دشمنوں کے لیے ہدایت کی، تجھ سے کرتا ہوں التجا یارب!

دشمنوں کے لیے ہدایت کی، تجھ سے کرتا ہوں التجا یارب!

حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی، جمشیدپور*

نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ میں
دعا کی بے پناہ اہمیت ہے۔ قرآن و احادیث میں اس کے احکام واضح طور پر موجود ہیں۔ دعا خدا اور بندے کے درمیان سب سے مضبوط اور نزدیکی تعلق ہے۔ قرآن مجید میں ہے: میں اپنے بندے سے بہت ہی نزدیک ہوں، اس کی رگِ جاں سے بھی قریب ہوں۔ دعا مانگنے کا حکم بار بار آیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّعِ اِذَا دَعَانِ….( القرآن ،سورہ بقرہ2؍، آیت 186) ترجمہ: میں دعا مانگنے والوں کی دعا قبول کرتا ہوں، جب وہ مجھے پکارے۔ اور فرماتا ہے: وَقَالَ رَبُّکُمْ ادْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادِتِی سَیَدْ خُلُوْنَ جَہَنَّمَ دَاخِرِیْن (القرآن ، سورہ مومن40، آیت 59) ترجمہ: جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عن قریب جہنم میں جائیں گے ذلیل ہوکر۔ یہاں عبادت سے مراد دعا ہے۔ اس آیت کریمہ میں اکثر مفسرین نے عبادت سےدعا مراد لی ہے۔ حدیث پاک میں بھی دعا کو عبادت بلکہ عبادت کا مغز قرار دیا گیا ہے۔ (اَلدُّعَاءُ ہُوَ الْعِبَادَۃُ اور اَلدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ) (مسند احمد جلد4، صفحہ 271۔مشکوٰۃ الدعوات) اس آیت میں ایسی رہ نمائی دی جارہی ہے جسے اختیار کر کے دنیا و آخرت کی سعادتوں سے ہم کنار ہوسکے۔ دوسرے مذاہب میں بھی دعا کی ترغیب دی گئی ہے اور دعا ئیہ الفاظ بھی ان کی مذہبی کتابوں میں موجود ہیں۔ لیکن مذہب اسلام کے بنیادی عقیدۂ توحید سے ان کا دور دور تک تعلق نہیں ہے۔ اسلام میں عقیدۂ توحید پر قائم رہتے ہوئے اللہ رب العزت سے ہی اپنی بے بسی اور اپنی ضرورتوں کی التجا کا حکم ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے بھی اسی کی تعلیم دی اور خود عمل کرکے دکھایا. جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی رحمت ﷺ فرماتے ہیں: کیا میں تمھیں وہ چیز نہ بتاؤں جو تمھیں تمھارے دشمن سے نجات دے اور تمہارے رزق کو وسیع کردے۔ رات دن اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے رہو کہ دعا سلاح( ہتھیار) مومن ہے۔ دعا سبھی مانگتے ہیں، سب اپنے لیے، اپنوں کے لیے مانگتے ہیں۔ ایسا حکم بھی ہے اللہ کے رسول نے طریقہ بتایا اور فرمایا: (مفہوم) پہلے اپنے نفس کے لیے پھر اپنوں کے لیے پھر دوسروں کے لیے دعا مانگو۔
دنیا میں جتنے جلیل القدر انبیاے کرام گزرے ہیں انھوں نے عقیدۂ توحید کی دعوت دی اور اللہ کے دین کی طرف انسانوں کو بلایا۔ جن قوموں نے اپنے نبی کو جھٹلایا، ان کو ستایا اور ان کی دعوت کو ٹھکرایا تو ان کے رسولوں نے ان کے لیے بد دعا کی اور اللہ نے بد دعا قبول فرماتے ہوئے ان قوموں کو برباد اور ہلاک کر دیا۔ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے جب ان کو جھٹلایا اور ستایا تو حضرت نوح علیہ السلام نے اس طرح بد دعا کی وَقَالَ نُوْحُٗ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا۔اِنَّکَ تَذَرْ ہُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَکَ وَلَا یَلِدُوْ آ اِلَّا فَاجِراً کَفَّارًا۔(القرآن، سورہ نوح 71، آیت 26۔27) ترجمہ: نوح نے کہا اے میرے رب ان کافروں میں سے کوئی زمین پر بسنے والا نہ چھوڑ۔ اگر تو نے ان کو چھوڑ دیا تو یہ تیرے بندوں کو گم راہ کردیں گے اور ان کی نسل سے جو بھی پیدا ہوگا بدکار اور سخت کافر و نا شکرا ہی ہوگا۔ اسی طرح حضرت لوط علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کی گم راہی اور ڈھٹائی پر بد دعا کی اور وہ قومیں ہلاک ہوئیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون اور اس کی قوم کے خلاف جو بد دعا کی اس کا بیان کلامِ الٰہی میں اس طرح موجود ہے۔ وَقَالَ مُوْسٰی رَبَّنآ آتَیْتَ فِرْعَوْنَ وَ مَلَاَہٗ زِیْنَۃً وَّ اَمْوَالاً فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا رَبَّنَا لِیُضِلُّو عَنْ سَبِیْلِکَ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلآٰ اَمْوَالِہِمْ وَاشْدُدْ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْا حَتّٰی یَرَوُ االْعَذَابَ الْاَلِیْم (القرآن ،سورۃ یونس 10،آیت نمبر 88) ترجمہ : موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی اے ہمارے رب تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو دنیا کی زندگی میں زینت اور مال و دولت سے نواز رکھا ہے ۔ اے رب ان کے مال برباد کر دے اور ان کے دلوں پر ایسی مہر کردے کہ ایمان نہ لائیں جب تک دردناک عذاب نہ دیکھ لیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی بد دعا قبول فرمائی کہ ان کے دلوں میں ایمان قبول کرنے کی گنجائش ہی نہ رہی، جسے مہرلگ جانا کہا جاتاہے۔ معلوم ہوا دل کی سختی بھی بڑا عذاب ہے۔ اس سے اللہ بچائے۔ اس کی پہچان یہ ہے کہ آنکھ سے آنسو نہ بہے، دل اچھوں کی طرف مائل نہ ہو۔ چنانچہ جیسا حضرت موسیٰ نے دعا فرمائی ایسا ہی ہوا کہ فرعونیوں کے درہم و دینار، پھل اور کھانے کی چیزیں پتھر ہوگئیں اور انھیں ایمان کی توفیق نہ ملی۔ ڈوبتے وقت ایمان لائے قبول نہ ہوا۔ موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی تھی ہارون علیہ السلام نے آمین کہا تھا۔
نبی رحمت ﷺ نے دشمنوں کے لیے دعا مانگی، ان کی ہدایت کی دعا مانگی۔ یہ بڑے دل و جگر کاکام ہے. زیادہ تر لوگ دشمنوں کے لیے بد دعا ہی کرتے ہیں لیکن قربان جائیے رب کریم کی شان رب العالمین پر. اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنا تعارف رب العالمین کی حیثیت سے کر ایا ہے۔ سورہ الفاتحہ کی ابتدا الحمد للہ رب العالمین سے ہوتی ہے۔ رب العالمین کامطلب ہے سارے جہان کا پالنے والا اور پرورش کرنے والا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول محمد ﷺ کا تعارف رحمت اللعالمین سے کرایا۔ یعنی سارے جہان کے لیے رحمت۔ رب فرمارہا ہے۔ وَمَااَرْسَلْنَاکَ اِلَّا رَحْمَۃَ الِّلْعَالَمِیْن (القرآن، سورۃ انبیاء، آیت107) اے نبی، ہم نے تو تم کو دنیا والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ نبی اپنے معاشرے کے لیے رحمت ہوتے ہیں۔ جب قوم رحمت قبول نہیں کرتی تو ہلاکت اس کا مقدر بن جاتی ہے مگر اللہ کے آخری رسول محمد ﷺ کی شان دوسرے انبیا سے الگ ہے۔ کفار نے آپ کو بھی جھٹلایا، آپ کی مخالفت کی، آپ کو انتہائی اذیت دی بلکہ آپ کے قتل کا منصوبہ بنایا مگر نبی رحمت ﷺ نے ان کے لیے بد دعا نہ کی، ہدایت کی دعا کی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔ قیل یا رسول اللہ ادع علی المشرکین قال انی لم ابعث لعانا و انما بعثت رحمہ(مسلم، کتاب البر والصلہ والادب، باب النہی عن لعن الدواب) صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ مشرکوں پر بد دعاکیجئے۔ نبی رحمت نے فرمایا میں لعنت کرنے کے لیے نہیں بھیجا گیا ہوں۔ میں تو رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ احادیث میں دشمنوں کے لیے دعا مانگنے کا ذکر صراحت کے ساتھ موجود ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کو کفار نے جتنی تکلیف پہنچائی، جتنی مخالفت کی، سیرت کی کتابوں میں موجود ہے۔
طائف کے ہر قابلِ ذکر شخص سے حضور ﷺ نے ملاقات کی اور انھیں اللہ کی وحدانیت اور دین اسلام کو قبول کرنے کی دعوت دی۔ کسی نے شائستگی سے جواب دینے کی زحمت گوارہ نہ کی۔ انتہائی ڈھٹائی سے دعوت توحید کو مسترد کر دیا اور اس سے بھی زیادہ رذالت کا انھوں نے یوں مظاہرہ کیا۔ کہنے لگے: یَا مُحَمَّدُٗ اُخْرُجْ مِنْ بَلَدِنَا کہ ہمارے شہر سے نکل جاؤ. ہمیں اندیشہ ہے کہ تم ہمارے نوجوانوں کو اپنی باتوں سے بگاڑ دوگے۔ انھوں نے شہر کے اوباش نوجوانوں کو نبی رحمت ﷺ کے پیچھے لگایا. وہ جلوس کی شکل میں اکٹھے ہوگئے اور حضور کا پیچھا کرنا شروع کر دیا۔ آوازے کستے، پھبتیاں اڑاتے، دشنام طرازی (گالی گلوج) کرتے، اپنے بتوں کے نعرے لگاتے ہوئے حضور ﷺ پر پتھر برسانا شروع کردیا۔ رحمت اللعالمین ﷺ کے بابرکت قدموں کو اپنے پتھروں کا نشانہ بناتے۔ چلتے ہوئے آپ ﷺ جو پاؤں زمین پر رکھتے ٹھک سے پتھر اس پر آلگتا۔ حضور اسے اٹھاتے اور دوسرا پاؤں زمین پر رکھتے تو وہ پاؤں بھی پتھروں کی زد میں آجاتا۔ یہاں تک کہ ان ظالموں کی سنگ باری سے آپ کے مبارک قدم زخمی ہوگئے اور خون بہنا شروع ہوگیا۔ ان کی سنگ باری جب شدت اختیار کر لیتی تو حضور درد کی شدت سے بیٹھ جاتے۔ وہ ظالم حضور کو بازوؤں سے پکڑتے اور کھڑا کردیتے۔ پھر پتھر برسانا شروع کردیتے اور ساتھ ہی قہقہے لگاتے۔ زید بن حارثہ بیکسی کے اس عالم میں اپنے آقا کو بچانے کے لیے آڑ بن جاتے۔ کئی پتھر ان کے سر پر لگے اور خون بہنے لگا۔
طائف کے ان بد بخت لوگوں نے اپنے اس معزز و مکرم مہمان کو اپنے یہاں سے اس طرح رخصت کیا۔ نبی رحمتﷺ جب طائف شہر کے باہر پہنچے تو آپ کا دل ان کے ظالمانہ سلوک سے از حد مغموم تھا۔ سارا جسم زخموں سے بھرا تھا۔ جسم مبارک سے خون بہہ رہا تھا۔ قریب ہی ایک باغ تھا۔ آپ ﷺ اس میں تشریف لے گیے اور انگور کی ایک بیل کے نیچے بیٹھ گئے۔ نبی رحمتﷺ نے جو مناجات اس وقت اپنے رحیم و کریم رب کی بارگاہ میں کی اسے باربار پڑھیے، غور کیجیے، شاید آپﷺ کی رفعتوں کا کچھ اندازہ ہوسکے۔ دیکھیے، پڑھیے سیرت کی کتابیں۔ (سبل الہدی، ج۔2، ص577، سیرت ابن کثیر، ج۔2، ص150، سیرت ضیاء النبی، ج۔2، صفحہ 444 و دیگر کتب سیرت)
علامہ ابن کثیر نے صحیحین کے حوالے سے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت نقل کی ہے:
ہَلْ اَتٰی عَلَیْکَ یَوْمُٗ کَانَ اَشَدَّ عَلَیْکَ مِنْ یَوْمِ اُحُدٍ؟ فَقَالَ لَقَدْ لَقِیْتُ مِنْ قَوْمِکِ وَکَانَ اَشَدُّٗ مَالَقِیْتُ یَوْمَ الْعُقْبَۃِ۔
آپ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا۔ یا رسول اللہ کیا احد کے دن سے بھی زیادہ تکلیف دہ دن حضور پر گزرا ہے؟ فرمایا تیری قوم کے ہاتھوں جو تکلیفیں مجھے یوم العقبہ کو پہنچیں وہ زیادہ سخت تھیں۔ یعنی جس روز میں نے بنی ثقیف کے سرداروں عبد یالیل، سعود اور حبیب وغیرہ کو دعوت دی اور انھوں نے جو سلوک میرے ساتھ کیا وہ بڑا روح فرسا تھا۔ اس روز میں سخت غمگین و پریشان تھا۔ زخموں سے خون نکل رہاتھا۔ راستہ میں ایک جگہ بیٹھ گیا۔ میں نے سر اوپر اٹھایا تو میں نے دیکھا کہ ایک بادل کا ٹکڑا مجھ پر سایہ کیے ہوئے ہے۔ پھر میں نے غور سے دیکھا تو جبرئیل مجھے وہاں دکھائی دئے۔ انھوں نے بلند آواز سے مجھے پکارا اور کہا :
اللہ تعالیٰ نے وہ گفتگو سن لی ہے اور آپ کے ساتھ قوم کا سلوک دیکھ لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ملک الجبال یعنی پہاڑوں کے فرشتہ کو آپ کے پاس بھیجا ہے، وہ آپ کی خدمت میں سلام عرض کرتا ہے اور آپ کی خدمت میں گزارش پیش کی یا رسول اللہ آپ حکم دیں تو ابھی کفار کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس دوں۔ رحمت مجسم ﷺ نے فرمایا: اَرْجُوْ اَنْ یَّخْرِجَ اللّٰہُ مِنْ اَصْلَابِہِمْ مَنْ یَّعْبُدَ اللّٰہَ لَا یُشْرِکُ بِہٖ شَیئًا ترجمہ: میں امید کرتاہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی پشتوں سے ایسی اولاد پیدا کرے گا جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں گی اور کسی کو اس کا شریک نہیں بنائیں گی۔(سبل الہدی، ج2، ص579۔582، سیرت ابن کثیر ،ج۔2، صفحہ 152،153، ضیاء ا لنبی ،ج۔2، صفحہ447) حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھ رہا تھا جس وقت وہ اللہ کے نبی (یعنی حضور اپنا) واقعہ بیان فرمارہے تھے کہ ان کی قوم نے ان کو مارمار کر لہولہان کر دیا تھا وہ اپنے چہرے سے خون پوچھتے تھے اور کہتے تھے اَللّٰہُمَّ اِہْدِ قَوْمِیْ اِنَّہُمْ لَایَعْلَمُوْنْ
اے اللہ میری قوم کو ہدایت دے وہ نادان ہے۔ (بخاری کتاب الانبیاء، باب حدیث المغار) امام محمد یوسف الصالحی سبل الہدی میں امام احمد اور شیخین کے حوالے سے ایک روایت یوں نقل فرماتے ہیں: عکرمہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے پہاڑوں کے فرشتے! میں صبر کروں گا، شاید ان کی اولاد میں سے کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں جو لا الہ الاللہ پر ایمان لائیں۔ حضور کی اس رحمت اور شفقت کو دیکھ کر ملک الجبال (پہاڑوں کا فرشتہ) یہ کہہ اٹھا، جس طرح آپ کے رب نے آپ کا نام رکھا ہے بے شک آپ رؤوف و رحیم ہیں۔ رحمت کی یہ روشن مثال انسانی تاریخ میں ڈھونڈنے سے نہیں ملے گی۔ یہی موقع ہوتا ہے جب نبی بد دعا کرتے ہیں۔ ان کی بد دعا قبول ہوتی ہے اور قوم ہلاک و برباد ہوتی ہے۔ نبی رحمت ﷺ نے بد دعا بھی نہیں کی اور ملک الجبال کی ہلاکت کی پیش کش کو ٹھکرادیا اور ہدایت کی دعا کی کیونکہ اللہ نے آپ کو رحمت اللعالمین بناکر مبعوث فرمایا۔
سلام اس پر کہ جس نے خون پیاسوں کو قبائیں دیں
سلام اس پر کہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں
حضرت زبنرہ رضی اللہ عنہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے گھرانے کی باندی تھیں، مسلمان ہوگئیں، تو ان کو کافروں نے اس قدر مارا کہ ان کی آنکھیں جاتی رہیں۔ حضور نے ان کے لیے دعا مانگی۔ خداوند تعالیٰ نے حضور اقدس ﷺ کی دعا سے پھر ان کی آنکھوں میں روشنی عطا فرمادی تو مشرکین کہنے لگے یہ محمد(ﷺ) کے جادو کا اثر ہے۔ (زرقانی علی المواہب، ج۔1، ص 270)
مدینہ میں انصار کے علاوہ بہت سے یہودی بھی آباد تھے۔ ان یہودیوں کے تین قبیلے بنو قینقاع، بنو نظیر، قریظہ مدینہ کے اطراف میں آباد تھے اور نہایت مضبوط محلات و قلعے بنا کر رہتے تھے۔ ہجرت سے پہلے یہودیوں اور انصار میں ہمیشہ اختلاف رہتا تھا۔ چونکہ مدینہ کی آب و ہوا اچھی نہ تھی، یہاں طرح طرح کی بیماریاں وبائیں پھیلتی رہتی تھیں۔ اس لیے کثرت سے لوگ بیمار ہوتے۔ مہاجرین بھی بیمار ہونے لگے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ شدید لرزہ بخار میں مبتلا ہوکر بیمار پڑ گئے اور بخار کی شدت میں یہ حضرات اپنے وطن مکہ کو یاد کرکے کفار مکہ پر لعنت بھیجتے تھے۔ اور مکہ کی پہاڑیوں اور گھاسوں کے فراق میں اشعار پڑھتے تھے۔ حضور ﷺ نے لوگوں کی پریشانیوں کو دیکھ کر یہ دعا فرمائی کہ یا اللہ، ہمارے دلوں میں مدینہ کی ایسی محبت ڈال دے جیسی مکہ کی محبت ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ اور مدینہ کی آب و ہوا کو صحت بخش بنادے اور مدینہ کے صاع اور مد، ناپ تول کے برتنوں میں خیر و برکت عطا فرما اور مدینہ کے بخار کو حجفہ کی طرف منتقل فرمادے۔آپ کی دعا سے مدینہ کے لوگوں کو آرام مل گیا۔ (مدارج النبوت، ج۔2، ص70، اور بخاری)
آپ کی دعاؤں اور عفو و درگزر کی مثالوں میں سے یہ ہے کہ نبی رحمت ﷺ نے لبید بن عاصم یہودی کو جس نے آپ پر جادو کیا تھا اور خیبر کی اس یہودن کو جس نے زہر آلود بکری کی ران آپ کودی تھی، معاف فرما دیا اور دعا سے نوازا۔ (مدارج النبوت، ج۔اول، ص74) آپ ﷺ کمال عفو و درگزر فرمانے والے تھے۔ مطلب یہ کہ آپ نے اپنی ذات کے لیے کسی سے انتقام نہ لیا۔ جس نے آپ کے مال کو برباد کیا یا آپ کو برا کہا یا تکلیف پہنچائی، اسے معاف کردیا۔ آج مسلمانوں کا یہ شیوہ ہوگیا ہے کہ جب اسے کسی سے تکلیف پہنچتی ہے تو کہتا ہے (بلکہ کرتاہے) میں اینٹ کا جواب پتھر سے دوں گا۔ افسوس صد افسوس آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ جو اچھے اور نیک کہلاتے ہیں یہاں تک علما (چند کو چھوڑکر) ذرا سی بات پر اپنے قریبی دوستوں، رشتے داروں کے لیے بد دعا کرنے لگتے اور نقصان پہنچانے کے لیےاوراد و وظائف اور تعویذ کا استعمال کرنے لگتے ہیں۔ مگر نبی رحمت ﷺ کی سنت یہ ہے کہ آپ نے پتھر کھائے، جواب میں پتھر نہیں برسائے۔ بلکہ ان کی ہدایت کی دعا کی اور آپ کی دعا قبول ہوئی۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ طائف کی اگلی نسل نے رسول پاک کا کلمہ پڑھ لیا۔ کل طائف کے لوگ رسول اللہ کے دشمن تھے آج طائف کے لوگ رسول پاک کا کلمہ پڑھ رہے ہیں۔ آپ کی امت میں ہیں یہ کرشمہ تھا آپ کی رحمت بھری دعاؤں کا اور آپ کے رحمت اللعالمین ہونے کا۔ آپ ﷺ کی زندگی سراپا رحمت تھی۔ زحمت، تشدد ، انتقام جیسی چیزیں آپ کے اندر نہ تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ دشمن بھی آپ کا گرویدہ ہوجاتا تھا اور آپ کی رحمت بھری شخصیت سے متاثر ضرور ہوتا تھا اور آپ کو صادق الامین کے لقب سے پکارتا تھا اور اکثر کلمہ پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہوجاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب رسول کی اس صفت اور اس کے اثرات کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے۔ ترجمہ: (اے پیغمبر) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے نرم دل واقع ہوئے ہو ورنہ اگر تم تند خو اور سخت دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گرد و پیش سے چھٹ جاتے۔ ان کے قصور معاف کردو، ان کے حق میں دعائے مغفرت کرو۔ (القرآن، سورہ آل عمران،آیت 159)
جس طرح ہمارے آقا ﷺ کی پہچان رحمت ہے اسی طرح امت محمدی کی پہچان بھی رحمت ہونی چاہئے۔ مسلمان اپنے خاندان کے لیے، اپنے محلہ اور سماج کے لیے، اپنے ملک اور انسانوں کے لیے رحمت بننے کی کوشش کریں۔ اس وقت ایسے حالات پیدا ہوگئے ہیں کہ مسلمانوں کو زحمت سمجھا جاتاہے، ان کو ظلم و تشدد سے جوڑا جارہا ہے۔ مسلم نوجوانوں میں صبر و تحمل اور رواداری کا جذبہ کم ہورہا ہے۔ ان کو اپنے رسول کی سیرت کو Role Model ماننا چاہئے، اپنانا چاہئے۔ ہم مسلمانوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اپنی شخصیت کو رحمت بنانی ہوگی، اپنے کردار سے رحمت کا ثبوت دینا ہوگا اور اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی بجائے رسول کی رحمت بھری سیرت کو اپنانا ہوگا۔ ہم تمام امتیوں کو اپنے آقا ﷺ کی اتباع کرتے ہوئے حسن اور اخلاق اور عفو و درگزر کو اختیار کرنا چاہئے۔
دشمنوں کے لیے ہدایت کی
تجھ سے کرتا ہوں التجا یا رب
اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!ثم آمین!!

*الحاج حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی خطیب و امام مسجد ہاجرہ رضویہ اسلام نگر کپا لی وایا مانگو جمشید پور جھارکھنڈ پن کوڈ:831020
09386379632
hhmhashim786@gmail.com
صاحب مضمون کی یہ تحریر بھی ملاحظہ ہو:جلوسِ محمدی ﷺ، علماے کرام کی جوشیلی تقریریں، گرفتار ہوتے نوجوان، ذمہ دار کون؟

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے