مولایَ صلِ وسلم : قصیدۂ بردہ شریف کا قصیدہ

مولایَ صلِ وسلم : قصیدۂ بردہ شریف کا قصیدہ

قصیدہ نگار: سید عارف معین بلے

(مولایَ صل ِ وسلم دائماً ابداً
علىٰ حبيبك خير الخلق ِکلهم) 


کیا لکھی ہے نعت بوصیری نے اے شاہ امم
ایسا لگتا ہے کہ دل کے ساتھ رویا ہے قلم

چاپ قدموں کی سنائی دے رہی ہے عرش پر
مرحبا صلِ علیٰ، شانِ رسولِ محترم

پر فرشتوں کے جہاں پرواز کر سکتے نہیں
رفعتیں ساری مرے سرکار کے زیرِ قدم

اے مرے مولا حبیبِ پاک پر پیہم درود
بھیج رحمت اور سلام اپنا تو اِن پر دم بہ دم

تا ابد برسیں تری رحمت حبیبِ پاک پر
ہیں جو مخلوقاتِ کل میں سب سے اعلا، محترم

سچ تو یہ ہے اس قصیدے میں نہیں شامل یہ شعر
ہاں، مگر اس کے دیباچے میں ہوا ہے یہ رقم

شعر یہ سارے قصیدے کا یقیناً ہے نچوڑ
شعر کیا ہے؟ حاصلِ نعتِ رسولِ محترم

سوچیے تو شعر کے کوزے میں دریا بند ہے
بیج میں ہے پورا نخلستان اے شاہِ اُمم

غور کیجے تو معانی کا جہاں آباد ہے
منزلت سرکارِ دو عالم کی ہے اس میں رقم

کیا پروئے ہیں لڑی میں دیکھیے مدحت کے پھول
ایک مصرعے میں دُعا ہے، ایک مصرعے میں ہے دم

ایک مصرعے میں سلامی بھی، درودِ پاک بھی
دوسرا ہے پرتوِ شانِ نبیِ محتشم

آبرو شعر و سخن کی ہے، ادب کا افتخار
ڈوب کر لکھا گیا ہے، پڑھیے تو آنکھیں ہوں نم

باقی ساری نعت میں اس شعر کی تشریح ہے
یہ خیال و فکر کی معراج، توقیرِ قلم

یہ محبت کا بیاں ہے، معرفت کا ترجماں
دھڑکنیں دل کی اگر چاہیں تو سُن سکتے ہیں ہم

سچ اگر پوچھو قصیدے کی یہی بنیاد ہے
ہے یہی بنیاد تو اس نعت کی شانِ ا َتم

گونج دنیا میں سنائی دے رہی ہے آج بھی
دُھن رہے ہیں جس پہ سر اہلِ عرب، اہلِ عجم

اِس کلی کے ہی چٹکنے سے مہک اٹھی فضا
کیا بہارِ جاوداں کی یہ بشارت سے ہے کم

یہ قصیدہ ہے اگر سورج تو یہ پہلی کرن
پہلا قطرہ اس کو بارش کا بھی کہہ سکتے ہیں ہم

گونج ہے صدیوں سے اس کی، سُن رہے ہیں اب بھی لوگ
تار دل کے بھی ہلا دیتے ہیں اس کے زیر و بم

مولا یا صلِ وسلم میں ہیں بارہ ہی حروف
لفظ بارہ دونوں مصرعوں میں، زیادہ ہیں نہ کم

دیکھیے، مالا میں بارہ گوہرِ نایاب ہیں
بارہ لفظوں میں دبستاں کردیا ہے یہ رقم

ٹانک کر بارہ ستارے دونوں مصرعوں میں حضور
روشنی پہنچائی ہے رُشد و ہدایت کی بہم

بارہ رنگوں کا یہ گلدستہ بہاروں کا امیں
لاکھ رُت بدلے مگر خوش بو کہاں ہوتی ہے کم

برج بارہ، ماہ بارہ، بارہ ہی اپنے امام
جلوہ فرما آسمانِ شعر میں بارہ عَلَم

بارہ گھڑیاں دِن کی ہیں، بارہ ہی گھڑیاں رات کی
اس لیے بھی روز و شب ہے ورد اس کا دم بہ دم

درحقیقت ہے یہ قصرِ نعت کی بارہ دری
در ہو کوئی اپنی منزل تک پہنچ سکتے ہیں ہم

جھانکتے ہیں اس کے ہر دَر سے معانی کے جہاں
اللہ اللہ، کیا لکھی ہے، مدحتِ شاہِ اُمم

خشتِ اول ہے یہ قصرِ مدحتِ سرکار کی
اِس کو کہہ سکتے ہیں منزل کی طرف پہلا قدم

فصلِ گُل کے رنگ ہیں چاروں طرف پھیلے ہوئے
پھولا ہے گلزارِ مدحت، کیا لگائی ہے قَلَم

کُھل گئے دوشیزۂ الفاظ کے بندِ قبا
دیکھو لیلیِ معانی کیا قیامت سے ہے کم

اِس میں رعنائی غضب کی ہے، بَلا کاحسن ہے
مرمِٹے ہیں اس لیے بھی سچ اگر پوچھو، تو ہم

عشق میں ڈوبا ہوا ہے، مولا اس کاحرف حرف
بحر میں اس کی مچا رکھا ہے موجوں نے اُدھم

سوز ہے ہرجزم میں، ہے درد مولا پیش پیش
اِس کے ہر زیر و زَبر میں زمزمہ خواں زیر و بم

درد میں ڈوبی ہوئی آواز یہ اندر کی ہے
دھڑکنوں سے دل کی ہم آہنگ ہے سازِ اَلم

اس کے ہر شوشے میں ہیں ارض و سما کی وسعتیں
نکتے ہر نقطے میں، انگشت بدنداں ہے قلم

سچ اگر پوچھو قصیدے کا دیباچہ ہے یہ شعر
شعر ہے آئینۂ شانِ نبیِ محتشم

مولا یا صلِ وسلم ہے یقیناً اِک دُعا
اِک دُعا ایسی جو رہتی ہے لبوں پر دَم بہ دَم

یہ وظیفہ وہ ہے، جس کو رَد نہیں کرتا خُدا
ہاں، اسی دستک سے کھل جاتے ہیں ابوابِ کرم

یہ دُعا ہے یا کلیدِ بابِ جنت ہے حضور
لب پہ آجائے تو دُنیا کاجہنم بھی اِرم

مرحبا، صلِ علیٰ ، صلِ علیٰ، کہتی رہی
اللہ اللہ، دل کی ہر دھڑکن رسولِ محترم

مولا یا صلِ وسلم لب پہ آجائے حضور
کرنا چاہیں، اس قصیدے کی اگر تلخیص ہم

اس اثاثے پر بھی ہے مدحت سرائی کی اساس
چل رہے ہیں لے کے سارے نعت خواں بھی یہ عَلم

صوفیا کا یہ وظیفہ، اولیا کا ورد ہے
جھوم اٹھے ہیں جسے سُن کر رسولِ محترم

دل یہ کہتا ہے کہ بابِ مغفرت کی ہے کلید
کھلتے ہیں اسرار جب یہ شعر دہراتے ہیں ہم

دل گواہی دے رہا ہے ورد گر جاری رہے
رحمتیں برسیں گی، ہو گا ہم پہ مولا کا کرم

ہے غذا یہ روح کی، بیماریوں کا ہے علاج
ہیں اگر غافل تو خود پر توڑتے ہیں ہم ستم

اللہ اللہ کچھ نہ کہہ کر بھی سبھی کچھ کہہ دیا
مرحبا! مدحِ صفاتِ صاحبِ لوح و قلم

دیکھیے تو ہے دُرِ نایاب اس کا حرف حرف
ہے زباں گوہر فشاں، بے شک قلم معجز رقم

کیا سلامی دوں میں گل افشانیِ گفتار پر
ہے قلم سجدے میں میرا، احتراماً سر ہے خم

کملیِ شاہِ دو عالم میں ہے یہ لپٹا ہوا
پھیلنے سے، اس کی خوش بو ہو نہیں سکتی ہے کم

آپ نے یہ شعر کہہ کر خود کو ثابت کر دیا
اللہ اللہ! خسروِ اقلیمِ قرطاس و قلم

آخرت کا ہے یہ توشہ، ہے یہ زادِ راہ بھی
دنیا و دیں کے بھی یوں سامان پہنچائے بہم

آپ کے اس شعر میں ذکرِ حبیبِ پاک ہے
اس لیے لازم ہے اس پر بھی اٹھاؤں میں قلم

سوچئے تو کون ہے؟ آخر حبیبِ کبریا
یہ فقط ہے آپ کا اعزاز اے شاہِ امم

آپ کے سر پر حبیبِ کبریائی کا ہے تاج
یہ ہے شانِ پاسبانِ حُرمتِ بیت الحرم

حسنِ یوسف اور دم عیسیٰ، یدبیضا ہی کیا
سب صفاتِ انبیا ہیں آپ کی ہستی میں ضم

ایک چہرے میں سبھی نبیوں کے چہروں کی جھلک
یکجا ہیں اوصاف سارے، وہ بھی با درجہ اتم

اللہ اللہ! اے مرے اللہ وہ تیرا حبیب
ہر اذاں میں لیں خدا کے ساتھ جس کا نام ہم

جن کے چہرے سے نظر ہٹتی نہیں اللہ کی
والضحیٰ کہہ کر بھی جن کے رخ کی کھائی ہے قسم

جن کا کملی اوڑھنا اللہ کو پیارا لگا
یا مزمل کہہ دیا جب دیکھا پیروں پہ ورم

چادرِ تطہیر میں لپٹے نظر آئے اگر
تو مدثر ہو گئے رب کے حبیبِ محترم

چہرہ ہو، زلفیں ہوں، ان کا شہر یا عمرِ عزیز
کھائی ہے اللہ نے کن کن حوالوں سے قسم

اِس حبیبِ پاک کی عظمت کے کیا کہنے حضور
بے زبانوں پر بھی رحمت، دشمنوں پر بھی کرم

اس حبیبِ پاک کو ہے فخر اپنے فقر پر
ہے چٹائی پر بھی ان کا دیدنی جاہ و حشم

بوریا بستر ہے، تکیہ اینٹ کا، سچ یہ بھی ہے
نعمتیں سب بانٹتے ہیں صاحبِ جود و کرم

عہد نبیوں سے لیا ایمان ان پر لائیں گے
ہیں امام المرسلیں بے شک رسولِ مختتم

وہ حبیبِ پاک جس کی چاہتا ہے رب رضا
جاری ہے دن رات ان پر بارشِ لطف و کرم

صرف اس دنیا نہیں، دونوں جہاں کی بات ہے
چل رہا ہے آپ ہی کا حکم، سکہ اور قلم

جو بھی دیں لے لو، وہ جس سے روک دیں، رُک جاؤ تم
حکم ہے منصب رسالت کا سمجھ سکتے ہیں ہم

جب بلائیں تم چلے آؤ توقّف کے بغیر
دھیمے لہجے میں کرو تم، گفتگو بھی کم سے کم

اُن کا ہر فرمان ہے، فرمانِ رب ذوالجلال
ہے خدا کا قول، ہر قولِ رسولِ محترم

ہے یقینا ان کی طاعت، طاعتِ ربِ کریم
ہے خدا کا ہاتھ بے شک آپ کا دستِ کرم

کوئی خطبہ ہو یا کلمہ ہو، اذانیں یا نماز
ذکرِ خیرِ سیدِ لولاک بھی کرتے ہیں ہم

سچ ہے یہ قرآن کی تعلیم کا بھی ہے نچوڑ
حاصلِ دنیا و دیں، حُبِ رسولِ ذی حَشم

بندگی مدحِ رسالت سے کوئی خالی نہیں
یہ ہے منشائے مشیت، شرک کب کرتے ہیں ہم

روح کو بالیدگی، جاں کو ملی آسودگی
میں ہی کیا، ایمان میرا ہو گیا ہے تازہ دم

یوں بھی رکھی ہیں خدا نے آپ کی مخفی صفات
ذہن ہیں محدود، لامحدود کو سمجھیں گے کم

آپ کے اس شعر پر لاکھوں قصیدے وار دوں
اس پہ ہے قربان میری، جان، میرا دل، قلم

سرورِ کونین نے بردہ عطا فرما دیا
ہو مبارک حضرتِ بوصیری دامانِ کرم

سچ اگر پوچھو قصیدے کا ہے یہ عنوان بھی
ثبت فرما دی گئی مہرِ نبوت، والقلم

مل گئی ہے، جس کو دربارِ رسالت سے سند
سوچیے تو اس کی کیا توصیف کر سکتے ہیں ہم
***


کیلی گرافی: جناب واصل شاہد، پاکستان

سید عارف معین بلے کی یہ تخلیق بھی ملاحظہ ہو :اللہ سے محبوب کےصدقے میں دُعا مانگ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے