تعلیم کا جنازہ۔۔؟

تعلیم کا جنازہ۔۔؟


سیّدعارف سعید بخاری، پاکستان 
Email.arifsaeedbukhari@gmail.com

پاکستان بننے کے بعد جتنی حکومتیں آئیں کسی ایک بھی حکومت نے ”تعلیمی اصلاحات“پر کوئی توجہ نہ دی۔ ہر حکومت نے اپنی اپنی سوچ و فکر کے مطابق تعلیمی شعبے سمیت ہر ادارے کے ساتھ کھلواڑ کیا۔انگریزی، اردو، اے،او لیول وغیرہ مختلف قسم کا طریقۂ تعلیم پورے ملک میں پھیلا دیا گیا۔ قومی زبان کو ذریعۂ تعلیم بنانے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔ اور لوگوں پر انگریزی مسلط کردی گئی۔ اُردو اور اسلامیات کے علاوہ سبھی مضامین انگریزی میں پڑھانے کا سلسلہ رائج کر دیا گیا۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے بچے ساری زندگی انگریزی سیکھنے اور سمجھنے میں گزار دیتے ہیں۔ دنیا کی تمام اقوام اپنی اپنی قومی زبان کو اپناتی ہیں. یہی وجہ ہے کہ یہ سبھی ممالک ترقی میں سب سے آگے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ہمارے بچوں کو ایسا نصاب پڑھایا جاتا ہے کہ جس کا ان کی عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں، چھوٹی کلاسوں میں آٹھ مضامین کا بوجھ جب کہ کالجز کی سطح پر پانچ مضمون رکھے جاتے ہیں۔ انگریزی کی وجہ سے ہمارے بچوں کی اُردو درست ہوتی ہے اورنہ ہی وہ عربی سمجھ سکتے ہیں۔ عربی سے عدم دل چسپی کے سبب ہمارے بچے، بوڑھے اور جوان اللہ کی کتاب ”قرآن پاک“جو انسانوں کے سرچشمۂ رشد و ہدایت ہے، کو بھی سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ہم سبھی نماز پڑھتے ہیں لیکن ہم میں سے اکثریت ایسی ہے کہ جو نماز میں دیے گئے پیغام کو بھی سمجھ نہیں پاتی۔ حالانکہ مسلم اُمہ کے لیے قرآن کو پڑھنا اور پھر اسے سمجھنا فرض ہے۔ جدید سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی کی اس تیز رفتار دوڑ میں قوموں کی برادری کے ساتھ ساتھ چلنے کے لیے قومی زبان اپنا نا لازم ہے۔ لیکن ہمارے دل و دماغ سے چونکہ ابھی تک فرنگی سامراج کی ذہنی، تعلیمی ومعاشی غلامی کا اثر زائل نہیں ہو سکا، اس لیے ہم ملک میں یکساں نظام تعلیم دے سکے اور نہ ہی قومی زبان اپنا سکے۔ یوں توہر حکومت نے تعلیم سے ہی”بلادکار“ کیا ہے۔ لیکن موجودہ حکومت نے کورونا وائرس کی آڑ میں پورے تعلیمی نظام کو بُری طرح تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔کورونا کے چکر میں تعلیمی اداروں پر تالے ڈال دیے گئے۔عالمی یہودی و نصرانی سازش کے تحت بچوں کو ”آن لائن“ تعلیم حاصل کرنے پر مجبور کیا گیا۔ تقریباً گذشتہ 20 ماہ سے جاری ”لاک ڈاؤن“ ڈرامے نے بچوں کو اس قدر تعلیمی لحاظ سے کم زور اور پراگندہ کیا ہے کہ وہ گھروں میں مقید ہو کر محض سوشل میڈیا، فیس بک، انسٹا گرام، واٹس ایپ اور یوٹیوب یا وڈیونیٹ گیمز وغیرہ تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں کہ جہاں شرح خواندگی فی صد ہے، وہاں بچوں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ”آن لائن“ تعلیم حاصل کریں گے، سراسر دھوکا ہے۔
ماضی میں سابق وزیر اعلا پنجاب چوہدری پرویز الہیٰ کی حکومت نے ”مار نہیں پیار“ کا ایک بے مقصد سا نعرہ دے کر اساتذہ کرام پر یہ پابندی عائد کر دی تھی کہ کوئی استاد اپنے شاگرد کو مارے گا نہیں۔ یوں سکولوں میں اپنائے گئے نعرے سے ایسا ماحول بنا کہ والدین بھی اپنے بچوں کونہ مارنے میں عافیت سمجھنے لگے۔ بزرگوں کا کہنا ہے کہ ”جس نے استاد کی مار نہیں کھائی، وہ کبھی کامیاب زندگی بسر نہیں کر سکتا۔“ہم نے ”مار نہیں پیار“ کا نعرہ دے کر ادب و احترام کی فضا کو پراگندہ کیا۔ اس نعرے کا نتیجہ یہ نکلا کہ استاد اور شاگرد میں احترام کا رشتہ ہی دم توڑ گیا۔ اور بچوں نے اپنے اساتذہ کرام کی تضحیک کو معمول بنا لیا۔ کچھ اساتذہ کرام کو اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔ والدین کے لیے بھی یہ مشکل بنا دی گئی کہ وہ بچوں کو ماریں نہیں۔ سابقہ حکومت کے اس انقلابی نعرے نے ادب و احترام کے ماحول کا جنازہ نکال کر رکھ دیا۔
ماضی کی حکومتوں کے کار ہائے نمایاں کی تو ایک لمبی تفصیل ہے لیکن موجودہ وزیر اعظم عمران خان کے دور میں کم از کم تعلیمی شعبے میں ایسی بڑی تبدیلی لائی گئی ہے کہ جو دنیا بھر کے کسی بڑے یا چھوٹے ملک میں رائج نہیں۔ کورونا لاک ڈاؤن و دیگر پابندیوں کے باعث تعلیمی اداروں کو تالے لگا دیے گئے۔ بچوں کو گھروں میں تعلیم جاری رکھنے کا کہا گیا۔ گھروں میں پڑھنے کا سلسلہ تو کامیاب نہ ہوسکا۔ لیکن حکومت کی پالیسی کے تحت تما م تعلیمی بورڈز نے میٹرک، انٹر اور ایف ایس سی سمیت دیگر امتحانات میں ہر بچے کو 1100میں 1100نمبر دے کر کامیاب قرار دے دیا ہے۔حتیٰ کہ ایک دو جگہوں پر 1100میں سے 1156نمبر ملنے کی اطلاعات بھی ہیں. لاہور میں کم نمبروں کی وجہ سے دل برداشتہ ہوکر ایک نوجوان نے خودکشی کر لی ہے. اسی طرح ایک اور طالبہ کی خودکشی کی اطلاعات ہیں۔ جاری کردہ نتائج میں بعض بچوں اور بچیوں کے نمبر مایوس کن حد تک کم آئے ہیں لیکن تعلیمی بورڈز حکام نے طلبا و طالبات کی اکثریت کو سو فی صد نمبردے کر معاشرے میں احساسِ کم تری اور احساس برتری کی ایک عجب سی کیفیت پیدا کردی ہے۔ جاری کردہ نتائج پر دنیا حیران و ششدر ہے۔ سال ہا سال سے رائج طریقہ کار کے مطابق صرف حساب اور الجبرا کے دو مضامین ایسے ہیں کہ جن میں سو فی صد نمبر لیے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ”ایم سی کیوز“ (MCQ’s) کی صورت میں ہونے Objective سوالات میں سو فی صد نمبر حاصل کیے جا سکتے ہیں جب کہ اُردو، اسلامیات، معاشرتی علوم، فزکس، کیمسٹری، مطالعۂ  پاکستان سمیت کوئی ایک بھی ایسا مضمون نہیں کہ جس میں کوئی استاد اپنے کسی ہونہار سے ہونہار شاگرد کو پورے کے پورے نمبر دے پائے۔ سچ تو یہ ہے کہ  کوئی طالب علم اگر سارا پیپر بھی کتاب سامنے رکھ کر حل کر لے تو پھر بھی اسے کسی صورت سو فی صد نمبر نہیں مل سکتے۔ یہ پاکستان کی پہلی حکومت ہے کہ جس نے بچوں کو 100فی صد نمبرز دے کر ایک ایسی بھیانک تاریخ لکھنے کی بنیاد ڈال دی ہے کہ جس کے بد اثرات سے ہماری آئندہ کئی نسلیں چھٹکارا نہیں پا سکیں گی۔ کہتے ہیں کہ کسی بھی عمارت کی پہلی اینٹ اگر غلط لگائی جائے گی تو اس پر کھڑی کی جانے والی عمارت بھی کبھی سیدھی نہیں کی جا سکتی۔ اسی طرح جب ہم نوجوانوں کی بنیاد کو ہی غلط کر دیں گے تو پھر ہم ان کے بہتر مستقبل کی توقع کس طرح کر سکتے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان، وزیر اعلا پنجاب عثمان بزدار، وزیر تعلیم شفقت محمود طلبا و طالبات کو سو فی صد نمبرز دینے کی پالیسی پر عمل درآمد سے پہلے اس کے بد اثرات کا اگر ٹھنڈے دل سے جائزہ لیتے تو انھیں اندازہ ہوتا کہ وہ قوم کے معماروں کے ساتھ کیا کرنے جا رہے ہیں۔ پڑھے بنا جن بچوں کو سو فی صد نمبر دیے گئے ہیں۔ انہی بچوں نے آئندہ ملک و ملت کی خدمت کا فریضہ بھی ادا کرنا ہے۔ جب ایک بچے کی تعلیمی قابلیت ہی زیرو ہو یا نارمل ہو، اسے ہم سو فی صد نمبر دے دیں گے تو ایسا بچہ جس بھی محکمے میں ملازمت کے لیے جائے گا، وہ میرٹ سے بھی بہت اوپر ہونے کی وجہ سے ملازمت کا بھی اہل قرار دے دیا جائے گا۔ یوں وہ کسی بھی باصلاحیت، ذہین و فطین بچے کا حق غصب کرنے کا سبب بنے گا۔ ایسا بچہ جس بھی عہدے کے لیے سلیکٹ کیا جائے گا۔ وہ اپنی ذمہ داریوں سے انصاف نہیں کر پائے گا۔ اور مذکورہ محکمے کی بدنامی اور تباہی کا موجب بھی بنے گا۔
پاکستان اور پاکستانیوں کا سب سے بڑا المیہ ہی یہ ہے کہ ہم لوگ جہاں بھی ہوں، ہم دور اندیشی سے کام نہیں لیتے۔ فرنگی سامراج جسے ہم اٹھتے بیٹھتے اُمہ کا دشمن خیال کرتے ہیں، ان لوگوں نے برصغیر ہو یا اُن کا اپنا دیس، ہمیشہ ہی اپنے منصوبوں کو تشکیل دیتے وقت آئندہ 100بلکہ200 سال کی ضررویات اور اس کے مابعد اثرات کو مدنظر رکھا۔ تاریخ کا جائزہ لیں تو بر صغیر پاک و ہند میں فرنگیوں نے جتنے منصوبے بھی شروع کئے تھے وہ آج 200 سال گذرنے کے باوجود انسانی ضروریات کے مطابق جاری و ساری ہیں. جب کہ ہم ”ڈنگ ٹپاؤ“ پالیسی کے تحت جو بھی منصوبہ بناتے ہیں، وہ 10سے 15سال تک ہی کارآمد رہتا ہے۔ ہمیں مستقبل کی فکر نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے پاکستان ترقی کی جانب اوپر جانے کی بجائے مسلسل تنزیلی کی پستیوں میں گرتا چلا جا رہا ہے۔ اور ہمارے حکمران ”تبدیلی“ کے نعرے کی روشنی میں پورے سسٹم کو تہہ و بالا کرنے میں لگے ہیں۔ آخر میں اتنا ہی کہوں گا کہ ”تعلیم کا جنازہ ہے،ذرا دھوم سے نکلے“۔
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش: وڈیو لیک کلچر: نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے