احمد ندیم قاسمی: ادب کے قافلہ سالار

احمد ندیم قاسمی: ادب کے قافلہ سالار

تحریر و تحقیق: ظفر معین بلے جعفری

احمد ندیم قاسمی نے اردو ادب کے قافلہ سالار کی حیثیت سے جو طویل سفرطے کیا، اس کے نقوش بڑے اَن مٹ اور گہرے ہیں۔ وہ کئی نسلوں کو اپنی سربراہی میں لے کر چلے اور قدم قدم پر ان کی رہ نمائی کی۔ ان کی ادبی شخصیت کے بہت سے رنگ ہیں۔ خدمات کادائرہ بھی کئی جہتوں میں پھیلا ہوا دکھائی دیتا ہے. احمد ندیم قاسمی محض فنون کے دل دادہ ہی نہیں بلکہ ادبی جریدے "فنون" کے بانی ایڈیٹر بھی تھے. وہ اس جریدے کے ذریعے بہت سے شاعروں، ادیبوں، نقادوں اور دانشوروں کو ادبی دنیامیں لائے۔ اور انھیں پہچان دلانے میں قابل ستائش کردار ادا کیا۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو آج آسمانِ ادب پر جو بہت سے ستارے جھلملارہے ہیں، وہ کبھی روشنیاں نہ بکھیر رہے ہوتے۔ سلام ہے ان کی صاحب زادی محترمہ ناہید قاسمی اور محترم نیّر حیات فرزند ناہید قاسمی کو جنھوں نے احمد ندیم قاسمی صاحب کے جاری کردہ فنون کی از سرِ نو اشاعت کا سلسلہ شان دار انداز میں جاری رکھا ہوا ہے۔ یہ دونوں ماں بیٹے احمد ندیم قاسمی کے ادبی اور تہذیبی وارث ہیں اور ان کی روایات کو آگے بڑھانے کے لیے سرگرمِ عمل ہیں۔ آپ ان دونوں میں سے کسی سے بھی ملیں تو ان کے رویوں میں احمد ندیم قاسمی کارکھ رکھاؤ جھانکتا ہوا نظر آتا ہے۔

احمد ندیم قاسمی ایک شفیق انسان اور اپنی ذات میں ایک جہان تھے. ان کی امتیازی صفات اور خصوصیات کے کیا کہنے۔ سوز و گداز سے بھرپور لب و لہجے کے شاعر، معروف ادیب، دیدہ ور تنقیدنگار، فسوں کار افسانہ نویس، محفلوں کی آن بان اور شان اور میرے والد محترم سید فخرالدین بلے کی قائم کردہ ادبی تنظیم "قافلے" کے پڑاؤ کی جان احمد ندیم قاسمی کو ہم سےجدا ہوئے برسوں بیت گئے. جب بھی جولائی یا نومبر کا مہینہ آتا ہے، ان کی یادوں کا اجالا بھی میرے چاروں اور ہی نہیں پوری دنیائےادب میں پھیل جاتا ہے۔ وہ 20 نومبر کو پیدا ہوئے اور جولائی کی 10ویں تاریخ کو یہ آفتاب ڈوب کر ادبی افق پر شفق کے تمام رنگ چھوڑ گیا۔ آج میں ان رنگوں کے ساتھ ہی ان کی زندگی اور کارناموں کی کچھ تصویریں بنا کر آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ احمد ندیم قاسمی ایک شخصیت تھے ہی نہیں، وہ تو ایک پوری ادبی دنیا تھے۔ ان کے اندر کا شاعر کبھی اپنے جلوے دکھاتا تھا۔ کبھی ان کے اندر کا ادیب کسی بھی موضوع پر قلم اٹھاتا تھا۔ کبھی کالم نگار جاگ اٹھتا تھا۔ کبھی افسانہ نویس انسانی معاشرے کی دکھتی نبض پر ہاتھ رکھ کر آنے والے قدموں کی چاپ پہلے سے سن لیا کرتا تھا اور ان کا تازہ افسانہ پڑھ کر ادبی قارئین پر بھی فردا کا منظر نامہ روشن ہوجایا کرتا تھا۔ احمد ندیم قاسمی کے اندر کا ڈراما نگار بھی تہلکہ مچانے پر تلا رہتا تھا، انھوں نے بہت سے ڈرامے لکھ کر داد ضرور سمیٹی لیکن پھر اپنے اندر کے ڈراما نگار کو سلا دیا تھا۔ وہ ٹی وی ڈراموں کی کمرشیل ضروریات پورا کرنے کے لیے اپنی سوچ سے کوئی سودا نہیں کرنا چاہتے تھے. احمد ندیم قاسمی ایک گھنا اور چھتنار پیڑ تھے. نئی نسل کو مستقل چھاوں مہیا کی. ادبی دنیا میں نئے چہروں کو متعارف ہی نہیں کرایا، بلکہ نوجوان ادیبوں اور شاعروں کی انگلی تھام کر انھیں گھٹنوں گھٹنوں چلاتے بھی نظرآئے۔ کون کہتا ہے کہ آدھی صدی سے زیادہ عرصے تک انھوں نے ادبی دنیا پر راج کیا۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ ان کاراج ختم نہیں ہوا۔ وہ مسلسل پانچ چھے عشروں تک ادبی محفلوں کی جان بنے رہے۔ صدارت کی کرسی پر ہوتے یا مہمان خصوصی کی نشست پر براجمان نظر آتے. وہ تو آج بھی اپنے چاہنے والوں کے دلوں پرحکمرانی کررہے ہیں۔ فنون ایک رسالہ نہیں ایک تربیتی ادارہ بھی تھا. نسل ِ نو کے لیے ایک دبستان تھا، پاکستان اور بھارت کے ادب دوستوں کے لیے انھوں نے اس پلیٹ فارم سے ادب کی ترویج و ترقی کے لیے جو گراں قدر کام کیا، وہ ہماری ادبی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ ہمارے گھر ان کا بڑا آنا جانا رہا۔ ان کے کئی انٹرویو بھی کیے. خط و کتابت بھی رہی۔ ان کے کئی یادگار خطوط میرا سرمایہ ہیں۔ ان کے ذکر خیر نے میری یادوں کی بہت سی کھڑکیاں کھول دی ہیں. بہت سے مناظر آنکھوں کے سامنے آکر تازہ ہوگئے ہیں. میں انھیں کیسے بھلا سکتا ہوں؟ جو ہمارے خاندان کے ہر دکھ سکھ میں شریک رہے۔ قدم قدم پر حوصلہ بڑھایا اور اپنی رفاقتوں کا یقین دلایا۔ یادوں کے دریچے کھلتے ہی بیتے مناظر ایک ایک کرکے میری آنکھوں کے سامنے آرہے ہیں۔ آپ کو بھی میں ان یادوں میں شریک کر رہاہوں. ان کی یادوں کے قافلے نے میرے ساتھ پڑاؤ ڈالا ہے تو میں آپ کو بھی اس میں شامل کرنا چاہتا ہوں. 

29 جنوری 2004 صبح کے آٹھ، نو بج رہے ہو ں گے۔ بے شمار فون کالز آرہی تھیں. انہی میں سے ایک منصورہ احمد کی بھی تھی۔ بابا سائیں یعنی میرے والد بزرگوار سید فخرالدین بلے کی رحلت پر تعزیت فرمائی اور کہا بابا کو بہت دکھ ہوا ہے. وہ آپ سے با ت کرنے کے لیے بہت بے چین ہیں۔ آپ سے بات کرواتی ہوں۔ مجھے آپ کی کفیت کا بھی بہ خوبی اندازہ ہے مگر کیا کروں۔ اُدھر آپ پر یہ قیامت ٹوٹی ہے ادھر بابا کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے مگر اپنی طبیعت سے زیادہ اس وقت انھیں آپ لوگوں کی فکر ہے۔ اور وہ فوری طو ر پر ملتان کے لیے روانہ ہونا چا ہتے ہیں۔ لیکن شاید آپ کے سمجھانے سے سمجھ جائیں۔ میں نے عرض کیا آپ بابا (احمد ندیم قاسمی صا حب) سے بات کروائیے۔ خیر احمد ندیم قاسمی صاحب سے بات ہوئی۔ انھوں نے بھرپور انداز میں تعزیت فر مائی اور صبر و حو صلے کی دعائیں دیں۔ ان کی ادبی، صحافتی اور ثقافتی خدمات کو تحسینی کلمات پیش کرتے ہوئے ان کی آواز بھرا سی گئی. پھر فرمایا۔ بے فکر رہیے۔ ایک، دو بجے تک میں ملتان پہنچ جاؤں گا. میں نے عرض کیا کہ ندیم صاحب ہم لوگ ڈیڑھ دو بجے تک نماز جنازہ ادا کر تے ہی تد فین کے لیے بہاول پور روانہ ہو جا ئیں گے۔ انھوں نے یہ سنتے ہی فرمایا کہ ٹھیک ہے۔ میں براہ راست بہاول پور پہنچ جاٶں گا اور وہاں ادا ہونے والی نماز جنازہ میں شرکت کر لوں گا ۔میں نےعرض کیا کہ آپ کی آواز سے آپ کی طبیعت اور دمے کی سی کیفیت کا خوب اندازہ ہو رہا ہے۔ لہذا خدارا۔ ہم پر رحم فر مائیں۔ اللہ نہ کرے۔ اس شدید سرد موسم میں طبیعت بگڑ گئی تو کیاہو گا؟ اور دوسری بات یہ کہ مو ٹر وے بند پڑے ہیں۔ ٹر ینیں تاخیر سے پہنچ رہی ہیں. دُھند اس قدر شدید ہے کہ فلا ئٹس لینڈ نہیں کر پا رہیں. میری آپ سے التجا ہے کہ آپ اس وقت سفر کا ارادہ ترک فرما دیں. منت سماجت کے بعد وہ اس بات کے لیے راضی تو ہو گئے مگر اس کے بعد مسلسل فون پر رابطے کا سلسلہ جاری رکھا. پل پل کی خبر رکھی اور یہی فرماتے رہے کہ میں یہ نہیں چاہتا کہ پریشانی اور دکھ کے ان لمحات میں آپ کو یہ احساس ہو کہ میں آپ سے دور ہوں یا وہاں موجود نہیں ہوں۔
دنیا جانتی ہے کہ میرے والد نے ایک ادبی اور ثقافتی تنظیم قافلہ بھی بنا رکھی تھی، اس کے زیر اہتمام دو مرتبہ جشن احمد ندیم قا سمی انتہائی شان دار طر یقے سے منا یا گیا۔ 74 ویں جشنِ وِلاد ت کے موقع پر ان کی طبیعت ناساز تھی اور ہاتھ پر پلاسٹر چڑھا ہوا تھا۔ مگر کیونکہ وہ میرے اور افتخار ایلی کے اصرار پر حامی بھر چکے تھے، لہذا علالت کے با وجود بھی انھوں نے اپنی آمد کو یقینی بنایا۔ کلیم عثمانی، ڈاکٹر سلیم اختر، بیدار سرمدی، اسلم کمال، امجد اسلام امجد، عطاءالحق قاسمی، اسرار زیدی، سرفراز سید، شہزاد احمد شہزاد اور فخر الد ین بلے نے احمد ندیم قاسمی کی ادبی خدمات کو سراہتے ہوئے ان کے ادبی معرکوں کا بھی ذکر کیا۔ اس موقع پر ان کی زیر ادارت شا ئع ہو نے والے ادبی رسائل و جرائد کو بھی موضوع بنایا گیا۔ 78واں جشنِ احمد ندیم قاسمی بھی “قا فلہ“ کے زیر اہتمام منایا گیا۔جو بلاشبہ کئی اعتبار سے حد درجہ یاد گار بلکہ شان دار رہا۔جب احمد ندیم قاسمی صاحب کو کیک کاٹنے کے لیے بلایا گیا تو برادر محتر  خالد احمد گویا ہوئے. ظفر معین یہ کیک کے اوپر تحریر کردہ شعر کیا آپ کا ہے. 

اللہ ان کا سا یہ سلا مت رکھے سدا
اب خیر سے ند یم 78برس کے ہیں

میں نے کہا. جی ہاں. میرا ہے تو خالد احمد نے کہا کہ اللہ قا سمی صاحب کا سایہ ہمیشہ ہمیشہ سلامت رکھے۔ یہ شعر ہر برس ہندسوں کی تبدیلی کے ساتھ نیا ہو جائے گا بلکہ تا زہ کہیے! میں نے جواباً عرض کیا کہ بابا کو پیش کرنے کے لیے منظوم خراج کی کوئی کمی تو نہیں۔برادر محترم خالد احمد نے کہا کچھ اور بھی سنا ئیے۔ اس فرمائش پر میں نے اپنا ایک شعر سنایا:
تمھارے دور میں غا لب و میر و ذوق تھے بس
ہما رے عہد میں احمد ند یم قا سمی ہیں

قافلے کے اس پڑاؤ میں احمد ندیم قاسمی صاحب کی شخصیت، فن اور خدمات کے بہت سے پہلو اجاگر کیے گئے. شرکا نے انھیں بھرپور انداز میں خراج عقیدت و محبت پیش کیا۔ بڑی خوش گپیاں بھی ہوئیں۔ بہت سے چٹکلے چھوڑے گئے. مہمان جی اٹھے۔ تقریب کے اختتام پر ناہید قاسمی صاحبہ نے مجھے مخا طب کر کے کہا “ظفر بھا ئی آج میں نے زند گی میں پہلی مرتبہ مسلسل 5 گھنٹے بابا کے سا منے بیٹھ کر ان سے ان کا کلام سنا ہے۔ اس کا کریڈٹ آپ کو جاتا ہے. میں نے عرض کیا ناہید باجی۔ اس کا کریڈٹ بابا کے سبھی چا ہنے والوں کو جاتا ہے کہ جو یہاں موجود ہیں ۔یہ سبھی آج بابا کو سننا چاہتے تھے اور بابا نے اسی لیے افسانہ پڑھنے کے بعد کچھ اور عطا ہو، کچھ اور ارشاد ہو کے جواب میں کسی کی فرمائش کو رد نہیں کیا۔ کچھ ہی دیر بعد ناہید قاسمی صاحبہ پھر مجھ سے مخاطب ہو تے ہوئے بولیں "ظفر بھائی آپ نے بابا کو کیسے منالیا اور وہ کیسے راضی ہو گئے؟" میں نے والد گرامی کی طرف اشا رہ کیا اور کہا ان کی گزارش پر، دو سری بات یہ کہ با با ہم سب سے کتنی محبت کر تے ہیں۔ میں نہیں جانتا مگر مجھے بلکہ ہمیں بھی وہ آپ سے کم نہیں چا ہتے. بہر حال انہوں نے ہمارا ما ن رکھ لیا. یہ ان کی بڑائی ہے۔ وہ ہم سب کا مان ہیں. پھر میں نے اپنا یہ شعر پیش کیا

شعر و سخن کی آبرو، اردو ادب کا مان
اسر ارِ کائنات سے پُر اور قلم گیان

اس پر اسرار زیدی نے احمد ندیم قا سمی صاحب کو مخاطب کر کے کہا محسن نقوی کے مصرعے پر کیا گرہ لگائی ہے. احمد ندیم قاسمی نے کہا بھئی ہم تو”قلم گیان" کی انوکھی ترکیب پر ہی حیران ہیں. اس شعر میں ان کی ادب پروری شا مل ہے۔ اور یہ ادب پروری بلکہ ادب پرستی انھیں ورثے میں ملی ہے۔ ایک مرتبہ احمد ندیم قاسمی اپنے عہد رفتہ کے قصے بیان کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک قصہ یہ بھی تھا کہ ایک مرتبہ فخر الد ین بلے صاحب مجھ سے ملنے اور خیریت جاننے کے لیے جیل پہنچ گئے۔ اس ملاقات کا دورانیہ طو یل تھا۔ ان دنوں وہ لاہور ہی میں ماہنامہ "فلا ح“ کے مد یر اعلا تھے۔ انھوں نے مجھ سے جیل میں رہتے ہوئے ایک افسانہ لکھوایا اور اسے بہت اہتمام کے ساتھ فلاح میں شائع کیا اور وہ شمارہ مجھے جیل میں دینے بھی آئے۔

احمد ند یم قاسمی کی شخصیت اور فن کے حوالے سے یوں تو بہت کا م ہوا ہے اور ہر کام اپنی جگہ پر ایک ٹھوس حیثیت کا حا مل ہے، مگر سید فخر الد ین بلے کی زیر ادارت شا ئع ہو نے والے ہفت روزہ "آوازِجر س“ کے احمد ندیم قاسمی نمبر کا تذکرہ نہ کرنا یقیناً نا انصافی ہو گی۔ اس اشاعتِ خاص میں شامل تمام تر تخلیقا ت، تصاویر اور تاثرات بہت ہی غیر معمولی، اچھو تے اور کئی اعتبار سے منفرد تھے. ادبی حلقوں نے اس کی والہانہ اند از میں پذ یرائی کی اور آواز جرس کی اشاعت خاص کو تا ریخی دستاویز قرار دیا. سید فخر الدین بلے کی ہی ہد ایت پر مصورِ آوازِ جرس طاہر نقوی نے ایک سال میں احمد ندیم قاسمی کی دو تصاویر بڑی محنت سے بنائیں، جو اس اشا عت خاص کا حصہ بنیں۔اس جریدے آواز جرس کی پالیسی تمام تر گروہ بندیوں سے بالا تر رہی۔
ایک مرتبہ احمد ندیم قاسمی اختر حسین جعفری، ڈاکٹر برہان احمد فاروقی کے ساتھ فخرالدین بلے کی عیادت کے لیے تشریف لائے تو سید فخرالدین بلے بستر علالت پر دراز تھے اور ان کی ناک میں آکسیجن کی نالیاں لگی ہوئی تھیں اور وہ مجھے آواز جرس کے آئندہ شمارے کا اداریہ لکھو ارہے تھے۔ ان احباب کی آمد پر اُٹھ بیٹھنے کی کوشش ہی کی تھی کہ ڈاکٹر برہان احمد فاروقی (جو کہ فخر الد ین بلے کے ہمسائے بھی تھے ) گویا ہوئے۔بلے میاں لیٹے رہئے ورنہ ہم لوٹ جا ئیں گے۔ فخر الدین بلےفوراً پھر لیٹ گئے تو احمد ندیم قاسمی نے فرمایا۔ یہ کیا ما جرا ہے؟ اگر ہم یہی با ت کہتے تب بھی کیا آپ بلا تاخیر لیٹ جا تے۔ تو فخرالد ین بلے نے کہا بالکل نہیں۔کیونکہ ڈاکٹر برہان احمد فاروقی میرے سینئر ہیں اور علی گڑھ کی جا معہ نے سینئرز کو بہت با اختیار بنایا ہے۔

اس سے قبل کہ قارئین کرام کو ہم اپنی مذید حسین یادوں میں شریک کریں ملاحظہ فرمائیے احمد ندیم قاسمی صاحب کی یہ شاہ کار نظم. 

نظم :”پتھّر" : احمد ندیم قاسمی
(مجموعہ کلام "مُحیط” سنہ 1963)

ریت سے بُت نہ بنا، اے مِرے اچھے فنکار
ایک لمحے کو ٹھہر، میں تجھے پتھّر لا دُوں
میں تِرے سامنے انبار لگا دُوں ــــــــــ لیکن
کون سے رنگ کا پتھّر تِرے کام آئے گا؟
سُرخ پتھّر؟ ـــــ جسے دِل کہتی ہے بے دِل دُنیا
یا وہ پتھرائی ہوُئی آنکھ کا نیلا پتھّر
جس میں صدیوں کے تحیّر کے پڑے ہوں ڈورے؟
کیا تجھے رُوح کے پتھّر کی ضرورت ہوگی؟
جس پہ حق بات بھی پتھّر کی طرح گِرتی ہے
اِک وہ پتھّر ہے، جسے کہتے ہیں تہذیبِ سفید
اس کے مَرمَر میں سِیہ خوُن جھلک جاتا ہے
ایک انصاف کا پتھّر بھی تو ہوتا ہے، مگر
ہاتھ میں تیشۂ زر ہو تو وہ ہاتھ آتا ہے
جتنے معیار ہیں اِس دَور کے، سب پتھّر ہیں
جتنے افکار ہیں اِس دَور کے، سب پتھّر ہیں
شعر بھی، رقص بھی، تصویر و غنا بھی پتھّر
میرا اِلہام، تِرا ذہنِ رَسا بھی پتھّر
اِس زمانے میں تو ہر فن کا نشاں پتھّر ہے
ہاتھ پتھّر ہیں تِرے، میری زباں پتھّر ہے
ریت سے بُت نہ بنا، اے مِرے اچھے فنکار!
پرویز بزمی صا حب سے سرگو دھا میں قیا م کے دوران خا صا قریبی تعلق رہا۔ انھیں والد گرامی سید فخر الدین بلے سے خا ص عقید ت تھی اور ابو کے حوالے سے ہم سب بھا ئیوں سے بھی انھیں خا ص انسیت تھی۔ وہ ہم سب سے عمر میں بہت بڑے تھے مگر اس کے باوجود وہ ہم سب سے بھی بہت عقیدت اور احترام سے ملتے تھے۔ سرگودھا سے آجانے کے بعد بھی پرویز بزمی صاحب سے رابطہ قائم رہا ۔ ان کا حافظہ بلا کا تھا اور وہ ہر قسم کے تعصب اور گروہ بندی سے دور ہی رہا کر تے تھے۔ غالباً 1989یا 1990میں انھو ں نے اچانک احمد ندیم قاسمی صاحب کی غزل اور پھر نظم کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان دونو ں مضامین کی اشاعت کے بعد وہ لا ہور تشریف لائے ۔ اتفاق سے ابو دفتر گئے ہو ئے تھے اور میں خلا ف معمول "ادب لطیف" کے دفتر سے اس روز ذرا نہیں بہت جلد لوٹ آیا تھا (ان دنوں میں ادب لطیف کا ایڈ یٹر تھا) لہذا پرویز بزمی صاحب ابو سے پہلے میرے ہتھے چڑھ گئے۔ یہاں یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ میں پہلے ہی پرویز بزمی صاحب کو چک 39 شمال کے پتے پر ان مضا مین کے حوالے سے خط لکھ چکا تھا اور اپنی حیر ت، تعجب اور تشویش کا اظہار کر چکا تھا۔ بہر طور دوران گفتگو پر ویز بزمی صاحب نے اپنے طور پر اس کا یہ سبب بیان کیا کہ احمد ندیم قا سمی اور ڈاکٹر وزیر آغا دونوں جغادریوں پر کو ئی ہا تھ نہیں ڈالتا۔ لہذا دونوں نے جن جن اصنا ف میں کارہائے نمایاں سر انجام دیے ہیں، ان کے حوالے سے پا نچ +پا نچ=(5+5=10) مقالا ت لکھنے کا منصوبہ ہے. مختصر یہ کہ طے پا گیا کہ احمد ندیم قاسمی صاحب کے حوالے سے کسی مضمون کی اشاعت عمل میں نہیں آئے گی۔ اور پانچ مقالات تحریر کرنے کے بعد پھر ڈاکٹر وزیر آغا کے حوالے سے پانچ مقالات لکھے جا ئیں گے۔ معاہدہ زبا نی ہی سہی مگر ہو گیا۔ شرطِ اول یہ تھی کہ دس کے دس مقالات کے جملہ حقو ق راقم السطور کے نا م ہو ں گے۔ یقیناً معاہدہ دونوں فریقین کی رضا مندی سے ہوا تھا مگر میں اس بات کے لیے کیسے راضی ہوگیا. ہرگز بھی مساوی سلوک کی بنا پر نہیں، اور نہ ہی حبِ علی کی بنیاد پر. حسن اتفاق کہئے یا اسے کوئی اورنام دے دیں. معاملات طے پاتے ہی ابو بھی تشریف لے آئے. انھو ں نے پرویز بزمی صاحب کی خوب اچھی طرح سے خبر لی۔ آخرکار پرویز بزمی صاحب نے ابوسے کہا "بلے صاحب مجھے اندازہ نہیں تھا کہ قا سمی صاحب کے خلا ف لکھنے پر آپ کو اتنی ذہنی کوفت ہوگی اور آپ اس قدر برہم ہوجائیں گے. میں آپ سے اپنے کیے کی معذرت چاہتا ہوں اور آئندہ کے منصوبوں کو فی الفور منسوخ کرتا ہوں۔ بعد ازاں پرویز بزمی صاحب کا میرے نام خط بھی آیا تھا ۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، یہ خط جاوید اختر بھٹی صاحب کی نظر سے بھی گذرا ہے. اس خط میں یہی لکھا تھا کہ "بلے صاحب کے حکم پر میں نے قاسمی صاحب کے خلا ف لکھنے کا ارادہ تر ک کردیا ۔کیونکہ ان کے حکم کے سامنے میرے ارادے یا خواہش کی کوئی اہمیت نہیں. بے شک یہ پرویز بزمی صاحب کی اعلا ظرفی تھی. اس سے یہ بھی ثا بت ہوا کہ وہ ابو کا کس قدر احترام کرتے تھے. جب قاسمی صاحب کو کسی طور اس با ت کا علم ہوا تو انھوں نے ابو سے کہا "فخر الدین بلے صاحب آپ کو میرے حوالے سے لکھے گئے مضامین پر تشویش ہوئی اور ذہنی اذیت بھی۔ گویا آپ کی ذہنی کوفت کا باعث کسی نہ کسی حوالے سے میں ہی بنا۔ لہذا میں آپ سے معذرت خواہ ہوں ۔

سیدہ ہانی ظفر کی ولادت کی مبادکباد کے لیے آنے والوں میں بھی احمد ندیم قاسمی بازی لے گیے۔ لا ہور سے ملتان اور پھر ملتان سے کراچی سکونت اختیار کرنے پر بھی قاسمی صاحب سے مسلسل رابطہ قا ئم رہا۔ مجھے اور میری بہن عذرا کمال کو کراچی میں بھی بارہا ان کی میزبانی کا اعزاز حاصل ہوتا رہا. وہ خیریت دریافت کرنے کے لیے بھی فون کیا کرتے تھے۔ ایک مر تبہ کسی تقریب کے حوالے سے احمد ندیم قاسمی ‘منصورہ احمد‘ محسن احسان اور احمد فراز کراچی آئے ہو ئے تھے. قاسمی صاحب نے آتے ہی مجھے مطلع کیا۔ پھر میری بہن عذرا کمال اور میرے بہنوئی محترم کمال اختر صاحب انھیں اپنے ساتھ لے آئے۔ گھنٹوں محفل جمی رہی۔ دنیا جہان کی باتیں ہوئیں۔

احمد ندیم قا سمی صاحب بہت متحمل مزاج تھے۔ حد سے زیادہ درگزر سے کام لیتے تھے. یہ ایک عام تاثر تھا۔میں چاہنے کے با وجود بھی یقین نہیں کرپاتا تھا. لہٰذا میں نے 1989میں ان کے چند فنی اور شخصی پہلوؤں کے حوالے سے ایک مضمون لکھا، جسے تنقیدی مضمون کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ اور جب مجھے یہ یقین ہو گیا کہ یہ تحریر ان کی نظر سے گذر چکی ہے تو پھر میں فنون کے دفتر ان سے ملنے پہنچ گیا۔ ان کے طرزِ عمل میں معمولی سی بھی منفی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔ وہ ہمیشہ کی طرح اپنی نشست سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور کہا "آئیے، آئیے۔ آپ کو دیکھے ہوئے تو چند روز بھی گذر جائیں تو لگتا ہے کہ کئی برس بیت گئے. " پھر کچھ اِدھر اُدھر کی با تیں ہوئیں مگر مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے پوچھ ہی لیا کہ قاسمی صاحب وہ مضمون آپ کی نظر سے گذرا۔ قاسمی صاحب اپنی نشست سے دوبارہ اُٹھ کھڑے ہوئے۔ مجھے گلے سے لگا کر کہا “سچ پو چھو تو آپ کا مضمون مجھے بے حد پسند آیا اور میں اسے پڑھ کر بے حد خوش ہوا۔ آپ نے مجھے حقیقتاً اپنائیت کا احساس دلایا ہے اور یہ مضمون آپ کا مجھ پر ایک احسان ہے. 

ایک اور اہم واقعہ بھی مجھے یاد آرہا ہے۔ ہم لاہور میں تھے محترمہ منصورہ احمد کا فون آیا اور انھوں نے کہا بابا یعنی محترم احمد ندیم قاسمی صاحب بات کرنا چاہ رہے ہیں اور پھر قاسمی صاحب نے بتایا کہ ہم بہت تھوڑی دیر کے لیے علامہ طالب جوہری صاحب کے ساتھ آپ کے گھر آرہے ہیں۔ میرے والد گرامی یہ ُسن کر جی اٹھے۔ انھوں نے اصرار کر کے مختصر ملاقات کو ظہرانے میں تبدیل کرانے پر علامہ صاحب کو راضی کرلیا۔ نظم کے عظیم اور معروف شاعر اختر حسین جعفری اپنے صاحب زادے منظر حسین اختر اور مشکور حسین یاد کے ساتھ تشریف لے آئے۔ ادب لطیف کی چیف ایڈیٹر محترمہ صدیقہ بیگم کو بھی میں نے فون پر آگاہ کردیا۔ روزنامہ ڈان کے اشفاق نقوی کو بھی مدعو کرلیا گیا۔ مایۂ ناز صدا کار اور فلمی اداکار محمد علی بھی آگئے۔ اہم ادبی موضوعات پر بڑے لوگوں کے مابین گفتگو شروع ہوگئی۔ اور بڑی سیر حاصل گفتگو ہوئی۔

ایک روز احمد ندیم قاسمی صاحب ریڈیو پاکستان سے اپنا ہفتہ وار کالم پڑھ کر فارغ ہوئے اور طے شدہ پروگرام کے مطابق سیدھے بابا جانی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کی اقامت گاہ (جی۔او۔آر۔تھری) پہنچے. ان کے ہم راہ خالد احمد بھائی اور نجیب احمد صاحب بھی تھے۔ اور کچھ ہی دیر بعد طارق عزیز صاحب اور عارفانہ کلام پڑھنے میں بے مثل مقبولیت پانے والے اقبال باہو بھی پہنچے۔ اختر حسین جعفری صاحب کو پک کر کے لانے کی ذمہ داری جناب ابصار عبدالعلی صاحب کی تھی کیوں کہ ہمسایوں کے بھی تو حقوق ہوتے ہیں۔ بابا جانی کبھی خود چین و قرار کے ساتھ نہیں بیٹھے تو ہمسایوں تک بھی تو فیض پہنچنا ضروری ہے. اس روز احمد ندیم قاسمی صاحب کا موڈ کچھ کوفت زدہ سا لگ رہا تھا۔ قاسمی صاحب بابا جانی سے کچھ یوں مخاطب ہوئے:  بَلّے صاحب حد ہی ہوگئی خدا معلوم کیا ہوگا ان عاقبت نا اندیشوں کا۔ باباجانی نے دریافت کیا  تو پھر ان کو قاسمی صاحب نے بتایا کہ میں تو برسوں سے ریڈیو سے وابسطہ ہوں اور میرا مسلسل ریڈیو سے اور وابستگان ریڈیو سے رابطہ بھی ہے۔ آج جب ریڈیو پر ایک انتہائی نااہل شخص سے رابطہ ہوا تو محسن ملک و ملت جناب سید مصطفی علی ھمدانی بہت یاد آئے۔ کیا نفیس انسان تھے ریڈیو پاکستان کی پہچان اور جان۔ پیشہ ورانہ مہارت میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا نہ ہے۔ جب آج ریڈیو پر ایک نااہل شخص سے سابقہ پڑا تو میں نے اس سے کہا کہ کاش آج سید مصطفی علی ھمدانی حیات ہوتے تو وہی آپ کو کچھ سمجھا سکتے تھے. لیکن نہیں ایسا ممکن نہیں ہوسکتا تھا کہ آپ اور مصطفی علی ھمدانی صاحب بیک وقت ریڈیو کی اس چھت تلے اکٹھے ہوتے۔ بس اتنی ہی بات کر کے احمد ندیم قاسمی صاحب نے بہت کچھ کہہ ڈالا تھا۔ قاسمی صاحب کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ابصارعبدالعلی گویا ہوئے ہائے ہائے کیا ہیرا راہ بر و راہ نما تھے استاد محترم جناب مصطفی علی ھمدانی صاحب۔ ہم نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے اور وہ بھی کمال شفقت فرمایا کرتے تھے اور بہت سی کام کی باتیں سمجھانے کے ساتھ ساتھ ریڈیو پاکستان کے مختلف مراکز میں پنپنے والی داخلی سیاست سے دور اور محفوظ رہنے کا مشورہ دیا کرتے۔ ہمزاد دا دکھ کے خالق اور مقبول ٹی وی شو نیلام گھر سے شہرت کی بلندیوں کو پہنچنے والے جناب طارق عزیز صاحب نے احمد ندیم قاسمی صاحب اور ابصار عبدالعلی صاحب کے موقف کی تائید کرتے ہوئے فرمایا کہ پاکستان ریڈیو اور پاکستان ٹیلی وژن ( کے قیام ) کی عمروں میں جو فرق ہے باپ بیٹے یا ماں بیٹے کی عمروں میں بھی اتنا ہی فرق ہوتا ہے اور ریڈیو پاکستان کے سامنے پاکستان ٹیلی وژن کی حیثیت ایسی ہی ہے جیسی ماں باپ کے سامنے اولاد کی یا استاد کے سامنے شاگرد کی اور میں تو فخریہ طور پر جناب مصطفی علی ھمدانی صاحب کو اپنا گرو اور راہ بر بلکہ روحانی استاد سمجھتا ہوں۔ محترمہ توصیف افضل صاحبہ نے اپنی یادوں کے حوالے سے جناب مصطفی علی ھمدانی شاہ صاحب کو خراج پیش کیا. اختر حسین جعفری صاحب نے عقیدت مندانہ انداز میں مصطفی علی ھمدانی کو خراج پیش کیا اور پھر فرمایا ہم اپنے اسلاف اور محسنین ملت سے آنکھیں چرا کر کہیں کے نہیں رہیں گے. یہ بات نئی نسل کو سمجھ لینی چاہیے۔ یہ بات سن کر طارق عزیز صاحب نے فرمایا اختر حسین جعفری، احمد ندیم قاسمی، سید فخرالدین بلے صاحب اور منیر نیازی اور خالد احمد میرے پسندیدہ شاعروں میں سے ہیں. پھر طارق عزیز صاحب نے احمد ندیم قاسمی صاحب سے مخاطب ہوکر کہا آپ کی سفارش بھی کام نہ آئی. میں نے بارہا جناب سید فخرالدین بلے صاحب سے گزارش کی کہ وہ میرے شو میں مہمان شاعر و محقق کے طور پر شرکت فرمائیں اور وہ ہمیشہ یہ کہہ کر ٹال دیتے ہیں کہ نہ تو آپ کہیں جا رہے ہیں اور نہ ہی میں۔ قاسمی صاحب آپ ہی فرمائیے کہ میں کیا کروں اور بلے صاحب سے احتجاج بھی کروں تو کیسے. پسندیدہ شعرا میں سے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی صاحب مسکرائے اور ان کی مسکراہٹ دیکھ کر طارق عزیز صاحب نے پوچھا قاسمی صاحب میری بات کے جواب میں آپ کی مسکراہٹ، میں سمجھ نہیں پا رہا۔ اس سوال کے جواب میں احمد ندیم قاسمی صاحب نے فرمایا کہ سید فخرالدین بلے صاحب سے صہبا لکھنوی صاحب کو ہم نے افکار کے لیے، محمد طفیل صاحب کو نقوش کے لیے اور محترمہ صدیقہ بیگم کو (کہ جو خود سید فخرالدین بلے صاحب کے افراد خانہ میں شمار کی جاتی ہیں) ادب لطیف کے لیے، اظہر جاوید صاحب کو تخلیق کے لیے اور مسعود اشعر صاحب کو دھنک کے لیے اور طفیل ہوشیارپوری صاحب کو محفل کے لیے بارہا کلام کی فرماٸش کرتے سنا اور دیکھا ہے اور جب کہ میں خود فنون کے لیے متعدد بار ان سے ان کا کلام طلب کرچکا ہوں لیکن وہ ہمیشہ ہی نہایت خوب صورتی سے ٹال جاتے ہیں۔ اور تو اور حسن رضوی اور اجمل نیازی کافی عرصہ کوشش کرتے رہے کہ فخرالدین بلے صاحب انھیں جنگ اور پاکستان کے لیے انٹرویو دے دیں. حسن رضوی کو تو کامیابی حاصل نہیں ہوسکی البتہ اجمل نیازی سے پوچھنا ہوگا کہ انھوں نے کیا حربہ استعمال کیا تھا. کس طرح فخرالدین بلے صاحب نے انھیں انٹرویو دے دیا۔
اس عہد کے افسانوی ادب کے حو الے سے بھی احمد ندیم قاسمی صاحب کا نام اور مقام بہت معتبر اور نمایاں نظر آتا ہے. انھوں نے جو خوب صورت اور منفرد افسانے تخلیق کیے ہیں، ان کے پیشِ نظر بجا بطور پر انھیں 21ویں صدی کا افسانہ نگار قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان کے افسانوی مجموعوں کے کیا کہنے۔ وہ کبھی "چوپال" میں بیٹھے دکھائی دیتے ہیں اور کبھی” سیلاب وگرداب" سے نبرد آزما ”بازار" سے گذرتے ہوئے اپنے "آس پا س" درو دیوار کا "سنا ٹا" دیکھ کر ان کے اندر کا افسانہ نگار جاگ اُٹھتا ہے۔ کبھی ان کے ہا تھ میں ” نیلا پتھر" دکھائی دیتا اور کبھی “کپاس کے پھول"۔ انھوں نے” گھر سے گھر تک" جو طو یل مسافت طے کی ہے، اس کی بنا پر ان کے تلووں میں آبلے پڑ گئے۔ لیکن پھر بھی فکر و نظر کا مر کز "برگِ حنا" ہے۔ "برگِ حنا" کے ذکر سے آنچل کا تصور ضرور ابھرتا ہے اور بے شک ان کے خوب صورت افسانوں میں “طلو ع و غروب" کے منظر نے مجھے ہمیشہ بہت متا ثر کیا. 

جب ہم نے جناب احمد ندیم قاسمی صاحب کی سال گرہ کی مناسبت سے تہنیتی کارڈز شایع کروانے کے سلسلے کا آغاز کیا تو ہم نے ان کارڈز کو سپرد ڈاک کرنے کے سلسلے میں منصورہ احمد صاحبہ سے مشاورت کی اور پھر طے یہ پایا کہ لوکل کارڈز 20 نومبر سے تین یا چار روز قبل پوسٹ کیے جاٸیں جب کہ بیرون ملک کم از کم بارہ پندرہ روز قبل سپرد ڈاک کیے جائیں۔ منصورہ احمد صاحبہ کے ساتھ مل کر میلنگ لسٹ کے مطابق ہم نے سب سے پہلے انڈیا، یو کے، کینیڈا اور امیریکہ کے کارڈز پوسٹ کیے. خلاف توقع سب سے پہلے بھارت میں گلزار صاحب کو کارڈ موصول ہوا اور انھوں نے کارڈ موصول ہوتے ہی احمد ندیم قاسمی صاحب کو فون کیا اور سال گرہ کی پیشگی مبارکباد دینے کے بعد ہمارا نام لے کر ہم سے بات کی خواہش ظاہر کی اور ہمارے فون کا نمبر بھی قاسمی صاحب سے یہ کہہ کر لے لیا کہ ہم خود ظفر معین بلے صاحب کو فون کریں گے اور ان کی قائم کردہ اس نئی روایت کو جاری رکھنے کی بھی فرمائش کریں گے۔ ہمیں یاد ہے کہ قاسمی صاحب نے ہمیں فون کرکے مجلس کے دفتر بلوایا اور کہا کہ دو گھنٹے بعد گلزار صاحب کا دوبارہ فون آئے گا. 

ہم بر وقت پہنچ گئے اور منصورہ احمد، احمد ندیم قاسمی صاحب اور برادرم خالد احمد صاحب کی موجودگی میں ہماری جناب گلزار صاحب سے تفصیلی بات ہوٸی۔ انھوں نے ہمارے اس اقدام کو بے حد سراہا اور اس سلسلے کو ہر سال جاری رکھنے کی فرماٸش بھی کی۔ احمد ندیم قاسمی صاحب کی سالگرہ کی مناسبت سے ہمارے پرنٹ کروائے ہوئے گریٹنگ کارڈز کو ہر سال ہی بے حد سراہا جاتا تھا۔ مہر سلطانہ صاحبہ نے تو احمد ندیم قاسمی صاحب کے جشن ولادت کی مناسبت سے ہمارے پرنٹ کروائے ہوئے کارڈ جناب محترم شبنم رومانی صاحب سے حاصل کیا اور اس کا عکس اپنی کتاب میں شاٸع فرمایا. 

سید فخرالدین بلے اور ان کے اہل خانہ کو جناب احمد ندیم قاسمی اور ان کی اہلیہ اور فیض احمد فیض اور ان کی اہلیہ کی متعدد بار میزبانی کا اعزاز اور شرف حاصل ہوا بلکہ چند مرتبہ تو فیض احمد فیض صاحب اور محترمہ ایلس فیض اور احمد ندیم قاسمی اور محترمہ بیگم احمد ندیم قاسمی صاحبہ بیک وقت والدہ ماجدہ محترمہ مہر افروز بلے کے مہمان بنے۔
بیسویں20 نومبر 1984 کو جناب فیض احمد فیض صاحب انتقال فرما گئے۔ فیض صاحب کا شمار عالمی شہرت کے حامل ممتاز ترین شعرا  اور ترقی پسند مصنفین میں ہوتا ہے۔ احمد ندیم قاسمی صاحب کے جشن ولادت کی متعدد تقریبات میں خود فیض صاحب بھی شریک ہوئے لیکن جب ان کے انتقال اور احمد ندیم قاسمی صاحب کی ولادت کی تاریخ ایک ہوگئی  تو اس دن خوشی اور دکھ کی ملی جلی کیفیات دیکھنے میں آنے لگیں۔ 20نومبر 1984 کو بھی احمد ندیم قاسمی صاحب نے اپنے جشن ولادت کے حوالے سے منعقد ہونے والی متعدد تقریبات ملتوی / منسوخ کروائیں۔ اور اس کے بعد سے جب بھی کوئی ادبی ادارہ یا تنظیم احمد ندیم قاسمی صاحب سے ان کی سال گرہ کی مناسبت سے تقریب کا اہتمام کرنے کی خواہش کرتا تو احمد ندیم قاسمی صاحب اپنی سی ہر ممکن کوشش کرتے کہ فیض صاحب کی برسی کے دن کسی خوشی کی تقریب کا اہتمام نہ کیا جائے۔ فیض صاحب کے بعد اکیس برس ایسے ہی گزرے کہ احمد ندیم قاسمی صاحب کو بہ مشکل تمام اس کے لیے راضی کیا تھا۔
پھر 2006 میں جب ان کی علالت شدت اختیار کرتی چلی گئی۔ اس دوران بھی ان سے مسلسل رابطہ قا ئم رہا۔ اکثر یہ بھی ہو تا کہ میں فون کرتا تو منصورہ احمد فرماتیں کہ بابا سو رہے ہیں یا اس وقت ان کی حالت ایسی نہیں ہے کہ بات کرسکیں. میں یہ صورت حال جان کر فون بند کردیتا مگر جیسے ہی ان کی حالت بہتر ہوتی یا وہ نیند سے بیدار ہوتے تو فوراً ان کا فون آتا اور وہ فرماتے کہ میں اب بہتر محسوس کر رہا ہوں، شکر ہے اللہ کا کہ طبیعت کا فی بہتر ہے۔ لیکن جب بھی میں یہ کہتا کہ میں آکر دیکھتا ہوں کہ طبیعت کتنی بہتر ہے تو فرماتے کہ آپ یقین فر ما ئیے کہ بہتر ہے، وگر نہ میں آپ سے خود کہہ دیتا کہ مجھ سے مل جا ئیے۔ ایک مرتبہ انھوں نے بھارت کے معروف و مقبول شاعر اور دانشور گلزار صاحب سے بھی یہ کہہ کر بات کروائی کہ دیکھیے مجھے اللہ نے آپ جیسے اور اُن جیسے کتنے چا ہنے والے اور محبت کر نے والے عطا فرمائے ہیں. اس دنیا سے کوچ کر جانے سے چند روز قبل میری قا سمی صاحب سے فون پر بات ہوئی۔ کچھ ہی دیر بعد ہمارے افسر اعلا نے طلب فرما لیا اور کہا آج آپ سے ذاتی طور پر فیور درکار ہے۔میں نے کہا آپ حکم فرمائیے۔ مجھے ابھی ابھی لاہور کے لیے روانہ ہو نا ہے، ایک بہت اہم مٹینگ ہے. لاہور پہنچنے کے پا نچ گھنٹے بعد واپسی کی فلا ئٹ کی بکنگ بھی کنفرم ہے، مگر جن کے ساتھ پروگرام طے تھا وہ اچانک بیمار ہوگئے ہیں۔ اُن کی عدم موجودگی میں میری معاونت آپ ہی فرما سکیں گے. بزرگوار کا ایسا عاجزانہ انداز تھا کہ ہم سے انکار کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ مگر ہم نے شرط عائد کردی کہ ہما ری بھی وہاں ایک نجی مصروفیت ہوگی۔ اس کے لیے ہمیں ایک ڈیڑھ گھنٹہ درکار ہوگا. یوں اچانک لاہور پہنچے، مٹینگ ہوئی اور ہم نے واپسی کے مقررہ وقت کے حساب سے ڈیڑھ گھنٹہ قبل اجازت چاہی. منصورہ احمد اور خا لد احمد بھائی صاحب کو فون کیا۔ ان کی موجود گی کو بھی یقینی بنایا اور یوں تقریباً پچاس پچپن منٹ کی احمد ندیم قاسمی صاحب سے ملاقات ہوئی۔ دھڑکا تو تھا مگر معلوم نہیں تھا کہ یہ آخری ملاقات ہے. 10جولائی کو منصورہ احمد کا فون آیا۔ بھرائی ہوئی آواز میں کہا کہ بابا چلے گئے. 
احمد ندیم قاسمی صاحب کی شاعری میں انسان اور انسا نیت سے محبت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ اللہ سے محبت کر نے کے لیے انسان سے محبت کرنا ضر وری ہے اور اللہ کی کبریائی کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ اشرف المخلوقات کی عظمت کو پہچاننا بھی اشد ضروری ہے۔ احمد ندیم قا سمی صاحب کایہ شعر ملا حظہ ہو :

اس حو الے سے کہ شہ پارۂ تخلیق ہے وہ
مجھ کو انسا ن سے خو شبوئے خدا آتی ہے

سوانحی خاکہ احمد ندیم قاسمی : تحریر و ترتیب : ظفر معین بلے جعفری
حیات و معاملات:

خاندانی نام : احمد شاہ
ادبی نام : احمد ندیم قاسمی
تخلص: ندیم
والد کا نام : پیر غلام نبی عرف نبی چن (وفا ت1924ء)
ولا د ت :20/نو مبر1916ء
مقا م :انگہ، تحصیل خوشاب، ضلع سرگودھا، پنجاب
سنہ: 1921- 20ء : انگہ کی مسجد میں درس قر آن مجید
سنہ: 1925-21ء : انگہ پرائمری سکول سے پرائمری پاس کی۔
سنہ: 1929-25ء : گورنمنٹ مڈل اینڈ نارمل سکول، کیمبل پور
سنہ: 1931-30ء: میٹرک، گورنمنٹ ہائی سکول، شیخو پورہ
سنہ: 1935ء: بی۔اے، صادق ایجرٹن کالج، بہاول پور
سنہ: 1927-26ء: پہلا شعر کہا. 
سنہ: 1931ء: پہلی مطبو عہ نظم، عنو ان "مولانا محمد علی جوہر"، روزنامہ سیاست، لاہور (سرورق پر شائع ہوئی)
سنہ: 1936ء: پہلا افسانہ”بد نصیب بت تر اش"، رسالہ رومان، لاہور
سنہ: 1937-36ء: کمشنر لاہور کے دفتر میں بہ حیثیت ریفارمر، تنخواہ۲۰ روپے ماہانہ، ہفتہ وار”تہذیب نسو اں" کے لیے غیر ملکی افسانوں کے تراجم، ٹیلی فون آپریٹر، اوکاڑہ (صرف نو دن کام کیا)۔
سہ: 1940ء: پہلا افسانوی مجموعہ” چو پا ل“
سنہ: 1941ء: پہلا شعری مجموعہ” دھٹر کنیں"
سنہ: 1941-39ء: سب انسپکٹر ایکسائز
سنہ: 1947ء(14اگست): قیام پاکستان کے بعد پہلا قومی نغمہ“ پاکستان بنانے والے پاکستان مبارک ہو“ ریڈیو پا کستان پشاور سے نشر ہوا اور بے حد مقبول ہوا۔
سنہ: 1946-48ء: اسکرپٹ رائٹر، ریڈیو پشاور
سنہ: 1948ء: شادی قریبی عزیزوں میں وادی سون کے ایک گاؤں "سوزگی“ میں
(دو بیٹیاں نا ہید اور نشاط ایک بیٹا نعمان)
سنہ: 1954-48ء: سیکرٹری جنرل” انجمن ترقی پسند مصنفین پاکستان"
سنہ: 1956ء: پا کستانی اخبارات کے مدیران کے وفد کے ہمراہ عوامی جمہوریہ چین کا دورہ کیا۔
سنہ: 1964ء: روزنامہ "جنگ“ میں کالم نگاری کا آغاز
سنہ: 1970ء: روزنامہ "جنگ" سے علاحدگی، روزنامہ” حر یت“ سے وابستگی. 
سنہ: 1972ء: دوبارہ روزنامہ “جنگ" سے وابستگی
سنہ: 2006-1974ء: ناظم مجلس ترقی ادب، لاہور

خدمات بہ حیثیت مدیر:

سنہ: 1945-41ء: ہفت روزہ "پھول“ لاہور
سنہ: 1945-41ء: ہفت روزہ” تہذیب نسواں“ لاہور
سنہ: 1946-42ء: ماہنامہ ادب لطیف، لاہور
سنہ: 1948-47ء: ماہنامہ "سویرا“ لاہور
سنہ: 1949-48ء: ماہنامہ” نقو ش“ لاہور
سنہ: 1959-50ء: روزنامہ "امروز" لاہور
سنہ: 2006-63ء: سہ ماہی” فنون“ لاہور

افسانوی مجموعے:

سنہ: 1940ء: چوپال
سنہ: 1941ء: بگولے
سنہ: 1942ء: طلوع و غروب
سنہ: 1943ء: گرداب
سنہ: 1943ء: سیلاب
سنہ: 1944ء: آنچل
سنہ: 1946ء: آبلے
سنہ: 1948ء: آس پاس
سنہ: 1949ء: در و دیوار
سنہ: 1952ء: سناٹا
سنہ: 1955ء: بازار حیات
سنہ: 1959ء: برگ حنا
سنہ: 1963ء: گھر سے گھر تک
سنہ: 1973ء: کپاس کا پھول
سنہ: 1980ء: نیلا پتھر
سنہ: 1995ء: کوہ پیما

شعری مجموعے:

سنہ: 1941ء: دھڑکنیں (مجموعہ قطعات)
سنہ: 1944ء: رم جھم
سنہ: 1947ء: جلال و جمال (نظمیں، غزلیں)
سنہ: 1953ء: شعلہ گل (نظمیں، غزلیں)
سنہ: 1964ء: دشت وفا (نظمیں، غزلیں، قطعات )
سنہ: 1976ء: محیط (غزلیں اور قطعات) 
سنہ: 1980ء: دوام
سنہ: 1989ء: لوح خاک
سنہ: 1995ء: بسیط
سنہ: 2006ء: ارض و سما

تنقید:

سنہ: 1974ء: تعلیم اور ادب و فن کے رشتے
سنہ: 1975ء: تہذیب و فن
سنہ: 1977ء: اقبال، سوانحی کتابچہ
سنہ: 2003ء: پس الفاظ
سنہ: 2003ء: معنی کی تلاش

خاکے:

سنہ: 2002ء: میرے ہم سفر
سنہ: 2006ء: میرے ہم قدم 

صدمات:

سنہ: 1992، 6 اپر یل 1992 شریک حیات داغ مفارقت دے گئیں
سنہ: 1995، 4جو ن 1995 نشاط قاسمی (بیٹی ) ڈاکٹر کی لا پرواہی کی بھینٹ چڑھ گئیں

فلمیں: 

سنہ: 1940ء: منٹو کی دعوت پر فلم "دھرم پتنی“ کے مکا لمے اور گیت، فلم ریلیز نہ ہو سکی۔
سنہ: 1941ء: فلم”بنجا رہ" کے گیت، یہ فلم بھی ریلیز نہ ہوسکی۔
سنہ: 1948ء: منٹو کی کہانی "آغوش" کے مکالمے
سنہ: 1960ء: فلم” دو راستے“ کے مکالمے
سنہ: 1964ء: حمایت علی شاعر کی فلم "لوری" کے مکالمے
سنہ: 1995-64ء: متعدد فلموں کے مکالمے

بچوں کی کتابیں: 

سنہ: 1943ء: تین ناٹک، دوستوں کی کہانیاں
سنہ: 1944ء: نئی نویلی کہانیاں

متفرقات:

سنہ: 1943ء: کیسر کیاری، طبع زاد اور ماخوذ مزاحیہ تحریروں کا مجموعہ
سنہ: 1944ء: انگڑائیاں، نامور افسانہ نگاروں کے منتخب افسا نے
سنہ: 1947ء: نقوش لطیف، نامور خواتین افسانہ نگاروں کے منتخب افسانے
سنہ: 1962ء: منٹو کے خطوط، ندیم کے نام سعادت حسن منٹو کے خطوط
سنہ: 1980ء: نذز حمید احمد خان’ حمید احمد خان کے پسندیدہ موضوعات پر اہل فکر کے مقالات کا مجموعہ

قید و بند:

سنہ: 1951: مئی 1951سے نو مبر 1951 سیفٹی ایکٹ کے تحت نظر بندی
سنہ: 1958: اکتو بر 1958ء فروری 1959ء: سیفٹی ایکٹ کے تحت نظر بندی
سنہ: 1969: نومبر 1969ء: مقاما ت قید: لاہور، راولپنڈی، کیمبل پور جیل، شا ہی قلعہ لاہور

مطالعہ:

٭ غا لب، اقبال، عر فی، ہومر، افلاطون، ایلیٹ، پاؤنڈ
٭ روس، جر منی، فرانس، انگلستان کا فکشن
٭ انگریزی شاعری: گو ٹئے اور شیکسپیئر، بہ حیثیت پسندیدہ شاعر
٭ مطا لعہ: شیلے ، کیٹس، ورڈ زورتھ
٭ فکشن: ٹالسٹائی اور فلابیر بہ حیثیت پسندیدہ مصنف
٭ فلسفہ : برٹینڈرسل، ابن خلدون، ٹوائن بی
٭ نفسیا ت: فرائیڈ اور ژنگ
٭ قر آن پاک، حضرت مجدد الف ثانی، مولانا ابوالکلام آزاد، سر سید احمد خان، مولانا شبلی نعمانی اور علامہ اقبال کی تحریریں

اعزازات: 

سنہ: 1968ء: تمغہ حسن کار کردگی
سنہ: 1980ء: ستارۂ امتیاز
سنہ: 1997ء: کمال فن ایوارڈ
سنہ: 1999ء: نشان امتیاز

ادبی تنظیم قافلہ اور احمد ندیم قاسمی:

نمبر1.
بین الاقوامی شہرت یافتہ ادبی تنظیم "قافلہ" کے بانی سید فخرالدین بلے ممتاز دانشور، محقق شاعر، صحافی، ادیب، نقاد اور ڈیڑھ سو سے زائد مطبوعات و تالیفات کے مولف تھے۔ انھوں نے ادبی تنظیم ” قافلہ" کے زیر اہتمام دنیائے ادب و صحافت کی کثیرالجہت شخصیت احمد ندیم قاسمی کی سال گرہ کے جشن سب سے زیادہ تعداد میں سجائے۔ ان تقاریب میں جناب اشفاق احمد، ڈاکٹر برہان الدین فاروقی علیگ، ڈاٹر آغا سہیل، کلیم عثمانی، محمد علی (اداکار)، ڈاکٹر سلیم اختر، منیر نیازی، طارق عزیز، طفیل ہوشیار پوری، انتظار حسین، شبنم رومانی، احمد فراز، محسن بھوپالی، علامہ غلام شبیر بخاری، اختر حسین جعفری، خالد احمد، نجیب احمد، شہزاد احمد، حفیظ تائب، سراج منیر، اسرار زیدی، بانو قدسیہ، صدیقہ بیگم، ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، مرتضیٰ برلاس، ڈاکٹر خورشید رضوی، ناہید قاسمی، عطاءالحق قاسمی، امجد اسلام امجد، سینئر اداکار منور سعید، منصورہ احمد، بیدار سرمدی، محسن نقوی، سلطان ارشد القادری، سرفرازسید، شاہد واسطی، حسن رضوی، ظفرعلی راجا، اشفاق نقوی، سائرہ ہاشمی، سیما پیروز، ڈاکٹر اجمل نیازی سمیت دیگر ممتاز ملکی اور غیر ملکی ادبی شخصیات نے بھرپور انداز میں شرکت کی۔

نمبر2.
ادبی تنظیم قافلہ کے زیر اہتمام
احمد ندیم قاسمی سے مکالمہ
نمبر3.
سید فخرالدین بلے کی زیر ادارت ہفت روزہ ”آوازِجرس“ لاہور نے دو مرتبہ احمد ندیم قاسمی کی کثیرالجہت شخصیت کے حوالے سے اشاعت خاص اور قافلے کا خصوصی پڑاؤ ڈال کر ان کےساتھ یادگار مکالمےکا اہتمام کیا۔
نمبر4.
ادبی تنظیم قافلہ کے بانی سید فخرالدین بلے کے فرزند ظفر معین بلے نے احمد ندیم قاسمی کے یوم ولادت پر خوب صورت اور دیدہ زیب تہنیتی کارڈز چھپوانے کے سلسلے کا آغاز کیا تھا جو احمد ندیم قاسمی صاحب کی زندگی میں ان کی آخری سال گرہ تک جاری رہا اور بھارت کی ادب نواز شخصیت اور نامور شاعر گلزار صاحب نے بھی اس سلسلے کا خیر مقدم کیا۔ اور علمی ادبی حلقوں کی طرف سے بھی اس کی بھرپور انداز میں پذیرائی کی گئی. 

بین الاقوامی سطح پر مقبو لیت اور شہرت:

٭ افسانوں کے دو اور نظموں کے ایک مجموعے کا روسی زبان میں ترجمہ
٭ افسانوں کے مجموعے کا جاپانی زبان میں ترجمہ
٭ چینی کے علاوہ انگریزی اور دوسری یورپی زبانوں میں افسانوں کے ایک مجموعے کا ترجمہ
٭ پشتو، پنچا بی، سندھی، بنگلہ، مراٹھی، گجر اتی اور فارسی زبانوں میں کہانیاں اور نظموں کا ترجمہ

رحلت:
٭ بروز پیر 10جو لا ئی 2006ء (لاہور)
***
ظفر معین بلے کی یہ نگارش بھی ملاحظہ فرمائیں : پروفیسر جلیل عالی : فن، شخصیت اور خدمات ماہ و سال کے آئینے میں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے