مرحبا حسنِ سراپائے رسولِ محترم

مرحبا حسنِ سراپائے رسولِ محترم

سید عارف معین بلے

مولا یا صلِ وسلم ہے زباں پر دَم بہ دَم
دیدنی حُسنِ سراپائے رسولِ محترم

سب رسولوں کے محاسن آپ کو بخشے گئے
تھے سبھی اوصاف نبیوں کے مِرے مولا میں ضَم

حضرتِ آدم کی بے شک تھی جلالت آپ میں
معرفت تھی شیث کی، موسیٰ کا تھا جاہ و حشم

نوح سے بڑھ کر جواں مردی تھی مولا آپ میں
دوستی بوالانبیاء کی بھی تھی بادرجہ اَتَم

پاک دامانی تھی یحیی کی، رضا اسحاق کی
لوط کی حکمت کےحامل تھے نبیِ مختتم

دیکھی صالح کی فصاحت بھی جہاں نے آپ میں
آپ اُمی ہوکے افصح العرب تھے، والقلم

لحن ِ داؤدی عطا فرمایا رب نے آپ کو
یہ بتاتے تھے ہمیں آواز کے سب زیر و بَم

اُمِ معبد نے جمالِ مصطفیٰ کو دیکھ کر
کھینچ کررکھ دی تھی تصویرِ رسولِ محترم

آپ میں ایثار اسماعیل کا دیکھا گیا
کردیا تھا رب نے ان میں حُسنِ یوسف کو بھی ضَم

آپ سا کوئی نہیں ہے پوری دُنیا میں حسیں
ملکوں ملکوں ڈھونڈ لو، ملک عرب، ارضِ عجم

دیدنی ہیں مرحبا سارے شمائل آپ کے
آپ ہیں شہکار قدرت کا رسولِ محترم

آگئے ہیں کالی کملی اوڑھ کر سرکار کیا؟
سامنے پردے میں ہے لِپٹا ہوا بیت الحرم

نبیوں نے آکر دکھائی تھی جھلک سرکارکی
آپ کے بارے میں بس اتناہی کہہ سکتے ہیں ہم

آنکھ بھر کر دیکھنے کی تاب لاسکتے نہ تھے
کیا کہیں کیسا تھا؟ مولا آپ کا جاہ و حشم

روئے انور دیکھ کر رکھ لیتے تھے آنکھوں پہ ہاتھ
ڈر تھا یہ حَسَان کو بینائی ہوجائے نہ کم

دستِ قدرت نے اجالوں میں شفق کو گھول کر
رنگ کو بھی روپ کاسامان پہنچایا بہم

مرحبا صلِ علیٰ مولا شمائل آپ کے
ہونہیں سکتے بیاں، لکھے گا کیا؟ اپنا قلم

اللہ اللہ والضحیٰ، واللیل، مازاغ البصر
آپ کا قرآن میں حسنِ سرا پا ہے رقم

حُسن کی معراج ہے مولا سراپا آپ کا
دستِ قدرت کا حَسیں شہکار از سرتا قَدَم

مرحبا تھی خوب مردانہ وجاہت آپ کی
دیکھ کردل تھام لیتے تھے سبھی عالی ہَمَم

چودھویں کا چاند بھی نکلے تو پڑ جاتا تھا ماند
والضحی ٰکہتے تھے اصحابِ نبیِ محتشم

پھوٹتی تھیں روئے روشن سے بھی کرنیں نور کی
آپ کا نورانی چہرہ تھا رسولِ محترم

آئینہ سچائی کا بے شک تھا چہرہ آپ کا
والضحیٰ صلِ علیٰ، بدرالدجیٰ، شمس الظلَم

روئے روشن آپ کا بے شک کھلا قرآن تھا
آپ کے اصحاب کہتے تھے نبیِ مختتم

جیسے چاندی میں کسی نے گھول رکھے ہوں گلاب
اللہ اللہ رنگتِ جسمِ رسولِ محتشم

دستِ قدرت نے کیا سینہ کشادہ آپ کا
آپ کی پشتِ مبارک کاکیا ہے بوجھ کم

سُرمگیں آنکھیں، سیہ زلفیں تھیں مولا آپ کی
پیکرِ حُسنِ مکمل تھے رسولِ ذی حَشَم

تھیں بھنویں پَتلی مِرے مولا کی، تو پلکیں دراز
سُرخ ڈورے آپ کی آنکھوں میں تھے شاہِ اُمَم

اَبرووں کے درمیاں رَگ تھی جبینِ پاک پر
جوابھرآتی تھی غصے میں ہمیشہ ایک دَم

چوڑی پیشانی، کشادہ سینہ، اونچی ناک تھی
رشکِ یوسف تھے یقیناً پیکرِ حُسنِ اَتم

تھی جبیں ایسی کہ جیسے ہو کوئی روشن چراغ
اس کے آگے روشنی سورج کی پڑ جاتی تھی کم

یہ بتاتی ہے جبیں اس پر شکن ابھری نہیں
خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے سرکارِ اُمم

لب کُشاہوتے رسولِ پاک تو جھڑتے تھے پھول
خوب صورت تھا تبسم آشنا، مول کا فَم


دانتوں کی ریخوں سے کرنیں پھوٹتی تھیں نور کی
مسکرا اُٹھتے تھے جب سرکارِ اکرم الاُمم

دستِ قدرت نے سجارکھے تھے موتی سیپ میں
آپ کے دنداں تھے مولا پرتوِ حُسنِ اَتم

کس سے دوں تشبیہ مولا آپ کی مسکان کو
مسکراہٹ اَدھ کھلی کلیوں میں بھی ہوتی ہے کم

سچے موتی جڑ دیے ہوں جیسے اِک ترتیب سے
دیدنی تھا حُسنِ دندانِ رسولِ ذی حَشَم

لب تھے یاقوتی مگر یاقوت سے بڑھ کر حَسیں
تھی چمک دنداں میں ایسی، موتیوں میں ہوگی کم

دل کشی گوشِ مبارک کی، لبوں کی نازکی
دیکھ کر پڑھتے درودِ پاک اصحابِ کرم

ہے سماعت کے حوالے سے یہ فرمانِ رسول
آپ سُن سکتے نہیں جوکچھ، وہ سُن سکتےہیں ہم

آسماں پر بھی کوئی آہٹ ہو سُن سکتے ہیں آپ
یہ بھی قوت آپ کو پہنچائی ہے رَب نے بہم

گوش ِ اقدس کی لووں کو چومتی زلفیں حضور
چاند کے مکھڑے پہ ہے سایہ فگن ابرِ کرم

غیر پیوستہ کمانیں آپ کے ابرو کی ہیں
ریشمی زلفیں مِرے مولا کی ہیں پُر پیچ و خم

مولا گھنگھریالی زلفوں کازمانہ ہے اسیر
اِس اسیری پر ہے دُنیا خوش رسولِ محترم

خوب صورت نسبتاً پتلی تھی گردن آپ کی
سچ ہے یہ اس کو صُراحی دار کہنا ہوگا کم

جیسے چاندی کی صُراحی سونے سے لبریز ہو
کیا حسیں گردن ہےجس میں ہوگئے دو رنگ ضَم

سر بڑا سردار کاتھا، بیچ میں اِک مانگ تھی
پیکرِ حُسنِ مکمل تھے نبیِ مختتم

ہوگئی بے شک ملاحت ختم مولا آپ پر
دوسرا کوئی نہیں، ایسا کہاں سے لائیں ہم

کون واقف ہے حقیقت سے مِری، رب کے سِوا؟
یہ بھی فرمانِ رسولِ پاک ہے رَب کی قَسَم

عرش بھی سارا پگھل جاتا تجلیات سے
یوں ہوا بےشک ظہورِ نورِ کامل کم سے کم

ساری مخلوقات ہوجاتیں فنا کہتے ہیں لوگ
ظاہر ہوجاتے جو انوارِ رسولِ محتشم

قامتِ زیبا میانہ تھا رسول اللہ کا
سب میں آتے تھے نظر ممتاز سرکارِ اُمَم

جسمِ اطہر کو کوئی دھبہ نہ کوئی داغ تھا
حُسن کا پیکر تھے مولا آپ سر تا بہ قدم

آپ دُبلے تھے نہ موٹے جسم پر مضبوط تھا
آپ کا نکلا ہوا باہر نہ تھا مولا شِکَم

شخصیت میں رکھ رکھاؤ تھا بڑا ٹھہراؤ تھا
معترف تھے اس کے اصحابِ رسولِ ذی حشم

ناف تک سینے سے تھی بالوں کی ہلکی سی لکیر
پاک تھابالوں سے ورنہ پورا جسمِ محترم

سینہ ہی کیا جوڑ بھی تو تھے کشادہ آپ کے
آپ کے شانوں پہ تھا اللہ کا دستِ کرم

آپ کے دستِ مبارک کی تھیں لمبی انگلیاں
تلوے قدرے گہرے تھے، ہموار تھے لیکن قَدَم

سچ اگر پوچھو کفِ دستِ رسالت تھے گداز
آپ قدرت کاحسیں شہکارتھے، رب کی قسم

رنگ تھا مائل بہ سُرخی، تھی کلائی بھی دراز
آپ کے انگ انگ میں رعنائیاں مولا تھیں ضَم

ہاتھ جو کوئی ملاتا، مانتا تھا یہ حضور
ہے ملائم آپ کا ریشم سے بھی دستِ کرم

آپ قاسم ہی نہیں مولا ابوالقاسم ہیں آپ
آپ کے دستِ مبارک میں ہے تقدیرِ اُمم

آپ کی مٹھی میں ہیں دونوں جہاں کی نعمتیں
آپ کے در کے گدا مختار و سلطان و خَدَم

چلتے تو نعلین کی آواز بھی آتی نہ تھی
تھے بڑے نرم و ملائم آپ کے مولا قدم

حُسن یوسف میں صباحت ہے، ملاحت آپ میں
دونوں رعنائی میں یکتا ہیں، نہیں ہے کوئی کم

ہے شمائل کا یقیناً تذکرہ وجد آفریں
آفریں صد آفریں، یا سیدِ خیرالامم

جیسے بہتا ہے کوئی دریا کسی ڈھلوان پر
جھک کے چلتے تھے مگر تیزی سے اٹھتے تھے قدم

بولتی تھی میرے مولا خامشی بھی آپ کی
دھیما لہجہ بھی اتر جاتاتھا دل میں، ایک دَم

بولتے تو کانوں میں رس گھول دیتے تھے حضور
دل نشیں طرزِ تکلم تھا، حلاوت کی قسم

حق بیاں گوہر فشاں بے شک زباں تھی آپ کی
ترجمانِ ایزدی ہی اس کو کہہ سکتے ہیں ہم

تھا لب و لہجہ حسیں، آواز میں تھا دبدبہ
لحنِ داودی یقیناً ہوگیا تھا اس میں ضم

اہلِ مجلس غور سےسنتے تھے اِک اِک لفظ کو
رَس بھری آواز میں بھی تھا بڑا جاہ و حَشَم

سچ تو یہ ہے آپ کی آواز دلآویز تھی
چاشنی تھی اس میں ایسی، شہد میں بھی ہوگی کم

گونج دیتی تھی سنائی اس کی بے شک دورتک
نغمگی تھی، صوت کی رعنائیاں تھیں اس میں ضَم

کیا نظر تھی یہ پتا چلتا ہے اس فرمان سے
تم نہیں جو دیکھ سکتے، دیکھ سکتے ہیں وہ ہم

عرش سے تحتُ الثریٰ تک دیکھ سکتے تھے حضور
مرحبا صلِ علیٰ، نگہِ رسولِ محترم

پُشت کے پیچھے ہے کیا؟ یہ دیکھ سکتے تھے حضور
آپ سے مخفی نہیں تھا، کچھ نبیِ مختتم

آنکھ بھر کر دیکھتے کم تھے، حیا آنکھوں میں تھی
نظریں نیچی رکھتے تھے اکثر رسولِ محترم

تھی گھنی ریشِ مبارک سرورِ کونین کی
چہرے کی زینت تھی یہ نورِ محمد کی قسم

دونوں جانب سے برابر آپ رکھتے تھے اِسے
آبرو کا یہ نشاں تھی، سیدِ والا حَشَم

جسمِ اطہر آپ کا آلائشوں سے پاک تھا
تھے نظافت میں بھی یکتاپیکرِ حُسنِ اَتم

جس طرف جاتے مِرے مولا مہک جاتی فضا
اللہ اللہ خوشبوئے جسمِ رسولِ ذی حَشَم

خوش بووں کا اِک خزینہ تھا پسینہ آپ کا
ہیچ تھا ہر عطر، کستوری تھی مولا اِس سے کم

یہ بھی ہے برکت لعابِ سید لولاک کی
ہوگیا کھارے کنویں کا پانی میٹھا ایک دَم

ہے علاج آشوبِ چشمانِ علی کا بھی لعاب
ہے مداوا دُکھ کا راحت بخش ہے اکسیرِ غم

سچ اگر پوچھو تو اِک مہرِ نبوت ثبت تھی
لوگ کہتے ہیں کہ تھا پُشتِ مبارک پر پَدَم

نُطق بے شک آپ کا نطقِ الہیٰ ہے حضور
سب کا ہے فرمان، فرمانِ نبیِ مختتم

لانہیں سکتی تھیں نظریں آپ کے جلووں کی تاب
ہو بیاں کیسے؟ جمال سیدِ خیرالاُمم

مرحبا صلِ علیٰ مولا شمائل آپ کے
مرحبا حسنِ سراپائے رسولِ محترم

یہ بھی سچ ہے جسمِ اطہر کا کوئی سایہ نہ تھا
آپ کے ہے زیر سایہ، یہ جہاں ، رب کی قسم

سید عارف معین بلے کی تخلیق بھی ملاحظہ ہو :قصیدۂ بردہ شریف اب اردو زبان میں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے