جی ہاں خیریت ہے

جی ہاں خیریت ہے

احسان قاسمی
نوری نگر، خزانچی ہاٹ، پورنیہ ( بہار )

پردہ اٹھتا ہے

دو دروازوں والا ایک کمرہ۔ بغلی دروازہ گلی میں کھلتا ہے اور سامنے کا دروازہ باہر برآمدے کی جانب جس میں حکیم صاحب کی مطب ہے۔ کمرہ کے اندر بیگم صاحبہ بیٹھی ہیں۔ عمر تقریباً چالیس سال۔ بال ادھ پکے۔ چہرہ پر افلاس اور مسلسل فاقہ کشی کے واضح نشانات۔ ساڑی میلی اور پھٹی ہوئی۔ کمرہ میں سوائے ایک ٹاٹ بچھی چوکی اور دو مونڈھوں کے کوئی فرنیچر نہیں۔ بیگم صاحبہ اس وقت ایک مونڈھے پر بیٹھی کم زور نظریں گڑائے ایک پھٹی ساڑی کی مرمت میں مصروف ہیں۔
(بغلی دروازہ کی زنجیر زور زور سے بجتی ہے اور حکیم صاحب کی گھبرائی سی پے در پے آوازیں گونجتی ہیں)
حکیم صاحب: بیگم ۔۔۔ بیگم ۔۔۔۔ دروازہ کھولو۔
(بیگم صاحبہ لپک کر دروازہ کھولتی ہیں اور حکیم صاحب ہڑبڑاتے ہوئے کمرہ میں داخل ہوتے ہیں)
(حکیم صاحب کی عمر تقریباً پچپن سال۔ صاف رنگ، لاغر جسم، خمیدہ کمر، چہرے پر چھوٹی سی داڑھی، پاجامہ اور کرتا میں ملبوس)
حکیم صاحب: بیگم ۔۔۔۔۔ بیگم ۔۔۔۔۔۔ دروازہ بند کرو فوراً ۔۔۔ اور جلدی سے چھپ جاؤ۔۔۔۔
بیگم صاحبہ: (دروازہ لگا کر سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے) یا اللہ ۔۔۔۔ کیا ہوگیا ۔۔۔۔ فساد ۔۔۔۔؟
حکیم صاحب:نہیں ۔۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔۔
بیگم صاحبہ: ڈاکہ ؟ ۔۔۔۔
حکیم صاحب: نہیں ۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔۔ ارے چھپ جاؤ۔۔۔۔۔ جلدی کسی کونے میں ۔۔۔۔
اور مجھے بھی ۔۔۔۔
بیگم صاحبہ: یا اللہ ! ۔۔۔۔ کچھ تو کہیے ۔۔۔۔۔۔۔ دیکھیے مجھ پر کہیں پھر نہ خفقان کا حملہ ہوجائے (چھاتی تھام لیتی ہیں)
حکیم صاحب: ارے بیگم ! سب چوپٹ ہو گیا ۔۔۔۔۔۔ قہر خدا کا ۔۔۔۔۔ اسمعیل بھائی نے بازار میں مجھ سے خیریت دریافت کی اور میں نے کہہ دیا کہ سب خیریت ہے ۔
بیگم صاحبہ: اللہ ! ۔۔۔۔ (سن رہ جاتی ہیں)
حکیم صاحب: کیا کروں ۔۔۔ کیا کروں. چھپنے تک کی جگہ نہیں ۔۔.

بیگم صاحبہ: (چھاتی کوٹتی ہوئی ) مولا ! کیا ہوگا؟ ۔۔۔ ہائے ! کتنی دفعہ سمجھایا کہ بازار نہ جایا کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ جایا کریں ۔۔۔۔ میری سنتا کون ہے ؟ ۔۔۔۔
اور میں ناس پیٹی ۔۔۔۔ نگور ماری ۔۔۔۔۔
میں نے جانے ہی کیوں دیا تھا ؟
(باہر برآمدہ کے دروازہ کی زنجیر بجتی ہے۔ دونوں یکایک خاموش ہوکر گھبرا کر ایک دوسرے کا منھ تکنے لگتے ہیں۔)
باہر کی آواز: حکیم صاحب ! ۔۔۔۔ حکیم صاحب !! ۔۔۔۔ ارے دروازہ کھولو بھئ ۔۔۔۔
یہ ہوں میں ۔۔۔۔۔ جناردن پرشاد ۔۔۔۔ آپکا پڑوسی ۔۔۔۔۔۔۔۔
حکیم صاحب: (سرگوشی میں) یہ کون بزرگوار ہیں؟
بیگم صاحبہ: (جلے کٹے انداز میں) ارے ! وہی ۔۔۔۔ دو کوٹھیوں، تین کاروں والے پڑوسی ۔۔۔۔ جن کی بیوی کار میں بیٹھ کر سٹاسٹ سگریٹ کھینچتی ہے ۔۔۔۔
( حکیم صاحب کچھ نہ سمجھتے ہوئے دھیرے دھیرے سامنے کے دروازہ سے باہر برآمدے کی جانب چلے جاتے ہیں۔)
***
منظر بدلتا ہے
***
(باہر برآمدہ پر سجا دواخانہ۔ چوکی جس پر غلیظ چاندنی بچھی ہے اور ایک عدد مسند۔ دو کھٹال جن میں دوائیں سجی ہیں۔ کچھ بوتلیں اور کچھ پیٹینٹ ادویات کے ڈبے جو خالی ہیں اور خانہ پری کے لیے لگائے گئے ہیں. دو تین خستہ حال کرسیاں۔ ساری چیزوں پر گرد کی تہہ جمی ہے۔ برآمدہ میں باہر سے لگائے گئے موڑدار دروازوں کے پٹ پوری طرح کھل جاتے ہیں۔ باہر بورڈ لگا ہے ۔۔۔۔
حکیم نبن خاں کا خاندانی دواخانہ
نئے پرانے امراض کے ماہر
(تھلتھلے جسم اور مکروہ صورت کا ایک آدمی ایک اپٹوڈیٹ نوجوان کو ساتھ لے کر مطب میں داخل ہوتا ہے.)
جناردن پرشاد: آداب عرض ہے حکیم صاحب.
حکیم صاحب: آداب عرض ہے ۔۔۔ تشریف رکھئے ۔۔۔ تم بھی بیٹھ جاوء بیٹے. ( وقفہ سے) میرے لائق کوئی خدمت؟
جناردن پرشاد: (بے ڈھنگے پن سے ہنستے ہوئے) ہیں ہیں ہیں ہیں ۔۔۔۔ اجی آپ کیا کھدمت کروگے، آپ تو بجرگ آدمی ہو جی ۔۔۔۔ بس جرا آسیرباد لینے چلے آئے۔۔۔۔ ہو ہو ۔۔۔۔۔
حکیم صاحب: (مسکراہٹ چھپانے کی کوشش میں مریضوں والا رجسٹر بے مقصد الٹتے پلٹتے ہوئے) پھر بھی؟ ۔۔۔۔
جناردن پرشاد: ہیں ہیں ۔۔۔۔ اجی ! یہ جو میرا لڑکا ہے نا ۔۔۔۔ سات سال پھیل ہوا ہے آئی اے میں ۔۔۔ اب ٹھیکیداری کرنا چاہتا ہے ۔۔۔۔
حکیم صاحب: لیکن میں؟ ۔۔۔۔
جناردن پرشاد: اجی ! ۔۔ آپ تو سب کچھ کر سکتے ہو جی ۔۔۔ ہیں ہیں ۔۔۔ بس جرا لاگ بھڑا دو اس کا منسٹر صاحب سے ۔۔۔۔
حکیم صاحب: منسٹر؟ ۔۔۔۔ کون منسٹر؟ ۔۔۔۔ کیسے منسٹر؟ ۔۔۔۔
جناردن پرشاد: اجی وہی ۔۔۔۔ جن سے آپ کی رشتہ داری ہے ۔۔۔۔
حکیم صاحب: میری رشتہ داری منسٹر سے ۔۔۔۔ گنگوا تیلی ۔۔۔۔ راجا بھوج ۔۔۔۔
جناردن پرشاد: دیکھو جی حکیم صاحب ۔۔۔۔ جو نذرانہ چاہو مل جائے گا۔
حکیم صاحب: ( چڑھ کر ) آپ روزانہ نہار منھ دو تولہ مغز بادام شہد میں ملا کر کھایا کریں ۔۔۔۔ یہ الٹی سیدھی بند ہو جائے گی۔
جناردن پرشاد: لیکن آپ نے ہی بولا ہے نا بازار میں کہ آپ خیریت سے ہو؟
حکیم صاحب: ( گھبرا کر) وہ تو ۔۔۔۔ وہ تو ۔۔۔ میں نے یوں ہی ۔۔۔۔۔
جناردن پرشاد: (بگڑ کر) یوں ہی ۔۔۔۔۔۔ یوں ہی کیا؟۔۔۔۔ منسٹر سے رشتہ داری نہیں اور جھوٹ بولتے ہو ۔۔۔۔۔۔ اتنی عمر ہوگئی اور شرم نہیں آتی؟؟
(اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ حکیم صاحب دونوں ہاتھوں سے سر پکڑے بیٹھے رہ جاتے ہیں۔
دو اشخاص آتے ہیں۔ ایک کے چہرے پر آفیسرانہ شان ہے اور دوسرا چپراسی کی وردی میں)
حکیم صاحب: آئیے آئیے جناب ۔۔۔۔۔۔ تشریف رکھئے ۔۔۔۔ آپ کی تکلیف ؟ ۔۔
آفیسر: جی ! میں خود آپ کو تکلیف دینے آیا ہوں۔ ذرا آپ اپنی آمدنی کا رجسٹر دکھائیے۔
حکیم صاحب: (چونک کر) آمدنی کا رجسٹر؟ ۔۔۔۔۔ جناب کی تعریف ؟؟ ۔۔۔۔۔
آفیسر: میں انکم ٹیکس آفیسر ہوں۔ ذرا جلدی کیجئے۔
حکیم صاحب: (تھوک نگلتے ہوئے) انکم ٹیکس۔۔۔۔ مجھ غریب کے یہاں؟ ۔۔۔۔ یہ لیجئے رجسٹر۔
آفیسر: (رجسٹر دیکھتے ہوئے) پہلی جنوری سینتیس روپے ۔۔۔۔ دوسری جنوری پچاسی روپے ۔۔۔۔۔۔۔ تیسری جنوری صفر ۔۔۔ چوتھی جنوری ۔۔۔ (بگڑ کر) وہ کہاں ہے ۔۔۔۔ اصلی والا رجسٹر؟ ۔۔۔۔
حکیم صاحب: (پریشان ہوکر) اصلی ۔۔۔۔ اصلی ۔۔۔ قسم لے لیجئے جناب بالکل اصلی ہے۔
آفیسر: (آنکھیں نکال کر) اس میں تو صرف سردی کھانسی والوں کی کیفیت لکھی ہے جو صبح شام جوشاندہ لے جاتے ہیں ۔۔۔۔ وہ اسپیشل مریضوں کی فہرست کہاں ہے جو آپ سے خفیہ ملاقاتیں کرتے ہیں۔ طاقت کی دوائیں لے جاتے ہیں اور ایک ایک خوراک کے ہزار دو ہزار دے جاتے ہیں؟
حکیم صاحب: جی ۔۔۔۔ جی ۔۔۔
آفیسر: میں خوب سمجھتا ہوں آج کل کے حکیموں کو۔ سب چارسو بیس ہیں، دیکھنے میں مسکین صورت اور لاکھوں کا کالا پیسہ چھپائے رکھتے ہیں۔
حکیم صاحب: اجی ! آپ سنئے تو حضور ۔۔۔۔ قسم لے لیجئے جو کبھی طاقت کی دوا بیچی ہو۔ ایسی کوئی دوا ہوتی تو اب تک خود ڈیڑھ درجن بچوں ۔۔۔۔ (معاً اندر سے کھانسنے کی آواز آتی ہے۔ حکیم صاحب چپ ہوجاتے ہیں)
آفیسر: ( گرم ہوکر) قسم وسم کھانے کی ضرورت نہیں ۔۔۔۔ سیدھی طرح سے گفتگو کیجئے. ( باہر چلا جاتا ہے. حکیم صاحب آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چپراسی کی جانب دیکھنے لگتے ہیں)
چپراسی: ہمارے صاحب بہت سخت ہیں۔ کسی کو معاف نہیں کرتے. ابھی حال میں گلی عاصم جان میں ایک آپ ہی جیسے حکیم کو پکڑا ہے جو رات بھر طاقت کی دوائیں بیچا کرتے تھے اور لاکھوں کا ٹیکس مارے بیٹھے تھے۔
حکیم صاحب: (زچ ہوکر) ارے بھائی ! کیسے سمجھاؤں کہ میں صرف جوشاندہ بیچا کرتا ہوں ۔۔۔ باقی کے سب مریض تو انگریزی دواخانوں میں ۔۔۔۔۔
چپراسی : آپ کی خاطر میں پچاس ہزار میں بات کرادیتا ہوں۔ دے دلا کر معاملہ رفع دفع کیجئے.
حکیم صاحب: پچاس ہزار؟ ۔۔۔۔ ارے اتنے روپے تو میرے باوا نے بھی نہ دیکھا ہوگا.
چپراسی: ایں؟ ۔۔۔۔ پچاس ہزار نہیں ہیں آپ کے پاس ۔۔۔۔ تو پھر آپ خیریت سے کیسے ہیں؟؟
حکیم صاحب: (مسند پر مکا مارتے ہوئے) نہیں ہیں ۔۔۔۔ نہیں ہیں ۔۔۔۔ جائیے کیجئے آپ سے جو کچھ ہوسکے۔
چپراسی: ( اٹھتے ہوئے ) تو پھر نوٹس کا انتظار کیجئے۔ (چلا جاتاہے)
حکیم صاحب: (بال نوچتے ہوئے) پچاس ہزار ۔۔۔۔ پچاس ہزار ۔۔۔۔
( باہر سڑک پر جیپ کے رکنے کی آواز. ایک شخص آفیسرانہ رعونت کے ساتھ چند باوردی مسلح نوجوانوں کے ہم راہ مطب میں داخل ہوتا ہے)
شخص: ( بلا اجازت کرسی پر بیٹھتے ہوئے ) حکیم صاحب !
( حکیم صاحب چونک کر سر اٹھاتے ہیں اور بھونچکے رہ جاتے ہیں)
شخص: میں اکسائیز آفیسر ہوں اور آپ سے یہ پوچھنے آیا ہوں کہ حکیم سعید سے آپ کے کیسے تعلقات ہیں؟
حکیم صاحب: حکیم سعید ۔۔۔۔ کون حکیم سعید؟
آفیسر: حاجی حکیم سعید۔ محلہ سرائے بہلیم۔ شہر میرٹھ۔ سابق پیشہ تمباکو فروشی، حال پیشہ طبابت اور اسمگلنگ ۔۔۔۔ جن کے غسل خانہ کی دیوار سے پچھلے دنوں صندوق میں بند ایک سڑی لاش برآمد ہوئی ہے۔
حکیم صاحب: ( ہکلاتے ہوئے ) لل ۔۔۔۔ لاش؟
آفیسر: جی ہاں! لاش ۔۔۔۔ اور حکیم صاحب کے پاس پینتیس کروڑ کی جائیداد ہے جو اسمگلنگ کے ذریعہ جمع کی گئی ہے.
حکیم صاحب: لیکن ۔۔۔۔۔ لیکن میرا ان سے کیا رشتہ؟
آفیسر: وہی جو ایک حکیم کا دوسرے حکیم سے ہوتا ہے. ایک اسمگلر کا دوسرے اسمگلر سے ہوتا ہے.
حکیم صاحب: دد ۔۔۔۔۔۔ دیکھئے جناب آپ خواہ مخواہ ۔۔۔۔۔
آفیسر: ( گرم ہوکر) خواہ مخواہ ۔۔۔۔ خواہ مخواہ کیا؟ ۔۔۔۔ کیا آپ خیریت س
آفیسر: آپ ایسے نہیں مانیں گے. ہمیں انگلیاں ٹیڑھی کرنا بھی آتا ہے۔ گھر کی تلاشی کا وارنٹ لے کر ہم بہت جلد آرہے ہیں۔
( آفیسر اور پھر سبھی ایک ایک کر باہر نکل جاتے ہیں. حکیم صاحب اٹھ کر بدحواس سے گھر کے اندر بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں۔ باہر موٹر سائیکل کے رکنے کی گھڑگھڑاہٹ. ایک شخص داخل ہوتا ہے)
نووارد: حکیم صاحب !
حکیم صاحب : ( جھنجھلا کر ) کہیے کہیے ۔۔۔ آپ کو کیا تکلیف ہے؟ ۔۔۔۔ بیٹے کی پیروی کرنی ہے، آمدنی کا رجسٹر چیک کرنا ہے ۔۔۔۔۔۔ یا اسمگلنگ کی گھڑیاں اور افیم برآمد کرنی ہے؟؟
نووارد: ( گھبرا کر ) جی نہیں ۔۔۔ جی نہیں ۔۔۔ میں تو اس لیے آیا ہوں کہ سنا آپ شکر ۔۔۔۔۔۔
حکیم صاحب: ( دوبارہ سنبھل کر بیٹھتے ہوئے ) شکر ۔۔۔۔ ارے صاحب وہ تو ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ خاندانی حکیم ہیں، مذاق نہیں ۔۔۔۔۔ ایسے ایسے مایوس مریضوں کا علاج کیا ہے کہ کیا بتائیں ۔۔۔۔ کتنے دنوں سے ہے یہ تکلیف ؟۔۔۔۔
نووارد: ( اور زیادہ گھبرا کر ) جی ۔۔۔۔ جی ۔۔۔۔ مجھے نہیں ۔۔۔
حکیم صاحب: اوہو ! تو کسی دوست کو ہوگی یا رشتہ دار کو ۔۔۔ آپ بالکل بے فکر رہیں صرف چالیس دنوں میں خاطر خواہ افاقہ نہ ہوا تو میرا نام بھی حکیم نبن خاں نہیں۔۔۔۔ سمجھے؟ ۔۔۔۔
نووارد: ( سنبھل کر ) وہ تو سمجھ گیا ۔۔۔۔۔ مگر میں سپلائی انسپکٹر ہوں اور آپ سے یہ پوچھنے آیا ہوں کہ کتنے بورے آپ نے شکر کے گھر میں چھپا رکھے ہیں؟
حکیم صاحب: جی ! ۔۔۔ بورے؟
نووارد: جی ہاں ! ۔۔۔ بورے شکر کے ۔۔۔ کالا بازاری کے۔۔۔
حکیم صاحب: توبہ توبہ ۔۔۔۔ کیسا منحوس دن ہے ؟ اب میں چور بازاری بھی کرنے لگا. قہر خدا کا۔۔۔ ارے محلے والو ۔۔۔ سنو سنو… یہ فرزند ہمارے یہاں سے کالا بازاری کی شکر برآمد کرنے آئے ہیں ۔۔۔ ارے ! مجھے تو شکر کا نام ہی سن کر پیشاب میں شکر آنے لگتی ہے ۔۔۔ چھ سال سے میں نے شکر کی شکل صورت نہیں دیکھی ۔۔۔۔ اور یہ فرزند ۔۔۔
انسپکٹر: اچھا تو میں ہی کہتا پھرتا ہوں کہ خیریت ہے ۔۔۔ خیریت ہے ۔۔۔۔
حکیم صاحب: نکل جاؤ ۔۔۔۔۔ دفعان ہو جاؤ یہاں سے ۔۔۔
( انسپکٹر گھبرا کر بھاگ کھڑا ہوتا ہے)
حکیم صاحب: ( سامنے جمع ہوجانے والی بھیڑ سے) جائیے صاحب ۔۔۔ جائیے ۔۔۔ اچھا تماشہ لگا رکھا ہے.
(اوندھے منھ بستر پر گر پڑتے ہیں اور مسند میں منھ چھپا کر کچھ بڑبڑانے لگتے ہیں)
بیگم صاحبہ: ( پردے کی اوٹ سے) حکیم صاحب ۔۔۔۔ اے حکیم صاحب ۔۔۔ اے جی ! اندر آجائیے نا.
( معاً کسی شخص کو آتا دیکھ منھ چھپا لیتی ہیں۔ آنے والا لحیم شحیم شخص ہے۔ چہرے پر بڑی بڑی مونچھیں اور بشرے سے عیاری اور سخت گیری مترشح ہے۔ ہاتھ میں رول لیے پولیس کی وردی میں ملبوس تھانہ دار۔ )
تھانہ دار: حکیم صاحب ۔۔۔۔ اجی او حکیم صاحب !!
(کرسی پر بیٹھ کر رول بجاتا ہے۔ حکیم صاحب ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتے ہیں. تھانہ دار کو دیکھ کر گھگھی بندھ جاتی ہے)
حکیم صاحب: آ ۔۔۔۔ آ ۔۔۔ داب عرض ہے ۔۔۔۔ آداب عرض ہے۔
تھانہ دار: ( رول کو حکیم صاحب کی آنکھوں کے سامنے نچاتے ہوئے) کیوں حکیم صاحب ۔۔۔۔۔۔ آج کل کون سا دھندا جما رکھا ہے؟
حکیم صاحب – جی ۔۔۔۔۔۔ جی ۔۔۔۔۔
تھانہ دار: ( اینٹھتے ہوئے ) سنا ہے آج کل بڑی شان سے بازار میں خیریت کا اعلان کیا جاتا ہے۔
حکیم صاحب: جی ! وہ تو ۔۔۔۔ وہ تو اس لیے کہہ دیا تھا ۔۔۔ کیونکہ ہفتہ بھر سے ۔۔۔۔ مرگی کا دورہ نہیں پڑا ہے.
تھانہ دار: نہیں پڑا ہے تو اب پڑ جائے گا۔ صاف صاف بتلائیے کہ آپ خیریت سے کیوں ہیں؟ چوروں ڈاکوؤں کی سرپرستی شروع کی ہے یا اسمگلنگ کا دھندا جمایا ہے ۔۔۔۔ یا سیمینٹ بلیک کرنے لگے ہیں یا ملاوٹ شروع کی ہے ۔۔۔۔ یا نقلی دواؤں کا بیوپار یا دلالی کا دھندا یا ٹھگی ۔۔۔۔۔
حکیم صاحب: ( بال اور کپڑے نوچتے ہوئے) میں نے کچھ نہیں کیا ۔۔۔ کچھ نہیں کیا ۔۔۔
تھانہ دار: ( حکیم صاحب کے قریب رول کو چوکی پر زور زور سے مارتے اور گرجتے ہوئے) تو پھر آپ کو بتانا پڑے گا کہ آپ کیوں اور کس طرح خیریت سے ہیں ؟ ۔۔۔۔۔ اور آپ سیدھے سیدھے بتاتے ہیں یا ہتھکڑی لگا کر دھکے دلواتا ہوا لے چلوں؟
حکیم صاحب – ( اچانک پینترا بدل کر ہنستے ہوئے ) ہے ہے ہے ہے ۔۔۔۔ ارے جناب! وہ تو میں نے اس لیے کہہ دیا تھا کہ پرسوں ہی ہمارے ساڑھو بھائی ہوم منسٹر بنے ہیں ۔۔۔۔۔ ہی ہی ہی ہی ۔۔۔۔
تھانہ دار: ( سراسیمہ ہوکر ) آپ. کے ساڑھو؟ ۔۔۔۔۔ داؤد خان صاحب ۔۔۔ ہوم منسٹر ۔۔۔۔۔
حکیم صاحب: ( خوش ہوکر ) جی ہاں ۔۔۔۔۔ جی ہاں بالکل اپنے ۔۔۔۔ منجھلے ۔۔۔ یعنی مجھ سے چھوٹے ۔۔۔
تھانہ دار: حکیم صاحب ۔۔۔ دیکھیے جناب ۔۔۔۔۔ معاف کیجیے گا ۔۔۔۔۔ اگر ناچیز سے کوئی غلطی ہو گئی ہو ۔۔۔ میں تو آپ کے لڑکے کی طرح ہوں ۔۔۔۔۔۔
حکیم صاحب: اجی اور کیا ؟ ۔۔۔۔ بالکل لڑکے کی طرح ۔۔۔
تھانہ دار: تو حضور ۔۔۔ ذرا میری ان سے ایک سفارش کر دیجیے نہ کہ میرا تبادلہ کسی اچھی جگہہ کروادیں ۔۔۔ یہاں تو بالکل آمدنی نہیں ہے ۔۔۔ ایک کوڑی نہیں۔
حکیم صاحب: ( ہنستے ہوئے) اماں ! تم بالکل فکر نہ کرو میاں ۔۔۔۔۔ ضرور کہہ دوں گا ۔۔۔۔۔ اور وہ میری بات ٹالیں گے بھی کیسے؟
تھانہ دار – اچھا تو میں چلا ۔۔۔۔۔ آداب عرض !
حکیم صاحب – آداب ۔۔۔۔ آداب ۔۔۔۔۔ جیتے رہو ۔
( تھانہ دار کے پیٹھ موڑتے ہی لپک کر گھر کے اندر گھس جاتے ہیں )
***
منظر بدلتا ہے
***
( حکیم صاحب اندر کمرے میں چوکی پر لیٹے ہیں اور بیگم بیٹھی سر میں تیل لگا کر مالش کر رہی ہیں)
بیگم صاحبہ: یا اللہ ! کیسا منحوس دن ہے ۔۔۔۔ جان پر بن آئی ہے۔ مریض تو سارے مر گئے اور یہ موئے مردار ۔۔۔۔۔۔۔
( حکیم صاحب کراہنے لگتے ہیں)
بیگم صاحبہ: اور وہ موا ایک ساز نسپکٹر ۔۔۔۔ کیسے بتیا رہا تھا جیسے ہم لوگ چور، ڈاکو، لٹیرے ہوں۔ میں رہتی آپ کی جگہ تو لپک کر ٹینٹوا دبا دیتی ۔۔۔۔ جو ہوتا بعد میں دیکھا جاتا۔
حکیم صاحب: ( کراہتے ہوئے ) ارے بیگم ! ۔۔۔۔۔۔ اب کچھ دیر چپ تو رہو ۔۔۔۔۔ یہاں سر درد سے پھٹا جا رہا ہے ۔۔۔۔ سارا مغز تو یہ منحوس چاٹ گئے ۔۔۔ قہر خدا کا ۔۔۔ اب تم رہی سہی کسر نکالنے بیٹھی ہو؟
بیگم صاحبہ: ( رونی آواز میں) ہاں ۔۔۔ ہاں ۔۔۔۔۔ میں کسر نکالنے بیٹھی ہوں۔ اور وہ جو دروازے پر آکے بے عزت کر گئے ۔۔۔۔۔ آنکھیں دکھاگئے ۔۔۔۔۔ ان کے سامنے بھیگی بلی بنے رہے۔
حکیم صاحب: بلی ۔۔۔ میں؟ ۔۔۔۔۔ ارے ! دیکھا نہیں کس طرح اس سپلائی انسپکٹر کو ڈانٹ کر نکالا ہے اور اس تھانہ دار کو کیسا بے وقوف بنایا۔۔۔۔ افسوس کہ یہ ترکیب پہلے دماغ میں نہ آئی ورنہ سب میری خوشامد کرتے نظر آتے۔
( دفعتاً باہر سے کسی کی آواز )
حکیم صاحب ۔۔۔۔۔۔۔ حکیم صاحب !
(حکیم صاحب اٹھ کر لڑکھڑاتے قدموں سے باہر چلے جاتے ہیں۔ واپسی پر ان کے ہاتھ میں ایک لفافہ ہے )
بیگم صاحبہ: ارے ! یہ کون دے گیا؟ ۔۔۔۔۔ ضرور شہلا آپا کی لڑکی کی شادی کا دعوت نامہ ہوگا۔
حکیم صاحب – ( مضمون دیکھتے ہوئے ) دعوت نامہ؟ ۔۔۔۔ ارے بیگم میں لٹ گیا، برباد ہو گیا ۔۔۔۔۔ دعوت نامہ نہیں بیگم شامت نامہ آگیا ۔۔۔۔۔۔ قہر خدا کا ۔۔۔۔۔۔ ڈھائی لاکھ کی نوٹس انکم ٹیکس والوں کی طرف سے ۔۔۔۔۔۔ جمع نہیں کرنے پر قرقی ۔۔۔۔ ضبطی ۔۔۔۔۔ جیل ۔۔۔۔۔
( دوڑتے ہوئے باہر چلے جاتے ہیں۔ واپسی پر دواخانہ کا بورڈ ہاتھوں میں ہے )
حکیم صاحب: بیگم ! ۔۔۔۔ رنگ کہاں ہے؟ ۔۔۔۔ برش کہاں ہے؟ ۔۔۔۔۔ نکالو، جلدی نکالو ۔۔۔۔
***
منظر بدلتا ہے
***
حکیم صاحب دواخانہ کے باہر بورڈ لٹکا رہے ہیں۔ بورڈ پر تحریر ہے
"میں خیریت سے نہیں ہوں "
حکیم نبن خاں

( ایک بڑی وین کے رکنے کی آواز۔ کئی اشخاص دواخانہ میں داخل ہوتے ہیں )
ایک صاحب: یہ بورڈ آپ نے لگایا ہے؟
حکیم صاحب: ( جز بز ہوکر ) اور نہیں تو کیا آپ نے؟
صاحب: یعنی آج کل آپ خیریت سے نہیں ہیں؟
حکیم صاحب: جی ہاں ! بے شک ۔۔۔۔۔ بالکل خیریت سے نہیں ہوں۔ اور آج کل کیا؟ ۔۔۔۔۔ کبھی نہیں رہا ۔۔۔۔ میرے باپ دادا چودہ پشتوں میں سے کسی نے خیریت کا منھ نہ دیکھا ہوگا ۔۔۔
صاحب: لیکن آج ہی آپنے بازار میں اپنی خیریت کا اعلان کیا ہے.
حکیم صاحب: اجی ! مجھے کسی پاگل کتے نے کاٹا تھا.
صاحب: یعنی آپ کو اقرار ہے کہ آپنے کہا تھا۔ یعنی خواہ مخواہ بازار میں افواہ پھیلانے کی کوشش کی۔
حکیم صاحب: ( جھنجھلا کر ) اچھا ۔۔۔۔۔۔ کی تو پھر؟ ۔۔۔۔۔
صاحب: حکیم صاحب! افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ میں محکمۂ انسداد افواہ کا افسر ہوں اور آپ کو بازار میں افواہ پھیلانے کے جرم میں گرفتار کرتا ہوں۔
حکیم صاحب: جی ! میں۔۔۔۔میں ۔۔۔۔۔۔
صاحب: آپ کو جو کچھ صفائی دینی ہوگی عدالت میں دے لیجئے گا۔
( ایک شخص کو اشارہ کر کے) یہ بورڈ اتار لو۔ یہی ان کے جرم کا ثبوت ہے۔
( دو اشخاص حکیم صاحب کو دونوں جانب سے تھامے کشاں کشاں لیے چلتے ہیں. )
پردے کے پیچھے بیگم صاحبہ کے ” ہائے اللہ" کہہ کر بے ہوش ہو کر گرنے کی آواز آتی ہے۔ وین اسٹارٹ ہونے کے ساتھ ہی مائک سے اعلان کیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔
” افواہوں سے بچئے ! ۔۔۔۔۔۔ افواہ پھیلانے والے دیش کے دشمن ہیں ۔"
۔۔۔
پردہ گرتا ہے
احسان قاسمی کی یہ نگارش بھی ملاحظہ فرمائیں :ضلع کٹیہار میں اردو شاعری کا منظر نامہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے