سرسیّد کے تعلیمی تحفّظات

سرسیّد کے تعلیمی تحفّظات

عورتوں کی تعلیم کے خصوصی حوالے سے

صفدرا مام قادری
شعبۂ اردو، کا لج آف کا مرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

صدیوں پہلے تاریخ کے ابتدائی مراحل میں بھی تعلیم کی توسیع کا تصّور انسانی ترجیحات میں اوّلین حیثیت رکھتا تھا لیکن تہذیب، ثقافت اور مذہب کے ترقّی یافتہ نصب العین تک رسائی اور ایک مہذّب سماج کی تشکیل کے عمل میں ایسا ہوا کہ حصولِ علم کے پیدایشی اور عمومی حق سے بعضوں کو محروم رکھا گیا۔ برہمنی سماج نے پس ماندہ طبقات اور عورتوں کو ”اکھثر گیان“ سے الگ کر نے کے لیے ایک باقاعدہ منصوبہ اور لائحۂ عمل تیّار کیا اور اس پر مذہب کی مہرثبت کردی۔ صدیاں گزرتی جارہی ہیں لیکن ’منوسمرتی‘ کے احکام کا سایہ کسی نہ کسی شکل میں ہر عہد پر مسلّط ہے اور ہمارا اجتماعی نظام شعوری یا لاشعوری اعتبار سے انھی سفارشات پر قائم ہے۔ وقت کے ساتھ ہماری منطق اور دلیل کے مرکزی نکات ضرور بدل جا تے ہیں لیکن نتیجے میں فرق نہیں آتا۔
یہ صورتِ حال دراصل سماجی اقتدار میں چند لوگوں کی اجارہ داری کو قائم رکھنے اور ایک بڑے حصّے کو اُس سے الگ کردینے کی سوچی سمجھی حکمتِ عملی کا نتیجہ ہے۔ دنیا نے ارتقا کے مختلف مراحل میں اپنی نجات کی کوششیں جاری رکھیں لیکن یہ کوششیں پوری طرح بارآور نہیں ہوسکیں۔ اس طرح کبھی تہذیب و ثقافت، کبھی مذہب و روایت اور کبھی خاندانی اور نسلی حقوق کے نام پر یہ بندشیں برقرار رہیں۔
ہندستانی معاشرے کی تاریخ پر نظرڈالی جائے تو اندازہ ہوگا کہ اُنیسویں صدی کے نصف اوّل میں جدید تعلیم کے فیض سے مردوں کے ساتھ ساتھ عورتیں بھی بہرہ ور ہونے لگی تھیں۔ عورتیں ایک علاحدہ سماجی اکائی اور الگ سے اپنی پہچان قائم کرنے والے گروہ کی حیثیت سے راجا رام موہن راے کی تحریک کے زیرِ اثر نئی تعلیم کے دروازوں پر دستک دے رہی ہیں۔ برطانوی سیّاح اور ماہرِتعلیم ولیم ایڈن نے ١٨٣٥ء میں بہار اور بنگال کے علاقے کا ایک تعلیمی سروے کیا تھا۔ اُس نے بتایا تھا کہ یہاں اس وہم میں لوگ یقین رکھتے ہیں کہ اگر کوئی لڑکی یا عورت پڑھنا لکھنا سیکھ لیتی ہے تو اُس کے شوہر کی موت ہوجائے گی۔ (اُس سیّاح نے اس مفروضے کے اسباب پر روشنی نہیں ڈالی لیکن ’منوسمرتی‘ کے احکامات اور اُس کی مجوّزہ سزاؤں کے آئینے میں اس واقعے کو سمجھاجا سکتا ہے)۔ حکومتِ برطانیہ نے ١٨٥٠ء سے لڑکیوں کی تعلیم کا بندوبست کردیا تھا اور مرَدوں سے بیس برس بعد ہی سہی، تاہم ١٨٨٣ء میں ہندستانی یونی ورسٹیوں کی پہلی خاتون گریجویٹ بھی پیدا ہوگئی تھی۔۱؎ مہاراشٹر میں عورتوں کی تعلیم سے متعلّق ایک بڑی تحریک شروع کی جا چکی تھی۔
اس پس منظر میں ہندستان کے سماجی اور تعلیمی نقشے پر سرسیّد کا ظہور ایک اہم واقعے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہندستان میں جدید تعلیم کے لیے فضا ہموار کرنے اور عوام و خواص میں اس سے رغبت پیدا کرنے کی جدّوجہد ان کا تاریخی کا رنامہ ہے۔ سرسیّد کے ایک مضمون کا عنوان ہے: ”انسان میں تمام خوبیاں تعلیم سے پیدا ہوتی ہیں“۔ یہ سرسیّد کا ایمان تھا۔ اُنیسویں صدی میں سرسیّد کے مرتبے کی کوئی دوسری شخصّیت ایسی نہیں دکھائی دیتی جس نے توسیعِ علم کے لیے اس طرح دیوانہ وار تگ ودَو کی ہو اور اپنی جدوجہد میں اُسے ایسی کا میابی حاصل ہوئی ہو۔ سرسیّد کی اس ہمہ وقتی جستجو اور اُن کے عزائم نے ایک نئے ہندستان کی تعمیر میں بے شک بہت بڑا کارنامہ انجام دیا۔
اُنیسویں صدی کے نصف دوم میں رونماہونے والی ”نئی بیداری“ نے اس ملک کو حقیقت کی مختلف سطحوں اور مسئلوں سے متعارف کرایا۔ نئے خوابوں اور نئی آرزومندیوں کے سہارے ایک نئے سماج کی تعمیر و تشکیل کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ہندستانی عوام نے ہرچند کہ اپنے قائدین اور مصلحین کے ساتھ بیش تر مراحل میں تعاون کیا لیکن بعض معاملات میں اختلاف راے کے اظہار اور انحراف کی صورتوں سے بھی گریزاں نہیں ہوئے۔ راجا رام موہن راے اور سرسیّد احمد خاں کی شخصیّات اس اعتبار سے بہت دل چسپ ہیں کہ ان کے رد و قبول سے اس عہد میں عوامی بیداری کا ایک گراف تیار کیا جا سکتا ہے۔ انھیں قبول کرنے اور ان سے انکار کرنے کے عمل میں عوامی بیداری کی تصویریں دیکھی جا سکتی ہیں۔ اس عہد کے کئی دوسرے مصلحین کی طرح سرسیّد ایک مفکّر بھی تھے اور ایک قومی معمار بھی۔ اپنے افکار کی ترتیب و تسوید اور اُن پر اجتماعی عمل آوری کی مہم سرسیّد کا مقصدِ حیات بنی رہی۔ اسی لیے انھیں ریفارمر بھی مانا گیا اور آج اُن کے اُٹھ جانے کے سوا سوسال ہونے کو آئے لیکن اس کے باوجود یہ محسوس کیا جاتا ہے کہ ان کی ذات سے فیضان کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا، وہ کسی نہ کسی شکل میں آج بھی جاری ہے۔ ایک مفکّر کے طور پر کسی شخص کو آزادیِ خیال کی جو دولت ملتی ہے، نفاذ کے مرحلے میں اسے تحریف و تبدّل کی آزمایشوں سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی تو اس کا پورا خاکہ ہی بدل کر رہ جاتا ہے۔ افکار و نظریات کے ارتقا کی تاریخ کے طالب علموں کے لیے یہ ایک دل چسپ موضوع ہے۔
برہمنی سماج کی بندشوں کے پس منظر میں ایک سماجی مفکّر کی حیثیت سے سرسیّد کے تعلیمی منصوبوں کی اطلاقی صورت کا جائزہ ہمیں کچھ دل چسپ نتائج سے روشناس کراتا ہے۔ چنانچہ سرسیّد کی تعلیمی فکر کے بعض پہلوؤں پر آج ازسرِ نوغور کرنے کی ضرورت ہے۔ انگریزی اقتدار میں اضافے اور بہ تدریج مغلیہ اقتدار میں تخفیف کے مابین سرسیّد کی تعلیمی جدوجہد کا نقشہ سامنے آتا ہے۔ اُن کا دائرۂ کار رفتہ رفتہ متعیّن ہوتا گیا اور ”وہ فرقہ پرست ہوئے بغیر آہستہ آہستہ صرف مسلمانوں کی بہبودی، ترقّی اور اصلاح کی طرف زیادہ متوجّہ ہوتے جاتے تھے۔،،۲؎ انھوں نے ازسرِ نو اپنی قوم کی آباد کاری کے لیے تعلیم کو ایک بنیادی حربے کے طور پر استعمال کرنا چاہا۔ سرسیّد کے یہاں مسلمانوں کی ہزیمت کا احساس بہت شدید تھا اور اس نقصان کی تلافی کے لیے انھوں نے حصولِ معاش کے نئے وسائل پیدا کرنے پر زور دیا۔ حالاں کہ وہ تعلیم کو صرف ملازمت حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھنے کے نقصانات سے آگاہ تھے تاہم ١٨٥٧ء کے صدمات سے سنبھلنے کے لیے مُسلمانوں کو اچھّی اچھّی نوکریوں میں جلد از جلد کامیابی مل جائے، اس کے لیے اُن کی عملی کوششیں جاری رہیں۔
تعلیم کو قومی اور سماجی زندگی میں انقلاب آفریں تبدیلیوں کا ذریعہ سمجھنے کے بجاے اگر صرف ملازمت حاصل کرنے کا وسیلہ تصوّر کرلیا جائے تو نتائج میں محدوویت اور یک رُخے پن کا پیدا ہوجانا تقریباً یقینی ہے۔ ’انسان میں تمام خوبیاں تعلیم سے آتی ہیں‘ سے محض حصولِ ملاز مت تک سمٹ جانا ایک ’مفکّر‘ کے مقاصد اور موقف میں تبدیلی کا بھی اشارہ کرتا ہے۔ اس تبدیلی میں کچھ حصّہ اُن کی Educational Activism کا ہے لیکن اس کی وجوہات اور بھی ہیں۔ بہ قولِ سید احتشام حسین ”انھوں نے عوامی زندگی اور اس کی معاشی ناہم واریوں پر بالکل دھیان نہیں دیا بلکہ اصلاح اور ترقّی کی دُھن میں صرف اعلا اور متوسّط طبقے کو پیشِ نظر رکھا“۔۳؎ موقف کی اس تبدیلی کے اسباب وعَلل کی بنیاد میں تہذیبی، روایتی، نسلی اور برہمنی تحفظّات تلاش کیے جاسکتے ہیں۔
مُسلمانوں میں جدید تعلیم کی توسیع کے حوالے سے سرسیّد کی خدمات بلاشبہ غیر معمولی اور بیش قیمت ہیں لیکن یہ سوچنا دُرست نہیں کہ صرف سرسیّد کے اثر سے مسلمانوں میں جدید تعلیم کوفروغ حاصل ہوا۔ اس معاملے میں سب سے زیادہ اہمیت اس عہد کے تاریخی دباو کی ہے۔ کیوں کہ ایک ساتھ سیکڑوں طرح کی کوششیں اُس زمانے میں یہاں وہاں ہورہی تھیں اور اُن کے اثرات زندگی کے ہرشعبے پر پڑ رہے تھے۔ اسی لیے حفیظ ملک نے اعداد و شمار کی مدد سے بھی یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مسلمانوں میں سرسیّد کے بغیر بھی جدید تعلیم کو بہر طور پھیلنا تھا۔۴؎ سرسیّد نے تعلیم کے لیے صلاے عام میں اگرچہ حدیں قائم نہیں کیں لیکن اُن کی ترغیب اور ترجیح بالعموم اعلا اور متوسّط طبقے کے لیے رہی۔ نئے مواقع کے حصول میں ان طبقوں کی سوجھ بوجھ برحق لیکن یہ دیکھنے کی ضرورت بھی ہے کہ سرسیّد کہیں خود بھی بعض تحفّظات کے اسیر تو نہیں ہوگئے تھے؟ خود کو ڈی کلاس کرنے کے مرحلے میں ابھی بہت سی منزلیں اور پڑاؤ باقی تو نہیں تھے؟ ان سوالوں کا تجزیہ سرسیّد کے فیضان کو سمجھنے میں ہماری مدد کرے گا۔ سماج میں ترقّی، خوش حالی، مساوات اور مواقع کے حصول جیسے معاملات میں آج بھی عورتوں کا شمار محروم اور پس ماندہ طبقات میں کیا جائے گا۔ مردوں کے مقابلے وہ اب بھی کافی پیچھے ہیں۔ ہمارے ملک میں عورتوں کی تعلیم، ملازمت، سماجی زندگی میں ان کی شرکت پر غور کریں تو مردوں کے مقابلے میں وہ اب بھی ایک محکوم و محروم اور مشکل زندگی گزار رہی ہیں۔ آج بھی وہ بہت سی زنجیروں میں قید ہیں۔ راجا رام موہن راے نے اُنیسویں صدی کے اوائل میں عورتوں کے مسائل کو ملکی ایجنڈے کا حصّہ بنادیا۔ سرسیّد راجا رام موہن راے کے انتقال کی چار دہائیوں کے بعد مدرستہ العلوم قائم کرتے ہیں اور رفتہ رفتہ ایک بڑی تعلیمی تحریک ان کے واسطے سے زور پکڑلیتی ہے۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ سماج کے سب سے بڑے غیر تعلیم یافتہ اور ترقّی کے مواقع سے محروم طبقے یعنی خواتین کی تعلیم کے تعلّق سے سرسیّد کیا سوچتے تھے اور اس معاملے میں اُن کا مجموعی رول کیا ہے۔
١٨٨٢ء میں ایجوکیشن کمیشن کے سامنے ہندستان میں تعلیم کے مسائل اور اس کے مختلف گوشوں پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے سرسیّد نے عورتوں کی تعلیم کے بارے میں کہا تھا:
”گورنمنٹ عملاً کوئی تدبیر ایسی اختیار نہیں کرسکتی جس سے اشراف خاندانوں کے مُسلمان اپنی بیٹیوں کے واسطے گورنمنٹ اسکولوں میں بھیجنے پر مائل ہوں…….جن شخصوں کی یہ راے ہے کہ َمردوں کی تعلیم سے پہلے عورتوں کی تعلیم ہونی چاہیے، وہ غلطی پر ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مُسلمان عورتوں کی پوری تعلیم اُس وقت تک نہ ہوگی جب تک کہ اس قوم کے اکثر مرد پورے تعلیم یافتہ نہ ہوجائیں…… اس وقت تک جو حالت مسلمان عورتوں کی ہے، وہ میری راے میں خانگی خوشی کے واسطے کافی ہے……. اگر گورنمنٹ مُسلمان شریف خاندانوں میں تعلیمِ نسواں کے جاری کرنے کی کوشش کرے گی تو حالتِ موجودہ میں محض ناکامی ہوگی اور میری راے ناقص میں اس سے مضر نتیجے پیدا ہوں گے“۔۵؎
اس سے پہلے ١٨٦٩ء میں برطانیہ کے سفر کے دوران مسِ کار پنٹر کی کتاب کے مسوّدے پر سرسیّد اپنی راے درج کرتے ہیں اور اس مسئلے کے خلاف ایک اصولی نکتہ اُٹھادیتے ہیں:
”نیک کام پر کوشش کرنے والوں کی کوششیں کبھی کبھی اس لیے کہ وہ ان لوگوں کی عادات و رسم و رواج کے مخالف طریقے پر جن کی بھلائی کے لیے کوشش کی جاتی ہے، قائم کی گئی ہیں، برباد ہوگئی ہیں۔ حقیقت میں ایسا کرنا گویا نیچر کا مقابلہ کرنا ہے اور خود اس نیکی کی رکاوٹ کا آلہ بننا ہے۔…… پس اگر اب ہم کسی نیک بات کے پھیلا نے میں عام رواج کی رعایت نہ کریں گے تو خود خدا کی اُس حکمت کو توڑدیں گے اور خود اپنے لیے نقصان کا سبب ہوں گے۔“۶؎
مسلم ایجو کیشنل کانفرنس کے تیسرے اجلاس منعقدہ لاہور (١٨٨٨ء) میں تعلیمِ نسواں کے بارے میں خواجہ غلام الثقلین کی تجویز پر ہوئی بحث میں حصّہ لیتے ہوئے سرسیّد اپنی دلیلیں اس طرح پیش کرتے ہیں:
”مجھ کو افسوس ہے کہ اس رزولیوشن کی نسبت جو ایک نہایت سادہ طور پر تھا، ضرورت سے زیادہ بحث ہوئی…. جو جدید انتظام عورتوں کی تعلیم کا اس زمانے میں کیا جاتا ہے، خواہ وہ انتظام گورنمنٹ کا ہو، اور خواہ اسی طرز کا انتظام کوئی مسلمان یا کوئی انجمنِ اسلامی اختیار کرے، اس کو میں پسند نہیں کرسکتا۔ عورتوں کی تعلیم کے لیے مدرسوں کا قائم کرنا اور یورپ کے زنانہ مدرسوں کی تقلید کرنا ہندستان کی موجودہ حالت کے لیے کسی طرح مناسب نہیں ہے اور میں اس کا سخت مخالف ہوں“۔۷؎
سرسیّدکے مقدّمات اور اختلاف راے کے باوجود کانفرنس نے یہ تجویز منظور کرلی۔ طے پایا کہ ”مُسلمان لڑکیوں کی تعلیم کے لیے مکتب قائم کریں جو مذہبِ اسلام اور طریقۂ شرفاے اسلام کے مطابق اور اس کے مناسب ہوں۔“۸۱؎ ایجو کیشنل کانفرنس میں سرسیّد کی راے کا بالعموم احترام کیا جاتا تھا اگرچہ تعلیمِ نسواں کے حامیوں کی طاقت اور تعداد بھی روزافزوں تھی۔ اس لیے ١٨٩١ء کی علی گڑھ کانفرنس میں یہ مسئلہ پھر سے اُٹھایا گیا۔ سرسیّد نے اس بار بھی اپنی وہی دلیلیں سامنے رکھیں۔ اُن کی نوعیت میں کوئی قابلِ ذکر تبدیلی نہیں آئی۔ غالباً سرسیّد ہی کا اثر رہا ہوگا کہ کانفرنس نے عورتوں کی تعلیم کا دائرۂ کارطے کرتے وقت روایتی نظریے سے آگے بڑھنا ضروری نہیں سمجھا۔ کانفرنس نے یہ طے کیا : ’تعلیم ایسی ہونی چاہیے کہ عورتوں کی مذہبی، علمی اور اخلاقی زندگی میں ترقّی ہو تاکہ ان کی مبارک تربیت سے آیندہ نسلیں فائدہ اُٹھائیں۔‘۹؎ سرسیّد نے وہاں اپنی تقریر کے دوران مندرجہ ذیل نکات پیش کیے:
”کوئی دنیا کی تاریخ اس وقت تک نہیں مل سکتی کہ جن خاندانوں کے مَردوں نے تعلیم پائی ہو، مَردوں کے اخلاق درست ہوگئے ہوں، مَردوں نے علم و فضل حاصل کر لیے ہوں اور عورتیں تعلیم سے محروم رہی ہوں…….. ایک نہایت اچھّی مثال ہے کہ خدا کی برکت زمین سے نہیں بلکہ آسمان پر سے اُترتی ہے۔ سورج کی روشنی بھی نیچے سے نہیں آتی بلکہ اوپر سے آتی ہے۔ اسی طرح مَردوں کی تعلیم سے عورتوں کی تعلیم ہوتی ہے“۔١٠؎
راج موہن گاندھی نے سرسیّد کے قائم کردہ ادارے اور ان کی خدمات پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے لکھا ہے:
"…..MAO was not as reformist or modern as his journal "The Reformer”. He saw the College was not as a vehicle for his ideas but simply as a place where Mussalmans may acquire an English education without prejudice to their religion. There was no question, for instance, of women being considered for admission. Though Muir spoken in Aligarh, even before the College got going, of ” the necessity of education of your girls”, Sayyid Ahmad argued that ” no satisfactory education can be provided for Mohammedan females until a large number of Mohammedan males received a sound education.”۱۱؎
عورتوں کی تعلیم کے تعلّق سے گذشتہ صفحات میں سرسیّد کے نظریات کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ سرسیّد کے رفیقِ خاص اور سوانح نگار الطاف حسین حالی کے مشاہدات پربھی غور کرلینا ضروری ہے۔ حالی نے سرسیّد کے خاندانی پس منظر اور ان کے ذاتی احوال سے ان کے نظریات کی تشکیل کے جواز فراہم کیے ہیں۔ لکھتے ہیں:
”ہمارے نزدیک اصل سبب تعلیمِ نسواں کی طرف (سرسیّد کے) توجّہ نہ کرنے کا یہ تھا کہ اوّل تو جب سے اُن کو مسلمانوں کی سوشل ریفارم کا خیال پیدا ہوا، اُس وقت سے اخیر دم تک وہ فیملی سوسائٹی سے بالکل علاحدہ رہے۔ غدر سے چند روز بعد اُن کی والدہ اور بی بی کا انتقال ہوگیا اور دہلی کی آمدورفت بالکل موقوف ہوگئی۔ اگر چہ زنانہ سوسائٹی کی حالت سے وہ بے خبر نہ تھے مگر جو فیلنگ خود اس سوسائٹی میں رہ کر اور ہر وقت آنکھ سے اُن کی حالت دیکھ کر ایک ذکی الحس آدمی کے دل میں پیدا ہوسکتی ہے، وہ صرف سُنی سُنائی یا کبھی کی دیکھی ہوئی باتوں سے ہرگز پیدا نہیں ہوسکتی۔“ ١٢؎
حالی نے سرسیّد کے گھرانے کی عورتوں کی تعلیمی استعداد اور علمی لیاقت کے متعلّق اطّلاع دیتے ہوئے اُن کی ذہنی اور فکری ساخت پر بھی کچھ اس طرح روشنی ڈالی ہے:”اُن کے خاندان کی فیملی سوسائٹی کی حالت بہ نسبت اکثر مسلمان خاندانوں کے بہت عمدہ تھی۔ اُن کے خاندان کی عورتوں سے میری اکثر رشے دار عورتوں کو ملنے کا اتّفاق ہوا ہے جو اُن کے اخلاق و عادات اور لیاقت اور سنجید گی کی حد سے زیادہ تعریف کرتی ہیں۔ خود سرسیّد نے ایجوکیشن کمیشن میں اور اپنی متعدّد اسپیچوں میں اپنے خاندان کی عورتوں کے لکھے پڑھے ہونے کا حال بیان کر کے اس خیال کی تردید کی ہے کہ مسلمان عورتیں عموماً جاہل ہوتی ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ جب’مراۃ العروس‘ پہلی ہی بار چھپ کر شایع ہوئی تو جونقشہ اس میں عورتوں کی اخلاقی حالت کا کھینچا گیا تھا، اس کو دیکھ کر سرسیّد کو نہایت رنج ہوا تھا اور وہ اس کو مُسلمان شرفا کی زنانہ سوسایٹی پر ایک قسم کا اتّہام خیال کرتے تھے“۔١٣؎
حالی کی محولہ بالا دلیلوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ سرسیّد کو غالباً اس بات کا موقع نہیں مل سکا کہ وہ مسلمان عورتوں کی حالتِ زار اور تعلیمی پستی کا براہِ راست مطالعہ اور مشاہدہ کرتے۔ اپنے خاندان کی عورتوں کے تعلیمی رویّے اور استعداد کو غیر شعوری طور پر انھوں نے عام مسلم عورتوں پر منطبق کردیا تھا۔ اسی لیے بہ قولِ حالی سرسیّد نے ”لڑکیوں کی تعلیم پر کبھی ہاتھ نہیں ڈالا یہاں تک کہ ان کو تعلیمِ نسواں کا مخالف تصّور کیا (گیا)“۔١٤؎ حالی نے سرسیّد کے بچاو میں جو دلیلیں دی ہیں، وہ پہلی نظر میں دُرست معلوم ہوتی ہیں لیکن ان کا تجزیہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دلیلیں مستحکم بنیادوں پر نہیں قائم کی گئی تھیں۔
ہمارا خیال ہے کہ سرسیّد کے متعلّقہ افکار کافی غوروفکر کے بعد، دنیوی مصلحتوں اور مجبوریوں کو پیشِ نظر رکھ کر مرتّب کیے گئے تھے۔ تعلیمِ نسواں پر سرسیّد کے اعتراضات اور ان کی منطق کا گوشوارہ تیار کیا جائے تو اس نتیجے تک پہنچنا دشوار نہیں ہوگا کہ وہ کیوں اور کن بنیادوں پر عورتوں کی تعلیم اور علاحدہ شناخت کے تصّور سے متفق نہیں تھے:
٭ سرسیّد حکومت کو باربار خبردار کرتے ہیں کہ وہ مسلمان عورتوں کو تعلیم دینے کی غرض سے مدرسے اور اسکولوں میں انھیں بھیجنے کا کوئی طریقہ اختیار نہیں کرے۔ اس سے نقصان ہوگا اور گورنمنٹ کا پیسہ ضائع ہوگا۔
٭ سرسیّد یہ مانتے تھے کہ ’اس وقت تک جو حالت مسلمان عورتوں کی تھی، وہ خانگی خوشی کے واسطے کافی تھی۔‘
٭ عورتوں کو تعلیم سے آراستہ کرنا دراصل اُن کی فطرت، رسوم اور روایات سے غیر آہنگ کرنا تھا اور اسے سرسیّد خدا کی حکمت سے انکار قراردیتے تھے۔
٭ سرسیّد کا خیال تھا کہ تعلیم سے بہرہ ور ہونے کے بعد مَردوں کا طبقہ اپنی عورتوں کے لیے مناسب تعلیم کا بندوبست خود ہی کرلے گا۔ اس لیے سارا زور صرف مَردوں کی تعلیم پر صَرف کیا جانا چاہیے۔
٭ سرسیّد اس بات سے بہت ناخوش تھے کہ تعلیمِ نسواں پر اس قدر بحث و تمحیص کیوں ہورہی ہے؟ ایجوکیشنل کانفرنس کے لاہور اجلاس میں انھوں نے اپنی ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا: ”مجھ کو افسوس ہے کہ اس رزولیوشن کی نسبت جو ایک نہایت سادہ طور پر تھا، ضرورت سے زیادہ بحث ہوئی۔“
بہت سے پُرانے ذہنی تحفّظات کی پرچھائیں سرسیّد کی ان تاویلات میں دیکھی جاسکتی ہے۔ یہ بات محّلِ نظر ہے کہ وہ کس طرح معاملات کو سامنے سے ہٹا کر پیچھے کی طرف ڈھکیل دیتے ہیں اور عورتوں کی حالت کو اطمینان بخش تصوّر کرلیتے ہیں۔ عورتوں کی تعلیم پر اعتراضات بالعموم اصولی نوعیت کے ہیں لیکن ان کے اطلاقی پہلو پر ان کی راے اور زیادہ سخت اور شدید ہے۔ سرسیّد یہ تو نہیں کہتے کہ عورتوں کو اَن پڑھ رہنے دیا جائے کیوں کہ یہ ان کے مجموعی مزاج اور اس عہد کی ذہنی نشاۃ الثانیہ کے خلاف ہوتا۔ کچھ لوگ شاید اس کے مخالف بھی ہوجاتے۔ چناں چہ اپنے اعتراضات میں بھی ایک توازن کا انداز قائم رکھتے ہوئے انھوں نے تعلیمِ نسواں کی مخالفت کا بیڑا اُٹھایا۔ عورتوں کو کیا پڑھایا جائے یعنی کہ کون سے مضامین اور موضوعات کا انتخاب کیا جائے، اس پر وہ وضاحت کے ساتھ اپنے زاویۂ نظر پیش کر تے ہیں۔ یہاں ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اُس وقت سرسیّد مُسلمانوں میں مغربی تعلیم کے سب سے بڑے وکیل تسلیم کیے جاچکے تھے تاہم وہ عورتوں کو کیسی تعلیم دینا چاہتے تھے، اس سوال کا جواب انھی کے لفظوں میں ملاحظہ کیجیے:
”اے میری بہنو! میں اپنی قوم کی خاتونوں کی تعلیم سے بے پروا نہیں ہوں۔ میں دل سے اُن کی ترقّیِ تعلیم کا خواہاں ہوں۔ مجھ کو جہاں تک مخالفت ہے، اس طریقۂ تعلیم سے ہے جس کے اختیار کرنے پر اس زمانے کے کوتاہ اندیش مائل ہیں۔ میں تمھیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم اپنا پُرا ناطریقۂ تعلیم اختیار کرنے پر کوشش کرو……. میری یہ خواہش نہیں ہے کہ تم اُن مقدّس کتابوں کے بدلے جو تمھاری دادیاں نانیاں پڑھتی آئی ہیں، اس زمانے کی مروّجہ نامبارک کتابوں کا پڑھنا اختیار کرو جو اس زمانے میں پھیلتی جا تی ہیں……. پس اس زمانے کی نامفید اور نامبارک کتابوں کی تم کو کیا ضرورت ہے؟“ ١٥؎
ساتھ ساتھ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ فی الوقت کون کون سی چیزیں پڑھا نے کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔ ایجوکیشنل کانفرنس (١٨٨٨ء) میں وہ فرماتے ہیں:
”عورتوں کو جس قسم کے علوم پڑھائے جانے کا خیال پیدا ہوا ہے، اُس کو بھی میں پسند نہیں کرتا…… میں نہیں سمجھتا کہ عورتوں کو افریقہ اور امریکہ کا جغرافیہ سکھانے اور الجبرا اور ٹرگنامٹری کے قواعد بتانے اور احمدشاہ اور محمد شاہ اور مرہٹوں اور روہیلوں کی لڑائیوں کے قصّے پڑھا نے سے کیا نتیجہ ہے۔“ ١٦؎
سرسیّد یورپ میں عورتوں کی ترقّی اور بیداری نیز مردوں کے شانہ بہ شانہ جینے کے اطوار اور حقوق پر اصرار سے واقف تھے۔ مغربی طرزِ زندگی میں عورتوں کے رول کو بھی وہ تحسین کی نظر سے دیکھتے تھے اور ہر مرحلے میں ہندستانی حالات سے ان کا موازنہ کرتے تھے۔ شاہد حسین رزّاقی نے مستوراتِ مغرب کے احوال و اطوار پر سرسیّد کے افکار کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
”ترقّی یافتہ ملکوں میں عورتوں کی بے پردگی کی جو آزادی ہے، اس سے سرسیّد متّفق نہیں لیکن وہاں مَردوں کے عورتوں کے ساتھ حُسنِ سلوک اور حُسنِ معاشرت اور تواضع اور خاطر داری اور محبّت اور پاسِ خاطر اور اُن کی آسایش و آرام کی طرف متوجّہ ہونا اور اُن کو ہر طرح خوش رکھنا اور بہ عوض اس کے کہ عورتوں کو اپنا خدمت گزار تصوّر کیا جائے، ان کو اپنا انیس اور جلیس اور رنج و راحت کا شریک اور اپنے کو اُن کی اور ان کو اپنی مسرّت اور تقویت کا باعث سمجھنا قابلِ تقلید خوبیاں تصوّر کرتے ہیں“۔ ١٧؎
گویا کہ سرسیّد ایک انتہائی باریک بیں نگاہ رکھتے تھے۔ پھر بھی وہ ہندستانی عورتوں بالخصوص مسلمان عورتوں کو تعلیم کے نام پر دینیات میں شُدبُد سے زیادہ کچھ اور دینے پر رضامند نہیں تھے۔ انھوں نے یورپ اور امریکہ کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا تھا:
”یورپ کی اور امریکہ کی حالتِ معاشرت کے خیال سے شاید وہ علوم لڑکیوں کو سکھانے ضرور ہوں کیوں کہ ممکن ہے کہ وہاں عورتیں پوسٹ ماسٹرز اورٹیلی گراف ماسٹرز یا پارلیامنٹ کی ممبر ہوسکیں لیکن ہندستان میں نہ وہ زمانہ ہے اور نہ سیکڑوں برس بعد بھی آنے والا ہے“۔ ١٨؎
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سرسیّد جیسے بیدار مغز اور روشن خیال تعلیمی مفکّر نے عورتوں کی آیندہ ترقّیوں اور امکانات کی طرف سے آنکھیں بند کرلی تھیں۔ موجودہ حالات کے پیش نظر یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہندستان میں دوسری اقوام کی طرح مُسلمان عورتوں نے بھی تعلیم اور ترقّی کے شعبوں میں کچھ کم کامیابی حاصل نہیں کی۔ سرسیّد کے انتقال کے سَو سَوا سو برس بعد اب کوئی دن کی بات ہے کہ ہندستانی پارلیمنٹ میں ایک تہائی جگہیں عورتوں کے لیے مخصوص ہونے ہی والی ہیں۔ سرسیّد وقت کے تقاضوں کا شعور رکھتے تھے لیکن اپنی روایات اور معاشرتی تحفّظات کے ہاتھوں شاید وہ کسی قدر مجبور بھی تھے۔ ایجوکیشن کمیشن کو انھوں نے یہ صلاح بھی دی تھی کہ اسے مزدوری پیشہ افراد کی تعلیم پر غور کرنے کی یکسر ضرورت نہیں ١٩؎۔ آج اُن کا یہ قول بھی ہمیں نئے سرے سے اُن کے تصوّرّات کے جائزے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ ضرور ہوا کہ سرسیّد کے بتائے راستوں سے ان کے بہت سارے رفقا نے خود کو الگ کرلیا اور علی گڑھ میں تعلیمِ نسواں کی تحریک شروع ہوگئی۔ سرسیّد کی رحلت کے اگلے سال ہی مسلم ایجو کیشنل کانفرنس نے ”تعلیمِ نسواں“ کا ایک مکمّل شعبہ قائم کرلیا اور شیخ عبداللہ کو اس کا سکریٹری بنایا گیا۔ اسی سال (١٨٩٩ء) یہ فیصلہ بھی ہوا کہ ہر صوبے کے صدر مقام میں لڑکیوں کے لیے ایک درس گاہ قائم کی جائے۔ سرسیّد کے اعتراضات کو پسِ پشت ڈال کر آخرکار مُسلم ایجوکیشنل کانفرنس نے ١٩٠٠ء میں یہ انقلاب آفریں تجویز منظور کرلی کہ ”مسلمان لڑکیوں کی توسیعِ معلومات و ترقّی تہذیب کے لیے ایسا سہل نصاب تیار کیا جائے جس میں دینیات کے علاوہ ابتدائی حساب، تاریخ، جغرافیہ، طبیعیات اور اخلاق کی تعلیم ہوں۔“ ٢٠؎
غرضیکہ، سرسیّد کی عظیم الشان خدمات اور ان کے تصوّرات کی قدروقیمت کے اعتراف کے باوجود، ہمارا خیال ہے کہ تاریخ کے عمل اور انقلاب کی روشنی میں آج بھی ان کے محاسبے کی ضرورت ہے۔ سرسیّد کے بعد آنے والوں نے اُن کی روشن خیالی، دور بینی اور حقیقت شناسی سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ اس عرفان کا تقاضہ ہے کہ ان کی فکر کی حدود کو بھی سمجھا جائے۔ بالفرض مُسلم ایجوکیشنل کا نفرنس نے سرسیّد کے بعد بعض معاملات میں اُن سے الگ ایک راہ نکالنے کی جسارت نہ کی ہوتی تو آج ہندستان میں مسلمانوں کی تعلیمی اور سماجی حالت کیا ہوتی؟ مسلمان عورتوں کی تعلیم کا نقشہ کیا ہوتا؟ یہ سوالات ہمیں اپنے ماضی کو ایک نئے زاویے سے سمجھنے کی دعوت دیتے ہیں۔
حوالہ جات
1.President Zakir Husain Speeches, Publications
Division, New Delhi 1974, P-56-1
۲-۳- اُردو ادب کی تنقیدی تاریخ، سیّد احتشام حسین، ترقی اُردو بیورو، نئی دہلی، ١٩٨٨ء ص: ١٨٧۔
4.Sir Sayyid Ahmad Khan and Muslim Modernization, Hafeez Malik, Columbia, 1980, P-214
۵- حیاتِ جاوید، الطاف حسین حالی، ترقی اُردو بیورو، نئی دہلی، ١٩٩٠ء، ص: ٢٤٠
۶- ایضاً، ص: ٦١٣
۷- مکمّل مجموعہ لکچرزواسپیچز (آف) سرسیّد، مرتّبہ: مولوی امام الدین فضل الدین تاجرانِ کتب، لاہور ١٩٠٠ء، ص: ٣٢٩
۸-۹- سرسیّد کی تعلیمی تحریک، اخترالواسع، مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی، ١٩٨٥ء، ص: ٣٦
١٠- مکّمل مجموعہ لکچرز، ص: ٤١٠
۱۱- Eight Lives: Raj Mohan Gandhi, Roli Books, Inter, New Delhi, 1986, pp 32-33
١٢- حیات جادید، ص: ٦١١
١٣- ایضاً، ص: ١٢-٦١١
١٤- ایضاً، ص: ٦١١
١٥- ایضاً، ص: ١٦-٦١٤
١٦- مکّمل مجموعہ لکچرز، ص: ٣٠- ٣٢٩
١٧- سرسیّد اور اصلاحِ معاشرہ، شاہدحسین رزاقی، ادارۂ ثقافتِ اسلامیہ، لاہور، طبعِ اوّل، ١٩٦٣ء، ص ١٧٥
١٨- مکمّل مجموعہ لکچرز، ص: ٣٠- ٣٢٩
١٩- حیاتِ جاوید، ص: ٤١-٢٤٠
٢٠- سرسیّد کی تعلیمی تحریک، ص:۶۶
[مطبوعہ جامعہ، نئی دہلی(سرسیّد نمبر) جولائی-دسمبر ١٩٩٨ء] 

صاحب مقالہ کی یہ نگارش بھی ملاحظہ فرمائیں :اُتر پردیش میں کانگریس کی حد سے بڑھی ہوئی سرگرمیوں کے حقیقی معنیٰ کچھ اور تو نہیں؟

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے