صفدر امام قادری نوّے کی دہائی میں ابھرے مصنف، مرتب، ناقد اور صحافی ہیں. ان کی ادبی، تنقیدی، تدریسی اور صحافتی فعال زندگی کا اعتراف نہ کرنا ادبی بد دیانتی ہی ہوگی. ان کی ان پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا اعتراف تو ان کے رقیبوں کو بھی کرنا ہوگا. یاد رہے کہ ان کی پہلی تصنیف صلاح الدین پرویز کا آئڈنٹٹی کارڈ (1994) نے ادبی دنیا میں بھونچال مچا دیا تھا اور صلاح الدین پرویز کو ساہتیہ اکادمی کے تفویض شدہ اعزاز و انعام پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا تھا. آپ کی مطبوعات میں دس تصانیف اور اور نو تداوین شامل ہیں. مکتبۂ صدف (صدف انٹر نیشنل کا شعبۂ اشاعت) اس دستاویزی کتاب کی اشاعت کے لیے مبارکباد کا مستحق ہے. یہ کتاب کووڈ 19 کی وبا کی تفویض کردہ فرصت کے دوران چار ماہ کی قلیل مدت میں لکھی گئی. قادری صاحب کو بھی اوروں کی طرح اس مہاماری کے دوران کئی اپنوں کے بچھڑنے کا رنج رہا ہوگا تاہم قادری صاحب نے اس فرصتِ جبریہ کو نعمتِ غیر مترقبہ سمجھ کر بڑے موقع میں بدل دیا اور یہ کتاب ان کی اور ان کی ٹیم کی محنت سے سنہ 2020 میں منظرِ عام پر آ گئی.
غلام غوث کے سر ورق اور ساجد حمید کے خوب صورت بیک کور اور جاوید دانش (امریکہ) کے بیک کور فلیپ کے ساتھ عام سائز کی 288 صفحات پر مشتمل عام قیمت 375 روپے اور لائبریری ایڈیشن قیمت 475 روپے میں سنہ 2020 کے وبائی دور کا تحفۂ وبا سمجھ کر پڑھا اور سنجویا جا سکتا ہے.
(25 نومبر 2021 ،اندور ،انڈیا)
مسعود بیگ تشنہ کی یہ نگارش بھی پڑھ سکتے ہیں :فیض احمد فیض کی نذر

شیئر کیجیے

One thought on “کتاب : جانے پہچانے لوگ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے