بزمِ صدف انٹرنیشنل کا ”اردو صحافت کے اہم موڑ: دو صدی کا احتساب“ بین الاقوامی سے می نار اختتام پذیر

بزمِ صدف انٹرنیشنل کا ”اردو صحافت کے اہم موڑ: دو صدی کا احتساب“ بین الاقوامی سے می نار اختتام پذیر


اردو صحافت کی لسانی تکثیریت اور سماجی تفہیم کے مختلف پہلوؤں پر تحقیق کی ضرورت: ڈاکٹر سہیل وحید
صحافت، سیاست، ادب، فلم کے درمیان سائنسی اور دانش ورانہ توازن پیدا کرتی ہے: پروفیسر نجمہ رحمانی
بزمِ صدف ’اردو صحافت کی دو صدی‘ پر کتاب شایع کرے گی: صفدر امام قادری
پٹنہ:١٣/ نومبر- بزمِ صدف انٹرنیشنل کے دوروزہ اردو صحافت کے موضوع سے منعقدہ بین الاقوامی سے می نار کا آج پُر وقار اختتام ہوا۔ سے می نار کے اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بزمِ صدف کے ڈائرکٹر پروفیسر صفدر امام قادری نے ملک اور بیرونِ ملک سے تشریف فرما دانش وران، صحافی اور محققین کی خصوصی توجّہ کی تعریف کی کیوں کہ ان کی محنتوں اور علمی طَور پر سرگرمیوں کی وجہ سے ہی یہ ممکن ہو سکا کہ اردو صحافت کے دو سو برس کی تاریخ کے حوالے سے اتنی بڑی تعداد میں مضامین لکھے گئے اور سے می نار میں پیش کیے گئے۔


پروفیسر صفدر امام قادری نے ’اردو میڈیا فورم‘، بہار کا شکریہ ادا کیا جس کی ترغیب سے یہ سے می نار اپنی شکل لے سکا۔ انھوں نے اعلان کیا کہ سے می نار میں پیش کردہ تمام مقالات اور ان کے علاوہ منتخب موضوعات کو شامل کرتے ہوئے ایک مکمل تحقیقی دستاویز کو وہ بزمِ صدف کی طرف سے مرتّب کرکے ١٦-١٧ / مارچ ٢٠٢٢ء کے پروگرام کے موقعے سے پیش کریں گے۔ انھو ں نے اردو صحافت کے اسکالرس سے عمومی گزارش کی کہ اس دوران وہ نئے نئے موضوعات اور گُم نام علمی حلقوں کی طرف توجّہ کریں اور ان موضوعات پر تحقیقی مضامین تیّار کرکے سامنے لائیں تاکہ ایک ضخیم اور یادگاری مجموعۂ مضامین دو صدی کے سفر کے حوالے سے عوام کے سامنے پیش کیا جا سکے۔
بزمِ صدف انٹرنیشنل کے دو روزہ سے می نار کا گذشتہ روز افتتاح ہوا تھا اور جناب احمد جاوید نے اس موقعے سے ایک بھرپورکلیدی خطبہ دیا تھا۔ دیگر ’دانش وران نے بھی اس سلسلے سے اظہارِ خیال کرکے موضوع کے ممکنہ پہلوؤں کی بھی وضاحت کی تھی۔ آج اس سے می نار کے مقالے پیش کرنے کا دن تھا جس میں پہلے اجلاس میں دس مقالے پیش کیے گئے اور دوسرے اجلاس میں سات مقالے سُنائے گئے جن پر ماہرین اور مجلسِ صدارت کے ارکان نے اپنے تاثّرات کا اظہار کا کیا۔


پہلے اجلاس میں ڈاکٹر تسلیم عارف (رانچی)، ڈاکٹر الفیہ نوری (مظفر پور)، جناب رہبر مصباحی (پٹنہ)، جناب محمد مرجان علی (جے پی یونی ورسٹی، چھپرا)، محترمہ شگفتہ ناز (ری سرچ اسکالر، پاٹلی پترا یونی ورسٹی)، جناب پرویز عالم (مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی، حیدرآباد)، ڈاکٹر موصوف احمد (ونود بہاری مہتو کولانچل یونی ورسٹی، دھنباد)، ڈاکٹر افشاں بانو (متھلا یونی ورسٹی، دربھنگہ)، مفتی ثناءالہدیٰ قاسمی (امارتِ شرعیہ،پٹنہ)، جناب عارف اقبال (ای ٹی وی، بھارت) نے اپنے تحقیقی اور تنقیدی مقالہ جات پیش کیے جن میں سے بعض تاریخ اور عہدِ قدیم کے اوراق سے تعلّق رکھتے تھے اور چند مقالہ جات عہدِ حاضر کی صحافت کے مسائل و معاملات کو سامنے لانے میں کامیاب ہوئے۔


مجلسِ صدارت کے رُکن کی حیثیت سے ڈاکٹر ریحان غنی نے نئی نسل کے صحافیوں کو پیشے کی حدود سے نکل کر قوم و ملّت کے لیے خدمات پیش کرنے کا ہدف پیش کیا۔ انھوں نے تمام مقالہ نگاروں کو تحقیقی اور علمی جہت سے سنجیدہ کاوش پیش کرنے کے لیے مبارک باد دی۔ انھوں نے پیشۂ صحافت کی مبادیات اور سعادتوں میں توازن بٹھانے پر زور دیا۔
ممتاز صحافی اور وائس آف امیریکہ سے وابستہ صحافی دہلی سے تشریف فرما جناب سہیل انجم نے کہا کہ فراموش شدہ صحافیوں کی خدمات پر توجّہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہمیں یاد آ سکے کہ ان دو سو برسوں میں ہمارے اسلاف نے کون کون سی خدمات دی ہیں اور کتنی خاموشی سے اپنے اثاثے کو ہم تک منتقل کیا ہے۔
دہلی یونی ورسٹی کی پہلی خاتون صدر شعبۂ اردو اور ڈین پروفیسر نجمہ رحمانی نے اردو صحافت کو فہم و دانش اور سائنسی نقطۂ نظر کے حوالے سے پہچاننے اور جانچنے کا مشورہ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری صحافت کوئی الگ تھلگ چیز نہیں اور یہ خَلا میں نہیں پیدا ہوتی ہے۔ یہ سماج، سیاست، ادب، فلم اور نہ جانے کتنے شعبوں کے ساتھ مل جُل کر اپنے وجود کو مستحکم کرتی ہے۔ اس لیے اردو صحافت کی تاریخ کا مطالعہ ایک تکمیل پسند نقطۂ نظر سے کیا جائے تو ہم زیادہ بہتر نتائج تک پہنچ سکتے ہیں۔


سے می نار کے دوسرے اجلاس میں محترمہ نازیہ تبسُّم (ری سرچ اسکالر، پاٹلی پُترا یونی ورسٹی،پٹنہ)، ناہید افشاں (ری سرچ اسکالر، پاٹلی پترا یونی ورسٹی، پٹنہ)، معتصم باللہ (مگدھ یونی ورسٹی)، ڈاکٹر منی بھوشن کمار (صدر شعبۂ اردو، اے۔این۔ کالج، پٹنہ)، ڈاکٹر ریحان غنی(جنرل سکریٹری، اردو میڈیا فورم)، جناب سہیل انجم(دہلی)، ڈاکٹر ظفر امام (صدرشعبۂ جغرافیہ، جی۔ایم۔ کالج، بتیا) نے اپنے مقالے پیش کیے۔ ان مقالات میں تاریخ کے سرمایے کے ساتھ موجودہ عہد کے تقاضوں پر خصوصی توجّہ دی گئی تھی۔ جناب سہیل انجم نے اپنے مقالے میں اردو صحافت کے اختصاص و امتیاز کو سلسلے وار طریقے سے روشن کیا اور ملک کی دوسری زبانوں کی صحافت کے سامنیے اردو کے معاملات واضح کیے۔
مجلسِ صدارت کے رکن کی حیثیت سے ڈاکٹر سہیل وحید (لکھنؤ) نے سے می نار کے مقالہ نگاروں کو مبارک باد دی کیوں کہ انھوں نے نئے نئے موضوعات اور علمی علاقوں کی جانب توجّہ کی تھی۔ انھوں نے ان مقالات کی خوب تعریف کی جن میں سماج اور صحافت کے سلسلے سے سوالات قایم کیے گئے تھے۔ انھوں نے کہا کہ آج اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ ہم اردو صحافت کی بدلتی ہوئی زبان کے اسباب و محرّکات پر غور کریں اور اس کی پشت پر کون کون عوامل کام کررہے ہیں، انھیں پہچاننے کی ضرورت واضح کی۔ انھوں نے کہا کہ لسانی اور تہذیبی اعتبار سے ایک تکثیری ماحول میں ہم جی رہے ہیں۔ اس صورتِ حال کی نہایت معقول عکاسی ہماری اردو صحافت میں دکھائی دیتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ نئے محقّقین اور صحافت پیشہ افراد کو اردو اور دوسری محروم جماعتوں کے مسائل کے ساتھ جوڑ کر چیزوں کو سمجھنا چاہیے۔
ڈاکٹر جمشید قمر نے قومی محافظ خانوں اور صوبائی محافظ خانوں میں قدیم اردو اخبارات کے محفوظ تراشوں سے علمی اور ادبی استفادہ کرنے کے لیے نئے محقّقین اور طالبِ علموں کو آواز دی۔ جناب شاہد اختر نے بھی صحافت سے می نار کو اس بات کے لیے داد دی کیوں کہ یہاں ایک ساتھ بڑی تعداد میں نئی نسل کے اہالیانِ علم کو مواقع ملے اور انھوں نے علمی طَور پر خود کو لَیس کرکے ہمیں استفادہ کرنے کا موقع دیا۔
عظیم آباد میں ’اردو میڈیا فورم‘ کی ترغیب سے منعقدہ بزمِ صدف انٹرنیشنل کا یہ عالمی سے می نار اردو صحافت کے حوالے سے ایک تاریخی جلسے کے طَور پر یاد رکھا جائے گا جس کے مباحث بہت جلد کتابی شکل میں سامنے آئیں گے۔
٭٭٭

بزمِ صدف کے دوروزہ بین الاقوامی سے می نار کا افتتاح

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے